اس کا چہرہ گہری ہوتی ہوئی شفق سے ڈھک گیا تھا۔ صرف آنکھیں نمایاں ہورہی تھیں— گہری نیلی۔ وہ اختیار کی ہوئی خالص فرانسیسی بول رہا تھا، لیکن لہجہ سلاوک تھا۔
’’صرف وہی ادبی تصنیف جو حیاتِ انسانی کے نامعلوم جز یا گوشے کو سامنے لاتی ہے، اپنی موجودگی کا حق رکھتی ہے۔‘‘
وہ سوال جواب کی اِس مجلس میں کہہ رہا تھا، ’’قلم کار ہونے کے یہ معنی نہیں کہ وہ سچائی کی تبلیغ کرے، اس کے معنی ہیں کہ وہ کوئی سچ دریافت کرے۔‘‘
۱۹۸۰ء کے عشرے میں ملن کنڈیرا نے جو چھپن برس کی عمر کو پہنچ چکا تھا، اپنے وطن مالوف چیکو سلواکیا کے لیے وہ کچھ کرچکا تھا جو گیبریل گارسیا مارکیز نے ۱۹۶۰ء کے عشرے میں لاطینی امریکا کے لیے کیا، یا الیگزینڈر سولزے نٹسن (Alesandr Solzhenitsyn) نے ۱۹۷۰ء کی دہائی میں روس کے لیے انجام دیا۔
اس نے مشرقی یورپ کو مغرب کے قاریوں کے حلقۂ توجہ میں لانے کا کام کیا۔ اس سلسلے میں دو ہفتے قبل اس کو یروشلم انعام براے ادب سے نوازا گیا۔
اولگا کاریسل کو ملن کنڈیرا کے ناول ’’دی بک اوف لافٹر اینڈ فورگیٹنگ‘‘ اور پچھلے سال شائع ہونے والے ناول ’’دی اَن بیئرایبل لائٹ نیس اوف بینگ‘‘ میں جو مرکزی خیال نظر آتے ہیں یا پیش ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں وہ ہیں ہمارے وقت میں کلچر کی موت اور ایٹمی جنگ کا خطرہ، لیکن ملن کنڈیرا اس خدشے کا ذکر براہِ راست نہیں کرتا، بلکہ تلمیحاتی پیرائے میں اس طرح ناول میں سموتا ہے کہ ناول کی فضا میں ایسا تمسخر آمیز ہوجاتا ہے جس کو گروٹسک (Grotesque) کہا جائے گا۔
اولگا کاریسل کا مؤقف ہے کہ اپنے ہم وطن میلوس فورمین (Milos Forman) [اکیڈمی انعام یافتہ ڈائریکٹر] کی مانند جو ترکِ وطن سہ گیا اور مغرب میں کامیابیوں سے ہم کنار ہوا، ملن کنڈیرا نے ۱۹۷۵ء میں فرانس میں رہتے ہوئے ایک سے ایک بہتر اور متنوع تصانیف کا سلسلہ لگا دیا اور اس خیال کی نفی کی کہ قلم کار اپنی مٹی سے کٹ کر تخلیقی توانائی اور اپج سے تہی ہوجاتا ہے۔ اس کی کتابوں میں قاری کو جذبہ، مزاج اور شوخی اور بڑے پیمانے کی جنسیت (eroticism) نظر آتی ہے۔ ملن کنڈیرا نے اپنی نوجوانی کے چیکو سلواکیا کو ایک چمکتی دمکتی عقائد سے معمور اور جنسی کشش سے بھرپور خطۂ ارضی میں بدل دیا۔ اس نے جو کر دکھایا، اسی کی اساس پر اس کے اندر اپنے داخلی زندگی اور شخصیت کو مخفی اور محفوظ رکھنے کی خواہش اُبھر آئی۔ اس ضمن میں اولگا کاریسل کو فلپ روتھ (Philip Roth) کے لیے ہوئے انٹرویو کا خیال آتا ہے جس میں ملن کنڈیرا نے کہا تھا، ’’جب میں چھوٹا لڑکا تھا اور چھوٹی پتلون (نیکر) پہنتا تھا، ایسے کسی مرہم کے خواب دیکھتا تھا جس سے میں غیر مرئی ہوجاؤں۔ پھر میں بڑا ہوا، لکھنے لگا اور مجھے کامیابی کی چاہت ہونے لگی۔ اب میں کامیاب ہوں اور چاہتا ہوں کہ ایسا مرہم مجھے دستیاب ہوجائے جو مجھے غیر مرئی بنا دے۔‘‘
میری پیش آگاہی کے مطابق جب میں نے اس سے اس کے پیرس اپارٹمنٹ میں انٹرویو کے لیے وقت مانگا تو اس کی آواز میں گرم جوشی نہیں تھی۔ بہرحال اولگا کاریسل نے اپنے دادا کے حوالے سے اسے راضی کرلیا۔ اگرچہ اس نے یہ بھی کہا کہ وہ مریض ہونے تک چڑچڑا ہے۔
ملن کنڈیرا اور اس کی بیوی ویرا (Vera)، مونٹ پاما سے (Mondpamasse) کی ایک بغلی گلی کے چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں رہائش پذیر تھے۔ کمرے کو انفرادیت دینے والی خصوصیت تھی دیواروں پر لگی ہوئی سریالسٹک (Surrealistic) تصاویر۔ چند چیکو سلویک آرٹسٹوں کی بنائی ہوئی باقی ملن کنڈیرا کی اپنی تخلیق، مختلف رنگوں کے غیر معمولی بڑے سر اور لمبی انگلیوں والے ہاتھ خود کنڈیرا کے ہاتھوں جیسے۔
ویرا کنڈیرا سیاہ چھوٹے ترشائے ہوئے بال۔ دبلی پتلی، نیلے رنگ کی جینس (jeans) میں۔ انٹرویو کے دوران ویرا برابر کے کمرے میں ٹائپنگ میں اور دُور دراز کی فون کالوں کا جواب دینے میں مصروف رہی۔ شہرت اور نام نے کنڈیرا کو گرفت میں لے رکھا تھا۔ اس کو یورپی ٹیلی وژن، تھیٹر اور مووی ڈائریکٹروں سے نمٹنا ہوتا۔
طویل القامت اور دبلے جسم والا کنڈیرا ایک بوسیدہ نیلے رنگ کا سوئیٹر پہنے آرام کرسی پر نیم دراز تھا۔ میرے سامنے، واضح طور پر ایسا شخص تھا جو اپنے آپ سے مطمئن تھا۔ ’’بئی ان ڈینس سیاپیو‘‘ (Bien dans sa peau) فرانسیسی محاورے کے مطابق، اس کی ہمت افزائی کے تحت میں نے اپنے بچپن کے بارے میں بتایا جو پیرس میں سیاسی پناہ گزینی کے دوران گزرا تھا۔ یادگار زمانہ جب پراگ شہر میں روسی پناہ گزیں شاعر میرینا ٹسٹائیا (Marina Tsreteyeva) اکثر شامیں ہمارے ہاں گزارتی اور ہلکی گھٹی گھٹی آواز میں اپنے اشعار سناتی تھی۔
۱۹۳۶ء یا ۱۹۳۷ء کا زمانہ تھا، تب بھی پراگ نازی جرمنی اور ساتھ ہی کمیونسٹ روس کے بہت نزدیک تھا۔ بڑے بڑے دھوکے اور شکستہ وعدوں کا خیال بھی مشکل سے کیا جاسکتا تھا۔۹۶۸ کا بہار پراگ سوشلزم کا وعدوں سے معمور انسانی چہرہ جو روسی ٹینکوں کے پیروں تلے کچل کر ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ ایک خوش کن اور اہم ترین واقعہ پہلا ناول ’’دی جوک‘‘ کی اشاعت۔
ارتکاز کے ساتھ تحریر کیا ہوا اور فن کارانہ انداز میں تشکیل دیا ہوا ’’دی جوک‘‘ جو کمیونزم سے پیدا کردہ لاحاصل حماقت کے خلاف ایک نوع کا مقدمہ ہے، شائع ہوا۔
سوال: چھیالیس برس کی عمر سے کوئی دس سال آپ نے فرانس میں بسر کیے۔ آپ اپنے آپ کو کیسا محسوس کرتے ہیں— ایک پناہ گزیں، فرانسیسی، چیک صرف یورپی، بنا کسی قومیت کے؟
جواب: جب ۱۹۳۰ء کی دہائی میں جرمن دانش وروں نے اپنے ملک سے امریکا ہجرت کی، ان کو یقین تھا کہ ایک دن وہ جرمنی لوٹیں گے۔ انھوں نے باہر اپنے رہنے کو عارضی سمجھا۔ میں، اس کے برخلاف ذرا سی بھی امید نہیں رکھتا واپس جانے کی۔ میرا فرانس میں قیام آخری ہے اور اسی وجہ سے میں پناہ گزیں بھی نہیں کہلایا جاسکتا۔ صرف فرانس ہی میرا اب اصلی وطن ہے۔ میں اپنے آپ کو بے جَڑا بھی محسوس نہیں کرتا۔ ہزاروں سال چیکو سلواکیا مغرب کا حصہ تھا۔ آج وہ مشرقی سلطنت کا حصہ ہے۔ میں اپنے آپ کو پراگ میں پیرس سے بدرجہا زیادہ بے جَڑا محسوس کروں گا۔
سوال: لیکن آپ اب بھی چیک میں لکھتے ہیں؟
جواب: میں مضامین فرانسیسی میں لکھتا ہوں، لیکن ناول چیک میں لکھتا ہوں، کیوںکہ میرے تجربات اور تخیل بوہیمیا اور پراگ سے جُڑے ہیں۔
سوال: آپ سے بھی پہلے میلوس فورمین نے مغرب میں اکثریت کو چیکو سلواکیا سے واقف کرایا تھا ’’فائرمینز بال‘‘ (Firman’s Ball) جیسی موویز کے ذریعے۔
جواب: بالکل درست۔ وہ مجسم ہے اس کا جسے میں پراگ کی روح کا نام دیتا ہوں، وہ اور دیگر چیک مووی بنانے والے ایوان پیسر (Ivan Passer) اور جان نے مک (Jan Namec) جب میلوس پیرس آتا ہے تو ہر کوئی حیران اور ششدر رہ جاتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہوا کہ ایک مشہور مووی ساز دکھاوے سے آزاد؟ پیرس میں لفائتے کی گیلیریز (Lafayette) کی سیلز گرل قدرتی طور طریقے بھول چکی ہوتی ہے فورمین کی سادگی متأثر کن ہوئی۔
سوال: ’’پراگ کی روح‘‘ سے آپ کیا مراد لیتے ہیں؟
جواب: کافکا کا ’’دی کیسل‘‘ (The Castle) اور جارو سلاف ہیسیک (Jaroslav Hasek) کا ’’دی گڈ سولجر شویک‘‘ (The Good Sldier Schweik) اس روح سے معمور ہیں۔ حقیقت کا معمول سے زیادہ شعور۔ عام آدمی کا نقطۂ نظر، تاریخ کا نچلی سطح سے مشاہدہ، متوجہ کرنے والی سادگی، احمقانہ کو سمجھنے کی ذہانت، مزاح سے مربوط قنوطیت ۔ مثال: کوئی چیک پناہ گزیں ویزا کی درخواست دیتا ہے۔ افسر اس سے سوال کرتا ہے، ’’تم کہاں جانا چاہتے ہو؟‘‘ ’’اس سے فرق نہیں پڑتا۔‘‘ آدمی جواب دیتا ہے۔ اس کو گلوب دیا جاتا ہے۔ ’’براے کرم انتخاب کرلو؟‘‘ وہ آدمی گلوب دیکھتا ہے۔ آہستہ سے منہ موڑتا ہے اور بولتا ہے، ’’کیا آپ کے پاس کوئی اور گلوب ہوگا؟‘‘
سوال: پراگ میں آپ کی جڑوں کے علاوہ آپ کو بنانے میں دیگر کون سی ادبی محبتیں کارفرما رہیں؟
جواب: اوّلین میں فرانسیسی ناول نگار ریبی لائس (Rabelais) اور ڈئڈی روٹ (Diderot)۔ میرے لیے حقیقی بنیاد گزار فرانسیسی ادب کا بادشاہ ریبی لائس ہے۔ ڈئڈی روٹ وہ ہے جس نے ریبی لائس کی روح کو اٹھارھویں صدی میں پہنچایا۔ اس حقیقت سے غلط راستے پر نہ جائیے کہ ڈیڈی روٹ فلسفی تھا۔ اس کے ناول ’’جیکوئس لے فیٹالسٹے‘‘ (Jacquess le Fataliste) کو فلسفیانہ مکالمے کا نام دینا زیادتی ہے۔ یہ طنزیہ ڈراما ہے۔ اس سے زیادہ آزاد ناول کبھی لکھا نہیں گیا۔ آزادی ناول کے قالب میں (آزادی جو ناول بن گئی)، میں نے ان ہی دنوں اس کو تھیٹر کا روپ دیا ہے ’’جیکوئس اور اس کا آقا‘‘ کے نام سے۔
سوال: مزید روابط (جڑیں)؟
جواب: مرکزی یورپی ناول اس صدی کے کافکا، روبرٹ میوسل ،ہرمین بروچ (Hermann Broch)، وی ٹولڈ کومبرووز (Witold Combroviz)۔ میری تیسری جڑیں جدید چیک شاعری۔
سوال: کیا جدید شعرا میں جارو سلاف سیفرٹ (Jaroslav Seifert) سے آپ متأثر ہیں؟ کیا وہ نوبیل انعام (۱۹۸۴ء) کا مستحق تھا جو اسے ملا؟
جواب: وہ یقینی طور پر مستحق تھا۔ اس کو ۱۹۶۸ء میں نوبیل کے لیے نام زد کیا گیا تھا، مگر دیا نہیں گیا۔ انعام میں بڑی تاخیر کی گئی۔
سوال: روسی ادب کا کیا بنا؟ کیا آپ اس سے اب بھی متأثر ہوتے ہیں یا پھر ۱۹۶۸ء کے واقعات نے اس کو آپ کے لیے بدذائقہ بنا دیا؟
جواب: مجھے ٹولسٹوئے بہت پسند ہے۔ وہ دستوئیفسکی سے زیادہ جدید ہے۔ ٹولسٹوئے کو انسانی رویے میں irrational کی کارکردگی کو گرفت میں لانے میں اوّلیت حاصل ہے۔ کارکردگی جو stupidity انجام دیتی ہے، لیکن اکثر اوقات اس کا سبب انسانی اعمال کا ناقابلِ بیاں ہونا ہے، تحت الشعور کے زیرِ اثر، جو بے قابو اور قابو کے باہر ہے۔ اینا کرییننا (Anna Karenina) کی موت سے پہلے کے حصے کو دوبارہ پڑھو۔ اس نے اپنے آپ کو کیوں مارا، مارنا چاہے بغیر؟ ایسا فیصلہ کیسے پیدا ہوا؟ ٹولسٹوئے نے ان اسباب کو گرفت میں لانے کے لیے جو گمراہ کن اور خلافِ عقل ہیں، اینناکی شعور کی رَو کی تصویر کشی کی۔ وہ گاڑی میں ہے: اس کے سر میں گلی کے تصورات، غیر منطقی کٹے پھٹے خیالات سے خلط ملط ہورہے ہیں۔ باطنی خود کلامی کا پہلا موجد جوئس نہیں، بلکہ ٹولسٹوئے تھا۔ ایننا کیرینا کے ان چند صفحات میں، یہ شاذ ہی شناخت کیا گیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ٹولسٹوئے کو برے طور سے ترجمہ کیا گیا ہے۔ ایک مرتبہ میں نے اسی حصے کا فرانسیسی ترجمہ پڑھا تو حیران رہ گیا۔ جو اصلی متون میں غیر منطقی اور منتشر تھا، فرانسیسی ترجمے میں منطقی اور خردمندانہ ہوگیا تھا۔ بالکل اسی طرح جس طرح جوئس کی یولیسس (Ulysses) کا آخری باب جس کو دوبارہ لکھا گیا۔ مولی بلوم (Molly Bloom) کی طویل خود کلامی جس کو منطقی اور روایتی پنکچویشن (punctuation) دیا گیا۔
سوال: آپ نے ’’دی بک اوف لافٹر اینڈ فورگیٹنگ ‘‘ میں اپنے والد کا ذکر محبت سے کیا ہے۔
جواب: میرے والد پیانو بجاتے تھے۔ ان کو جدید موسیقی سے لگاؤ تھا۔ اسٹراونسکی، بارٹوک، شوئبزگ، جناکک ان کے محبوب موسیقار تھے۔ جناکک کو متعارف کرانے میں انھوں نے بڑی کارکردگی دکھائی۔ دستوئیفسکی کے ناول پر اس کا اوپیرا ’’فروم دی ہوز اوف دی ڈیڈ‘‘ اس صدی کا پیغمبرانہ کام ہے۔ کافکا کے ’’دی ٹرائل‘‘ یا پکاسو کے ’’گوئرفکا‘‘ کی مانند۔ میں موسیقی کا دل دادہ ہوں، لیکن موسیقار مجھے اچھے نہیں لگتے۔ میں نے جب چیکو سلواکیا سے اپنی بیوی کے ساتھ ہجرت کی تو چند ایک کتابیں ساتھ لیں۔ ان میں جان اپڈائک کی تصنیف ’’دی سنٹاؤر (The Centaur) وہ میرے اندر کی گہرائیوں کو چھوتی تھی۔ اس کا مرکزی خیال ایک شکست خوردہ اور ذلت کے شکار باپ کے لیے تڑپ اور محبت ہے (ملن کنڈیرا نے اپنے بچپن میں اپنے والد کو قریبا خالی کنسرٹ ہال میں پیانو بجاتے دیکھا۔ اس وقت لوگ ان موسیقاروں کے بجائے چیکوسکی اور موزارٹ سنتے تھے)۔
سوال: ’’دی بک اوف لافٹر اینڈ فورگیٹنگ‘‘ میں آپ اپنے والد کی یاد کو تمینا (Tamina) کی کہانی سے جوڑتے ہیں جو ایک ایسے جزیرے میں رہتی ہے جہاں صرف بچے ہیں۔
جواب: یہ کہانی ایک خواب ہے جس نے مجھے اوبسس (Obsess) کیا ہوا ہے۔ سوچیے آپ مجبور ہیں کہ اپنی زندگی کا باقی حصہ بچوں کے ساتھ گزاریں، کسی بڑے سے بات کیے بغیر۔ یہ خواب نہیں، خوابِ دہشت ہے۔ یہاں کہاں سے آیا مجھے نہیں معلوم۔ مجھے خواب کے تجزیے کرنا پسند نہیں، میں ان کو کہانیوں میں بدل دیتا ہوں۔
سوال: آپ کی کتابوں میں بچوں کو عجیب مقام دیا گیا ملتا ہے۔۔۔۔۔ اس کے برخلاف جانوروں کے لیے نرمی ملتی ہے۔ جانوروں کے بارے میں آپ ایک قسم کا والہانہ پن رکھتے ہیں؟
جواب: میں اس طرح نہیں سوچتا۔ ایک خواہش ہے خوش کرنے کی ہر قیمت پر۔۔۔۔۔ میں بچوں کے خلاف نہیں، لیکن بچوں کی بد تمیزی مجھ کو بیزار کرتی ہے۔ افسوس ہمارا مستقبل بچپن نہیں، بڑھاپا ہے۔ کسی معاشرے کا انسانیت سے معمور رویہ جانچا جاسکتا ہے بڑھاپے کی کسوٹی پر، لیکن دائیں بازو کا معاملہ ہو یا بائیں بازو کا، پروپیگنڈا پوسٹرز پر بوڑھوں کو نہیں بچوں کو دکھایا جاتا ہے۔
سوال: دائیں اور بائیں بازو کا جھگڑا آپ کو قطعی متأثر نہیں کرتا؟
جواب: جو خطرہ ہمیں ڈرا رہا ہے وہ ’’ٹوٹالی ٹیرین سلطنت‘‘ کا خطرہ ہے۔ خمینی (Khomeini)، ماؤ (Mao)، اسٹالن (Stalin)، یہ بائیں ہیں یا دائیں؟ ٹوٹالی ٹیریانزم نہ تو بائیں ہے اور نہ دائیں، ایسی سلطنت میں دونوں ختم ہوں گے۔ مجھے سیاست میں حصہ لینے سے نفرت ہے، جب کہ سیاست مجھیکھینچتی ہے۔ ایک تماشے کے طور پر ایک الم ناک موت جیسا تماشا ۔مشرق کی سلطنت کے تحت اور مسخرے پن کا اور دانش ورانہ طور پر بانجھ مغرب میں۔ کلچر کو ضرورت ہوتی ہے پبلک زندگی کی، خیالات کے آزادانہ تبادلے کی، وہ محتاج ہے اشاعتوں کا، نمائشوں کا، مباحثوں کا اور کھلی سرحدوں کا۔ یہ بھی سچ ہے کہ وقتی طور پر کلچر مشکل حالات میں بھی گزارا کرلیتا ہے۔ آدمی ایک معما ہے۔ وہ ایک سوال بنا کھڑا ہے۔ اس حیران کن صورتِ حالات میں ناول لکھنے کا جذبہ جنم لیتا ہے۔
سوال: جیسی آپ کی زندگی ہے بھرپور تجربات سے، کیا اس سے آپ کی ناولوں میں آپ بیتی کا عنصر نہیں آتا؟
جواب: میرے ناولوں میں کوئی کردار میری تصویر نہیں ہے۔ میرے کرداروں میں سے ایک بھی کردار کسی بھی زندہ آدمی کی عکاسی نہیں کرتا ہے۔ خفیہ آپ بیتیوں کو پسند نہیں کرتا۔ میری نظروں میں کسی قلم کار کی ایسی جارحیت بہت عظیم گناہ ہے۔ جو کوئی کسی کی خانگی زندگی کو پردے سے باہر لاتا ہے۔ اس کو کوڑوں کی سزا دینی چاہیے۔
وہ زندگی جس کو آدمی دوسروں کی نظروں سے خفیہ نہ رکھ سکے دوزخ ہے۔
انٹرویو رات گئے اختتام پذیر ہوا۔ پیرس کی بھیگی رات میں کنڈیرا نے مجھے ہوٹل تک چھوڑا۔ اس کے ایک یا دو دن بعد انھوں نے مجھے لنچ دیا۔
اپنی کتابوں میں اسے ’’لاف ایبل لوز‘‘ بہت پسند ہے، کیوںکہ اس کا تعلق اس کی زندگی کے سب سے زیادہ خوشی سے معمور دُور سے ہے۔
سرئیلزم (Surrealism)
آرٹ اور کلچر کی ایک تحریک جو ۲۰/ ۱۹۱۷ء میں شروع ہوئی۔ اس تحریک نے ادب کو بھی اپنے اثر میں لے لیا۔ دادا (Dada) ایبسٹریکٹ ازم (Abstractism) تحریک سے جڑی اہم شخصیات، بریٹون (Breton)، ڈالی (Dali)، ارنسٹ (Ernst)، میگریٹے (Magritte)۔
آرٹسٹ: سلویڈور ڈال (Salvador Dall)، پابلو پکاسو (Pablo Picasso) میگریٹے اور دیگر۔
سرئیلزم کے چار منشورات کا ذکر ملتا ہے۔ اوّلین دو ۱۹۲۴ء میں شائع ہوئے۔ وین گول (Van Goll) اور آندرے بریتوں (Andre Breton) کے تحریر کیے ہوئے ہیں۔ آندرے بریتوں نے واضح طور پر اعلان کیا کہ سرئیلزم کی تحریک ایک بغاوت اساس تحریک ہے۔ بغاوت اس صورتِ حالات کے خلاف تھی جو ریشنلزم کی تحریک کے زیرِ اثر یورپ کی سیاست، کلچر، آرٹ، فوٹو گرافی اور شعر و ادب پر مسلط ہوئے تھے۔ جنگِ عظیم اوّل کی تباہیاں بھی اس تحریک کی پیدائش کا باعث بنی تھیں۔ آندرے بریتوں کے مطابق سرئیلزم ذریعہ بن رہی تھی، انسانی زندگی کے تجربے میں شعوری اور غیر شعوری معاملات کو باہم آمیز کرنے کا۔ خواب کی دنیا کو، فینٹیسی کی آمیزش کو، روزمرہ کی دنیا سے جوڑ کر اس حقیقت کو پیش کرنا جو وراے حقیقت، منطق اور دانش ہے، سرئیلزم کا مقصود ہے۔ اس ضمن میں سگمنڈ فرائیڈ سے بہت کچھ لیا گیا۔ تخیل کے گہرے چشمے کو خوب خوب کھنگالا گیا۔ اس گہرے کنویں پر اس سے قبل کسی نے توجہ نہیں دی۔ اس تحریک کو منفی تحریک خیال کرنا مناسب نہیں۔ یہ ایک مثبت تحریک رہی ہے۔ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ سرئیلزم میں منطق کی جگہ نفسیات کا عمل دخل رہا۔
تاریخ یہ بتاتی ہے کہ سرئیلزم کی داغ بیل دادائی (Dadaist) قلم کار آندرے بریتوں کے ۱۹۲۴ء کے منشور سے قبل ۱۹۱۷ء میں گیورجیو ڈی چریکو (Giorgio de Chirco) کی تصاویر کے زیرِ اثر پڑی۔ چریکو نے اپنے اس اسلوب کو ترک کردیا، لیکن اس کا اثر جرمن دادائی میکس ارنسٹ (Max Ernst) کی وساطت سے سرئیلسٹوں تک پہنچا۔ میکس ارنسٹ ۱۹۲۲ء میں پیرس ہجرت کرگیا اور دادائی تحریک ختم ہوگئی، لیکن اس کے کام کی باقیات سرئیلسٹوں کے کام پر اثر انداز ہوئیں۔ ساتھ ہی سگمنڈ فرائیڈ کی تحریروں نے اپنا جادو دکھایا۔ شروع شروع میں آندرے بریتوں کے گروہ نے ہپنا ٹزم سے کام لیا، لیکن اس کے خطرات کے پیشِ نظر جلد ہی اس کو خیرباد کہہ دیا۔ پھر یہ ہوا کہ آٹومیٹزم (Automatism) کا سلسلہ شروع ہوا۔ ایسے الفاظ کی جستجو ہونے لگی جن کے ساتھ کوئی خیال نہ جڑا ہو۔ مصوروں نے قلم اور روشنائی سے تصاویر بنائیں۔
۱۹۳۵ء میں بریتوں کی جانب سے یہ وضاحت سامنے آتی ہے ’’سرئیلزم کی تمام تر تکنیکی مساعی آغاز سے حال تک اس مقصد پر مشتمل رہی کہ ذہن کی گہرائی کی پرتوں تک رسائی کے ذرائع (راستوں) میں اضافے کیے جائیں۔ ’’مجھے یہ کہنا پڑے گا کہ آدمی ولی ہو، اپنے آپ کو ولی بنائے۔ (ایک ولی (seer) کے خطوط از رمباؤڈ)
منشور/ سرئیلزم از آندرے بریتوں
۱۹۲۴ء، Manifesto/ Surrealism by Andre Breton
زندگی کے بارے میں اتنا محکم یقین رہتا ہے۔ اس میں (زندگی میں) جو بے حد نازک ہے۔ حقیقی زندگی۔ اور آخر یہ یقین گم ہوجاتا ہے۔ آدمی، تسلیم شدہ خواب دیکھنے والا، روز بروز اپنی تقدیر سے زیادہ سے زیادہ مایوس ہونے والا ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔ بچے اپنے ہر دن کا آغاز دنیا کی کسی فکر سے آزاد رہ کر کرتے ہیں۔ خراب سے خراب مادی حالات ان کے لیے ٹھیک ٹھاک ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔ پیارے تخیل! میں تمھاری جس صفت کو سب سے زیادہ پسند کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ تم کبھی ؟؟؟؟ نہیں ہوتے۔
تب رہ جاتی ہے دیوانگی آدمی اس کی جانب بڑھتا ہے۔۔۔۔۔
وہ آزاد ہے اس کی آزادی میں کوئی خلل نہیں ڈالا جاسکتا۔
۔۔۔۔ کرسٹوفر کولمبس (Christopher Columbus) امریکا دریافت کرنے کے سفر پر ایک کشتی بھر پاگل آدمیوں کے ساتھ نکلا تھا۔ ہمیں تخیل کو پاگل پن کے حرف سے بندھا نہیں رکھنا چاہیے۔
پال ایلوارڈ Paul Eluard) (
ممتاز فرانسیسی لیریکل شاعر جس کو شعر و ادب میں سر ئیلسٹ تحریک کا بانی کہا جاتا ہے۔ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ وہ تینوں میں ایک تھا۔ دسمبر ۱۴، ۱۸۹۵ء سینٹ ڈینس (Saint Denis) فرانس، نومبر ۱۸، ۱۹۵۲ء، چارنٹون ای پونٹ فرانس (Charenton-ie- Pont)۔
جہاں تک شاعری کا تعلق ہے وہ خاصا مقبول شاعر تھا۔ اس کی شاعری کے کئی مجموعے شائع ہوئے۔
پہلی کتاب ان دنوں شائع ہوئی جب اس کی عمر بائیس برس تھی۔ وہ اپنے والدین کا اکلوتا فرزند تھا۔ اس کا خاندان پیرس جابسا اور وہیں اس نے اسکول میں داخلہ لیا۔ اس نے شاعری اور انگریزی میں جلد مہارت دکھائی۔ لڑکپن میں اس نے انگلستان میں بھی وقت گزارا۔ اسی زمانے میں وہ کسی بڑی بیماری میں مبتلا ہوا اور بیماری کا عرصہ اس نے سوئزرلینڈ میں بسر کیا۔ بیماری کے دوران اس نے ادب کا مطالعہ کیا۔ رمباڈ (Rimbared) بودلیئر (Baudelarie) اپولئی نیر (Apollinaire) کا مطالعہ کیا۔ اپنی ہونے والی بیگم گالا (Gala) کے زور دینے پر اس نے روسی ادیبوں لیو ٹولسٹوئے اور دوستوئیفسکی کو بھی پڑھا۔ اس نے سیاست میں بھی دلچسپی لینی شروع کی۔
جنگِ عظیم اول میں وہ پیدل فوج کے میڈیکل دستے میں شامل تھا۔ پہلی کتاب ۱۹۱۷ء میں شائع ہوئی اور ’’پیرس کے ایوانٹ- گارڈے گروپ میں شمار ہونے لگا۔ جلد ہی اس نے میکس ارنسٹ (Max Ernst) کے اشتراک سے ’Repetition‘ شائع کی (۱۹۲۲ء) گالا کی بے وفائی نے اس کا دل توڑ دیا اور وہ کہیں غائب ہوگیا۔ یہ خیال کرلیا گیا کہ اس کی وفات ہوگئی۔ دنیا بھر میں گھوم پھر کر وہ ۱۹۲۴ء میں فرانس لوٹا۔ فرانس لوٹنے کے بعد اس نے شعر و ادب میں جو تخلیقی کام انجام دیا، اس کی اساس پر وہ فرانس میں سرئیلسٹ شاعری کی اہم ترین آواز بن گیا۔ جہاں تک گالا کا معاملہ ہے، الوآرڈ اور گالا کے مابین ۱۹۳۰ء میں طلاق ہوگئی۔ اس کے چار سال بعد اس نے ماریاہنز المعروف نسچ Nusch)) سے شادی کی۔ اس کے بارے میں انتہائی خوب صورت نغمے تخلیق کیے۔
الوآرڈ کی عمر کا نصف آخر کمیونزم کے زیر اثر رہا۔ دوسری جنگِ عظیم کے ساتھ ہی اس نے سرئیلزم کو یکسر ترک کردیا۔ وہ ریاست کا ثقافتی سفیر بن گیا (نمائندہ سرکار) اور یورپ میں گھومتا پھرا۔ (یہ وہی زمانہ ہے جب ہندوستان کے ترقی پسند شعرا نے اپنا موقف تبدیل کیا۔ مخدم محی الدین نے اپنی مشہور نظم ’’یہ جنگ ہے جنگِ آزادی‘‘ لکھی)
۱۹۴۶ء میں نسچ وفات پاگئی۔ اس کی وفات کے بعد الوآرڈ نے ڈومنک لائورے (Dominique Laure) سے ۱۹۵۱ء میں شادی کرلی۔ ۱۹۵۲ء میں وہ دنیا سے رخصت ہوگیا۔
زیوس کلندرا (Zavis Kalandra)
مؤرّخ، صحافی، ادبی نقاد، مقالہ نگار اور دانش ور زیوس کلندرا فرنسٹاٹ (Frenstat) میں پیدا ہوا اور ۲۷ جون ۱۹۵۰ء پریگ میں وفات پائی۔
اس کے والد میڈیکل ڈاکٹر تھے۔ اسکول کی تعلیم کے بعد اس نے پراگ کی چارلس یونی ورسٹی سے کلاسک فیلو لوجی Philology اور فلوسوفی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ ۱۹۲۳ء میں کمیونسٹ پارٹی کا رکن بنا۔ وہ بائیں بازو سے وابستہ تھا۔ صحافت کو پیشہ بنانے کے بعد وہ بہت جلد مرکزی سیاسی اخبار ’روڈے پریوو‘ (Rude Praro) کا مدیر اعلیٰ مقرر ہوگیا۔
تیس کے عشرے میں اس نے پارٹی کی سرکاری روش سے اختلاف کرنا شروع کیا — کلندرا کا یہ مخالفانہ اور ناقدانہ رویہ ۱۹۳۵ء اور ۱۹۳۷ء کے دوران تیز ہوگیا جب جوزف السٹالن نے یو ایس ایس آر میں لوگوں کو پارٹی سے خارج کرنا شروع کیا۔ اس ظالمانہ صفائی اور چھانٹی کے خلا اس کی سخت تنقید نے اس کے خلاف اقدامات کو مہمیز کیا۔ اس کو ہر سرکاری خدمت سے برخاست کیا گیا۔ پارٹی سے نکالا گیا اور اس پر ٹروٹسکی کا حمایتی ہونے کا الزام لگا۔ کلندرا نے پارٹی میں ایک متبادل بازو کی بنیاد ڈالی۔ ۱۹۳۹ء میں گسٹاپو نے اس کو گرفتار کرلیا۔ اس کے خلاف قانون کے اقدامات کو خفیہ رکھا گیا جن کا تعلق یہودیوں اور دیگر لوگوں کو پیدل، سرحد سے پولینڈ اسمگل کرنے سے تھا۔ دوسری جنگِ عظیم کے دوران وہ کیمپوں میں قید رہا۔ جنگ کے خاتمے کے بعد اس نے سیاست ترک کی اور سائنسی مصروفیات میں لگ گیا۔ پارٹی سے اس نے بالکل قطع تعلق اختیار کرلیا لیکن فروری ۱۹۴۸ء کے بعد اس کو فریکو سلوویکیا کی خفیہ پولیس (ایس ٹی بی) نے گرفتار کیا۔ اس کے خلاف بہت بڑا جھوٹا مقدمہ چلایا گیا۔ مقصد یہ تھا کہ دوسروں کو عبرت ہو۔ آئندہ کوئی اور کمیونسٹ پارٹی کے خلاف بغاوت نہ کرسکے۔
اس کو بالآخر پھانسی کی سزا دے دی گئی۔ اس کے ساتھ پھانسی پانے والوں میں ملاڈا ہورا کووا Milada Horakova اور دیگر افراد شامل تھے۔
’’جنونی محبت‘‘ مصنف آندرے بریتوں
Mad Love (L’Amourfou) by Andre Breton
ادبی فکشن کی صنف سے متعلق اس کتاب کو متفقہ طور پر سرئیلزم کی تحریک کی کلاسک تسلیم کیا گیا ہے۔ یہ فرانس میں شائع ہوئی۔ اشاعت کا سال ۱۹۳۷ء ہے۔
بریتوں کی رائے میں محبت دنیا کی سب سے شان دار شے ہے۔ اس کو پوری شدت سے حسی انہماک سے محسوس کرنے کی ضررت ہے اور اس سلسلے میں تمام حدود پار کرلینا چاہیے۔
جزوی طور پر یہ شعری بوطیقااور جزوی طور پر آپ بیتی ہے۔ آندرے بریتوں اور آرٹسٹ جیکولین لامداکے تعلقات کی۔
اس کتاب میں اس کے علاوہ خاصی ادب کی تاریخ اور شاعروں اور ادیبوں کا حوالہ ملتا ہے۔ یہ حوالہ جات سرئیلزم کی تحریک سے ماقبل عہد کے شعرائکو اپنی لپیٹ میں لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر الفریڈ جاری (Alfred Jarry) کومٹے ڈی لائوٹر یا مونٹ Comte de Lautreamont اور ملارمے (Mallareme)۔
Angel lyre
اس کا خاکہ کچھ ایسا بنتا ہے۔ گبرو سا،گول مٹول چہرے والا پیارا سا بچہ پروں والا، بادل کے اوپر سوار ہارپ (Harp) بجا رہا ہے۔ بائبل میں ایسے کسی ہارپ نواز فرشتے کا ذکر نہیں ملتا۔ اس کے باوجود متھ میں یہ الوہی وجود، ہارپ بدست موجود ہے۔ اس کے ہارپ سے پیدا ہونے والی الوہی موسیقی جاری و ساری ہے۔
ادب اور موسیقی کی دنیا میں زندہ و پائندہ ہے۔ استعارے کے طور پر، علامت کے طور پر اور حوالے کی صورت میں۔
موسیقی کو روح کی غذا کہا گیا، روح پرور بھی کہا گیا اور کہا جاتا ہے۔
گوئٹے نے موسیقی کو فرشتوں کی زبان قرار دیا ہے۔
بات اسی پر ختم نہیں ہوتی ’ہارپ‘ کو عام ساز کے بجائے ایسا ساز مانا گیا ہے جو روحانی معنویت کا حامل ہے۔ اس موضوع کو دیگر مذاہب تک لے جایا جاسکتا ہے۔ ملن کنڈیرا نے اس کا رشتہ ایک الم ناک سانحے سے جوڑ دیا ہے۔
چند اقوال
۰ ’’میں ریاکار نہیں تھا، ایک اصلی اور کئی نقلی چہروں والا۔ میرے کئی چہرے تھے۔ کیوں کہ میں نوجوان تھا ،اس سبب سے نہ جان سکا تھا کہ میں کون تھا اور کیا بننا چاہتا تھا۔
۰ ’’جو کچھ غلط ہوا اس کو کوئی بھی صحیح نہیں کرسکتا لیکن ساری غلطیاں فراموش ہوجاتی ہیں۔‘‘
۰ ’’کیوں کہ ایسی دنیا میں جینا جس میں کسی کو معافی نہ ملتی ہو، جہاں سب ہی بخشے نہ جانے والے ہوں، ایس اہی ہے جیسے دوزخ میں رہنا—‘‘
۰ ’’رجائیت لوگوں کے لیے افیم ہے۔‘‘
۰ ’’بہرحال میں کسی عورت میں جو کچھ پسند کرتا ہوں وہ نہیں ہے جس کی وہ حامل ہے اور جس کو وہ اپنا وصف خیال کرتی ہے بلکہ وہ اپنا رُخ جو وہ مجھے پیش کرتی ہے—‘‘
۰ ’’جو لوگ اپنے مکانوں کی چھتوں پر چڑھ کر اپنی خوشیوں کا اعلان کرتے ہیں اکثر بے حد غم زدہ ہوتے ہیں۔‘‘
۰ ’’میں جانتا ہوں میرے لیے یادوں سے راہ فرار نہیں کیوں کہ میں ان کے حصار میں ہوں۔‘‘