میری پہلی اور اخری محبت !!!
میرے محسن حسین !!!!!
اپ نے مجھے اس وقت سنبھالا جب میں بری طرح ٹوٹی ھوئ تھی۔۔اپ نے مجھے جس قدر محبت دی میں اس کی بہت زیادہ مشکور ھوں۔۔وہ بیان کرنا میرے لیے آسان نہیں۔۔۔مجھے زندہ رہنا ھسنا سب ہی اپنے سکھایا ھے۔۔۔حسین ورنہ شرمین کا وجود اس دنیا سے کب کا مٹ چکا ھوتا۔۔اپ کا پیار،اپ کی چاہت ہی تو میری کال کائنت ھے۔۔۔مگر !!!
مگر !! میں نے کہا تھا نا حسین ؟؟؟؟
میں منحوس ھوں۔۔۔
میں واقعی منحوس ھو حسین۔۔۔۔۔۔
میں نے تو اپ کے ھنستے بستے گھر کو اجاڑ دیا ۔۔۔۔اپ کی محبت پاکر اس قدر خود غرض ھوگئ کہ میں یہ بھول بھیٹی کے میری منحوصیت کا سایہ اپ پر بھی آئے گا۔۔۔۔میں نے اپ کے گھر کی بربادی کی پرواہ نا کی۔۔۔
میں بہت بری ھوں
بہت خودغرض ھوں۔۔۔۔
اپ کی ماں دورست ھیں حسین۔۔۔یہ حقیقت ھے کوئی بھی ماں اپنے بیٹے کی زندگی اپنے ہاتھ سے کسی منحوس لڑکی کے حوالے نہیں کرسکتی۔۔۔۔
یاد ھے نا حسین میں کیا کہا کرتی تھی۔۔۔
مجھے یہ سب ایک حسین خواب کی طرح لگتا ھے۔۔۔اور جب میری انکھ کھلے گی تو کچھ بھی نا ھوگا۔۔۔
یہ سچ تھا حسین۔۔۔۔
جب میری انکھ کھلی تو واقعی کچھ نہیں تھا ۔۔۔کچھ بھی نہیں تھا۔۔
میں نے دنیا میں منزل ے مقصود پانے کے بڑے دل کش خواب دیکھے تھے حسین۔۔۔اپ کی خوبصورت “منزل ے مقصود “کو اپنی منزل سمجھ بیٹھی تھی۔۔۔
یہ میری نادانی تھی۔۔۔۔
میں ہمدردی کے قابل ھوں مگر محبت کے قابل نہیں ھوں حسین۔۔۔یہ آحاس مجھے اج ھوا ھے۔۔۔جو مجھے پہلے ھوجانا چھائے تھا ۔۔۔۔
اپ اپنی والدہ سے کہہ دیں حسین۔۔۔
کہ وہ تو ایک خواب تھا۔۔۔جسے اپ اور میں ایک حسین خواب سمجھ کر اور اپ کی ولدہ ایک بھیانک خواب سمجھ کر بھول جائیں گی۔۔۔
اپ کی شادی اپ کی امی کی مرضی سے ہی ھوگی۔۔۔ کیونکہ میں اپنے اس منحوس وجود کے ساتھ اس دنیا سے بہت دور جا رہی ھوں۔۔اپ نے سمعی نے مجھے محبت دے کر مجھ پر بہت بڑا احسان کیا ھے حسین!!!
میرے دل کو اس بات کا تو سکون ھے کہ میں اس دنیا سے صرف نفرتیں لے کر نہیں بلکے محبتں بھی لے کر جارہی ھوں ۔۔۔جو اپ کی اور سمعی کے عنائت کردہ ھے۔۔۔اگر اپ لوگ بھی مجھے پیار نا دیتے تو میں اس دنیا سے مایوس لوٹ جاتی۔۔۔
اپ کو یاد ھے حیسن ؟؟؟
ایک بار میں نے سمندر کی لہروں کو دیکھ کر کہا تھا مجھے لگتا ھے یہ مجھے اپنے پاس بلاتی ھیں۔۔۔۔مجھے آواز دے رہی ھیں۔۔میرا انتیظار کر رہی ھیں۔۔۔۔جو بقول اپ کے وہ اپ کی رقیب ھیں۔۔۔
اپ کی رقیب ان لہروں نے ہی اپ کو ایک بڑی بربادی سے بچا لیا حسین۔۔۔۔
میں سمجھتی تھی کہ اپ کو یہ حسین گھر ہی میری last destination میری منزل ے مقصود ھے۔۔۔۔مگر میرا خیال غلط تھا۔۔۔
میری last destination میری منزل ے مقصود تو ایک سمندر ھے حسین۔۔۔۔۔
ایک سمندر۔۔۔۔۔۔ میں اج اپنی اصل منزل کو پانے جارہی ھوں۔۔۔
میری عزیز ترین دوست سمیعہ کو میرا بہت پیار ھو۔۔۔۔میں اس کی مجرم ھوں۔۔۔اس سے مخاطب ھونے کا حوصلہ نہیں تھا مجھ میں !!
میں نے اس کے کہنے کے مطابق ہی فیصلہ کیا ھے حسین۔۔وہ اپ کے حق میں فیصلہ چھاتی تھی نا !!!
میں نے اپ ہی کی حق میں فیصلہ کیا ھے حسین۔۔۔اور اب اپ کی زندگی برباد بھی نہیں ھوگی۔۔۔
ایک وقت اتا ھے انسان کو خدا کے پاس واپس جانا پڑتا ھے۔۔۔میں جانتی ھوں میرا یہ عمل غلط ھے لیکن میں دنیا سے تھک گئ ھوں۔۔۔۔
مجھے دنیا نے ٹھکرا دیا اب پتا نہیں سمندر کی لہرے بھی مجھے قبول کریں یا نہیں ۔۔۔کیا خبر سمندر بھی مجھے منحوس جان کر قبول نا کرے۔۔۔
میری وہ منزل ے مقصود بھی مجھے بھار پھنیک دے۔۔۔
وہ بھی میری منحوصیت کا مزاق بنائے میرے ساتھ کہی ایسا نہ ھو حسین
کہ :-
“دریا کا ظرف بھی مجھے نا کرسکے
قبول
ڈوبوں جو میں تو لاش ملے ساحلوں کے پاس ”
ہمیشہ صرف اور صرف اپ کو چھانے والی
ایک منحوس وجود کی مالک
( شرمین )
خط ختم کرتے ھی حسین کا چہرہ لھٹے کی طرح ماند ھوا تھا ۔۔۔خط کے اختیتام پر وہ پوری قوت سے چیخ اٹھا۔۔۔۔
نہیں شرمین۔۔۔۔۔تم ایسا نہیں کروگی۔۔۔۔
تم تم ایسا نہیں کرسکتی۔۔۔۔
سمعی حسین کی حالت دیکھ کر ڈور کر اس کے پاس ائ اور خط اس کے ہاتھ سے چھین کر پڑھنے لگی۔۔۔حسین ماں کے کمرے کی طرف ڈوڑ پڑا ۔۔۔۔
خط پرھ کر تو جیسے سمعی کو کرنٹ لگ گیا۔۔۔
یہ تو نے کیا کیا شرمین ؟؟
میں تجھے ایسا نہیں کرنے دوں گی۔۔۔
سمعی کی حالت قابلے دید تھی۔۔۔سمعی ایک لمحہ ضائع کیے بغیر شرمین کے گھر پھنچی….مگر وہاں تو کچھ بھی باقی نہیں تھا۔۔۔۔شرمین جا چکی تھی۔۔۔سب سے منھ موڑ کر ۔۔۔۔
گھر میں ایک طوفان اور قیامت کا سماں تھا۔۔۔
حسین چیخ چیخ کر ماں کو بتا رہا تھا ۔۔۔کہ ایک معصوم لڑکی کی زندگی برباد کرنے والی اپ لوگوں کی چھوٹی سوچ ھے۔۔۔
کیا ملا اپ لوگ کو اس معصوم کو منحوس بنا کر ؟؟؟
وہ اس دنیا سے اپنا تعلق توڑ کر جا رہی ھے۔۔۔
اگر وہ مر گئ نا امی تو اس کی موت کی زمہ دار اپ ھونگی۔۔۔
اگر اس کو کچھ ھوگیا نا امی تو میں بھی زندہ نہیں رھوں گا۔۔۔
وہ ڈور کر گاڑی کی طرف بھاگا اور انیلہ بیگم بھی اس کے پیچھے ڈور کر ساتھ ھی اس کی گاڑی میں جابیٹھین۔۔۔
میں بھی جاوں گی بیٹے۔۔۔۔
میں اسے منا کر لاوں گی بیٹے جلدی چلو !!!!
اور حسین نے تیز رفاتری سے گاڑی بھاگئ۔۔وہ بس ہر قیمت پر شرمین تک جانا چھاتا تھا۔۔۔اس نے کسی سگنل کی پرواہ کیے بغیر سمندر تک گاڑی بھاگئ تھی اور ساحل کے اوپر لاکر روک دی۔۔گاڑی سے اتر کر وہ ساحل پر پھنچا تو لوگوں کا ہجوم لگا تھا۔۔اور ہر طرف شور تھا۔۔۔
لڑکی دوب گئ ھے !!
مر گئ ھے !!!!
حسین کا ایک ایک قدم ایک ایک من کا ھوگیا اس کو لوگوں کی باتیں زہر لگ رہی تھی وہ ہجوم کو چیرتا ھوا دیوانوں کی طرح بڑھتا چلا گیا۔۔۔
اور جب لاش تک پھنچا تو اس کی دینا ہی لوٹ گئ۔۔۔۔شرمین کی لاش ساحل کے کنارے پر بنا کفن کے پڑی تھی۔۔۔۔اور دنیا سے نجات حاصل کر کے اس کے چہرہ پر ایک پر سکون مسکان تھی۔۔۔حسین بری طرح رو رہا تھا اور لاش سے لپٹ گیا۔۔۔۔اسے یوں لگا جیسے شرمین کے گلابی ھونٹ مسکرا کر کہہ رہے ھو۔۔۔
“دریا کا ظرف بھی مجھے نا کرسکا قبول
ڈوبی جو میں تو لاش ملی ساحلوں کے پاس”
حسین شرمین کی لاش کو باہنوں میں اٹھاتے اس آواز کی بازگشت کی طرف بڑھتا گیا۔۔سمندر کی لہریں اس کے بڑھتے ھوئے قدموں کو اپنے اندر لے رہی تھی۔۔۔اور اس کو اپنے اندر سمانے کے لیے بے تاب تھی۔۔۔۔پیچھے پیچھے آتے شرمین کے والدین اور حسین کی ماں ثوبیہ ،سمعی سب بری طرح چلا رہے تھے کہ اجاو حسین !!!!!
واپس آجاو !!!!
بہت سے لوگوں نے ھجوم سے ڈور کر اس کو روکنے کی کوشش کی مگر حسین دنیا سے بے خبر لاش باہنوں میں اٹھائے سمندر کی طرف بڑھ رہا تھا۔۔۔اور اسی لمحے ایک اونچی سی لہر نے حسین اور شرمین کو دو دیوانوں کو اپنے ساتھ ہی بھا کر لے گئ۔۔۔۔شائید اک نار پھر ساحل لاپر پھنکنے کے لیے۔۔۔اپنی کشادہ دلی اور علی ظرفی کا ثبوت دینے کے لیے۔۔۔۔۔
مگر سمندر کی لہریں اب بھی چیخ رہی تھی۔۔۔دو پیار کرنے والوں کو نگل کر بھی بے قراری سے ساحل کے چکر لگا رہی تھیں۔۔۔اور ہر ہر لہر کے ساتھ شرمین کا سراپا ابھر ابھر کر کہہ رہا تھا۔۔۔۔۔۔
“دریا کا ظرف بھی مجھے نا کرسکا قبول
ڈوبی جو میں تو لاش ملی ساحلوں کے پاس”
☆☆☆☆☆The end☆☆☆☆
مجھے امید ھے اپ لوگ کو last episode پڑھ کر بہت تکلیف ھوئ ھوگی۔۔۔لیکن یہ اج کل کی حقیقت ھے۔۔۔ہمارے معاشرے میں یہ چیز بہت عام ھوگئ ھے۔۔۔لوگوں کی جہالت اور غلط سوچ کی وجہ سے معصوم لوگ اپنی جان سے جا دے ھیں۔۔۔۔۔
یہ تو ایک فرضی کہانی تھی۔۔۔تاکہ اپ لوگ اپنی سوچ کو بدل دیں کہ پھر کبھی حسین اور شرمین جیسے معصوم لوگ خودخوشی جیسا گناہ نا کریں۔۔۔۔
لڑکا لڑکی دونوں اللہ کی نعمت ھیں۔۔۔کسی کی زات منحوس نہیں ھوتی۔۔۔۔نصیب میں جو لکھا ھوتا ھے وہ ھو کر رہتا ھے۔۔۔اس کا الزام کسی اور کو دینا اپنے اندر کی جہالت کو دیکھانا ھے۔۔۔ہمیں اس چیز پر یقین ھونا چھایے کہ کوئی بھی کام اللہ کی مرضی کے بغیر نہین ھوتا تو کسی معصوم کی زات کیسی کو کیا نقصان دے گی۔۔
پلیز اس سوچ کو ختم کریں ہمارے اسلام مین بھی اسی کوئی چیز نہیں۔۔۔ہمارا اسلام تو ہر ایک سے محبت کرنے کا حکم دیتا ھے۔۔۔۔اور پلیز جو کام شرمین اور حسین نے کیا وہ اپ لوگ نا کیجے گا۔۔۔۔۔یہ صرف ایک کہانی تھی بس ۔۔۔۔
امید ھے میری اس لکھائ سے لوگ کچھ اچھا سبق حاصل کریں گے۔۔۔۔اسکا غلط اثر مت لیجے گا:-
اپ کی دعاوں کی طلب گار
S A KHAN ZADI
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...