اُردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
میرزا داغ دہلوی کا یہ شہرہ آفاق شعر اُردو کے تئیں مرزا کی عقیدت، جوش اور فخر کا مظہر ہے۔ تعجب کا مقام ہے کہ اس شعر کا خالق اُردو کے ناقدوں، محققوں اور سوانح نگاروں کی توجہ اپنی طرف اُس درجہ مبذول نہ کرسکا جس درجہ اُن کے ہم عصر، بالخصوص مرزا غالبؔ اور ذوق کر چکے ہیں۔ بہرکیف یہ موضوع اس مضمون کے دائرے سے باہر ہے۔ کیونکہ یہ مضمون مرزا داغ دہلوی کے عہد اور اُن کی سماج کے ایک جائزے کی انکسارانہ کوشش ہے۔ تاہم یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ اپنے عہد میں مقبولیت کے با وصف مرزا داغؔ، غالبؔ کا مقام کیوں حاصل نہ کرسکے۔
میرزا کا عہد تاریخی اعتبار سے نہایت ہی اہم ہے۔ یہ عہد، وقت کا وہ نقطۂ آغاز ہے جہاں سے مغلیہ عہد کے تنزل کا آغاز ہوتا ہے تنّزل ہی نہیں، بلکہ مغلیہ عہد کی باقاعدہ بیخ کنی کا عمل شروع ہوتا ہے۔ یہ عہد مسلم شرفا کی تہذیب و تمدن اور اُن کی اقدار کی شکست و ریخت کا بھی عہد ہے۔ برصغیر میں مسلمان حکمراں طبقے اور امراء و شرفاء کے لیے تاریخی اعتبار سے، یہ پہلا موقع نہیں تھا جب اُن کے اقتدار، اُن کے وضع کردہ سماجی اصول اور اقدار متزلزل رہے ہوں۔ تاریخی میں ایسے مواقع پہلے بھی کئی بار آئے تھے۔ ایسے ہی موقعوں پر دانشور حضرات یا شعراء کرام یا تو درویشی کی راہ اختیار کرتے ہیں یا پھر عیش پرستی کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ میرزا داغ کا دور، برِصغیر کی تاریخ کا وہ دور ہے، جب انگریز حکمراں مسلم تہذیبی اداروں، اُردو زبان اور اُردو کے شعرا و ادباء کو آہستہ آہستہ اپنی حکمرانی کی گرفت مضبوط کرنے کے لیے استعمال کرنے کی منصوبہ بندی پر عمل پیرا ہو چکے تھے۔ اُردو کے بیشتر شعرائے کرام:
بابر بہ عیش کوش کہ عالم دو بارہ نیست
کی راہ پر گامزن تھے۔ مرزا داغؔ اس کارواں کے ہراول دستے میں شامل تھے۔
مرزا داغؔ کا پچپن کسی سنسنی حیز افسانے سے کم نہیں ہے۔ اُن کے والد شمس الدین خاں کو، جو فیروز پور جہرکہ اور لوہار و کے والی تھے دلی کے ریزیڈینٹ سرولیم فریزر کے قتل کی اعانت کے سلسلے میں پھانسی دی گئی تھی۔ کچھ سوانح نگار، مرزا غالبؔ کو جو رشتے میں داغ کے پھوپھا تھا، اس پھانسی کے لیے بلا واسطہ ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ شمس الدین خاں صاحب کی ولدیت، کم از کم اسلامی قانونی اعتبار سے مشکوک قرار دی گئی ہے۔
شمس الدین خاں کی پھانسی، جسے کچھ لوگ عدالتی قتل یعنی (Judicial Murder) قرار دیتے ہیں، کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اس پھانسی کو جائز قرار دینے کے لیے انگریزوں نے کچھ مسلم علماء کی تصدیق بھی حاصل کر لی تھی۔ اور یہ علماء بادشاہ کے زیر اثر قلعے سے وابستہ تھے۔ اس واقعے سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انگریز جو ہندوستان کی حکمرانی حاصل کرنے کے لیے اپنا پورا جال بچھا چکے تھے کس طرح زوال پذیر مغلیہ حکومتوں کو استعمال کر رہے تھے۔ شمس الدین خاں کی پھانسی کے سلسلے میں علماء کی تصدیق اس لیے ضروری ہو گئی تھی کہ وہ براہِ راست قتل میں ملوث نہ تھے۔ البتہ اُن کو اعانت یا محرّکِ قتل، ہونے کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔ قلعے سے وابستہ علماء نے یہ تصدیق کی ایک ذمّی (اہلِ کتاب) کے مسلم قاتل یا محرّکِ قتل سے قصاص لینا واجب ہے۔
اس واقعہ کے بعد جبکہ مرزا داغ کی عمر تقریباً ساڑھے چار برس کی تھی، وہ اپنی والدہ کے ہراہ دَر دَر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہو گئے۔ کیونکہ انگریزوں نے اُن کی ساری جائداد، نقد و جنس، ضبط کرلی تھی۔ آٹھ نوسال کے بعد ۱۸۴۴ء میں مرزا داغ کی والدہ ولی عہد سلطنت دِلّی صاحب عالم مرزا محمد سلطان فتح الملک بہادر کے محل میں داخل ہوئیں۔ یہاں سے مرزا داغ کی نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔
قلعہ معلّیٰ میں جس طرح سے مرزا داغ کی تعلیم و تربیت ہوئی۔ اِس سے اُس وقت کے بادشاہوں، اُمرا و رُؤساکی طرزِ زندگی، اُن کے عادات و اطوار اور اخلاق و آداب کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ قلعے میں مرزا داغؔ نے فارسی زبان کے علماء سے باقاعدہ درس و تدریس حاصل کی۔ خوش نویسی میں مہارت حاصل کی۔ وہ باقاعدہ قانونِ سپاہ گری کے اصولوں سے آشنا ہوئے۔ گھوڑ سواری، پھیکتے بازی، بندوق چلانا اور فیتے کاٹنے کا فن انھوں نے بخوبی حاصل کیا۔
جس زمانے میں میرزا داغ نوجوانی کے دور میں داخل ہوئے، وہ زمانہ قلعے میں ایک طلسماتی ماحول کا زمانہ تھا۔ یہ طلسم تقریباً ایک دہائی کے بعد (یعنی ۱۸۸۷ء کے غدر) میں چوُرچوُر ہونے والا تھا۔ یہ دور قلعے میں رقص و سرود، چاندنی راتوں میں جشن، ساون کی رُتوں کے میلوں اور خاص طور پر مشاعروں کا ددر تھا۔ زوال پذیر معاشروں میں طاؤس و رباب زندگی کے دوسرے شعبوں پر فوقیت حاصل کر لیتے ہیں۔ تاریخ میں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ بہر کیف قلعے میں عیش و نشاط کا جو عالم برپا تھا، اُس میں شعر و شاعری ہر چیز پر حاوی تھی۔ فنِ شاعری میں مہارت حاصل کرنا ایک محبوب مشغلہ تھا۔ شعراء حضرات کی ساری کاوشیں اس بات پر مرکوز تھیں کہ کس طرح بادشاہِ وقت یا کسی نواب یا رئیس کی نظر التفات کا فیض حاصل ہو تاکہ وظیفے یا مالی معاونت کی صورت بن جائے۔
میرزا داغؔ کا فطری رجحان تو شاعری کی طرف تھا ہی، قلعے کے ماحول میں اس شوق کو پروان چڑھانے کے لیے سارے لوازمات موجود تھے۔ اس پر طرّہ یہ کہا نہیں شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا۔ یہ اور بات ہے کہ ابھی تک یہ تحقیق نہ ہوسکی کہ میرزا داغؔ نے کس حد تک ذوقؔ کی اُستادی کا فیض حاصل کیا۔
میرزا داغؔ کے سوانح نگاروں نے ذوقؔ کے تعلق سے مرزا داغؔ کے بارے میں صرف اتنا لکھنا ہے کہ:
“شاعرانہ خصوصیات اور فنّی باریکیاں اُنہیں ذوقؔ کی وجہ سے نصیب ہوئیں، جو بڑی دلسوزی سے اُنہیں تیاّر کرتے رہے اور ان میں وسعتِ نظر، تحقیق و تجسس پیدا کیا۔ “
اور یہ کہ:
“ذوقؔ کا رنگ اُنہیں پسند نہ تھا۔ اس کے سامنے مومنؔ موجود تھے، جو جرأتؔ کی ترقی یافتہ شکل تھے۔ اس لیے داغؔ نے مومنؔ کا تتبع کرنا شروع کیا، خیالات وہی رہے، صرف طرزِ ادا ذوقؔ کی اختیار کر لی، اس طرح ایک نیا اسلوب داغؔ کا بننے لگا۔ “
مرزا غالبؔ سے داغؔ کی قربت رہی۔ یہ قربت ذوقؔ کے انتقال کے بعد اور بڑھ گئی۔ لیکن اس بات کے شواہد نہیں ہیں کہ داغؔ نے غالبؔ سے کچھ استفادہ حاصل کیا ہو۔ البتہ سوانح نگار یہ ضرور تحریر کرتے ہیں کہ میرزا غالبؔ داغؔ کے کچھ اشعار پر سر دھُنا کرتے تھے اور خاص طور پر اس شعر کو پیش کیا جاتا تھا:
رُخِ روشن کے آگے رکھ کے شمع وہ یہ کہتے ہیں
اُدھر جاتا ہے دیکھو یا اِدھر پروانہ آتا ہے
میرزا داغؔ نے قلعۂ معلیٰ کے قیام کے دوران بحیثیت شاعر اپنی عظمت کا لوہا منوا لیا تھا۔ قلعے کے مشاعروں کے علاوہ وہ شہر کے مشاعروں میں بھی ایک مستند اور مقبول شاعر کی حیثیت سے شریک ہوتے تھے۔ سوانح نگاروں کی تحریروں سے اس بات کا اندازہ ضرور ہوتا ہے کہ میرزا فخرو گو کہ داغؔ کے حقیقی والد نہ تھے، لیکن اُن کی پدرانہ شفقتیں اور عنایات داغؔ کی شاملِ حال تھیں۔ اپنے قیام کے دوران میرزا داغؔ قلعے میں ایک رئیسانہ زندگی گزار رہے تھے۔ اُن کا درجہ کم و بیش ایک شہزادے کا سا تھا، لیکن میرزا فخرو کے انتقال کے بعد داغؔ کی طلسماتی دُنیا درہم برہم ہو گئی اور اُنھیں قلعے سے رخصت ہونا پڑا۔ اُن کو قلعے سے رخصت ہوئے ابھی آٹھ نو مہینے ہی گزرے تھے کہ غدر کا پر آشوب دَور شروع ہو گیا۔ اُس وقت داغؔ ابھی دِلّی میں ہی تھے۔ غدر کے حالات کا منظرنامہ ’شہر آشوب‘کی شکل میں رقم کیا گیا ہے۔ ’شہر آشوب‘سے میرزا داغؔ کی حسّاس طبیعت کا اندازہ تو ہوتا ہے لیکن’شہرآشوب‘سے مرزا کی حد سے زیادہ محتاط روی، مصلحت پسند طبیعت (جس کو کچھ لوگ شرافت میں دُور اندیشی بھی کہتے ہیں)کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ گو کہ غدر کی تفصیلات مرزا غالبؔ نے بھی اپنے خطوط میں تحریر کی ہیں۔ اُن کا رویّہ بھی محتاط ہے، لیکن اُن کے کرب و درد کا اندازہ “دِلّی کی تباہی کا تذکرہ”جیسی تحریروں کو پڑھ کر خوب محسوس کیا جا سکتا ہے۔ جانے کیا وجہ ہے کہ داغؔ کے “شہر آشوب”کو پڑھ کر اس شدّت کا احساس نہیں ہوتا۔
دِلّی سے رخصت ہو جانے کے بعد داغؔ رامپور کا رُخ کرتے ہیں۔ ۱۸۵۸ء میں داغؔ نواب رامپور کے داماد صاحبزادہ رضا محمد خاں کی سرکار میں نوکر ہو جاتے ہیں۔ رامپور میں داغؔ پہلے پہلے مشاعروں میں حصّہ لیتے رہے، لیکن ۱۸۶۶ء میں رامپور میں اُن کا باقاعدہ تقرّر ہوا۔ حالات کی ستم ظریفی یہ ہے کہ اصطبل اور دوسرے کارخانہ جات اُن کو تفویض ہوئے۔ اس کے علاوہ سرکاری مشاعروں کا انتظام بھی اُنہی کو تفویض ہوا۔ جب داغؔ نے اصطبل کا جائزہ لیا اور یہ خبر پھیل گئی کہ داغؔ کے ذمّہ اصطبل کی دیکھ بھال کا کام سپرد ہوا ہے تو دوسرے دِن اصطبل کے باہر دروازے پر یہ شعر لکھا ہوا نظر آیا:
شہر دِلّی سے آیا شکی خر
آتے ہی اصطبل میں داغ ہوا
داغؔ نے اس حرکت کو نہایت خوشدلی سے قبول کر لیا۔ بلکہ اُنھوں نے یہ اعلان کروایا کہ وہ شعر کے خالق سے ملنے کے آرزومند بھی ہیں۔
رامپور میں ہی داغؔ کی والدہ کا انتقال ہو گیا۔ یہ بات کچھ عجیب سی لگتی ہے کہ رامپور کے نواب صاحب نے مرحومہ کی تجہیز و تکفین کے لیے رقم منظور کی۔ یہ رقم داغؔ کی ایک عرضی کے بعد منظور کی گئی، جو اُنھوں نے نواب صاحب کو روانہ کی تھی۔ اس عرضی کا ریکارڈ ریاستِ رامپور میں موجود ہے۔
مرزا داغؔ تقریباً چوبیس برس تک رامپور کے نواب کلبِ علی خاں کے ساتھ وابستہ رہے۔ اور بقولِ خود مرزا داغؔ، وہ نواب صاحب کے معتمدِ خاص تھے۔ جس کی حیثیت میں اُنھیں اصطبل و گاڑی خانہ، کنول خانہ و شتر خانہ سپرد کیا گیا۔ ان سب کاموں کو بقول خود اُنھوں نے نہایت خوبی اور عمدگی اور دیانت داری سے انجام دیا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ جب کبھی کسی ریاست سے کوئی نواب یا راجہ، یا ولایت سے کوئی لارڈ لیفٹیننٹ گورنر وغیرہ آتے تو اکثر اُن کی رہائش اور اُن کے استقبال کے انتظام و اہتمام کے لیے نواب صاحب میرزا صاحب کو ہی منتخب کر کے بھیجا کرتے۔ اور بقولِ داغؔ:
“نواب صاحب اپنی عادت کے موافق مراحمِ خسروانہ سے ہمیشہ علاوہ ماہوار جیبِ خاص سے بہت کچھ سلوک کیا کرتے تھے۔ “
یہ باتیں قابلِ داد ہیں کہ داغؔ ایک حسّاس شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے روزگار کے سلسلے میں اس طرح کی ملازمت کرنے کو باعثِ تحقیر نہیں سمجھتے تھے۔
داغؔ کو نواب رامپور کے بعد، رامپور کو خیرباد کہنا پڑا۔ رامپور کے بعد اُنھوں نے حیدرآباد دکن کی راہ لی۔ وہ اپریل ۱۹۸۸ء میں حیدرآباد پہنچے۔ یہ زمانہ حیدرآباد میں سیاسی ریشہ دوانیوں کا، متضاد مکاتیبِ خیال سے وابستہ دست بہ گریباں گروہوں کی ہنگامہ آرائیوں اور نواب متحارب مصاحبین کی محلّاتی سازشوں (Palace Intrigue) کا زمانہ تھا۔
حیدرآباد دکن میں مرزا داغؔ کے قیام اور نواب حیدرآباد کی طرف سے اُن کے حق میں پینشن یا تنخواہ کی منظوری ایک دلچسپ سماجیاتی داستان ہے۔ اس داستان کو ہم نہایت ہی اختصار کے ساتھ یوں بیان کرتے ہیں۔
سیاسی حالات جو مختصراً ہم ابھی بیان کر چکے ہیں، ان میں سے اُلجھے بغیر نواب صاحب کے دربار تک رسائی ایک معجزے سے کم نہیں تھی۔ مرزا داغؔ قلعۂ معلیٰ میں ایک زوال پذیر شہنشاہیت میں زندہ رہنے اور اعزاز و ا کرام حاصل کرنے کی تمام تراکیب سے واقف تو تھے ہی، حیدرآباد میں وارد ہوتے ہی اُنھوں نے دکن دربار سے وابستہ شعراء اور رُؤساء کے ساتھ میل جول قائم کیا۔ اعلیٰ حضرت نظام کے دربار میں قصائد پیش کیے۔ نظام کے شہزادوں اور بیگمات کے نام قصائد تحریر کیے۔ ایک بار جوش میں رئیس دکن کی بجائے شہنشاہ لکھ بیٹھے۔ نظام کے یہاں نو مولودگان کی تاریخیں و قطعات پیش کرتے رہے۔ اتنا ہی نہیں، نظام کے دوسرے افسروں، حتیٰ کہ شاہی خانساماؤں کے لیے قطعے اور قصائد لکھے۔ فقیروں، مجذوبوں اور مشائخ کی صحبتیں اختیار کیں۔ آخر ۱۸۹۱ء میں اُن کی محنت رنگ لائی اور ساڑھے چار سو روپیہ ماہانہ کے حساب سے اُن کی تنخواہ مقرّر کی گئی۔ اور یہ تنخواہ گذشتہ ساڑھے تین برس بقایا رقم بحساب ساڑھے چار سو روپے وصول کرتے ہوئے مرزا داغؔ کے جسم میں رعشہ سا محسوس ہوا اور زیرِ لب کچھ بولنے لگے۔ بعد میں یہ تنخواہ ایک ہزار روپے مقرّر ہو گئی۔ اس کے ساتھ ہی القاب و خطابات کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔
مرزا داغؔ کی زندگی کا یہ آخری دَور حیدرآباد دکن سے شروع ہو کر وہیں ختم ہو گیا۔ یہ دَور ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت کا باقاعدہ دَور تھا۔ اس دَور میں ملک کی مرکزیت یعنی دِلّی پر قبضہ کرنے کے بعد انگریز سرکار علاقائی راجاؤں، نوابوں اور حکمرانوں کو اپنا آلۂ کار بنا چکی تھی۔ یہ دَور علاقائی شہنشاہوں کا دَور تھا۔ ایک طویل گردش سے نکل کر مرزا داغؔ قلعۂ معلیٰ سے ہوتے ہوئے نظام کے دربار کے وظیفہ خوار فصیح الملک کا درجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
مرزا داغؔ بلاشبہ مقبول شاعر تھے۔ اُن کی زبان سادہ، عام فہم اور ٹکسالی تھی۔ اُن کا لہجہ غیر مبہم تھا۔ ایک لحاظ سے اُردو زبان کو مقبول بنانے میں انھوں نے بہت بڑا رول انجام دیا، جس کا اعتراف غالبؔ اور حالیؔ نے بھی کیا۔
مرزا داغؔ نے غالباً غالبؔ سے زیادہ اشعار کہے۔ کیا اُن اشعار میں وہی معنی آفرینی، گہرائی اور سنجیدگی ہے جو غالبؔ کے اشعار میں پائی جاتی ہے۔ یہ معاملہ اب بھی بحث طلب ہے۔ کیا وجہ ہے کہ مرزا داغؔ کے کلام میں وہ آفاقیت اور فلسفیانہ گہرائی اُس شدّت سے موجود نہیں جو غالبؔ کے یہاں ہے۔ یہ سوال بھی مزید تحقیق طلب ہے۔ ان سوالات کے جواب میں ہمیں اس بات کا سراغ مل سکتا ہے کہ ہمعصر ہونے کے با وصف مرزا داغؔ غالبؔ کا مقام کیوں حاصل نہیں کر پائے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔