(Last Updated On: )
میری سیر کی تمنا، تھی مگر کہیں زیادہ
کہ فلک سے جوڑ کر بھی نہ ہوئی زمیں زیادہ
ترا دست شعبدہ گر، کھلا بعد وقت مجھ پر
ترے بازوؤں سے نکلی تری آستیں زیادہ
کبھی جیت کر نہ جیتے، کبھی ہار کر نہ ہارے
کہ دکھایا ظرف ہم نے کہیں کم کہیں زیادہ
ہے فراق میں بھی یوں تو، وہ مہِ منیر جیسا
ہو اگر قریں زیادہ تو لگے حسیں زیادہ
بڑا سخت واقعہ تھا، جسے سہہ لیا ہے میں تو
میرے حوصلے سے شاید مرا غم نہیں زیادہ
ہے وہی حریف امکاں جو گماں سے منحرف ہو
وہ منکروں میں ٹھہرے جو کرے یقیں زیادہ
٭٭٭