میاں لچھن ہمارے ایک قریبی رشتہ دار ہیں ان کا نام میاں لچھن اتنا زبان زدِ عام ہے کہ عام لوگ ان کا اصل نام جاننے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کرتے۔ ہمارا اور ان کا رشتہ آج سے ٹھیک بتیس سال آٹھ ماہ (نکاح والے بتیس روپے آٹھ آنے نہیں) قبل اس وقت قائم ہوا جب ہم اس دنیا میں وارد ہوئے۔ معلوم نہیں ہماری پیدائش پر میاں لچھن نے بغلیں بجائیں یا بغلیں جھانکیں لیکن ہمیں ان کے حلقۂ ارادت بلکہ حلقۂ برخورداری میں شامل ہو کر گونا گوں مسرتوں کا احساس ہوا۔ گویا ہم جنت سے اتر کر سیدھے طلبگارِ جنت کے عقیدت مندوں کی فہرست میں شامل ہو گئے، خوبصورت تراشیدہ مونچھیں، چہرہ گول کم اور معصوم زیادہ ناک ستواں، چمکدار آنکھیں جو دن کا بیشتر حصہ سیاہ چشمے کا پردہ کر کے گزارتیں، سر پر روئی ایسے بالوں میں سیاہ خار بھی، در میانہ قد، جسم نہ موٹا نہ پتلا خوش پوش و خوش لباس، نام کے بارے میں تجسس ہوا۔ والدہ سے معلوم ہوا کہ چونکہ ان کی پیدائش بڑی دعاؤں اور منتوں کے بعد ہوئی تھی اس لئے ان کے والدین نے ان کا نام بڑے چاؤ سے رحمت اللہ رکھا تھا۔ تاہم عالم شیر گی میں بھی انہوں نے ایسے ایسے لچھن دکھائے کہ لوگ انہیں رحمت اللہ کی بجائے لچھن کہہ کر پکارنے لگے، عمر میں اضافہ ہوا تو ترقی دے کر میاں لچھن بنا دیا گیا۔
میاں لچھن قیام پاکستان سے قبل برطانوی فوج کو خوش کرتے رہے اور اتنا خوش کیا کہ دوسری جنگ عظیم کے اختتام تک کرسی صدارت تو خیر نہیں کرسی افسر ضرور فتح کر چکے تھے۔ امتدادِ زمانہ نے بل کھایا اور برطانوی سرکار کا سایہ عافیت سر پر موجود نہ رہا تو ایک دفتر میں بطور معمولی کلرک بھرتی ہو گئے۔ مگر اپنی صلاحیت کی بجائے خداداد مہارت علومِ خوش آمد و چاپلوسی کے بل پر بطور افسر ریٹائر ہوئے۔ دفتر کا نام صیغۂ راز میں رکھا جا رہا ہے۔ ور نہ ہزاروں درخواست دہندگان برائے امورِ ضروری ان کے گھر کا گھیراؤ کر کے اپنے ان نذرانوں کی واپسی کا مطالبہ کریں گے جن کا اندراج دفتر کی کسی فائل کی بجائے ان کی ذاتی ڈائری میں موجود ہے جسے وہ اپنے ساتھ ہی دفتر سے اٹھا لائے تھے۔
اگرچہ میاں لچھن کی کئی باتیں غور و تشریح طلب تھیں مگر بطور خاص سیاہ چشمے کی مسلسل موجودگی ہمیں بڑی شاق گزرتی تھی۔ ایک دن میاں لچھن کو اکیلا پا کر ہم نے ان سے پوچھ ہی لیا۔
’’ماموں جان! کیا آپ کی نظر کمزور ہے؟‘‘
’’نہیں تو‘‘ اس اچانک حملہ سے میاں لچھن چونک اٹھے۔
’’کیا آپ کی آنکھوں میں کوئی نقص ہے؟‘‘ ہم نے دوسرا سوال داغا۔ دوسرے سوال پر انہوں نے دائیں ہاتھ سے عینک کو ناک کے نیچے کھسکایا اور حیرت کے عالم میں فریم کے اوپر سے جھانکتے ہوئے بولے ’’نہیں بھئی تم کہنا کیا چاہتے ہو؟‘‘
ہم نے بچشم خود ملاحظہ کیا دونوں آنکھوں کی چمک دمک پر بڑھاپے نے ذرا بھی اثر نہیں کیا تھا۔ موتئے یا ککروں کا شائبہ تک نہ تھا۔ آنکھوں پر پلکیں بھی موجود تھیں۔ ہم نے کھسیانی نظروں سے پوچھا ’’ماموں جان! آپ سیاہ چشمے والی عینک کیوں لگائے پھرتے ہیں؟‘‘
میاں لچھن نے ایک زوردار قہقہے کا آغاز کیا مگر اسے درمیان میں ہی روک کر اپنی چمکدار آنکھوں سے گھورا پھر دونوں ہاتھ اوپر کر کے عینک سیدھی کی اور انگڑائی لے کر بڑے رازدارانہ لہجے میں استفسار کیا۔ ’’برخوردار! تم نے کبھی سرکاری محکمے میں نوکری کی ہے؟‘‘
ہمیں الٹے سوال پر بڑا تعجب ہوا۔ پوچھا ’’ماموں جان! بھلا آنکھوں اور سیاہ چشمے کا سرکاری نوکری سے کیا تعلق؟‘‘
’’میں نے جو پوچھا ہے اس کا جواب دو‘‘ اب ان کے استفسار میں حکم کی ملاوٹ تھی۔
’’ماموں جان! آپ کو پتہ ہے ہم ماضی میں ہی نہیں، حال میں بھی سرکاری نوکری سے وابستہ ہیں‘‘
’’تو پھر کبھی ایسا ہوا کہ تمہاری آنکھیں نیند سے ڈبڈبا رہی ہوں تمہارا کام کرنے کو جی نہ چا رہا ہو تمہیں یہ ڈر ہو کہ باس اس حرکت پر تمہاری جھاڑ جھپاڑ کر دے گا۔‘‘
’’ماموں جان! سرکاری ملازمت میں تو اس قسم کے حالات سے اکثر سابقہ پڑتا ہے۔‘‘
’’ان حالات میں سیاہ چشمہ، اسپرین کی گولی اور بزرگوں کی دعاؤں سے زیادہ اثر انگیز اور تیر بہدف ہوتا ہے۔‘‘
’’وہ کیسے۔‘‘
’’برخوردار! اگر کبھی ایسا وقت عین ایام کار میں نیند آ جائے‘‘ میاں لچھن نے آگے جھک کر منہ ہمارے قریب کرتے ہوئے انکشاف کیا‘‘ تو فائل کو اپنے سامنے کھول لو۔ ایک ہاتھ میں قلم پکڑ کر اس پر جھک جاؤ۔ قلم والا ہاتھ فائل پر رکھو، دوسرے ہاتھ سے سیاہ چشمہ چڑھا کر بازو کو ٹھوڑی کے نیچے لگا کر ٹیک لگا لو اب چاہے آنکھیں بند کر کے سو جاؤ یا مراقبے میں چلے جاؤ کوئی جان ہی نہیں سکے گا کہ تم سرکاری وقت میں نیند پوری کر رہے ہو یا فائل کی قسمت پر آنسو بہا رہے ہو۔‘‘
’’واہ! یہ طریقہ تو بہت ہی خوب ہے۔‘‘ ہم نے خوشی سے اچھل کر کہا۔
’’مگر افسوس دنیا نے ہماری قدر نہیں کی‘‘ میاں لچھن ایک دم اداس ہو گئے۔ پھر ایک آہ سرد بلند کر کے بولے۔ ’’دنیا بڑی ظالم ہے۔‘‘
ہم میاں لچھن کے گراف طبیعت میں یکدم تنزلی پر حیران ہی نہیں، ششدر بھی ہوئے۔ آخر ہمت کر کے پوچھا۔ ’’یہ عینک کی ایجاد اور طریقہ واردات کا دنیا سے کیا تعلق ہے؟‘‘
’’برخوردار!‘‘ میاں لچھن نے گہری سانس لینے کے بعد کہا ’’سیاہ چشمے کے ذریعے نیند پوری کرنے کا طریقہ سب سے پہلے ہم نے ہی ایجاد کیا تھا۔ مگر افسوس کہ تاریخ میں ہمارا کوئی مقام نہیں، تاریخ دانوں اور عالمی ریکارڈ رکھنے والوں نے ہر ایرے غیرے کو یاد رکھا جس نے کسی کام کی ابتداء کی چاہے وہ اچھا تھا یا برا۔ مگر ہماری اس پُر مقصد ترکیب کا ذکر نہ کسی تاریخی کتاب میں ہے اور نہ کسی ریکارڈ میں۔ حالانکہ اس طریقہ سے ادنیٰ سے اعلیٰ افسر تک ملک کے لاکھوں ملازم یکساں استفادہ کر رہے ہیں۔‘‘
’’واقعی! یہ تو نا قدری اور جوہر نا شناسی کی انتہا ہے۔ مگر ماموں جان! ایک بات کی سمجھ نہیں آئی۔‘‘
’’وہ کیا؟‘‘ میاں لچھن اپنا غم بھول کر اچھلے۔
’’عینک کا دفتر میں استعمال تو سمجھ میں آیا مگر دفتر سے ریٹائر ہونے کے بعد بھی سیاہ چشمے کا استعمال سمجھ میں نہیں آیا۔‘‘
’’برخوردار! سیاہ چشمہ ہماری زندگی کے ہر قدم پر ایک مثالی کردار ادا کرتا ہے۔ یوں سمجھو ہماری کامیاب معاشرتی زندگی اس سیاہ چشمے کی مرہونِ منت ہے۔‘‘
’’معاشرتی زندگی اور سیاہ چشمہ؟‘‘
’’ہاں‘‘ میاں لچھن یوں چیخے جیسے ہم بہرے ہوں۔ معاشرے میں رہتے ہوئے لوگوں سے ملنا جلنا پڑتا ہے۔ وقت ملاقات سو بار جھوٹ بولنا، سننا، جلی کٹی سننا اور کہنا پڑتی ہے۔ ان حالات میں آنکھوں کے زیر و بم میں جو لحظہ بہ لحظہ اتار چڑھاؤ ہوتا ہے اس سے دوسرا آدمی فوراً اندازہ لگا لیتا ہے کہ حقیقت کیا ہے۔ چہرے پر سیاہ چشمہ منہ اور دل کے فرق کو چھپائے رکھتا ہے۔‘‘
’’واقعی؟‘‘ حیرت سے ہمارا منہ کھل گیا۔
’’بالکل ہی واقعی برخوردار‘‘ میاں لچھن وضاحت پر اتر آئے۔ ’’چشمہ کی موجودگی میں ہم نے کلرکی سے افسری تک کا سفر کیا۔ افسروں کی جھڑکیاں کھائیں اور ماتحتوں کو خون کے آنسو رلایا مگر کسی کو علم نہ ہو سکا۔ ہماری آنکھیں کیا کہتی ہیں؟‘‘
’’آنکھیں دل کی چغلی جو کھاتی ہیں‘‘ ہم نے میاں لچھن کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا۔
’’اور سنو! جب ہم پہلے پہل دفتر میں کسی سائل سے نذرانے کا ذکر کرتے تھے تو ہماری آنکھیں شرم سے جھک جایا کرتی تھیں اسی کیفیت میں بعض سائل اٹھ کر چلے جاتے اور ہمیں خبر بھی نہ ہوتی۔ ہم بدستور یکطرفہ سلسلہ کلام جاری رکھتے۔ ہم نے سیاہ چشمے کا استعمال شروع کیا تو اللہ نے شرم سے چند دن میں شفا دی اور ہم آنکھیں پھاڑ کر سائل پر نظر رکھنے لگے۔ اگر وہ اٹھ کر جانے کی کوشش کرتا تو ہمیں فوراً پتہ چل جاتا اور ہم بات کا رخ بدل دیتے۔ پھر جب وہ ذرا ٹکتا تو سلسلۂ کلام گھما پھرا کر وہیں لے آتے‘‘
’’ماموں جان! کاش ہم بھی آپ کی طرح سیاة چشمے کی افادیت سے آگاہ ہوتے تو قبل از وقت کور چشمی کا شکار نہ ہوتے۔‘‘
’’دیکھو مجھے اپنی تعریف قطعاً پسند نہیں، ہم تو افادہ عوام کے لئے ہر بات بتانے اور ہر نسخہ عام کرنے کو تیار ہیں۔‘‘
’’واقعی؟‘‘ ہم نے انہیں پکا کرنے کے لئے پوچھا۔
’’ہاں واقعی۔‘‘
’’اچھا تو ایک بات بتائیں اور وعدہ کریں کہ سچ سچ بتائیں گے؟‘‘
’’وعدہ رہا‘‘۔ میاں لچھن چہکے۔۔۔۔۔ ’’وعدہ؟‘‘
’’ہاں بھئی وعدہ‘‘ میاں لچھن دوبارہ چہکے۔
’’تو پھر یہ بتائیں کہ آپ بھرتی کلرک ہوئے تھے اور ریٹائر ہوئے افسر بن کر۔ اس کامیابی میں آپ کی کس صلاحیت کا ہاتھ ہے؟‘‘
’’برخوردار! تم کبھی نہ سمجھ سکو گے‘‘ میاں لچھن ذرا جھینپ گئے۔ یوں محسوس ہوا اب کے وہ واقعی کچھ چھپانے کی کوشش کر رہے تھے توقف ذرا طویل ہوا تو ہمیں شک گزرا۔
’’دیکھئے ماموں جان آپ وعدہ کر چکے ہیں‘‘ ہم نے سلسلہ کلام جاری رکھنے کی وسل دی۔ بالآخر میاں لچھن گویا ہوئے۔
’’جس طرح ایک مصرعے یا شعر میں تاریخ وفات، تاریخ پیدائش یا اہم حادثے کی تاریخ بیان کر دی جاتی ہے اسی طرح ہماری کامیابی کا سہرا بھی صرف ایک شعر میں پوشیدہ ہے۔‘‘
’’ایک شعر میں؟‘‘ ایک دفعہ پھر ہمارا منہ حیرت سے کھل گیا ’’کہیں آپ مذاق تو نہیں کر رہے۔‘‘
’’بالکل نہیں‘‘ میاں لچھن پر سکون انداز میں بولے ’’ہماری کامیابی کا راز صرف ایک شعر میں پوشیدہ ہے‘‘ پھر ذرا توقف کیا اور بولے۔
یہ ایک خوشامد جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار لفڑوں سے دیتی ہے آدمی کو نجات
ابھی یہ شعر مکمل ہوا ہی تھا اور ہم اس کی تشریح جاننے کے مشتاق تھے کہ دروازے پر زور زور سے دستک شروع ہوئی جو اس قدر دھماکہ خیز اور مسلسل تھی کہ ہم گھبرا کر دروازے کی طرف دوڑے مبادا میاں لچھن کی طرح بڑھاپے کی منزل پر رواں دروازہ سر جھکا کر صاحب دستک کو آداب نہ کہہ دے۔ باہر جا کر دیکھا۔ میاں لچھن کے ایک لنگوٹیے یار چمن خاں کھڑے ہیں۔ دروازہ کھلتے ہی وہ اندر آ گئے اور میاں لچھن سے گلے شکوے ہونے لگے۔ ہم تشریح کی حسرت لئے اپنے گھر آ گئے۔ ہمیں پتہ تھا کہ میاں لچھن اپنے لنگوٹیوں کی موجودگی میں اور تو اور اپنی زوجہ محترمہ کی مداخلت بھی برداشت نہیں کرتے۔
(تیس روزہ چاند اکتوبر 1989ء )
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...