ایل او: کسی فن کار کو سمجھنا، اس کے فن کو سمجھنا ہے، نہ کہ اس کی ذاتی شخصیت کو۔ دونوں باہم ملتے جلتے ہوں، نہ بھی ملتے ہوں۔ اکثر اوقات وہ نہیں ملتے اور آدمی دھوکے میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اس طرح کے امکانات کا خاتمہ فوری طور پر ہوگیا، کیوںکہ مصنف نے باتوں میں فصاحت و بلاغت آمیز نہیں کی۔ مصنف کا فن مشتمل ہوتا ہے عام مابعد الطبیعیاتی اور ایکزٹینشیل مسائل کو غیر معمولی اور منفرد سماجی، تاریخی حوالوں سے آمیز کرنے پر۔
ملن کنڈیرا: ہمیں مسئلے کو آسان بنانا چاہیے جو بہت بڑا ہے۔ اس کا محدود کرلیتے ہیں ناول تک۔ چار بڑے ناول نگار ہیں: کافکا، بروچ (Broch)، میوسل (Musil)، گومبرو وکز (Gombrowicz)۔ میں ان کو مرکزی یورپ کے عظیم ناول نگاروں کا ستاروں کاجھرمٹ سمجھتا ہوں۔ پراؤسٹ (Proust) کے بعد ناول کی تاریخ میں ان سے بڑا اورا ہم ناول نگار مجھے دکھائی نہیں دیتا۔ ان کو جانے بغیر ہم جدید ناول کے بارے میں کچھ بھی نہیں جان سکتے۔ مختصراً، یہ مصنف جدید ہیں۔ ایسا کہنے سے یہ مقصود ہے کہ یہ نئے فارمز کی جستجو کا جذبہ رکھتے ہیں۔ ساتھ ہی نئے نظریات (Avant- Grade Ideology) سییہ سب غیر وابستہ (جیسے ترقی کا عقیدہ، انقلاب وغیرہ)، صرف ناول کے آرٹ کو وسیع تر کرنے کے خواہش مند ہیں۔ یہ قلم کار ’روایت‘ کو حقیر نہیں گردانتے، بلکہ روایتِ دیگر کا انتخاب چاہتے ہیں۔ یہ سب انیس ویں صدی سے قبل شائع ہونے والے ناولوں کے دل دادہ ہیں۔ میں اس عہد کو ناول کی تاریخ میں واقع ہونے والا پہلا نصف وقفہ قرار دیتا ہوں۔
اس ’پہلے نصف وقفے‘ سے چشم پوشی کے باعث ہم ریبے لائس (Rabelais)، سروانٹے (Cervantes)، اسٹرنے (Starne)، ڈائی ڈیروٹ (Diderot) سے غافل ہوئے اور اس رول کا خاتمہ کیا جس کو میں ’’ناولی تفکر‘‘ (Novelistic Meditation) کہتا ہوں۔ یہاں ہمیں کسی قسم کی غلط فہمی میں نہیں پڑنا چاہیے۔ یہاں میں نام نہاد فلسفیانہ ناول کی بات نہیں کررہا، جس کا مطلب یہ ہوگا کہ ناول کو فلسفے کے تابع کیا جائے۔ خیالات اور نظریات کو ناول کے پیرائے میں مصور کرنا۔ یہ سارتر ہے۔ اس سے زیادہ کامیو ہے، لاپسٹے (La Peste) ہے۔ یہ اخلاقیات کا مبلغ ناول ایسے ناولوں کا نمونہ ہے جن کو میں ناپسند کرتا ہوں۔ میوسل یا بروچ کی نیت قطعی مختلف ہے۔ ان کی نیت فلسفے کی خدمت گزاری نہیں، بلکہ ایک ایسے علاقے کا حصول ہے جس کو فلسفے نے اپنے قبضے میں کر رکھا تھا۔ مابعد الطبیعیاتی مسائل، انسان کی زندگی اور موجودگی سے متعلق مسائل جن کو فلسفہ اپنی گرفت میں لینے کی ناکام کوشش کرتا رہا۔ جن کو ناول ہی سنبھال سکتا تھا۔
ان ناول نگاروں نے (بروچ اور میوسل بطور خاص) ناول کو اعلیٰ شعریت اور دانش کے امتزاج کی صورت دے کر ثقافتی کلیت کی حدود میں واضح اور نمایاں مقام عطا کیا۔ یہ قلم کار امریکا میں کم جانے گئے۔ میں نے اس صورتِ حالات کو ہمیشہ ایک نوع کے دانش ورانہ اسکینڈل سے تعبیر کیا ہے۔ اگر امریکی ناول کی روایت پر سوچا جائے تو یہ ایک طرح کی جمالیاتی غلط فہمی دکھائی دیتی ہے جو ناقابلِ فہم بھی لگتی ہے۔
امریکا ناول کے پہلے نصف وقفے (ہاف ٹائم) کے دوران موجود نہیں تھا۔ دوسرے ہاف ٹائم میں جب مرکزی یورپ کے بڑے ناول نگار اپنے شاہ کار ناول تخلیق کررہے تھے، امریکا کے اپنے ستاروں کی جھرمٹ چمک رہی تھی اور ناول کی دنیا کو چمکا رہی تھی۔ یہ جھرمٹ مشتمل تھی ہیمنگوے، فوکنر اور ڈوس پیسوس (Dos Passos) جیسے قلم کاروں کی۔ امریکی ناولوں کی جمالیات میوسل کی جمالیات سے مختلف تھی۔ جریدہ ’’نیویورکر‘‘ (New Yorker) نے ’’اَن بیئرایبل لائٹ نیس اوف بینگ‘‘ کے ابتدائی تین حصے چھاپے، لیکن انھوں نے نطشے کے دائمی واپسی سے متعلق حصوں کو حذف کردیا۔
میری نگاہ میں جو کچھ میں نے نطشے کے دائمی واپسی کے نظریے کے بارے میں کہا، اس کا کچھ لینا دینا (تعلق) فلسفے نہیں ہے۔ یہ توپیرا ڈوکس کا سلسلہ ہے جو ناولیت سے باہر یا کم نہیں۔ بعینہٖ ناول کے وقوع یا مکالمے جیسا ہے۔
ایل او: کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ ان مصنفوں سے آپ متأثر ہوئے ہیں؟
میلان کنڈیرا: مجھ کو متأثر کیا؟ معاملہ کچھ اور ہے۔ میں جمالیات کی اسی چھت کے نیچے ہوں، جس کے نیچے وہ ہیں۔ جوئس یا پراؤسٹ کی چھت کے نیچے نہیں۔ ہیمنگوے کی چھت کے نیچے بھی نہیں (اس کی تعریف کرنے کے باوجود)۔ میں جن مصنفوں کی بات کررہا ہوں وہ ایک دوسرے سے متأثر نہیں تھے۔ وہ ایک دوسرے کو پسند بھی نہیں کرتے تھے۔ بروچ، میوسل پر تنقید کرتا تھا (بہت زیادہ ہی)۔ میوسل، بروچ کی مخالفت کرتا تھا۔ گمبرو وکز، کافکا کو پسند نہیں کرتا تھا اور اس نے کبھی بروچ یا میوسل کا ذکر تک نہیں کیا اور وہ تین اس سے ممکن ہے آشنا نہ تھے۔ اگر ان کو یہ پتا چلتا ہے کہ میں نے ان کو ایک گروہ میں کیا ہے تو وہ مجھ پر غصہ کرتے۔ شاید درست ہی کرتے۔ شاید میں نے اس ستاروں کے جھرمٹ کو اس خیال سے ایجاد کیا تھا کہ اپنے سر پر ایک چھت دیکھ سکوں۔
ایل او: کس طرح آپ کا مرکزی یورپ کا نظریہ ’’سلاوک دنیا‘‘ اور ’’سلاوک کلچر‘‘ سے ہم رشتہ ہوتا ہے؟
ملن کنڈیرا: سلاوک زبانوں کے مابین ایک لسانی اتحاد ہے، لیکن سلاوک کلچر کے اتحاد کی کوئی صورت نہیں۔ سلاوک ادب کا وجود نہیں ہے۔ میں خود اپنی کتابوں کو سلاوک حوالے سے شناخت نہ کرسکوں گا۔ یہ حوالہ مصنوعی اور جھوٹ ہوگا۔ مرکزی یورپی حوالہ (جو لسانی طور پر جرمن- سلاؤ- ہنگرین ہے) میری کتابوں کا زیادہ صحیح حوالہ ہوگا، لیکن یہ حوالہ بھی ہمارے لیے زیادہ کام نہ دے گا جب ہم ناول کی معنویت اور قدر و قیمت کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ میں بار بار اپنا یہ مؤقف دہراتا رہوں گا کہ ناولانہ کام کی معنویت اور اور قدر کو نمایاں کرنے کے لیے یورپی ناول کی تاریخ کا حوالہ ہی درست حوالہ ہوگا۔
ایل او: آپ مستقل طور پر یورپی ناول کا ذکر کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ آپ کی نظر میں عام طور پر امریکی ناول کم اہم ہیں؟
ملن کنڈیرا: آپ نے یہ بات چھیڑی، اچھا کیا۔ مجھے یہ بہت پریشان کرتا ہے۔ دراصل میں مناسب اصطلاح کا انتخاب نہیں کرپایا۔ جب میں کہتا ہوں ’’مغربی ناول‘‘ تو یہ اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ میں روسی ناول فراموش کررہا ہوں۔ جب میں کہتا ہوں ’’عالمی ناول‘‘ تو چھِپا رہا ہوتا ہوں کہ جس ناول پر میں بات کررہا ہوں وہ تاریخی لحاظ سے یورپ سے جڑی ہے۔ اس سبب سے میں ’’یورپی ناول‘‘ کہتا ہوں، لیکن اس صفت کو میں ’’ہسرلیانی مفہوم‘‘ (Hasserlian Sense) میں کہتا ہوں، جغرافیائی اصطلاح کے طور پر نہیں لیا، بلکہ روحانی مفہوم میں لیتا ہوں جیسا امریکا اور مثال کے طور پر اسرائل میں لیا جاتا ہے۔ جس کو میں یورپی ناول کہتا ہوں ،وہ سروانٹے سے فوکنر تک جاتا ہے۔
ایل او: مجھے خیال آتا ہے کہ جن مصنفوں کو آپ ناول کی تاریخ کے حوالے سے بہت اہم گردانتے ہیں اور ان میں جن کا آپ نے حوالہ دیا ہے کسی اور موقعے پر ناول کی صنف کے ارتقا کے معاملے میں اور ان کے تعلق سے متعلق کسی بھی کلچر کی تاریخ سے، ان میں کوئی عورت مصنف نہیں۔ اگر میں غلط ہوں تو مجھے صحیح کریں۔ آپ کے مضامین اور انٹرویوز میں بھی کہیں خواتین مصنفوں کا ذکر نہیں ملتا۔
ملن کنڈیرا: ہمیں ناول کی جنس سے سروکار رکھنا چاہیے نہ کہ ان کے مصنفوں کی جنس سے۔ تمام بڑے ناول، تمام سچے ناول ذو الجنسی (Bisexual) ہیں۔ کہنا یہ ہے کہ وہ دنیا کا تانیثی اور تذکیری دونوں وژن پیش کرتے ہیں۔ مصنّفین کی جنس جسمانی شخصیات کے طور پر ان کا ذاتی معاملہ ہے۔
ایل او: آپ کے سارے ناول صاف صاف چیک تجربے کو دستاویز کرتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں کیا آپ اپنے کو اس کے لائق پاتے ہیں کہ فکشن کی تخلیق کسی اور معاشرتی- تاریخی (Socio-Historical) سیاق میں کرسکیں، جیسے فرانسیسی، ایک مثال کے طور پر، جب کہ یہ واضح ہے کہ آپ پیرس میں خود کو ایٹ ہوم محسوس کرتے ہیں۔
ملن کنڈیرا: اس پر سوچتے ہیں۔ اس لمحے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ میں نے چیکو سلواکیا میں زندگی گزاری، اس وقت تک جب میں پینتالیس برس کا تھا۔ ایک قلم کار کے طور پر میرا حقیقی کیریئر شروع ہوا جب میں تیس برس کا ہوا۔ سوچیے، میری ادبی زندگی کا بڑا حصہ فرانس میں گزرنے والا ہے اور کسی بھی جگہ سے زیادہ فرانس سے جڑا ہوں۔
ایل او: آپ کی ’’آرٹ اوف دی ناول‘‘ یقینی طور پر ایک دل کش اثر کرنے والی شخصی گواہی ہے۔ میرے خیال میں بڑی حد تک اس کی اپیل کھلے طور پر اس حقیقت پر تکیہ کرتی ہے کہ وہ عالمی و دائمی جمالیاتی تجربات کے باطن کی آگاہی فراہم کرنے کے علاوہ (گو، یہ غور کے لائق ہے) وہ ناول کے بارے میں شخصی تھیوری پیش کرتی ہے۔
ملن کنڈیرا: یہ تھیوری بھی نہیں ہے۔ یہ پریکٹشنر کا اعتراف ہے۔ ذاتی طور پر پریکٹشنروں کو سننا بہت پسند کرتا ہوں۔ مجھ کو اولیور مسیائن (Oliver Messiaen) کی Technique de Man Lanuage Musical، اڈورنو (Adorno) کی ’’فلاسفی اوف موڈرن میوزک‘‘ سے ہزار گناہ زیادہ پسند آئی۔ شاید ٹائٹل کے انتخاب میں مجھ سے غلطی سرزد ہوگئی، کیوںکہ اس سلسلے میں ایک علاحدہ مقالے کی ضرورت پڑتی ہے۔ آروں ایشر (میرے امریکی مدیر) نے کتاب کے آخری حصے سے ٹائٹل کا استخراج کیا تھا۔ Man Thinks God Laughs۔ آج میں سوچتا ہوں کہ وہ ٹائٹل بہتر ہوتا، لیکن میں ’’آرٹ اوف دی ناول‘‘ ہی پر قائم ہوں۔ اس کا سبب ذاتی اور جذباتی ہے۔ جب ستائیس اٹھائیس برس کا تھا، میں نے ایک چیک ناول نگار پر کتاب لکھی تھی۔ میں ولادسلاف وینکورا (Vladislav Vancura) کا بہت خیال کرتا تھا۔ اس کتاب کا ٹائٹل تھا ’’دی آرٹ اوف دی ناول‘‘ وہ کتاب ناپختگی کی نشانی ہے۔ اس کو دوبارہ شائع نہیں کیا جائے گا۔ بہرحال میں گزرے ہوئے برسوں کی یاد تازہ رکھنا چاہتا ہوں، اس سبب سے اس ٹائٹل کا انتخاب کیا۔
ایل او: آخر میں، کیا آپ اپنے فکری سفر کے متعلق، ادب کے بارے میں، دنیا سے اس کے رشتے کے بارے میں، کلچر سے جوڑ کر یا فرد سے مربوط کرکے کوئی بڑی تبدیلی محسوس کرتے ہیں؟ کیا اپنے خیالات کے سفر کو سیدھی راہ پر رواں دیکھتے ہیں یا نشان دہی کرتے ہیں کسی تبدیلی کی ادب کی جمالیات میں ترقی کے ساتھ؟
ملن کنڈیرا: جب تک میں تیس سال کا تھا، میں نے بہت کچھ لکھا، موسیقی، سب سے زیادہ، شاعری بھی، ایک ڈراما بھی۔ میں مختلف جہات پر کام کرتا رہا، اپنی آواز پانے کے لیے۔ اپنے اسلوب اور اپنے آپ کو پانے کے لیے۔ میں نے اپنے افسانوں کے مجموعے لاف ایبل لوز (Laughable Loves) کا پہلا افسانہ ۱۹۵۹ء میں لکھا۔ مجھے یقین ہوگیا کہ میں نے اپنے آپ کو پالیا۔ میں نثر نگار بن گیا، ناول نگار، اور میں کچھ اور نہیں ہوں۔ اس کے بعد میری جمالیات میں کوئی تغیر میں نے نہیں دیکھا۔ وہ رواں ہے آپ کے لفظ کے مطابق سیدھی لائن پر۔