اَزک پرائمری سکول میں میری بدلی ہو گئی تھی۔ پوہ کا مہینہ تھا اور سردی جوبن پر تھی۔ میں سائیکل پر عصر کے وقت گاؤں پہنچا۔ سکول کا چوکیدار فرید و مجھے اپنی چوّنک پر لے گیا۔ فرید و اور میں رات کی روٹی کھا رہے تھے۔ ایک چھوٹا پلا کوٹھے میں گھس آیا۔ فریدو روٹی چباتے اُٹھا اور پلے کو اپنی چپلی کی تھوتھنی سے اُچھال اُچھال کر باہر پھینک آیا اور اُسے روٹی کا ٹکڑا دے کر واپس آ گیا۔ عشاء کی اذان کے وقت چونک آدمیوں سے بھر گئی۔ آگ کے الاؤ کے گرد مجمع لگ گیا۔ حقے کے دھوئیں میں قہقہے اڑتے رہے۔ پھر قصے کہانیوں اور سبز چائے کا دور شروع ہوا۔ گیارہ بجے وہ سب اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔
فریدو اور میں چونک کے دھوئیں میں رنگے کوٹھے میں زمین پر بچھی سوکھی خوشبودار کھاوی پر میلی رضائیاں اوڑھ کر لیٹ گئے۔
کچھ دیر بعد فرید و پیشاب کرنے باہر گیا تو سردی سے ٹھٹھرا پلا روتے ہوئے کوٹھے میں آ گیا۔ فریدو کچھ دیر تک شلوار میں ہاتھ دابے ادھر ادھر گھومتا رہا اور پھر پہلی فرصت میں اس نے پلے کو ہلکی ہلکی ٹھوکریں مار کر کوٹھے سے نکال دیا۔ ہم دروازہ بند کر کے آرام سے سو گئے پر پلا بیچارا باہر کڑاکے کی سردی میں چیختا چلاتا رہا۔ کوئی آدھی رات کے وقت پلے کی کاؤں کاؤں پر میری آنکھ کھل گئی۔ میرے دل میں خیال آیا کہ باہر جاؤں اور پلے کو اندر لے آؤں۔ میں ابھی اپنی سوچ کو عملی جامہ پہنانے کے لیئے منصوبہ بندی کر رہا تھا کہ فریدو بکھرے بال لئے، ڈائن کی طرح بسترسے اٹھا اور پلے کو پاؤں سے مار مار کے کہیں ٹھکانے لگا آیا۔ تقریباً گھنٹے بعد میری آنکھ پھر کھل گئی۔ میں نیند کے خمار میں تھا۔ مجھے ایسے لگا جیسے کوئی میرے بالوں سے جوئیں نکال رہا ہو۔ میں نے ذرا غور سے سننے اور محسوس کرنے کی کوشش کی۔
پلا دروازے کی دہلیز کے نیچے زمین کو پنجوں سے کریدتے ہوئے دھاڑیں مار رہا تھا۔ میں نے ارادہ کیا کہ فوراً اٹھ کر اسے اندر لے آؤں۔ پر ٹھاٹھیں مارتی نیند کی لہر نے ایک دم مجھے آ دبوچا اور میں ٹھنڈی دھند میں گم ہو گیا۔
میں صبح اٹھا تو دیکھا کہ پلا باہر کھرلی میں سردی سے مرونڈا بنا پڑا تھا۔ یہ جاننے کے لئے کہ وہ زندہ ہے یا مردہ۔ میں نے اسے جوتے کی نوک سے ہلکی سی ٹھوکر ماری۔ پلا پھڑک کر اٹھا، لمبی انگڑائی لیتے ہوئے اپنے جسم کو سیخ کی طرح سیدھا کیا۔ پھر میرے بے وضو پاؤں کو چاٹنے لگا۔ میں اسے کوٹھے کے اندر لے آیا۔ ناشتے میں فریدو چوپڑی روٹی اور چائے لایا۔ میں نے روٹی کا ایک ٹکڑا پلے کو دیا جسے وہ دیر تک چوستا رہا۔
اسی دن سے اس کی اور میری دوستی شروع ہوئی۔
میں اور پلا سکول میں رہتے تھے۔ میں نے اس کا نام بگا رکھا۔ چائے میں خود بناتا جبکہ سالن اور روٹی فریدو گھر سے لاتا۔ میں روٹی کے بچے کھچے کنارے بَگا کو دیتا۔ میں جہاں جاتا بگا میرے ساتھ ہو لیتا۔ میں کچھ عرصے تک بگا کو نر سمجھتا رہا مگر آہستہ آہستہ اس میں ماداؤں والی علامتیں ظاہر ہونے لگیں۔ دن بدن اس کا جسم لچکدار ہوتا گیا اور اس کی نسواری آنکھوں سے نخرے کوندنے لگے۔ میں نے اس کا نام “بَگی” رکھ دیا۔ اگر کوئی بے وقت سکول آتا تو وہ بھونک کر مجھے خبر دار کر دیتی۔
ازک میں میں اکثر تنہائی اور بوریت کا شکار رہتا۔ اور ایک ٹوٹی جھولتی کرسی میں ڈھیر لگا پڑا رہتا۔ بگی اپنی اگلی ٹانگوں کے درمیان اپنی لمبی ٹھوڑی رکھے لیٹی رہتی۔ ہم گھنٹوں ایک دوسرے کو تکتے رہتے۔ کبھی کبھار مجھے خیال آتا کہ کاش بگی انسان ہوتی یا میں۔۔ ۔ تو ہم ایک دوسرے کو بہتر سمجھ سکتے۔ ایک دوسرے کے لئے سہارا بنتے۔
راتیں چوروں کی طرح اور دن ڈاکوؤں کی طرح بھاگتے رہے۔ ٹھنڈی میٹھی رت میں بگی جوان ہو رہی تھی۔ وہ بہت چست اور خوبصورت ہو گئی تھی۔ اس کے یا ربیلی اسے ملنے بغیر اجازت سکول آ جاتے۔ صبح جب میں نیند سے بیدار ہوتا تو وہ میرے سامنے آ کر خمار زدہ انگڑائی لیتی اور پھر میرے سامنے اپنی ریشمی دم سے جھاڑو پھیرنے لگتی، میری قدموں کو چاٹتی۔
بگی اپنے معمول کے خلاف چلنے لگی۔ وہ اکثر اپنے یاروں کیساتھ نکل جاتی اور بے فرمان آوارہ بیٹے کی طرح گھر صرف روٹی کے وقت آ دھمکتی اور پھر اُلٹے قدم واپس چلی جاتی۔ مجھے بگی کیا س بے شرمی پر ذرا غصہ بھی آیا۔
ازک پرائمری سکول میں دو کمرے تھے۔ ایک کمرے میں میں بچوں کو سبق پڑھاتا اور دوسرے میں فریدو کا بھوسا، ٹوٹی چارپائیاں اور سوکھے مٹکے پڑے تھے۔ بگی نے اس کمرے میں بھوسے پر بچے دیئے۔ پانچ پلوں کو جنم دینے کے بعد اس کی آنکھوں سے نخرہ اور رومانس بھاگ گئے تھے۔ وہ ایک غریب ماں کی طرح ہر وقت بجھی بجھی اور سہمی سہمی رہتی۔ اب اس کا گزارہ میری چنگیر میں بچے ہوئے ٹکڑوں پر نہیں ہوتا تھا۔ اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے اُسے اپنا پیٹ بھرنا ہوتا۔ شام کے وقت وہ گاؤں کے گھروں میں بھکاری کی طرح پھرتی۔ کھانا کھانے والوں کے ہاتھوں اور روٹی چباتے مونہوں پر نظر گاڑے رکھتی۔ اس کا خوبصورت لچک دار جسم ڈھیلا ہو گیا تھا اور اس کا پیٹ نیچے ڈھلک آیا تھا۔
وہ ٹکڑے کھا کر دوڑتی واپس آتی اور اپنا سب کچھ اندھے بھوکے پلوں کے سامنے پیش کر دیتی۔ صبح تک پلے اس کے جسم سے قطرہ قطرہ دودھ چوس لیتے تھے۔ اگر ان کے دانت ہوتے تو اس کے تھنوں کو بھی کاٹ کر کھا جاتے۔ صبح بگی بمشکل چلنے کے قابل ہوتی۔ اس کے وہ یار بیلی، جنھیں وہ میری اجازت کے بغیر را توں کو چھُپ چھُپ کر ملنے جاتی تھی، کبھی اُس کا حال تک پوچھنے نہ آئے۔ حمل کا بوجھ اُٹھانا اور بچے جننا دھرتی کی تمام ماداؤں کا حیاتیاتی المیہ ہے۔ نر رنگین را توں میں آ جاتے ہیں، پیار کے جھولے جھول کر زندگی کا بوجھ ماداؤں کی گردن میں ڈال کر ٹھنڈے اندھیروں میں غائب ہو جاتے ہیں۔ بدمست نر ڈکارتے ہیں، سموں سے مٹی کریدتے ہیں، توڑ پھوڑ مچا کر چلتے بنتے ہیں جبکہ مادائیں زندگی کو سنبھالنے کیلئے تنکے اکٹھا کرتی رہتیں ہیں، دھول مٹی سے دانے چنتی رہتی ہیں۔
اب بگی کا زیادہ وقت اپنے بچوں کیساتھ گزرتا تھا۔ وہ مجھے ایسے دیکھتی جیسے میری اور اس کی دور کی جان پہچان ہو۔ اُس کے پلے بڑے ہوتے گئے۔ ایک دن اُس کا ایک پلا گلی میں نکل گیا اور اُسے کتوں نے مار دیا۔ دو دن بعد بچوں نے اس کے دو پلے چرا لئے اور دو پلے پکھی واس چھُپا کر لے گئے۔ اولاد کے بوجھ سے آزاد ہونے کے بعد وہ دوبارہ میرے قریب آ گئی۔
میں اور وہ ایک دوسرے کو گھنٹوں تکتے رہتے۔
ایک دن گاؤں میں محکمہ صحت کے دو آدمی آوارہ کتوں کو زہر دینے کے لئے آئے۔ گاؤں والوں نے اپنے اپنے کتوں کو یا تو گھروں میں باندھ لیا یا اُنھیں پٹے پہنا دیئے۔ میں نے اپنے ایک شاگرد سے گھنگروؤں والی گانی مانگی اور بگی کو پہنا دی۔ گلیوں میں آوارہ اور بے گھر کتے رہ گئے تھے۔ اُنھوں نے زہریلی گولیاں کھائیں اور ان کے بے آسرا لاشے گلیوں میں سڑتے رہے۔ بگی دو دن تک غائب رہی۔
دو دن بعد وہ مُنہ سے رال ٹپکاتی اور شرابی کی طرح جھومتی سکول آئی۔ میری سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ اُسے کیا ہوا ہے۔
” اُستاد لگتا ہے تیری سہیلی نے کہیں سے زہر یلی گولیاں اُٹھا کر کھائی ہیں “۔ فریدو نے کہا۔
ہم نے کتیا کو دودھ اور گُڑ کا شر بت پلایا مگر اُسے آرام نہ آیا۔ اُس کے مُنہ سے برابر جھاگ ٹپکتا رہا اور وہ پاؤں گھسیٹتے سکول سے چلی گئی۔
میں بگی کو مرا سمجھ رہا تھا مگر تین دن بعد وہ راکھ اور دھول سے بھری سکول آئی۔ وہ ہڈیوں کا پنجر رہ گئی تھی۔ میں اُسے زندہ دیکھ کر خوش ہوا۔
دو تین ماہ بعد گاؤں کے جنوب میں اوڈوں نے ڈیرہ لگایا۔ قسمت کی ماری بگی ایک دن اُن کی جھونپڑیوں کی طرف نکل کھڑی ہوئی۔ اوڈوں کے آٹھ دس کتوں نے بگی کو خوب نوچا۔ وہ ایک ٹانگ کو گھسیٹتے سکول آئی۔ اس کے جسم سے کئی جگہوں سے چمڑی اُدھڑی ہوئی تھی اور جگہ جگہ سے خون رس رہا تھا۔ فریدو اور میں نے اس کے زخموں پر تیل ہلدی لگائی۔ اُس رات وہ چین سے نہ سو سکی۔ وقفے وقفے سے وہ جاگ جاتی اور بیمار بچے کی طرح رونے لگتی۔
میں سردیوں کی چھُٹیاں درابن گزارنے کے بعد واپس سکول آیا تو بگی غائب پایا۔
” اُستاد تیری سہیلی کو پونّدے لے گئے ہیں ” چوکیدار نے مجھے خبر سنائی۔
” تو تُو نے اُنھیں روکا نہیں ؟”
“میں نے انھیں بہت روکا کیا مگر وہ نہ مانے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ بگی تو پیدا بھی ان کے ہاں ہو ئی تھی۔ ”
بگی کے بغیر مجھے سکول سُونا سُونا لگ رہا تھا۔
ڈیڑھ سال بعد میری بدلی کوٹ عیسیٰ خان ہو گئی۔ کوٹ عیسیٰ خان کے شمال میں پوّندوں کے خیمے تھے۔ ایک دن میں جنگل میں گھومنے گیا۔ ایک کتا تیزی سے میری طرف بھاگتا ہوا آیا۔ میں ڈر کر پوندوں کو آواز دینے لگا مگر قریب آنے پر کُتا کاٹنے کے بجائے میرے پاؤں میں لوٹنے لگا۔ یہ بگی تھی۔ وہ میرے ساتھ سکول آ گئی۔ پوندے سیٹیاں بجا بجا کراسے بلاتے رہے مگر وہ نہ گئی۔
میرے نئے پرائمری سکول میں انگریزوں کے زمانے کا ایک کمرہ تھا، جو کئی سالوں سے ویران پڑا تھا۔ بگی نے اس کمرے میں ڈیرہ لگایا۔ ہمارے دن ہنسی خوشی گزرنے لگے۔ چھ مہینے بعد بگی نے سکول کے ویران کمرے میں بچے دیئے۔ وہ شام کے وقت گاؤں کے گھروں میں روٹی کی بھیک مانگنے جاتی۔ ایک دن بگی سکول سے باہر گئی ہوئی تھی۔ ایک لڑکا اُس کا ایک پلا چرا کر بھاگا جا رہا تھا۔ کتیا نے اُسے دیکھ لیا۔ وہ اُس کے پیچھے بھاگی اور لڑکے کو پنڈلی پر کاٹ ڈالا۔ لڑکا ڈر کے مارے پلے کو چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوا۔ کچھ دیر بعد لڑکے کا بھائی اور ماں ڈنڈے سوٹے سنبھالے، بگی کو مارنے آ دھمکے۔ میں اُس وقت کمرے میں نہا رہا تھا۔ اُنہوں نے بگی پر ڈنڈے برسانے شروع کر دیئے۔ وہ بھاگتی میرے پاس آئی۔ میں کپڑے پہن کر باہر آیا۔
“تم اس گنگ دھن کو کیوں مارتے ہو؟ ” میں نے پوچھا۔
” اس نے میرے بچے کو کاٹا ہے ” عورت چلائی۔
” تیرا بچہ بھی تو اس کا پلا چرا کر بھاگ رہا تھا۔ اب تم لوگ ذرا اسے ہاتھ لگا کر تو دکھاؤ ! ” میں گرجا۔
وہ لوگ اُس وقت تو چلے گئے لیکن عصر کے وقت اُنہوں نے روٹی میں دس باراں سوئیاں چھپا کر بگی کو کھلا دیں۔ سوئیاں اس کے تالو میں پھنس گئیں۔ وہ ہانپتی، رال ٹپکاتی میرے پاس آئی۔ میں سمجھا ظالموں نے اس کو زہر دیا ہے۔ میں نے جلدی سے گڑ اور دودھ کا شربت بنایا اور لوٹے سے اُس کے منہ میں شربت انڈیلنے کی کوشش کرنے لگا مگر وہ اُسے نہیں نگل سکتی تھی۔ وہ رات اُس نے انتہائی کرب میں گزاری۔ اس کے حلق سے موت کی آوازیں آ رہی تھیں۔ کبھی وہ اپنے پلوں کے پاس جاتی اور کبھی میرے پاس آ جاتی مگر میں اُس کی کوئی مدد نہیں کر سکتا تھا۔
دوسرے دن صبح جب میری آنکھ کھلی تو بگی میری چارپائی کے قریب مری پڑی تھی۔ اُس کا ایک پلا لوٹے میں منہ ڈالے پانی پی رہا تھا۔ دوسرا اپنی ماں کی گردن پر سر رکھ کر سویا ہوا تھا۔ اور تیسرا پلا اُس کے مردہ تھنوں کو چوس رہا تھا۔
٭٭٭