کیا وہ میرا ہو چُکا ہے
ہاں میں اب تمہارا اور تم میری
لیکن میری زندگی تو۔۔
ارےنھی زندگی تو اب شروع ہوئی ہے
لیکین میری زندگی اختتام کوہے
ایسے مت سوچو میں ہو نا
تمہارے پاس تمہارے ساتھ
ارے اب کُچھ مت بولنا بس ۔۔۔۔
مُعیز اور لاریب کے دلوں کی دھڑکنیں تک ملتی تھیں لیکین وقت نھی
لاریب کے پاس شائد اتنا وقت نھی تھا کہ وہ زندگی کیسے گزرے گی سوچتی
وہ بس جینا چاہتی تھی لیکین مشکل تھا۔۔۔
مُعیز نے بستر پر لیٹتے ہوۓ پُکارا ۔۔۔۔جانِ مُعیز۔۔۔
لاریب نے آنکھیں موند لیں اور بولی۔۔۔حُکم۔۔۔
ہو گئ نا میری ۔۔۔مُعیز نے دوسری طرف رُخ
کیا ۔۔۔
لاریب نے بھی دوسری طرف رُخ کیا اور بولی ۔۔۔ جیت گئ تمہاری پہلی نظر کی پہلی مُحبت۔۔۔
لاریب اور مُعیز کے دل اپس میں گفتگو کر رہے تھے۔۔۔جواب اور سوال خود سے ہی تھے۔۔۔بس تصور تھا ایک دوسرے کا اپنے قریب۔۔۔
******************
عدالتی کمرے میں سب موجود تھے
آریانہ جہاں کے علاوہ اور حبیب خان کے علاوہ سب تھے۔۔۔
کئ وہ تھے جن کا کوئ واسطہ نہ تھا
اور کئ وہ تھے جن کا مُجرم تھا انس
کیس چل رہا تھا ہر بندے سے تفصیل لی گئ۔۔۔
اور فیصلہ کا وقت آگیا۔۔۔نسرین کے جسم کا خون تک خشک ہو چُکا تھا۔۔۔
تمام ثبوت انس کو مُجرم ثابت کر رہے تھے۔۔۔
اور ہمارے قانون کے مُطابق اُس کو سزا سُنادی گئ۔۔۔
کوئ کُچھ نہ کر پایا بس “سات دفعہ پھانسی کی سزا ”
اور پین ٹوٹ گیا۔۔۔
نسرین بیگم نے ہاتھ جوڑے اور معافی کے لیے نھی بلکہ ایک دفعہ اپنے بیٹے کو گلے لگانے کے لیے۔۔۔۔
وہاں ہر آنکھ نم تھی
*****************
نسرین بیگم گھر روتی روتی پہنچی تو حبیب خان نے نظریں پھیڑ لی۔۔۔
لاریب پاس ہی صوفے پر بیٹھی تھی
کردار کی بات آئندہ آپ نہ ہی کریے گا نسرین آنٹی
اگر آپ کے بیٹے نے گناہ کیا ہے تو اُس کو سزا بھی ملی ہے
لیکین مت بھولیے گا آپ نے بھی قتل کے برابر جُرم کیے ہیں۔۔۔لاریب کہہ کر رُکی نھی اور کمرے کو بھاگ گئ
نسرین کی آنکھوں کے سامنے اپنے سارے گناہ آنے کو تھے .
لیکین وہ چکرا گئ اور گِر گئ۔۔
حبیب خان فوراً آگے بھڑے اور تھوڑی دیر ڈاکڑ کو بُلوا لیا گیا
لاریب سیڑھیوں پر جا کر رُک گئ تھی۔۔اور یہ منظر دیکھ کر جیسے اُس کے سینے کی آگ بھڑک اُٹھی تھی۔۔۔
صاحب جی صاحب جی میں آپ کو کب سے فون کر رہی تھی۔۔ وہ چھوٹی بیگم سیڑھیوں سے گِر گئ ہیں۔۔۔
اور فون کاٹ۔۔۔۔ دیا تھا۔۔۔
لاریب اُس وقت کُچھ نھی سمجھتی تھی۔۔۔لیکین آگے جا کر اُس کو اُس ملازمہ نے بتایا تھا۔۔کہ جب اُس کی ماں موت کی لڑائ لڑ رہی تھی تب کوئ نھی تھا۔۔کوئ نھی تھا ایک وہی ملازمہ تھی جو لاریب کی ہمدرد تھی۔۔۔اور نسرین کو کیسے برداشت ہوتا۔۔۔
کتنا ڪون بہا تھا میری ماں کا
اب تمہاری اولاد کو تڑپ تڑپ کر موت آۓ گی
تمہے موت نھی آۓ گی تم بس تڑپو گی
کسی کو موت کے کنویں میں ڈالنے سے پہلے تو نہ سوچا تھا بی بی نسرین تُم نے اب دیکھ خدا کیا کرتا ہے
لاریب ایک ایک لفظ دُبا دُبا کر کہہ رہی تھی۔۔۔۔
اور منہ پھیڑ کر باقی کی سیڑھیاں چڑھنے لگی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک ہفتے بعد۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آریانہ جہاں کا گھر خوشیوں میں ڈوب گیا تھا
لیکین ایک غم بھی تھا۔۔۔عہ اب کبھی ختم ہونے والا نھی تھا لیکین اُس کی کمی شائد پوری ہو جاتی
خلیل کی دُلہن آ چُکی تھی۔۔
لیکین خلیل کو کسی اور کی ہی فکر تھی۔۔۔
آریانہ جہاں نے نور کی خواہش دل سے پوری کی تھی
زیادہ شور نھی بلکہ سادگی سے بیاہی گئ تھی شہر بانو
۔۔۔۔۔۔۔۔
لاریب نے بھی تین بار قبول ہے کہہ دیا تھا اور
وہ مُعیز کے ساتھ تھی۔۔۔
اُس کو شدت سے تڑپ تھی کہ وہ مُعیز کو اپنی بیماری کا بتا دے لیکین وہ کیسے بتا سکتی تھی
لاریب تو مُعیز کی جان تھی ۔۔۔اور ہاں اب لاریب کا بھی دل تھا مُعیز ۔۔۔۔
نسرین انس کے غم میں مُبتلہ تھی۔۔وہ اُس شہر میں
کیاے رہ سکتی تھی جہاں بیٹا گُناہوں کی سزا پا لے۔۔
باتین بنا کر مُعیز کو ٹال دیا۔۔۔اور اُس کے گھر والوں کو بھی۔۔
رُخصتی کے وقت اُس کی آنکھوں میں ایک آنسو نہ تھا
جب زندگی ہی آنسو کا دریا ہو تو کیا ضرورت ہوتی ہے آنکھوں سے آنسو نکال کر دکھانے کی
،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رُخصتی ہوئ تو شہر بانو خلیل کی سلطنت پر راج کرنے کو تیار تھی
اور یہی حال لاریب کا تھا۔۔۔۔
لاریب کو کمرے میں پہنچایا گیا۔۔
مُعیز کمرے میں داخل ہوا تو اُس کا موبائل بجا
۔۔۔میسیج تھا۔۔۔
لاریب حبیب خان
جو کہ اب لاریب مُعیز ہے۔۔وہ اپنے سوتیلے بھائ کے گُناہوں کی بھینٹ چڑھ چُکی ہے۔۔۔
اب کیسے اور کتنی بار یہ نہ مجھے پتا نہ وہ بتاۓ گی۔۔۔
شادی مُبارک۔۔۔
لاریب خاموش بیٹھی اپنے عروسی جوڑے کو دیکھ رہی تھی جو اُس کی ماں کا تھا۔۔۔
اور پھر وہ تھک گئ۔۔کیوں کے مُعیز اُس میسیج کے بعد سب بھول گیا تھا۔۔۔۔
اور صوفے پر بیٹھا لاریب کو غصے کی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔۔۔
لاریب اُٹھی اور اُس کے ہاس آ کر بولی۔۔۔مُعیز مجھے چینج کرنا ہے۔۔۔
کپڑے بتا دو۔۔۔
مُعیز نے الماری کی طرف اشارہ کر دیا۔۔وہ اُسی طرح اُس کو دیکھ رہا تھا۔۔لاریب گھبڑا رہی تھی
وہ واشروم میں کپڑے لے کر چلی گئ
سادہ لان کا سوٹ کچے پیلے رنگ کا پہناتھا۔۔۔
وہ باہر آئ تو مُعیز وہی بیٹھا تھا..
مُعیز کیا ہوا ہے۔۔لاریب بولی
تم نے دھوکا دیا ہے۔۔مُعیز چند دیر کی خاموشی کے بعد بولا
جی کون سا۔۔لرزش بھڑی آواز نکلی
لاریب جا کر سو جاؤ مُجھے اور مت آزماؤ۔۔مُعیز بھاڑی آواز میں بولا۔۔۔۔
لاریب روتی روتی بیڈ کے کونے پر لیٹ گئ
مُعیز نے پاکٹ سے ڈبی نکالی اور اُس کی سائیڈ ٹیبل پر رکھ دی۔۔۔
اُس کے پاس ساری ڈیٹیل تھی اُس میسیج کی لیکین اب وہ نمبر بند تھا۔۔۔
کون ہے یہ خلیل
ہے کون میں کیسے پتا کرو کےا سچ ہے کیا جھوٹ
معیز خود سے بول رہا تھا
لاریب سُن چکی تھی۔۔
اُس کو نیند کہاں تھی
وہ زیر لب خلیل نام بربرائ
یہ کہی سُنا سُنا لگ رہا ہے۔۔۔اُس کے ذہن میں آیا۔۔۔۔لیکین اُس وقت اُس کو کُچھ سمجھ نھی آرہی تھی اپنے ساتھ لاۓ گۓ بیگ میں سے اُسے میڈیسن لینی تھی لیکین ممکن نھی لگ رہا تھا
مُعیز واشروم سے نکل آیا تھا لاریب نے فوراً دروازے کی آواز پر آنکھیں بند کر لی۔۔۔
مُعیز کی آنکھیں سُرخ ہو رہی تھی۔۔
لاریب کو خوف طاری ہو رہا تھا۔۔وہ بغیر دیکھے ہی جانتی تھی مُعیز کو غلط فہمی ہوئ ہے۔۔
^*****
شہر بانو کے ساتھ خلیل نے زندگی کا سُہانا سفر شروع کر لیا تھا۔۔لیکین کسی کی دو دِن کی زندگی کی خوشیاں چھِن کر ۔۔۔کیسے کوئ خوش حیاتی پا سکتا ہے۔۔۔
ایک دن کی خوشی بس لو چلو دو دن کی
بس
زندگی میں اگلی لمحے کا اندازہ نھی تو کیا کرنا۔۔۔
ایسی خوشیوں کا
۔۔۔
لو چلو دل کی تسکین کے لیے ہی سئ
۔۔۔۔
مگر خدا خوفی کا کون ڈر کھاۓ گا۔۔۔
۔۔۔۔۔
آریانہ جہاں نے شُکرانے کے نفل ادا کیے ۔۔۔۔
اور رحیم نے بھی سکون کی نیند لی
…………..
ادبی تنظیم بزم یاراں کے زیر اہتمام یوم اردو کی مناسبت سے تقریب کا انعقاد
صالحہ رشید کی رپورٹ پریاگ راج ۹؍ نومبر ، پریس ریلیز ادبی تنظیم بزم یاراں کے زیر اہتمام یوم اردو...