تو اس وقت مرزا ایوب بیگ کو بلا کر ان سے بھی اس امر میں مشورہ لیا گیا، انھوں نے ساری حقیقت سن کر یہ جواب دیا کہ ایسے نازک وقت میں تمھیں دو صورتوں میں سے ایک صورت اختیار کرنی چاہیے۔ ایک تو یہ کہ اگر تم کو مال و زر زیادہ عزیز ہے اور خاوند سے ان بن ہونے کی کچھ پروا نہیں ہے تو بے شک نالش کر دو، البتہ مقدمے کی پیروی میں روپیہ بہت خرچ ہوگا، اس کا بندوبست کر لو۔ سرکار کی فیس، وکیل کا دینا، اہلکاروں کی منہ بھرائی۔ علاوہ اس کے تدبیر کرنی چاہیے کہ وہ مال جس کا تم دعوی کرو گی، ڈگری ہونے تک تلف یا پوشیدہ نہ ہونا چاہیے۔ کیونکہ اگر ڈگری ہوئی تو اس کی نشان دہی تمھیں کرنی ہوگی۔ پس اس میں سے جتنے مال کی تم نشان دہی کرو گی وہ تمھیں مل جائے گا۔ مگر اس صورت میں خاوند سے تمھارا قطعی بگاڑ ہو جائے گا۔ اس بات پر بخوبی غور کر لو۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ابھی تم دونوں کا لڑک پن ہی ہے اور رشتہ اس قسم کا ہے کہ اسی رسی سے گردن گھسنی ہے۔ بس جو تمھیں خاوند سے نباہنی ہے اور بنی رکھنی منظور ہے تو زر و زیور سے ہاتھ اٹھاؤ۔ اسے اٹھنے اور لٹنے دو۔ صبر کرو۔ مال و متاع جو ہے، یہ چند روزہ ہے۔ جس دن یہ اٹھ گیا، میاں کے سارے نشے ہرن ہو جاویں گے اور قلعی کی طرح اڑ جائیں گے۔ اس وقت کوئی مونس و ہمدم نہ سوجھے گا۔ بس پھر یہی میاں بیوی ہوں گے اور یہی بیوی اور یہی گھر۔ ان دونوں صورتوں میں سے جونسے پر تمھارا دل ٹُھکے، وہ اختیار کر لو۔
بس بوا! جب میں نے مرزا ایوب بیگ کی اس تقریر پر بخوبی غور کیا تو میرے خیال میں یہی آیا کہ روپیہ پیسہ آنی جانی چیز ہے۔ اگر میری تقدیر سیدھی ہوتی تو جھجر کی ریاست کیوں بگڑتی۔ زر و زیور کے واسطے خاوند کو چھوڑنا عین حماقت اور نادانی ہے۔ اگرچہ کسی نے میرے اس خیال کو پسند کیا اور کسی نے ناپسند۔ اول اول تو والدہ صاحب بھی کچھ ہچر مچر کرتی رہیں، پر میں تو اس رائے پر ایسی جمی کہ بہتیرا لوگوں نے ورغلایا، میں نے کسی کی نہ سنی۔ آخر اماں جان نے جب مجھے خوب مستحکم پایا تو وہ بھی میری ہی طرف ہو گئیں۔ جب میری ساس کا چالیسواں ہو چکا تو بندی اپنی لڑکی کو لے کر والدہ صاحبہ کے ہمراہ دہلی چلی آئی۔ آخرکار وہی ہوا جو مرزا ایوب بیگ نے کہا تھا۔ کوئی پانچ مہینے گزرے ہوں گے جو سنا کہ جتنا زیور کپڑا مال و متاع تھا وہ سب میاں اڑا بیٹھے اور تلف کر دیا۔ بلکہ اس پر طرہ یہ ہوا کہ بہت سا قرضہ بھی کر لیا اور نوبت فاقہ کشی کی آن پہنچی اور جتنے جوان مرگ ان کو گھیرے ہوئے تھے وہ سب فَفِرّو ہو گئے۔ اب میاں اپنا سا منہ لے کر اکیلے رہ گئے۔ یہ سن کر جی تو بہت جلا، گو پہلے یقین نہ آیا کہ اتنی دولت ایسے تھوڑے دنوں میں کیوں کر اٹھا دی ہوگی۔ مگر جب ان کے اسراف پر خیال کیا تو جانا کہ ان کی فضول خرچی کے آگے تو اگر قارون کا خزانہ بھی ہوتا تو کیا مآل تھا۔ یقین ہوا کہ بے شک وہ سب کچھ تباہ کر کے فارغ ہو بیٹھے ہوں گے۔ بس یہ سنتے ہی چند ہی روز گزرے ہوں گے۔
میرے شوہر کا خط والدہ کے نام آنا
کہ کئی مہینوں کے بعد ایک دن شوہر کا ایک خط میری والدہ کے نام آیا۔ اس میں لکھا تھا کہ “جناب میری اہلیہ کو جو آپ اپنے ہم راہ دہلی لے گئی تھیں، اب عرصہ پانچ مہینے کا گزر گیا اور نور چشمی صدیقہ بیگم کو دیکھنے کو بہت جی چاہتا ہے، اس واسطے ملتمس ہوں کہ اگر آپ مہربانی فرما کر میری اہل خانہ کو مع نور چشمی صدیقہ بیگم کے اس طرف کو روانہ فرما دیں”۔ بس جب یہ خط آیا تو اب کامل یقین ہو گیا کہ جو کچھ لوگوں سے سنا تھا وہ صحیح ہے۔
والدہ صاحبہ کا جواب لکھنا
اس کا جواب والدہ صاحبہ نے انھیں یہ لکھا کہ “برخوردار من! خط تمھارا اپنی اہل خانہ و دختر کی طلب میں پہنچا۔ میں تم سے یہ دریافت کرتی ہوں کہ تمھارے پاس تو اتنا کچھ مال و متاع تھا کہ ایک بیوی کیا، چار نکاح کر سکتے تھے اور جب اتنے نکاح کر لیتے تو ایک دختر کیا، بہتیری اولاد پیدا ہو جاتی۔ مگر افسوس ہے کہ جب تمھارے پاس روپیہ تھا تو اس وقت جورو بچوں کے گھر سے نکل جانے کا خیال بھی نہ کیا اور مہینوں بے فکر اور بے خبر بیٹھے رہے۔ اب جو لاکھ کا گھر خاک کر چکے اور مفلس قلانچ ہو کر بیٹھے تو جورو بچے یاد آئے۔ کس منہ سے بلاتے ہو۔ وہ وقت یاد کرو کہ بات بھی نہ پوچھتے تھے اور اتنی مدت یہ بھی نہ جانا کہ جورو بچے کہاں پڑے سڑتے ہیں۔ بارے اب تم کو ہوش آیا تو بڑی جلدی آیا”۔
بس بوا! جس وقت یہ پتھر سے بھی سخت جواب ان کو پہنچا تو میاں کی سٹی بھولی۔ لگے تیری میری خوشامد کرنے۔ آخر حکیم آغا علی خاں کے سامنے ہاتھ جوڑے اور انھیں منتیں کر کے میرے لینے کے واسطے دہلی بھیجا۔
حکیم آغا علی خاں کا میرے لینے کو دہلی آنا اور میرا لودھیانہ جانا اور گھر کی تباہی دیکھنا
حکیم آغا علی خاں دہلی آئے اور میاں کی طرف سے میرے لے جانے کا پیام لائے۔ اماں جان کے روبرو بہت ہاتھ جوڑے اور پاؤں پڑے۔ نہایت اصرار و تکرار کے بعد اماں جان نے میرا بھیجنا منظور کیا۔ آٹھ دس روز سامان سفر میں گزرے۔
میرا لودھیانہ جانا اور گھر کو دیکھ کر پچھتانا
جب تیاری ہوگئی تو ٢٤ نومبر ١٨٦٥ء کو میں سواری شکرم میں مع اپنی دختر کے لودھیانہ کو روانہ ہوئی۔ حکیم صاحب بھی میرے ساتھ گئے۔ تیسرے روز قریب نو بجے شب کو لودھیانہ پہنچے۔ گھر میں جا کر اترے۔ گھر کو جو دیکھتی ہوں تو عجب حال ہے، جیسے کوئی لوٹ کر لے گیا۔ مکان کے صحن میں کیا دیکھتی ہوں کہ گھوڑے گھوڑے بندھے ہوئے ہیں۔ ہر طرف کوڑے کرکٹ کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ لڑکی دیکھ کر ہکا بکا ہوگئی۔ کیونکہ وہ دلی کے عمدہ مکان میں رہ کر گئی تھی۔ وہاں دیکھا تو ایک ڈھنڈار مکان دیکھا۔ خیر گھوڑے تو اس وقت کھلوا کر باہر اصطبل میں بھیجے۔ دالان میں جو گھسی تو دیکھتی کیا ہوں، کوٹھری کے آگے ایک پلنگ بچھا ہے اور اس پر ایک میلی کچیلی مٹی کے رنگ کی چادر کسی ہوئی ہے۔ جس کے دیکھنے سے گھن آتی تھی۔ اس کے آگے ایک تخت بچھا ہے۔ اس پر ایک میلا چیکٹ دستر خوان کا چیتھڑا پڑا ہے۔ اس میں دو تین روٹیاں بیسنی خشک لپٹی دھری ہیں۔ میں نے جانا کسی ماما اصیل کی روٹی رکھی ہے اور ایک کونے میں فتیل سوز رکھا ہے۔ اس پر ریوڑی والے کی دکان کا سا چراغ دھرا ٹمر ٹمر جل رہا ہے۔ اب ادھر دیکھتی ہوں ادھر دیکھتی ہوں، فرش کا کہیں پتہ نہیں۔ الٰہی بیٹھوں تو کہاں بیٹھوں۔ آخر جل کر میں نے کہا: یہ تخت پر کس کا چیتھڑا پڑا ہے، اسے تو اٹھاؤ۔ ماما نے جواب دیا کہ “بیوی یہ تو سلامتی سے میاں کا کھانا دھرا ہے۔ خدا رکھے ابھی کھانا کھانے بیٹھے تھے کہ اتنے میں آپ کی سواری آ گئی”۔ یہ سن کر تو اور بھی کلیجہ بھلسا۔ میاں کی طرف جو دیکھا تو وہ مارے ندامت کے عرق عرق ہو گئے۔ شرمندگی سے آنکھیں نیچی کر لیں۔ میں نے ماما سے کہا کہ “کچھ آٹا گھی نکال کر روٹی ووٹی پکاؤ، جو ساتھ کے آدمیوں کو دی جائے”۔ ماما بولیں: “بیوی! آٹا، گھی، اناج، پات تو گھر میں جمی جم ہے”۔ خیر ناشتا جو اماں نے ساتھ کر دیا تھا وہ منگایا۔ دیکھا تو بچے ہوئے صرف دو پراٹھے اور پانچ چھ پوریاں اور کچھ کباب نکلے۔ اس میں کیا کسی کو دیتی، میں نے روپیہ نکال کر کالے خدمت گار کو دیا اور اس سے کہا کہ “بازار سے کچھ کچوریاں، پوریاں اور کچھ مٹھائی لے آ”۔ وہ جا کر لے آیا۔ پہلے ساتھ والوں کو دیا، پھر آپ کھایا، میاں کو کھلایا۔ کھانے پینے سے فارغ ہو کر سر منہ لپیٹ کر پڑ رہی۔
صبح کو اٹھ کر کوٹھری کھولی۔ دیکھا جن صندوقوں میں دو دو قفل لگے رہتے تھے وہ بھاڑ کی طرح کھلے پڑے ہیں۔ کسی میں پھٹے پرانے گدڑے چیتھڑے پڑے ہیں، کسی میں گھوڑے کی جھول دھری ہے۔ باقی جو ہیں ان میں چوہے قلابازیاں کھا رہے ہیں۔ دیکھ کر منہ پیٹ لیا کہ ہے ہے پانچ چھ مہینے میں لاکھ کا گھر خاک کر بیٹھے۔ پھر تو جو کچھ منہ میں آیا، خوب ہی بکی جھکی۔ لیکن اللہ تعالی غریق رحمت کرے، ان کے منہ میں زبان کہاں تھی کہ جو جواب دیتے۔ آخر صبر کر کے چپ ہو رہی۔ اتنے میں ماما نے آن کر پوچھا کہ “بیوی کھانے پکانے کے واسطے کیا حکم ہے، کیا بندوبست ہوگا؟” میں نے اس سے کہا کہ “گھر والے سامنے بیٹھے ہیں، ان سے پوچھو”۔ انھوں نے سن کر کیا کیا کہ اٹھ کر جا اپنا صندوقچہ لا میرے آگے رکھ دیا۔صندوقچی میں جو دیکھتی ہوں کہ ایک انگوٹھی اور دو چھلے طلائی اور دو روپیہ نقد پڑے ہیں۔ دیکھ کر آگ ہی تو لگ گئی۔ جی تو چاہا کہ منہ نوچ لوں۔ مگر کیا کرتی، غصہ پی لیا اور صبر کیا۔ یہ تو میاں کی پونجی رہ گئی اور خرچ پر نظر کرو تو دو تین روپیہ روز کا تو گھوڑوں کا خرچ تھا۔ گھر کا علاحدہ رہا۔ آخر جل بھن کر میں نے کالے خدمت گار کو بلوایا اور تیس روپیہ اپنی صندوقچی میں سے نکال کر اس کو دیے جو تمام سودا سلف، اناج، پات منگایا۔ خیر رہنے سہنے لگی۔
قرضے کا زیادہ ہونا
مگر حال یہ ہوا کہ قرض دوام پر خرچ روزمرہ کا مدار آن ٹھہرا۔ اس لیے کہ پہلے تو یہ تھا کہ پچھتر روپے ماہوار تو میری ساس کا وثیقہ تھا اور سو روپیہ میاں کے۔ ایک سو پچھتر روپے ماہوار کی آمدنی تھی اور پچاس ساٹھ روپے ماہوار کی زیادہ ضرورت ہوتی تھی تو وہ کچھ پرانا دھرانا گوٹہ کناری یا کوئی ٹوٹی پھوٹی زائد رقم بیچ ڈالی۔ چار سو پانسو کا بندوبست کر لیا، سال بھر گزر گیا۔ اب نہ خوش دامن رہیں نہ ان کا وثیقہ رہا اور نہ میاں نے گھر میں کچھ اثاثہ چھوڑا۔ خرچ جو کچھ پہلے تھا وہ وہی کا وہی موجود رہا۔ آمدنی کم یعنی صرف سو روپیہ میاں کی رہ گئی۔ ہر مہینہ تیس چالیس روپیہ کی رقم قرض کی بڑھنے لگی۔ حیران پریشان تھی کہ الٰہی کیا کروں۔ اس گھر کا کیوں کر ٹھکانہ لگے گا۔ نہ تو آمدنی بڑھنے کی کوئی شکل ہوتی ہے اور نہ میاں خرچ کم کرنے دیتے ہیں۔