مایا یونی کی گراؤند میں بیٹھی اپنی سوچوں میں غرق تھی جب کسی نے پیچھے سے اسکی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیا۔ وہ چونک کر اپنی دنیا سے باہر آئ۔ اور پھر ہاتھوں پر اپنے ہاتھ رکھ کر جیسے کچھ محسوس کرکے وہ مسکرائ۔
“عنایہ” وہ مسکرائی۔
“افففف… تم ہر بار کیسے پتہ لگا لیتی ہو” عنایہ مصنوعی ناراضی سے کہتی منہ پھیلاتی بیٹھ گئ۔
“وہ کیا ہے نہ۔۔۔ دل کو دک سے راہ ہوتی ہے۔۔ بس اسی لیے مجھے پتہ لگ جاتا ہے” مایا نے مزے سے کہا۔
” جی نہیں۔۔۔ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے۔۔۔ آئ بڑی۔۔ اصل میں تو تمھارے پاس جن ہے جن سے فورا تم پتہ لگوا لیتی ہو کہ پیچھے کون کھڑا ہے۔” عنایہ نے پہلے مایا کی نقل اتاری اور پھر ایسے بولی جیسے کوئ اہم بات بتا رہی ہو.
” جی نہیں۔۔ تمھاری طرح فارغ نہیں ہوں میں جو جنوں کو قابو کرتی پھروں. ذہین بہت ہے ماشاءاللہ۔ ہر کسی کی پہچان ہے” وہ فخریہ لہجے میں بولی۔
” او او۔۔۔ ذہین بہت ہے۔ ذہین ہوتا تو یہاں ہوتی کیا۔ بی اے کی جگہ اپنے اس کھڑوس بھائ کے ساتھ ایم اے نہ کررہی ہوتی۔ ” عنایہ اسے چڑانے لگی۔
” چڑیلللللللل۔۔۔۔ خبردار جو آئیندہ میرے اتنے اچھے بھائ کو کھڑوس کہا۔ اور اسکا کیا مطلب ہوا کہ میں ایم اے کیوں نہیں کررہی۔ میں کونسا کوئ تین چار بار فیل ہونے جے بعد بی اے میں بیٹھی ہوں۔ اپنی عمر کے حساب سے صیحح تو جا رہی ہوں” مایا غصے سے کہتی یک دم حیرانی سے بولی۔
اوں اوں۔۔ تم نے کہا۔۔ ذہین بہت ہے۔ ۔۔۔بہت یعنی extra… اور extra دماغ والے خود کو ایک ہاتھ آگے ہی رکھتے ہے۔ اس لیے تمہیں ایم اے میں ہونا چاہیے تھا۔ “وہ مزے لے کر وضاحت کرنے لگی تو مایا نے آنکھیں پھاڑ کر اسے دیکھا۔
” تم تم۔۔۔ پاگل ہو پوری۔ نکلو یہاں سے۔۔ جاؤ بھوک لگی ہے مجھے کچھ لا کر دوں۔ بھاگو۔” وہ غصے سے کہتی اسے حکم دینے لگی۔
” چل چل۔۔ میں کوئ نہیں جا رہی۔۔ پیٹو خان۔۔۔ ہر وقت کچھ نہ کچھ کھاتی رہتی ہے ۔۔۔ موٹی۔۔۔” عنایہ نے فورا انکار کیا۔
” میں ہر وقت کھاتی ہوں۔۔ میں پیٹو خان۔۔۔ میں موٹی۔۔” وہ حیرت و صدمے کے ملے جلے تاثرات لیے بولی۔
” مجھے نہیں پتہ۔۔ تم خود جاؤ۔۔ اپنے لیے بھی کے لاؤ اور میرے لیے بھی جاؤ شاباش۔۔۔” وہ ریلیکس انداز میں بولی۔
جی نہیں میں نہیں جا رہی۔ میں تھک گئ ہوں بہت۔۔ پلیز نہ۔۔۔ جاؤ کچھ لے آؤ۔۔ بہن ہو نہ میری پیاری سی۔۔۔” وہ اسے مکھن لگاتے ہوۓ بولی تو عنایہ اسے گھورتے ہوۓ اٹھ کھڑی ہوئ۔۔
” دیکھ لوں گی میں تمھیں۔” وہ یہ کہتی آگے بڑھ گئ جبکہ مایا مسکراتے ہوۓ اسے جاتے دیکھتی رہی۔ وہ نظروں سے اوجھل ہوئ توکسی کے قدم اس کے پاس آکر رک گۓ۔ وہ شخص اس کے سامنے آ بیٹھا۔ مایا نے چونک کر اسے دیکھا۔ اور پھر شعیب کو دیکھ کر خوف کی ایک لہر اپنے اندر دوڑتی ہوئ محسوس ہوئ۔
“مایا” ۔۔۔ مسکراتے ہوۓ شعیب نے اسے پکارا تو گویا اس میں بجلی سی بھر گئ ہو۔ اس نے پھرتی سے اپنا بیگ اٹھایا اور آگے بڑھنے ہی لگی تھی جب شعیب نے اس کی کلائی پکڑ کر ایک جھٹکا دے کر اسے واپس اپنی جگہ پر بٹھا دیا۔ وہ اسکی حرکت پر ہکا بکا سی اسے دیکھے گئ۔
” تمھیں بھاگتا ہوا دیکھنے کے کیے نہیں آیا ہوں یہاں۔۔ بات کرنی ہے مجھے تم سے ” وہ اسے غور سے دیکھتے ہوۓ بولا۔
سرمئ سکارف کے حالے میں دمکتا چہرہ۔ کانچ سی آنکھوں ہر لمبی پلکوں کا سایہ۔۔ خوبصورت نازک ہونٹ۔۔۔
” بہت خوبصورت ہو تم۔۔ اتنی خوبصورت کہ ہر کوئ تمھاری خواہش کرے گا۔۔ لیکن میں تمھیں کسی اور کا نصیب نہیں بننے دوں گا۔۔ تم صرف میری ہو۔۔ صرف میری تقدیر ہو تم۔۔۔ ” شعیب گھمبیر لہجے میں کہتا اس کی طرف جھکا ہوا تھا۔۔
مایا خود پر ایک نامحرم کی نظریں اور لمس محسوس کر کے پہلے گھبرا گئ تھی مگر اس کی خود کے متعلق نا زیبا الفاظ نے جیسے اس کے اندر بجلی سی بھر دی تھی۔۔ اس نے ایک جھٹکے سے اپنی کلائی چھروائ تو شعیب قہقہہ مار کر ہنسا۔
” چھڑ والو جان من چھڑ والوں۔۔ مگر کب تک بھاگوں گی۔۔۔ آؤ گی تو تم میرے پاس ہی۔۔ !!” وہ یہ کہہ کر رکا نہیں آگے بڑھتا چکا گیا۔۔
مایا نے تنفر سے سر جھٹکا۔۔۔
” تم کیا جانو میرا نصیب میری تقدیر۔۔۔
پہلے یہ تو پتا چلا لو تمھاری تقدیر میں اگلا سانس لکھا بھی ہے کہ نہیں…
میرا محافظ اللہ تعالیٰ ہے۔۔ اور اس کے ہوتے ہوۓ تم جیسے مجھے کچھ نہیں کہہ سکتے۔۔!!
مایا نفرت سے بڑبڑاتی عنایہ کا انتظار کر نے لگی جو نجانے کہا رہ گئ تھی۔۔۔!!
وہ دونوں گاڑی میں بیٹھے آگے بڑھے چلے جا رہے تھے۔ وقار صاحب کے سخت آرڈرز تھے کہ آج سب ایک ساتھ نکلے گے۔ منگنی پر بھی وہ سب بہت لیٹ پہنچے تھے۔ اسی لئے وہ آج نکاح پر بلکل بھی لیٹ نہیں ہونا چاہتے تھے۔ اور وقار صاحب کے سامنے اب کو ناچار ماننا ہی پڑا۔ اب وقار صاحب اور سعدیہ بیگم حازق اور شارق کے ساتھ ان کی گاڑی میں تھے۔ زمان اور معصب دوسری گاڑی میں سعد کے کزنز کے ساتھ تھے۔ اور موئذ اور سعد الگ گاڑی میں تھے۔ وقار صاحب نے اور تو کوئی بھی تماشہ کرنے سے منع کردیا تھا مگر موئذ نے چابی سعد کو دے دی تھی کہ گاڑی دلہا خود ڈرائیو کرے گا۔ یہ سن کر سعد جو وقار صاحب کی بات سن مر خاموش ہو گیا تھا چابی دیکھ کر اس کا منہ بن گیا کیونکہ وہ پہلے بھی گاڑی کچھ خاص شوق سے نہیں چلاتا تھا اور آج کے دن تو اسکا بلکل کوئی موڈ نہیں تھا ڈرائیو کرنے کا مگر پھر موئذ کے گاڑی نہ چلانے سے اسے مجبوراً گاڑی خود ہی ڈرائیو کرنی پری۔
سعد کی گاڑی سب سے پیچھے تھی۔ وہ دونوں باتیں کرتے منزل کی طرف بڑھے چلے جا رہے تھے جب موئذ کے موبائل پر مخصوص رنگ ٹون بجنے لگی۔ اس نے چونک کر فوراً موبائل اٹھایا جو ڈیش بورڈ پر پڑا ہوا تھا۔
“موئذ۔۔ سب ٹھیک تو ہے نہ؟؟” موئذ کے چہرے پر پریشانی دیکھ کر سعد نو پوچھا۔
” یار۔۔۔ عنایہ اور ماہی دونوں اکیلے جا رہی تھی۔۔۔ میں نے کہا بھی تھا کہ ڈرائیور کے ساتھ چلی جانا مگر اس نے منع کر دیا تھا۔ اب ٹریکر انہیں بلکل اپازٹ سائٹ پر شو کروا رہا ہے۔ پہلے کچھ دیر گاڑی رکی بھی رہی۔ اب پتہ نہیں کہا جا رہی ہیں یہ؟؟” موئذ نے پریشانی سے سود کو بتایا۔ وہ شعیب کے بارے میں سعد سے ڈسکس کر چکا تھا۔ اس وقت بمشکل خود کو مایا کے سامنے قابو میں رکھ کر اسے بے فکر ہونے کو کہا تھا مگر درحقیقت اسے خود سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔۔۔ پھر اس نے سعد سے مدد لینے کا فیصلہ کیا جو صیحح ثابت ہوا۔ ٹریکر والا مشورہ سعد کا ہی تھا۔ اسی نے کہا تھا کہ وہ کسی ایسی چیز میں ٹریکر لگوالے جو وہ ہر وقت اپنے پاس رکھتی ہو تو موئذ نے مایا کا موبائل بہانے سے لیا تھا اور اس میں ٹریکر سیٹ کروادیا تھا۔
اس نے مایا کے موبائل پر اسکا روٹ اور لوکیشن سیٹ کردی تھی۔ اگر وہ اپنے روٹ سے ہٹتی تو اسے نوٹیفیکیشن مل جاتا۔ جو اسے مل گیا تھا۔۔!!
” یار تو پاگل تو نہیں ہو گیا۔ سب جانتے بوجھتے تو نے ان کو اکیلا جھیج دیا۔ ڈرائیو کو ساتھ نہیں لے جانا چاہتی تھی تو کم از کم ان کے پیچھے تو بھیج ہی سکتا تھا؟؟
سعد نے غصے سے اسے کہا۔ وہ اب گاڑی سائد پر روک رہا تھا۔ موئذ مسلسل موبائل کو دیکھ رہا تھا۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کریں…
” اچھا چل ٹینشن نہ لے ہوسکتا ہے وہ راستہ بھول گئے ہو۔۔ یا کسی اور روٹ سے جا رہے ہو” سعد نے تسلی دیتے ہوئےکہا..
” نہیں یار مایا کو سارا راستہ اچھی طرح سمجھا کر آیا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ اس کے علاوہ کسی اور راستے سے نہیں آنا۔ وہ دونوں چھوٹی بچیاں نہیں ہیں جو سمجھ نہ سکے۔ تو ایسا کر حازق یا زمان میں سے کسی کے ساتھ چلا جا۔ میں ان کو جا کر دیکھتا ہوں” موئذ نے کہا
” نہیں میں بھی تیرے ساتھ چلتا ہوں۔ اگر خداناخستہ کوئی مسئلہ ہوا تو کوئی تو ساتھ ہونا چاہیے” سعد نے کہہ کر آہستہ سے گاڑی آگے بڑھانہ شروع کی۔
” پاگل ہو گیا ہے۔ لیٹ ہو جائے گا تو۔ میں کسی اور کو لے جاتا ہوں ساتھ۔ لیکن تو تو جا نہ یار۔ انکل ناراض ہو گے ورنہ ۔۔” موئذ نے سعد جو منع کرتے ہوئے کہا مگر وہ سنے تب نہ۔
” کچھ نہیں ہوتا۔ دیکھ لیں بعد گے میں سب۔ فلحال ابھی یہ ضروری ہیں۔” سعد نے سنجیدگی سے کہہ کر نوئذ سےاسکا نوبائل لیا اور اس پر ان لوگوں کی لوکیشن دیکھتا گاڑی ڈرائیو کرتا گیا۔ ان کی گاڑی اب رک چکی تھی۔
” یہ تو ہال سے قریب ہی ایک کالونی میں رکی ہے” سعد نے پریشانی سے کہا تو موئذ نے بھی آگے ہو کر موبائل میں دیکھا۔ چند لمحوں بعد وہ وہاں پہنچ گئے تھے۔ وہ جگہ اندھیرے میں ڈوبی ہوئی قدرے سنسان سی تھی۔ دور سے بس ایک کوٹھی ہی نظر آرہی تھی۔ سعد ( جو عمران سیریز کا شوقین تھا۔ ایسی جاسوسی وغیرہ جیسی چیزوں میں اسکا کافی انٹرسٹ تھا) نے اپنی گاڑی کی لائیٹس آف کردی تھی۔
کوٹھی کو پاس پہنچ کر بھی اس نے گاڑی نہیں روکی تھی۔ بلکہ وہ گاڑی کوٹھی کے بیک سائیٹ پر لے گیا تھا۔ پیچھے کی طرف بھی آبادی نہ ہونے کے برابر تھی۔ سعد نے گاڑی کوٹھی کی دیوار کے بلکل ساتھ لگا کر کھڑی کردی تھی۔ سعد نے اپنی طرف کا دروازہ کھولا اور باہر نکل گیا۔ ساتھ ہی موئذ کو بھی اسی طرف سے باہر آنے کا اشارہ کیا۔ کیونکہ اسکی طرف جا دروازہ دیوار کے ساتھ لگنے کی وجہ سے کھل نہیں سکتا تھا۔ پیچھے کی دیوار زیادہ اونچی نہیں تھی۔ وہ گاڑی پر چڑھ کر اندر کود سکتے تھے۔
“اب؟؟” موئذ نے آہستگی سے سعد سے پوچھا ۔
” اب اندر کودنا ہے۔ ” سعد کہہ کر گاڑی پر چڑھ گیا اور ہلکی سی چھلانگ لگا کر دیوار کو دونوں ہاتھوں سے مضبوطی سے پکڑ لیا اور پھر تھوڑی سی مزید کوشش کے بعد وہ دیوار پر چڑھ کر بیٹھنے میں کامیاب ہو گیا۔ دیوار پر بیٹھ کر وہ اندر کا جائزہ لینے لگا۔ اور سعد جو اندر کسی کتے کی امید لگائے بیٹھا تھا۔ کتے کو نہ پا کر سکون کا سانس لیا۔ وہاں بڑے بڑے پتھر اور پودے لگے ہوئے تھے۔ سعد نو موئذ کو سب کلئیر ہونے کا اشارہ کیا اور اسے بھی اوپر آنے کا کہا۔ موئذ کے اوپر چڑھنے کے بعد دونوں نے ایک ساتھ چھلانگ لگا دی جس سے ہلکی سی آواز سناٹے کی وجہ سے زیادہ محسوس ہوئی۔ وہ۔دونوں فوراً ہی پتھروں کی اوٹ میں ہو گئے۔ چند لمحوں بعد جب کوئی نہ آیا تو وہ دونوں آگے بڑھے اور گھر کی سائیٹ سے ہو کر دیوار کے آخر تک پہنچ گئے۔ سعد نے ذرا سا سر نکال کر آگے دیکھا تو وہاں ان کی طرف پشت کئے ایک آدمی کرسی ہر بیٹھا ہوا تھا۔ غالباََ وہ سو رہا تھا کیونکہ اسکی گردن ایک طرف کو ڈھلکی ہوئی تھی۔
سعد نے سر واپس پیچھے کر کے موئذ کو اشارے سے ایک بھاری پتھر لانے کو کہا۔
سعد نے بھی احتاطا ایک پتھر پکڑ لیا اور آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگا۔ اس آدمی کے پاس بھی ایک ڈنڈا پڑا ہوا تھا۔ سعد نے آہستگی سے وہ ڈنڈا پکڑا اور دل میں آیت الکرسی پڑھتا وہ ڈنڈا اس آدمی کے سر پر مار دیا۔ جس سے وہ آدمی چیختا ہو اٹھا۔ اور موئذ ھو سعد سے ساتھ ہی آگیا تھا اس کا بندوق کی طرف بڑھتے ہاتھ پر زور سے اینٹ ماری اور ساتھ ہی سعد نے بھی اس کے سر پر دوبارہ ڈنڈا مار دیا۔ اتنے میں نوئذ نے آگے بڑھ کر اسے پکڑا۔ ایک اور بار ڈنڈا مارنے پر وہ بے ہوش ہا چکا تھا۔
دونوں نے مل کر اسے رسیوں سے باندھ دیا جو انہیں اندر گارڈ روم سے ملی تھی۔ اور ان کی قسمت کہ اندر سے بھی کوئی باہر نہیں آیا تھا۔
دونوں کے ہی دل پتے کی طرح لرز رہے تھے۔
وہ دونوں اب آحتیاط سے اندر کی جانب بڑھ گئے۔ اندر بلکل خاموشی تھی۔ وہ دونوں آگے بڑھتے گئے۔ سعد کے ہاتھ میں ڈنڈا تھا۔ کوٹھی کے بلکل آخری کمرے سے کسی کے بولنے کی آوازیں آرہی تھی۔ وہ دونوں دروازے کے ساتھ لگ کر کھڑے ہو گئے۔ اور چند لمحوں بعد ہی وہ یہ آواز پہچان چکے تھی اور حیرت سے ایک دوسرے کی شکل۔دیکھ رہے تھے۔ آواز کے ساتھ فہیم کی باتوں کو سن کر بھی وہ دونوں حیران پریشان ہو گئے تھی۔ اتنے میں موئذ نے آگے بڑھ کر کمرے کا دروازہ کھول دیا۔
اور اندر کا منظر دیکھ کر وہ دونوں حیرت سے اپنی جگہ ساکت رہ گئے۔
حسین صاحب کمرے میں بےچینی سے ٹہل رہے تھے۔ جبکہ سونیا بیگم بیڈ ہر بیٹھی رونے میں مصروف تھی۔ کچھ ہی دیر پہلے فہیم نے کال کر کے بتایا تھا کہ ندا اور مہک پارلر میں نہیں ہے۔ ڈراہیور کا فون بھی آف جا رہا تھا۔ فہیم نے انہیں کال پر تسلی دے کر اور ان کو ڈھونڈنے جانے کا کہنے کے ساتھ فلحال سب کو خاموش رہنے جا کہہ کر کال کاٹ دی تھی۔
باہر ابھی کسی کو بھی خبر نہیں تھی۔ حتہ کہ انہوں نے ابھی اپنے بھائی سے بھی یہ بات فلحال چپائی تھی۔
چند کمحے اور سرکے تو دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔ سونیا نے چونک کر اپنے شوہر کی طرف دیکھا تو حسین صاحب نے انہیں ہریشانی سے دیکھا تھا۔ خود کو سنبھالتے انہیں بھی اپنے آنسو صاف کرنے کا کہہ کر نوک کرنے والے کو اندر آنے کی اجازت دی تھی۔
دروازے سے ہریشان صورت لئے حسن صاحب اندد آئے تھے۔
“بھائی صاحب آپ کو پتہ ہے کہ عنایہ کہا ہے؟؟” وہ اپنی پریشانی میں انکی پریشانی دیکھ ہی نہیں پائے تھے۔
” کیا مطلب۔۔ کیا عنایہ بھی ابھی تک واپس نہیں آئی؟؟” حسین صاحب نے تشویش سے پوچھا۔
” بھی کیا مطلب۔۔ اور کون واہس نہیں آیا؟؟” انہوں نے چونک کر ہوچھا
” ندا اور مہک۔ دونوں پارلر میں تھی۔ واپسی کے لئے مجھے کال کی تو مجھے کاموں میں پتہ نہیں چلا۔ تو اس نے فہیم کو کال کردی۔ وہ بھی مصروف تھا اس نے کسی ڈرائیور کو بھیج دیا۔ مگر کافی دیر بعد جب وہ واپس نہ آئی تو ہم نے کال کی مگر سب کے نمبرز آف جا رہے ہیں۔ میں نے فہیم کو بھیجا تو ابھی تھوڑی دیر پہلے اس نے کال کرکے بتایا ہے کہ وہ دونوں پرلر میں نہیں ہے اور ڈرایئور بھی نہیں ہے۔۔۔” حسین صاحب نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔
” اتنا سب کچھ ہو گیا اور آپ ہمیں اب بتا رہے ہے۔ بارات تو بس اب آتی ہی ہوگی ۔۔” انہوں نے ہریشانی سے کہا۔
” تم نے فہیم کو بتایا؟؟” حسین صاحب نے پوچھا مگر انکے جواب دینے سے پہلے ہی فزا سب سے اںجان خوشی خوشی اندر آئی اور لڑکے والوں کے آنے کا بتا کر چلی گئی۔ سب نے ایک دوسرے کو پریشانی سے دیکھا۔
” اٹھو سونیا۔۔ سنبھالو خود کو۔ انشا اللہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اللّٰہ سب بچو کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ ” حسیں صاحب نے سنجیدگی سے کہا تو وہ دونوں بھی امین کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے اور سب کا استقبال کرنے باہر کی طرف بڑھ گئے۔