(Last Updated On: )
فارس نے اسے گھر کے دروازے پر چھوڑا اور خود ننگے پائوں ہی حویلی چلا گیا۔
ماہ نور جیسے ہی اندر آئی اماں اور رجو دونوں دروازے میں ہی کھڑی تھی “”””آگئی میری بچی کدھر رہ گئی تھی یہ رجو بتا رہی تھی کہ کوئی گھنڈے تم دونوں کے پیچھے لگے تھے تم ٹھیک تو ہو نا
ارے اماں میں بلکل ٹھیک ہو وہ حویلی والوں کا چھوکرا آ گیا تھا مجھے دروازے تک چھوڑ کر گیا ہے۔
میری بچی اماں نے اسے گلے لگایا تجھے عقل کب آئے گی اس نے تمہیں بچایا بدمعاشوں سے اور تو نے اسے اندر آنے کو بھی نہیں کہا اور یہ جوتا کس کا ہے “””””جیسے ہی اماں کی نظر جوتے پر پڑی تو پوچھا۔
یہ اس چھوکرے کا ہی ہے میرا ٹوٹ گیا تھا اور پائوں میں کانچ لگا تھا اس لئے اس نے اپنا دے دیا۔۔۔
ویسے تو نے چودہ جماعتیں پڑھی ہے پر تیری زبان کے رنگ دیکھ کر لگتا نہیں یہ چھوکرا کیا ہوتا ہے ایک اس نے تجھے بچایا اور تو کس طرح بات کر رہی ہے اس کے بارے میں تجھ سے تو بات کرنا ہی فضول ہے چلو تم دونوں کمرے میں گرم دودھ لاتی ہو۔۔
مانو خالہ صیح کہہ رہی ہے تو کتنی بدتمیز ہے بیچارے نے تمہاری مدد کی تجھے پتہ ہے جب میں نے اسے بتایا کہ ہمارے پیچھے کوئی لڑکے لگے ہیں اور تم ادھر اکیلی ہو وہ پاگلوں کی طرح بھاگا تھا میری پوری بات بھی نہیں سنی رجو نے اسے ساری تفصیل بتائی۔۔
تو میں کیا کرو مانو نے اکڑتے ہوئے کہا۔۔
ویسے مانو مجھے تو لگتا ہے اس نے سچ میں ہی تیرے سے دل لگا لیا ہے اس نے اپنا جوتا تہمیں دے دیا اور خود ننگے پائوں سو رومینٹک یار رجو نے آہ بھرتے ہوئے کہا۔۔۔
اوہ بکواس نا کر چل گھر جا اپنے اماں تیری پریشان نا ہو رہی ہو۔
میری اماں کو پتہ ہے میں ادھر ہو اور اب خالہ دودھ لینے گئی ہیں پی کر ہی جائوں گئ تیرے بارے میں سوچ سوچ کر میرا اتنا خون جو جل گیا۔۔
رجو کے جانے کے بعد وہ فارس کے بارے میں سوچنے لگی اس کی آنکھوں کے سامنے بار بار وہی منظر آ رہا تھا جب وہ اس کے سینے سے لگی تھی وہ اسے پٹی باندھ رہا تھا اپنا جوتا دے رہا تھا “”””اف اللہ میں کیوں سوچے جا رہی ہو اس لنگور کو مجھے تو ان لوگوں سے نفرت ہے تو پیار کے بارے میں تو سوچ بھی نہیں سکتی”””
اوہ ہو یہ میں کیا سوچ رہی ہو پیار شیار کچھ نہیں ہوتا مجھے کیا ہو رہا ہے وہ خود سے الجھتی سو گئی اس بات سے بے خبر پیار تو دستک کب کا دے چکا اب یہ اس کے ہاتھ میں تھا کہ دروازہ کھولتی یا بند ہی رکھتی۔۔۔
💓💓💓💓💓💓💓💓💓
فارس بیٹا ہمیں تم سے بات کرنی ہیں “””سکندر شاہ اور مریم بیگم نے اسے اپنے کمرے میں بلایا تھا۔۔۔
جی اماں جان ابا جان بولے ایسی کیا بات ہیں۔
بیٹا ہم نے تمہارا اور آبگینے کے رشتے کا سوچا ہے اور چاہتے ہیں کہ منگنی یا نکاح کی رسم کر دی جائے تمہارا کیا خیال ہے۔۔
فارس کو یہ بات سن کر ایسے لگا جیسے اس کے اوپر سے ٹرین گزر گئی پھول کھلنے سے پہلے ہی مرجھا گئے ہو “”””یہ کیاکہہ رہے ہیں آپ لوگ میں نےایسا کبھی نہیں سوچا اس نے دکھی دل سے کہا وہ ماں باپ کا دل نہیں توڑنا چاہتا تھا پر اپنا دل بھی بچانا چاہتا تھا۔
ارے بیٹا شریف اور خاندانی لڑکے ایسا سوچتے بھی نہیں ان کے بڑے ہی فیصلہ کرتے ہیں ۔۔
پلیز آپ لوگ سمجھنے کی کوشش کرے میں آبی سے شادی نہیں کر سکتا وہ میرے لئے بہنوں جیسی ہے۔۔۔
بیٹا بہنوں جیسی ہے بہن تو نہیں نا مریم بیگم نے اس کے جواز کو رد کر دیا۔۔
ماں میں کیسی !!!!!! آگے وہ چپ کر گیا کچھ سوچ کر۔۔۔
بولو بیٹا کیا بات ہیں
مجھے پہلے ماہ نور سے بات کرنی چاہیے وہ تو مجھے لفٹ نہئں کرواتی “”””فارس نے دل میں سوچا”””””اماں بابا میں کچھ دنوں تک آپ لوگوں کو جواب دو گا مجھے تھوڑا ٹائم دیں
دروازے کے ساتھ کان لگا کر کھڑی آبی کے دل کی دھڑکن رک چکی تھی اسے تو لگتا تھا کہ فارس بھی اس رشتے سے اتنا ہی خوش ہو گا جتنی وہ پر فارس نے سو چنے کے لئے ٹائم کیوں مانگا “””””یہی سوچتی وہ واپس اپنے روم میں چلی گئی۔۔۔۔
💓💓💓💓💓💓💓💓
ماہ نور نے فارس کا جوتا اور رومال سنبھال کر رکھ لیا تھا پتہ نہیں کیوں یہ اسے بھی نہیں پتہ چاہیے تو یہ تھا وہ اسے واپس کر دیتی پر اس نے خاص جگہ پر چھپا کر رکھ دیا تھا۔۔۔۔
اب تمہارا پائوں کیسا ہے فارس ان کے گھر آیا تھا مانو سے بات کرنے بہانا اس کے پاس تھا پائوں کا۔۔۔۔
ٹھیک ہو آپ کو کیا ضرورت تھی یہ ہوچھنے کے لئے ہمارے گھر آنے کی”””” اماں فارس کے لئے چائے بنا رہی تھی ورنہ کچن میں مانو کی بکواس سن کر ان کا دل تو کر رہا تھا اس لڑکی کا منہ توڑ دے۔۔۔
مجھے اپنا گھر نہیں دکھائو گی وہ اسے کہی سائیڈ پر لے جانا چاہتا تھا اسے پتہ تھا جہاں ہم بیٹھے ہیں خالہ تک آواز جائے گی۔
لو جی یہ ہم غریبوں کا گھر ہے آپ کی حویلی نہیں اس میں کچھ دکھانے لائق نہیں مانو نے تلخی سے جواب دیا۔۔۔۔
ماہ نور بیٹا جو گھر کی پچھلی سایئڈ پر چھوٹا سا باغیچہ ہے وہ دکھا دو فارس بیٹے کو اماں نے بڑی مشکل سے اپنے غصے کو کنٹرول کرتے ہوئے کہا ورنہ دل تو کر رہان تھا جا کر اپنی بیٹی کا دماغ ٹھکانے لگا دے””””ان کے گھر کے پیچھے ایک چھوٹا سا صحن تھا جس کو ان ماں بیٹی نے باغیچے کا نام دیا ہوا تھا وہاں پر سبزیاں موسم کے تھوڑے بہت پھل اور مانو نے اپنے لئے جھولا لگایا ہوا تھا ۔
وائو بہت اچھی جگہ سیٹ کی ہوئی آپ لوگوں نے فارس کو دیکھ کر اچھا لگا تھا۔۔۔
ہاں جی شکر ہے ورنہ لوگوں نے تو ہمارے”””””آگے وہ اماں کو آتے دیکھ کر چپ ہو گئی تھی ۔۔۔
یہ لو بیٹا چائے پیو اور اس جھلی کی باتوں کا برا نا منانا یہ ایسی ہی ہے۔۔
ارے نہیں خالہ میں بلکل برا نہیں مناتا فارس نے احترام سے جواب دیا کیونکہ مانو سے وابستہ ہر چیز اسے عزیز ہو گئی تھی۔۔
اچھا بیٹا تم کھانا کھا کر جانا میں بنا رہی ہو۔۔۔۔۔
جی خالہ فارس نے جواب دیا اسے بھی ماہ نور سے بات کرنے کے لئے ٹائم چاہے تھا۔۔۔
مجھے تم سے بات کرنی ہے فارس نے خالہ کے جانے کے بعد کہا۔۔۔۔۔
جی بولو میں سن رہی ہو مانو نے منہ بناتے ہوئے جواب دیا۔۔
میں تمہیں کیسا لگتا ہو۔۔۔
پورے کے پورے لنگور لگتے ہو یہ کوئی بات ہے پوچھنے والی۔۔۔
میں سیریس ہو مانو اماں اور ابا جان نے مجھ سے بات کی ہے وہ لوگ میری شادی آبگینے کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں ۔۔۔
تو مجھے کیوں بتا رہے ہو ماہ نور نے سنگدلی سے کہا “”””یہ اور بات کے اندر سے اسے یہ بات سن کر برا لگا تھا نجانے کیوں۔۔ ۔۔۔
میں تمہیں اس لئے بتا رہا ہو میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہو تم میری پہلی نظر کی محبت ہو میں اتنے سال باہر رہا میں نے کبھی کسی لڑکی کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا جب مہندی والی رات تمہیں دیکھا تو یوں لگا جیسے میری تلاش ختم ہوگئ ہو “”””فارس نے اسے غصے سے اپنی طرف کھینچتے ہوئے کہا اسے غصہ آیا تھا مجھے کیوں بتا رہے ہو سن کر وہ حیران ہوا تھا اسے واقع ہی پرواہ نہیں وہاں اس پر کتنی لڑکیاں مرتی تھی وہ تھا ہی اتنا ہینڈسم جو اس کے دل کو بھائی تھی اسے کوئی پرواہ ہی نہیں تھی۔۔
مانو اس کے اتنا نزدیک آ کر گھبرا گئی تھی اس کا چہرہ لال ہو رہا تھا جیسے ہی اس نے نظر اوپر اٹھائی وہ الجھ سی گئی فارس اسے ٹکٹکی باندھے گھور رہا تھا فارس نے وائٹ شلوار قمیض اور گلے میں چادر ڈالی تھی گندم کے خوشے جیسی رنگت سلیقے سے بنے بال چہرے پر ہلکی ہلکی شیو مانو کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا جیسے ہی اس نے ہوش آیا خود کو چھڑوایا “
دماغ توٹھیک ہے تمہارا اس نے غصے سے کہا شادی کوئی گڈے گڈی کا کھیل نہیں میں تمہیں اچھے سے جانتی تک نہیں اور تم نے کہاں تک سوچ لی دو تین بار ہم ملے ہیں اور تمہاری اوڑان کہاں تک پہنچ گئی۔۔۔۔۔
پیار تو ایک نظر میں ہو جاتا ہے اس کے لئے ہزاروں بار ملنا ضروری نہیں ہوتا پاگل لڑکی ۔۔۔۔
ارے بیٹا آ جائو کھانا بن گیا ہے منہ ہاتھ دھو لو نادیہ بیگم نے ان دونوں پر چھائے سکوت کو توڑا۔۔۔۔
جی خالہ آپ چلے ہم آئے۔۔۔۔
میں تمہارے جواب کا منتظر رہوں گا ایک دو دن تک مجھے بتا دینا یہ میرا نمبر ہے ہر روز تمہارے گھر نہیں آ سکتا اچھا نہیں لگتا فارس نے اسے ایک چٹ پکڑائی جس پر نمبر لکھا تھا اور اندر کو بڑھ گیا””””””ماہ نور سوچ میں پڑھ گئی۔۔۔
______
فارس کے جانے بعد سے وہ گہری سوچ میں گم تھی اف اللہ میں اسے کیا جواب دو ہاں یا ناں وہ لنگور مجھے کس مصیبت میں ڈال گیا””””
انکار ہی کرو گی میں تو””” میں پاگل ہو جو اس کو ہی سوچے جا رہی ہو میرا ان لوگوں سے نفرت کا تعلق ہے یہ محبت کہاں سے سے گئی اف کیا کرو وہ سر ہاتھوں میں پکڑ کر بیٹھ گئی۔۔
اوہ ہیلو طبعیت ٹھیک ہے تمہاری ایسے کیوں بیٹھی ہ
جیسے ہی اس نے رجو کی آواز سنی فورن سر اوپر اٹھایا ہائے رجو کی بچی تم نے تو میرا تراہ ہی نکال دیا ۔۔
تراہ تو نکلے گا ہی جب سوچوں میں گم ہو گی چلو فٹا فٹ شروع ہو جائو کیا بات ہے “””وہ دونوں بچپن کی سہیلیاں ایک دوسرے سے کچھ نہیں چھپاتی تھی شکل دیکھ کر بوجھ لیتی تھی کہ کوئی بات ہے۔۔۔
ارے یار کیا بتائو میں تو مصیبت میں پڑھ گئی ہو۔۔
اب کچھ پھوٹو گی تو مجھے پتہ چلے گا رجو نے اسے گھور کے کہا۔۔۔
یار کل فارس شاہ آیا تھا اور پتہ ہے کیا کہ رہا ے تھا
اب تم نے بغیر رکے بات پوری نا کی تو قسم سے مانو میں نے تمہارا سر پھاڑ دینا ہے سسپینس کیوں پھیلا رہی ہو ڈرامے باز۔۔۔
اچھا بابا بتاتی ہو اس نے مجھے پرپوز کر دیا شادی کا کہہ رہا تھا””””””مانو نے اسے سارا واقع بتایا اب تم بتائو میں کیا جواب دوں یار میں تو ان لوگوں سے دل کا رشتہ نہیں بتا سکتی انکار کر دو گی مجھے محبت وحبت کے چکر میں نہیں پڑنا۔۔
مانو محبت کے چکر میں تو تم پڑھ گئی ہو چاہے جتنا مرضی انکار کر لو اگر تم اس چکر میں نا پڑھی ہوتی تو فورن انکار کر دیتی نمبر رکھنے اور اس کے بارے میں سوچنے کی زحمت نا کرتی۔۔۔
یہ کیا کہہ رہی ہو تم ممم””””مجھے کوئی محبت نہیں وہ تو بس ایسے ہی اس سے کوئی جواب نا بن پڑھا۔۔
تم بس اپنی انا کا جھنڈا اونچا رکھنا چاہتی ہو ورنہ وہ لوگ بہت اچھے ہیں یہ تم بھی جانتی ہو بس مانتی نہیں ہو رجو نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔۔
اف اللہ تم میری دوست ہو کہ دشمن مجھے اس بارے میں کوئی بات نہیں کرنی ۔۔
مرضی ہے تمہاری اور مجھے منع کر کے بھی دل میں تم نے اسے ہی سوچنا ہے ۔
💓💓💓💓💓💓💓💓
اماں سیل دینا “””””مانو کے پاس اپنا کوئی سیل نہیں تھا ان کو کوئی ضرورت بھی نا تھی اماں کو سکندر شاہ اور مریم بیگم نے زبردستی دیا تھا کہ وہ ماں بیٹی اکیلی ہیں کسی پہر بھی ضرورت پڑھ سکتی ہے اور ان کا کوئی دور کا رشتے دار بھی نا تھا جس سے بات کرنی ہو سب گائوں کے لوگ ہی تھے آس پاس رہتے تھے سکندر شاہ اور ماہ نور کا باپ چچیرے بھائی تھے سکندر شاہ کے باپ کے پاس زیادہ زمینیں تھی اور مانو کے دادا کے پاس بس گزارے لائق اور یہی ماہ نور کو غلط فہمی تھی اسے لگتا تھا کہ ان لوگوں نے ہمارے حصے پر قبضہ کر لیا ہے
نادیہ بیگم نے اسے کہی بار سمجھایا تھا کہ ان لوگوں کا تو احسان ہے ہم پر تمہارے باپ کے گزر جانے کے بعد بھی مجھے کبھی کسی چیز کی فکر نہیں ہوئی ہر چیز مجھے گھر بیٹھے مل جاتی ہے پر مانو ناشکری کر رہی تھی اور ناشکرے لوگ اپنا نقصان کر کے ہی سیکھتے ہیں۔۔
کیوں بھئی کیا ضرورت پڑ گئی سیل کی “”نادیہ بیگم حیران ہوئی کیوں کہ پہلے اس نے کبھی استعمال نہیں
کیا تھا۔۔
اوہ ہو اماں آپ بھی نا بات کے پیچھے پڑ جاتی ہو بور ہو تھی گیم کھیلو گی اس نے اماں سے زیادہ خود کو تسلی دی۔۔
اچھا بھئی یہ لو اور منہ تھوڑا کم بنایا کرو ۔۔
وہ سیل کے کر اپنے جھولے پر آ گئ اور دھڑکتے دل سے فارس کا نمبر ملایا۔۔
ہیلو کون فارس نے تیزی سے کہا کیوں کہ ان نون نمبر تھا۔۔
وہ !!!!!!میں اتنا کہہ کر چپ ہو گئی۔۔
وہ میں کون “”‘”اپنا تعارف کروانا پسند کرے گی۔۔
میں ماہ نور بول رہی ہو خود تو نمبر دے کر آئے تھے اور اب پہچان بھی نہیں رہے اس نے اپنی گھبراہٹ پر قابو پا کر غصے سے کہا۔۔۔
اوہ تم کیسی ہو سوری مجھے پتہ نہیں چلا ۔۔۔
میں ٹھیک ہو ۔۔۔
اور خالہ کیسی ہے۔۔
وہ بھی ٹھیک۔۔۔
ان دونوں کے درمیان خاموشی چھا گئی تھی مانو سوچ رہی تھی کیسے بات کرے اور فارس سوچ رہا تھا یہ کیا جواب دے گی۔۔
اب کچھ بولو بھی فارس نے دھڑکتے دل سے کہا۔۔
ہاں وہ “””میں نے آپ کو کچھ کہنا ہے۔۔۔
ہاں بولو میں سن رہا ہو پر اتنا یاد رکھنا تمہارے جواب پر میری سانسیں ٹکی ہے۔۔
اف اللہ کیسے بولو وہ گھبرا رہی تھی ویسے تو بڑی زبان چلتی ہے میری پر اب کیوں ایسا ہو رہا ہے میں اس سے کیوں ڈر رہی ہو۔۔۔۔
اب بولو بھی فارس اس کی خاموشی سے گھبرا کر بولا۔۔
وہ ٹھیک ہے جیسے آپ نے کہا تھا۔۔۔
ککک!!!!! کیاکہا دوبارہ کہوں فارس نے دل پر ہاتھ رکھ کر کہا۔۔۔
ارے بھئی اب ایک بار کہہ جو دیا تم نے جو کہا ٹھیک ہے۔۔۔
اور میں نے کیا کہا تھا فارس نے اسے تنگ کرنے کے لئے کہا۔۔
اب زیادہ ڈرامے نا کرو سمجھ تو تمہیں آ گئی ہے میں فون رکھ رہی ہو۔۔
نہیں تم فون نہیں رکھوں گی میری بات سنوں۔
کیا ہے جلدی بولو اماں سوچ رہی ہو گی میں فون پر کیا کر رہی ہو اور ہاں یہ اماں کے پاس ہوتا ہے یہ نا ہو میری اماں کو تنگ کرتے رہوں۔۔۔
اچھا مجھے تم سے ملنا ہے ۔
کیا تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے کیا مجھے نہیں ملنا تم سے اور ہمارے گھر بھی آنے کی ضرورت نہیں اماں کو شک ہو جائے گا کہ تم روز روز کیوں آنے لگے ہو۔۔۔
اچھا تو کہی باہر ملتے ہیں یار ضروری باتیں کرنی ہیں تم سے۔۔۔
اوہ یہ سب نا باہر کے ملکوں میں چلتا ہو گا مجھے تم سے کہی نہیں ملنا سیدھی طرح رشتہ بھیج دینا میرے گھر اور بائے “””””ماہ نور نے اپنی کہہ کر جلدی سے فون بند کر دیا اس کا دل بہت تیز دھڑک رہا تھا
یہ مجھے کیا ہو رہا ہے مجھے اس سے کوئی پیار نہیں میں صرف اپنا حق لینے کے لئے اس کی بات مان رہی ہو کیونکہ میرے پاس اور کوئی طریقہ نہیں
کتنی پاگل تھی وہ اس کا دل چیخ چیخ کر اسے کچھ کہہ رہا تھا پر وہ اس بیچارے کی نہیں سن رہی تھی اپنی غلط ارادے سے سب ختم کر رہی تھی غلط سوچنے والے ہمیشہ خسارے میں رہتے ہیں ۔
💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓
رجو آج حویلی چلے مریم خالہ سے ملنے ۔۔
اوہ تمہارا دماغ ٹھیک ہے تم اور حویلی کچھ ہضم نہیں ہو رہی بات۔۔۔
میرا دماغ ٹھیک ہے بس ایسے ہی اماں کہتی رہتی ہے اس لئے “”””””اصل میں تو اس کا اپنا دل کسی کو دیکھنے کے لئے مچل رہا تھا پر دل کی سن کہا رہی تھی۔۔۔۔
اچھا چل ٹھیک ہے ۔۔
اچھا اماں ہم جا رہی ہے حویلی ۔۔۔
اچھا جائوں شکر ہے تمہین بھی عقل آئی اماں تو خوش ہوئی تھی۔۔۔
ارے ماہ نور رضیہ بیٹی کیسی ہو مریم خالہ ان کو دیکھ کر دل سے خوش ہوئی تھی۔۔۔
ہم ٹھیک آپ سنائے رضیہ نے ہی جواب دیا ماہ نور تو اکڑ کر بیٹھ گئی تھی۔۔
تم لوگ بیٹھو میں آبی کو بلاتی ہو وہ بھی اکیلی ہو گئی ہے روشانے کے جانے کے بعد ۔۔۔
آبی کا نام سن کر مانو کوفت ہوئی تھی پتہ نہیں کیوں۔۔۔۔
آہ ہاں آج تو بڑے بڑے لوگ آئے ہیں آبگینے نے آتے ہی طنز سے کہا۔۔۔۔
کیسی ہو رضیہ نے پوچھا ماہ نور کیسی کو لفٹ کروانے میں موڈ میں نہین تھی اس کی نظریں کسی کو تلاش رہی تھی۔۔۔
میں تو ٹھیک ہو ماہ نور اگر تمہارا دل نہیں تھا آنے کو تو نا آتی ہم کوئی زبردستی تو تمہیں اٹھا کر نہیں لائے””””آبی نے اس کی خاموشی پر طنزیہ کہا۔۔۔
ارے کیوں میرے بھی دادا کی حویلی ہے میرا جب دل کرے گا میں آئو گی مانو نے اسے منہ توڑ جواب دیا۔۔
ارے بھئی سگے دادا کی تو نہیں تھی نا ۔۔۔
اور تمہارے بھی باپ کی تو نہیں نا وہ تو شہر میں رہتا ہے تو تم بھی ادھر کو جائو ادھر کیا ہے۔۔۔
آبگینے کا منہ اس کی بات سن کر غصے سے لال ہو گیا تھا کیوں کہ اس کا باپ شہر میں کاروبار سنبھالتا تھا ادھر کے معملات سکندر شاہ دیکھتے تھے اب فارس بھی ان کے ساتھ مل گیا تھا۔۔۔۔
تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھ سے ایسے بات کرنے کی دو ٹکے کی لڑکی آبی نے ماہ نور کو بازو سے پکڑ کر کھڑا کیا
یہ منظر اور بات فارس نے اندر آتے ہوئے سنی اسے بہت غصہ آیا آبگینے کی بات سن کر وہ اس کی ماہ نور کو دو ٹکے کا کہہ رہی تھی۔۔
آبی چھوڑو اسے فارس نے غصے سے کہا۔۔
فارس تمہیں نہیں پتہ یہ مجھے کیا کہہ رہی تھی۔۔۔۔
مجھے کچھ جاننا بھی نہیں تم میں تمیز نام کی کوئی چیز نہں گھر آئے مہمان کے ساتھ کوئی ایسے بات کرتا ہے۔۔۔
ارے کیا ہو گیا کیوں شور مچا رہے ہو مریم بیگم بھی فارس کی اونچی آواز سن کر آ گئی۔۔۔
اماں جان آپ نے آبگینے کو سمجھایا نہیں کہ گھر آئے مہمان سے کیسے بات کرتے ہیں ۔۔
ارے مجھے کوئی کچھ بتائے گا کہ نہیں۔۔۔۔
فارس نے جتنی بات سنی تھی اماں جان کو بتائی۔۔۔۔
انہوں نے بھی آبی کو ڈانٹا چلو بہن سے سوری کرو ۔۔۔
کیا میں اس سے سوری کرو کبھی نہیں وہ غصے میں کہہ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔
دیکھا آپ نے اس بدتمیز لڑکی کو سوری ماہ نور “”””””ماہ نور کے آنسو بہہ رہے تھے جنہیں دیکھ کر فارس کو بہت تکلیف ہو رہی تھی ۔
چلو رضیہ اس نے رجو کو مخاطب کیا جو بچاری خاموش حیران ہو کر کھڑی تھی۔۔۔۔
ارے ایسے کیسے تم بیٹھو کتنے عرصے بعد تو آئی ہو کھانا خھا کر جانا۔۔
نہیں خالہ مجھے گھر جانا ہے پلیز ماہ نور کو بہت تکلیف ہو رہی تھی آبی کہ منہ سے اپنے لئے دو ٹکے کی لڑکی سن کر۔۔
اب خالہ کی بات نہیں مانو گی دیکھو اسے فارس نے کتنا ڈانٹا ہے اور میں بھی بات کرو گی بس تم بیٹھو اب “””””مریم بیگم اسےبیٹھا کر چلی گئ
ماہ نور نے شکایتی نظروں سے فارس کی طرف دیکھا۔۔
فارس کو تکلیف ہوئی اس کے اس طرح دیکھنے سے۔۔۔
میں ابھی آتی ہو رجو یہ کہہ کر اٹھ گئی اسے لگا شاید انہیں اکیلے میں بات کرنی چاہے۔۔
سوری یار مجھے نہیں پتہ تھا آبی ایسی سوچ رکھتی ہے۔۔۔
کس بات کی سوری اس نے صیح کہا ہے میں دو ٹکے کی ہی لڑکی ہو اور تم اب بھی سوچ لو اپنے فیصلے پر۔
ارے یار پلیز سوری کی تو ہے اور یہ فیصلہ کوئی سوچ سمجھ کر نہیں کیا جاتا بس میرے دل کو تم بھا گئی ہو اور اب اس دل میں تمہارے علاہ کوئی نہیں آ سکتی چاہے جو ہو جائے۔۔۔
دیکھ لو گی کب تک قائم رہتے ہو اپنے فیصلے پر۔۔۔
مرتے دم تک رہوں گا۔۔۔۔
اللہ نا کرے ماہ نور کے منہ سے نکلا۔۔۔
اوہ ہو تو مرنے کی بات سن کر مانو کو اچھا نہیں لگا فارس نے اس کا مزاق بنایا ۔
ماہ نور اس کی بات سن کر جھینپ گئی ۔۔
فارس کو اس کا شرمایا شرمایا روپ بہت پیارا لگ رہا تھا وہ اسے جی بھر کر نظروں میں سما رہا تھا۔۔
کیا ہے ایسے کیوں دیکھ رہے ہو وہ اور کنفیوز ہو رہی تھی۔۔۔۔۔
دیکھ رہا ہو ماہ نور صاحبہ شرماتی بھی ہے اور کتنی پیاری لگ رہی ہو ایسے۔
ماہ نور بیٹا آ جائو کھانا لگا دیا ہے میں نےمریم خالہ نے آواز دی تو وہ دونوں ہوش میں آئے۔۔
ججج !!!!!! جی خالہ آئی یہ کہہ کر وہ بھاگ لی۔
اور فارس اسے ایسے بھاگتے دیکھ مسکرانے لگا پاگل۔۔
جب سے وہ حویلی سے آئی تھی گہری سوچ میں گم تھی کیا میں یہ ٹھیک کر رہی ہو فارس کو کتنی تکلیف ہو رہی تھی وہ
اچھا ہے پر میں کیا کرو مجھے کوئی پیار محبت نہیں اس سے یہ کہہ کر وہ اپنے دل کو جھوٹی تسلی دے رہی تھی
ورنہ وہ اچھے سے جانتی تھی میرا دل میرا نہیں رہا وہ فارس کا ہو چکا ہے کب کا یہ اسے خود نہیں پتہ تھا۔۔۔
ارے مانو کدھر گم ہے یہ رجو بلا رہی ہے تمہیں
ارے اماں اسے اندر ہی بھیج دو مانو نے اندر سے ہی کہا۔۔
وہ ہمارے گھر نہیں دیوار کے ساتھ لٹکی ہوئی ہے چل باہر آ پتہ نہیں تم دونوں کی کون سی باتیں ہے جو بچپن سے لے کر اب تک ختم ہی نہیں ہو رہی۔۔۔
اوہ ہو اماں آپ کو تو موقع چاہے باتیں سنانے کا باہر آتے ہی وہ اماں پر تپی غصہ کہی کا تھا اور نکال کہی رہی تھی۔
ماہ نور میں دیکھ رہی ہو تو کچھ زیادہ ہی بدتمیز ہوتی جا رہی ہے تیرا میں کچھ کرتی ہو ۔۔
ہاں بول رجو اور پتہ اماں اب کیا کرنے کی دھمکی دے رہی ہے۔۔
میں کیا بولو تو بول تیرے اور فارس کے بیچ کیا چل رہا ہے ۔
ارے میرے اور اس کے بیچ کیا ہونا ہے کچھ بھی تو نہیں مانو نے گھبراتے ہوئے کہا۔۔
اچھا اب تو مجھ سے چھپائے گی جلدی سے بتا تو نے اسے کیا جواب دیا تھا۔۔
وہ میں !!!!!میں نے اسے ہاں بول دی ہے
کیا مانو تو نے ہاں بول دی اور مجھے بتایا بھی نہیں حد ہو گئی میری کوئی اہمیت ہی نہیں۔
ارے یار اس میں بتانے والا کیا تھا۔
ویسے تو ان لوگوں کو پسند نہیں کرتی اور فارس کے ساتھ تو شادی کے بعد تجھے ان لوگوں کے ساتھ ہی رہنا ہے ویسے اگر تو نے ان لوگوں کے خلاف دل سے بغض نکال دیا ہے تو بہت اچھی بات ہے تو فضول میں ہی ناراض تھی ان لوگوں سے
ہاں تو ٹھیک کہہ رہی ہے مجھے حویلی والوں سے کیا لینا دینا جب فارس میرے ساتھ ہو گا اسنے عجیب سے لہجے میں کہا۔۔۔
اچھا پھر میں تھوڑا اماں کو کام کروا لو پہلے ہی غصہ ہو رہی ہے مجھ پر۔
💓💓💓💓💓💓💓💓💓