حمایت علی شاعر
(مٹی کا قرض)
وقت کی آنکھ مجھے دیکھ رہی ہے ۔ میرا ہر عمل اُس کی نگاہ کی زد میں ہے ۔ میں جو کچھ دیکھتا ہوں ، جو کچھ سوچتا ہوں اور جو کچھ کہتا ہوں ۔۔۔ لمحوں میں تقسیم ہو کر وقت کی اکائی میں سمٹ جاتا ہے ، مجھے یہ اختیار نہیں کہ میں اِس اکائی سے اپنے کسی عمل کو الگ کر سکوں، میں گزرتے لمحوں کو روک سکتا ہوں اور نہ آنے والے لمحوں کے احتساب سے بچ سکتا ہوں ۔ میں چاہوں یا نہ چاہوں ، میری فرد عمل مرتب ہو رہی ہے اور میرے دل میں یہ دھڑکا بیدا رہے کہ تاریخ کا فیصلہ میرے حق میں کیا ہو گا؟
میں جو بیک وقت شاعر بھی ہوں اور ایک ایسا آدمی بھی جو اپنی پرچھائیوں میں بٹ چکا ہے ۔اِن پرچھائیوں میں اپنی وحدت کی تلاش اکثر مجھے اپنے آپ سے نبرد آزما رکھتی ہے اور شکست وریخت کے اِس عمل میں اکثر وہ شاعر بھی ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے جو میری روح کا استعارہ ہے اور میں عرصے تک اپنے بکھرے ہوئے ریزوں کو جمع کرنے اور انہیں پھر سے جوڑنے میں سرگرداں رہتا ہوں ۔ یہ عرصہ مجھ پر ایک عذاب کی طرح گزرتا ہے۔
’آگ میں پھول‘ سے لے کر’مٹی کا قرض‘تک میں کتنی ہی بار اس روح فرسا اذیت سے گزرا ہوں اور خدا جانے ابھی کتنے کرب انگیز مراحل سے گزرنا باقی ہے۔میں نہیں جانتا کہ روح اور بدن کی اس جنگ میں میرا کیا حشر ہو گا میں پرچھائیوں میں بٹے ہوئے آدمی کے ملبے تلے دب کر رہ جاؤں گا یا اُس شاعر کو بچا لاؤں گاجو مر کر بھی زندہ رہنا چاہتا ہے جو فنا میں بھی ثبات کے خواب دیکھتا ہے اور ظہور کے نت نئے پیرائے تلاش کرتا رہتا ہے
ظہور کی یہی آرزو شاعر کو تجربوں پر اُکساتی ہے اور اس کے فن کو وقت کی رفتار سے ہم آہنگ رکھتی ہے لیکن فن کا وقت کی رفتار سے ہم آہنگ ہونا ہی شاعری کی خوبی نہیں ہے ۔ شاعری جب تک تاریخ کے شعور سے روشن نہ ہو، اندھیرے میں چمکتے ہوئے جگنو کی طرح ہے ۔ تاریخ کا شعور، شاعر کو عہد شناس بناتا ہے اور معاشرے میں اقدار کے جدلیاتی عمل سے آگاہ رکھتا ہے۔
شاعری اسی معنی میں اپنے عہد کی تنقید بھی ہے کہ وہ تاریخ کے تسلسل میں عصرِ رواں کا نہ صرف محاسبہ کرتی ہے بلکہ محاکمہ بھی کرتی ہے اور یہ محاکمہ ثابت کرتا ہے کہ شاعر کااپنے زمانے سے رشتہ مجازی تھایاحقیقی ، جزوی تھا یا کُلّی۔۔۔ وہ گردو پیش کی دنیا میں صرف اپنی ذات کا سفیر تھا یا اپنے عہد کا وہ ہر کارہ بھی جو گھر گھر کا پیامبر ہوتا ہے، اس نے محض آب حیات پی کر خضر کی ابدیت کے خواب دیکھے یا وہ زہر بھی پیا ہے جو اپنی دھرتی کی محبت میں ’نیل کنٹھ‘ کو پینا پڑا تھا۔
حیاتِ ابدی کی لالچ میں تو سکندر نے بھی خضر کو رہنما کیا تھا اور اِسّر (راکھشش) بھی وہ امرت لے بھاگے تھے جو دیوتاؤں نے سمندر کو متھ کر نکالا تھا لیکن ۔ ۔۔ زہر وہی پیتا ہے جسے اپنی مٹی عزیز ہوتی ہے ۔
یہ مٹی کی محبت تھی جس نے آدم کو زمین پر اُتارا اور اپنی توہین کے انتقام پر اُکسایا۔ فطرت کی آتشیں قوت کے خلاف انسان کی جنگ جو ازل سے آج تک زندگی کے مختلف مورچوں پر لڑی جا رہی ہے،اِسی محبت کا اقرار ہے۔
شاعر اِس اقرار کو الفاظ عطا کرتا ہے اور ان الفاظ کو اپنے عہد کی آواز دے کر تاریخ کے حوالے کر دیتا ہے ۔ پھر تاریخ یہ فیصلہ کرتی ہے کہ اُس آواز میں صداقت کتنی تھی اور حسن بیان کتنا۔
میں نہیں جانتا کہ تاریخ کا فیصلہ میرے حق میں کیا ہو گا۔۔۔ میں جو صداقت کی تلاش میں اپنے کفن کا احرام باندھے کبھی اپنی ذات کا طواف کرتا ہوں اور کبھی اپنی دھرتی کا۔۔۔ اور ادب کی بارگاہ میں آواز دیے جاتا ہوں کہ میں حاضر ہوں ۔۔۔ میں حاضر ہوں۔
(۱۹۷۴ء) حمایت علی شاعرؔ
٭میرا دوسرا مجموعۂ کلام ’مٹی کا قرض‘( ۱۹۷۴ء)محترم مسلم ضیائی کے نام معنون ہے۔شاعرؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خلاء
خود فریبی کا اِک بہانہ تھا آج اُس کا فسوں بھی ٹوٹ گیا
آج کوئی نہیں ہے دور و قریب آج ہر ایک ساتھ چھوٹ گیا
چند آنسو تھے بہہ گئے وہ بھی دل میں اِک آبلہ تھا پھوٹ گیا
اب کوئی صبح ہے نہ کوئی شام روشنی ہے نہ تیرگی ہے کہیں
اُس کا غم تھا تو کتنے غم تھے عزیز وہ نہیں ہے تو آسماں نہ زمیں
ہر طرف ایک ہو کا عالم ہے سوچتا ہوں کہ میں بھی ہوں کہ نہیں
( حمایت علی شاعر کے مجموعہ ٔ کلام مٹی کا قرض میں شامل ایک نظم)