خیالوں کی دُنیا سے باہر آئی تو چہرے پر سُرخی جمع ہوئی تھی ۔۔۔۔انسان کیا سوچتا ہے زندگی اُسکے ساتھ کیا کھیل کھیلتی ہے ۔۔۔۔۔۔کتنا تضاز ہوتا ہے سوچوں اور حقیقت میں ۔۔۔۔۔۔چھ سال پہلے کی مایا دُنیا کے دکھوں سے بلکل دور تھی اور اب لگتا تھا دُکھ سہہ کر پتھر کی ہوگئی ہے ۔۔۔۔۔۔آنکھیں ایک بار چھلک پڑیں ۔۔۔۔۔۔۔کہیں دل سجدہ ریز تھا اُسے اُس سے نوازہ گیا تھا جس کیا خواہش برسوں پہلے کی تھی تو کہیں اپنی مُحبت کے حصے دار سے جلن تھی جو اُس سے پہلے اُسکی محبتِ کی حقدار ٹھہری تھی
چھ سال پہلے
عائشہ کے قتل کے بعد اُسے کہاں لیجایا گیا تھا کونسی جگہ تھی کُچھ معلوم نہیں تھا ۔۔۔۔ہوش میں آتی تھی تو عائشہ کا جسم اُسکے سامنے آتا اپنی دوست کی موت کا منظر سوچ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ۔۔۔۔کمزور سی جان اتنے دُکھ برداشت کرنے کے قابل نہیں تھی ہر پانچ منٹ بعد بے ہوش ہوجاتی
بس ایک دن منظر تبدیل تھا جب آنکھ کھلی تھی تو خود کو کسی آرام دہ جگہ پر پایا شاید کوئی ہاسپٹل تھا ۔۔۔۔۔اسے بتایا گیا تھا کے سمگل ہوکر کسی دوسرے ملک بھیج دی گئی تھی جہاں سے ایک آپریشن کے دوران اُسے با حفاظت ملک واپس لایا گیا تھا
میری جدائیوں سے وہ مل کر نہیں گیا
اس کے بغیر میں بھی کوئی مر نہیں گیا
دنیا میں گھوم پھر کے بھی ایسے لگا مجھے
جیسے میں اپنی ذات سے باہر نہیں گیا
کیا خوب ہیں ہماری ترقی پسندیاں
زینے بنا لیے کوئی اوپر نہیں گیا
جغرافیے نے کاٹ دیے راستے مرے
تاریخ کو گلہ ہے کہ میں گھر نہیں گیا
ایسی کوئی عجیب عمارت تھی زندگی
باہر سے جھانکتا رہا اندر نہیں گیا
ڈالا نہ دوستوں کو کبھی امتحان میں
صحرا میں میرے ساتھ سمندر نہیں گیا
اس وقت تک سلگتی رہی اس کی آرزو
جب تک دھوئیں سے سارا بدن بھر نہیں گیا
ذلت کے بھاؤ بک گئیں عزت مآبیاں
دستار اس کی جاتی رہی سر نہیں گیا
خواہش ہوس کے روپ میں اچھی نہیں لگی
دنیا کو فتح کر کے سکندر نہیں گیا
کاندھوں پہ اپنے لوگ اسے لے گئے کہاں
پیروں سے اپنے چل کے مظفرؔ نہیں گیا
مظفر وارثی
اُس دن بازل کو دیکھے دو ماہ ہوچکے تھے اپنی بات کا پکا رہا تھا ملنا تو دور کی بات اُسے دیکھنے تک نہیں آیا
اب آنکھوں سے آنسو نہیں بہتے تھے ۔۔۔۔نہ کبھی کسی سے شکوہ کیا نہ ہی کوئی سننے والا تھا ماں باپ تو بد نامی کے ڈر سے دُنیا چھوڑ چُکے تھے ۔۔۔۔۔۔۔
کوئی اِس بات کو ماننے کو تیار نہیں تھا کے وہ پاک ہے بے داغ ہے جو اُسے پتھر کا کر گیا تھا
ہولے ہولے سے جسم کانپ رہا تھا ماتھے اور پسینے کی بوندیں ابھر رہیں تھیں ۔۔۔۔۔جب کسی کا لمس اپنے ہاتھ پر محسوس کیا تو پٹ سے آنکھیں کھول دیں
"ماہی ”
بے تاب سی آواز کانوں میں پڑی ایک جھٹکے سے اُٹھ کر بازل کے گرد باہیں حائل کی ابھی بھی جسم کپکپا رہا تھا زرد چہرہ پر دکھوں کے نشان ۔۔۔آنکھیں ویران تھیں
"ب۔۔۔۔۔۔بازل پلیز ۔۔۔۔۔۔م۔۔۔۔۔۔مجھے مت چھوڑنا ”
کانپتی ہوئی آواز کانوں۔ میں پڑی تو بازل دُکھ سے اُسکے گرد مُحبت کا حصار کھینچ گیا
"نہیں چھوڑوں گا ۔۔۔۔۔۔۔ماہی تم میری زندگی ہو میری ہر آتی جاتی سانسوں کی مالک”
اُسکی پیٹھ سہلاتے ہوئے بولا ۔۔۔۔۔۔۔محبت کا اظہار کبھی کبھی بہت ضروری ہوتا ہے کبھی کبھی اظہار میں کنجوسی نہیں کرنی چاہئے ورنہ پچھتاوے باقی رہ جاتے ھیں
"ش۔۔۔۔شاہ زار تم چلے جاتے ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔اب میں برداشت نہیں کر پاؤں گیں…… میں تھک گیں ہوں اکیلے رہتے ہوئے ۔۔ ۔۔۔۔۔۔مجھے ضرورت ہے تمہاری ”
تھوڑا پیچھے کی طرف ہوکر اُسکا چہرے دونوں ہاتھوں میں لیتی بے یقینی سے بولی ۔۔۔لہجہ مانگے والا تھا ۔۔۔۔۔جیسے اب نہیں ملا تو سچ میں بکھر جائے گی ٹوٹ جائے گی
"کبھی کبھی محبتوں کی بھیک مانگ لینی چاہیے ۔۔اگر مل جائے تو انسان جنت میں محسوس کرتا ہے ”
(کاپی)
بازل نے اُسے اِس قدر بد گمان دیکھ کر کرب سے آنکھیں بند کیں ۔۔۔۔۔۔اگر اُسے مضبوط مایا نہیں پسند تھی تو یوں ٹوٹی ہوئی تو زہر لگ رہی تھی ۔۔۔۔۔وہ کیوں مانگ رہی تھی وہ تو پہلے ہی اُسکا تھا ۔۔۔۔۔
"ماہی ۔۔۔۔۔تمہیں آرام کی ضرورت ہے”
اپنے سینے میں بھینچے ہوئے آرام سے جواب دیا جبکہ وہ اِس بار اُسے بات بدلنے پر سچ میں بد گمان ہوئی
"مجھے تمہاری ضرورت ہے ”
ضد پر اڑ چُکی تھی
"میں تمہارا ہی ہوں ماہی ۔۔۔۔۔۔تمھارا ہی تھا ”
اُسکا چہرہ ہاتھوں میں تھام کر اُسے یقین دہانی کروائی
آخری جملہ پر پیچھے ہوئی۔۔۔۔ بیڈ پر لیٹ گئی اور کروٹ بدل لی
بازل نے اُسکے ہر لمحے بدلتے روپ کو دیکھا کافی دیر وہاں کھڑا اُسکی اذیتوں کے بارے میں سوچتا رہا ۔۔۔۔لیکن اُسنے کروٹ نہیں بدلی ۔۔۔اُسکے ذہن میں اٹکے ہوئے سوال کا جواب دینا چاہتا تھا لیکن وہ پوچھتی ہی نہیں تھی ۔۔۔۔۔۔اُسے پتہ تھا مبحت میں شرکت داری نہیں چلتی ۔۔۔۔کسی اور ہونا محبت میں کُفر سمجھا جاتا ہے
لیکن وہ سوال كيوں نہیں کرتی تھی
دوسری طرف مایا آنکھیں موندے آنسو بہا رہی تھی ۔۔۔۔۔یہ نہیں تھا اُسے نور عزیز نہیں تھی اگر اُسکے لیے جان بھی دینی پڑتی تو مایا بنا سوچے اُس پیاری سی جان پر اپنی جان قربان کردیتی لیکن اُسے لگا تھا بازل نے اُسکی مُحبت مذاق اڑایا ہے۔۔۔۔۔وہ کسی اور سے محبت کرتا ہوگا اور وہ اُس پر قابض ہوگئی وہ کیسے بے بس ہوگئی کے محبت کی بھیک اُس انسان سے مانگنے لگی جو بیچ چوراہے میں چھوڑ گیا تھا
•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°
ملیحہ اپنا بیگ اور بچے کو سنبھالے تیز تیز قدم اٹھاتی ہاسپٹل سے کافی دور آگئی تھی بچہ انجان لمس پاکر مسلسل رو رہا تھا اب تو ملیحہ کا دل کر رہا تھا اُسے اُٹھا کر سڑک پر پھینک دے
"منہ بند بھی کے لو اب پتہ نہیں کیسی روح ہے تم میں”
قریب پڑے بیچ پر بیٹھ کر بچے کے منہ پر ہاتھ رکھا
اُسے سانس لینے میں دشواری ہوئی تو چہرہ سُرخ جبکہ ہونٹ نیلے پڑھ گے
اِس سے پہلے کے بچہ اپنے آخری سانس لیتا ملیحہ کے منہ پر کسی نے زور دار پنچ مارا جس کی وجہ سے نہ ارادائی طور پر ہاتھ بچے کے منہ سے ہٹا تو اسکا اٹکا ہُوا سانس بحال ہوا
"ہاتھ کیسے لگایا ”
اپنا سر سنبھلتے ہوئے بھپری ہوئی شیرنی کی طرح سامنے ائی جبکہ براؤن آنکھوں میں کرب واضح ہُوا
"تمہاری بچے کو ہاتھ لگانے کی جرت کیسے ہوئی ۔۔۔پتہ ہے بچہ مر جاتا تو کیا کرتا تمہارا میں ”
اُسکا جبڑا دبوچے بولا
"اِسے بچے کو اغواء کرنے کے جرم میں گرفتار کریں انسپکٹر صاحب ”
بازل کی آواز پر پیچھے کھڑا انسپکٹر تیزی سے آگے آیا جبکہ بازل بچے کو لیے چُپ کروانے کی ناکام سی کوشش کر رہا تھا
لیکن کوئی ڈھیٹوں کا سردار واقعہ ہُوا تھا مسلسل رو رہا تھا
"آپ بچے کو لے جائیں ۔۔۔۔۔اپنی ماں کی آغوش ڈھونڈ رہا ہے”
عبداللہ جو پیچھے کھڑا تھا آگے ہوکر ہاتھ پاؤں ہلاتے بچے کو دیکھ بولا
تو بازل نے چھوٹے سے نمونہ کو دیکھا تو نور کا بچپن یاد آیا جب وہ بھی بلکل ایسے ہی تھی ضدی سی ۔۔۔۔ہر وقت رونے والی
ہونٹ مسکراہٹ میں ڈالے اور گاڑی کی طرف گیا یہاں اُسکا سفر کا آغاز ہوا اُسی سفر کے اختتام ہونا تھا
•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•
"مام نور مس یو …”
بیڈ پر ٹیک لگا کر بیٹھی مایا کو اپنے دونوں ہاتھ پھیلا کر بتا رہی تھی ۔۔۔جب سے مایا گھر آئی تھی اُسکی خوشی دیدنی تھی کبھی اُسکا منہ چومتی تو کبھی اُسکے بالوں کو کھنچتی تب سے دو مرتبہ فیڈر پی چُکی تھی بس اُسکے بازو پر سر رکھنے کے شوق سے
اب بھی اُسکی ٹانگوں پر بیٹھی مایا کی گود میں کھلونے رکھے مایا کو اُن سے ملا رہی تھی
"مالا”
ہاتھ میں پکڑی ہوئی سنڈریلا کو اُسکے سامنے کرکے اُسکا نام بتایا
"میری جان ۔۔۔۔مام کو کِسی دو ”
مایا کو اُس پر ٹوٹ کر پیار آیا تو اُسکے آگے اپنا گال کرکے نئی ریکوسٹ کی جسے اگلے ہی لمحے گیلی گيلی پپیوں سے مایا کو منہ بیگو دیا
"مام بابا ڈرٹی ”
منہ کے پیارے سے اسٹائل بنا کر شکایت لگائی وجہ دو دن سے وہ گھر نہیں آیا تھا وہ اور بیا ہی گھر تھے آج تھوڑی دیر پہلے عبداللہ مایا کو چھوڑ کر گیا تھا جس کی وجہ سے اب اُسکا موڈ بلکل ٹھیک تھا ۔۔۔۔
"نور تم کتنی پیاری ہو ”
اُسکا انداز بلکل دل میں اُترتی ہوئی محسوس ہوئی اب اس نے نور کا منہ چوما
"مالا بی پاری”
دونوں ایک دوسرے میں بلکل مصروف تھی جب بازل اپنے بالوں میں ہاتھ چلاتا اندر آیا تو دونوں کو ایک دوسرے میں مگن دیکھ کر چہرے پر مسکراہٹ گہری ہوئی آج بہت بڑی کامیابی لیے گھر آیا تھا ۔۔۔ساری پریشانیاں ختم ہوئیں تھیں ۔۔۔۔۔۔دس سال کا تھکن آور سفر ختم ہوا تھا ۔۔۔۔۔
ایسے ہی سوچوں میں گم واش روم کی طرف چلا گیا
مایا جو کن آنکھوں سے اُسے دیکھ رہی تھی ایک مرتبہ پھر دل ڈوب کر اُبھرا
”ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی”
لیجئے فرصت ہی فرصت ہو گئی
کون سمجھائے در و دیوار کو
جن کو تیرے دید کی لت ہو گئی
ہم نہیں اب بارشوں کے منتظر
اب ہمیں صحرا کی عادت ہو گئی
سرحدوں کی بستیوں سا دل ہوا
وحشتوں کی جن کو عادت ہو گئی
ساحلوں پر کیا گھروندوں کا وجود
ٹوٹنا ہی ان کی قسمت ہو گئی
راحتوں کی بھی طلب باقی نہیں
درد سے ایسے محبت ہو گئی
نینا سحر
آنکھیں تھوڑی سی نم ہوئیں
"مالا ۔۔۔۔شونو۔۔۔۔میلی باتھ ( مایا میری بات سنو )
اُسے مگن دیکھ کر اُسکے منہ پر ہاتھ مار کر اپنی طرف متوجہ کیا
پہلی بار اُسکے منہ سے اپنا نام سن کر مسکرائی
"جی نور میری جان بولو ۔۔۔۔مام سن رہیں ہیں”
اُسکے پھولے ہوئے گال کھینچ کر بولی
"نور نینو آلی( نور کو نیند آرہی ہے)
اُسکی بات سن کر تھوڑی بیڈ پر سیدھی ہوئی ہاتھ پر اور بازو پر چھوٹی سی بنڈیجز پیڈ لگی ہوئیں تھی لیکن دو دن ہوچکے تھے اور زخم تقریباََ بھر چُکے تھے لیکن ڈاکٹر نے دو تین دن تک پٹی اُتارنے سے منع کیا تھا
"مالا درد ہولی (مایا درد ہورہی )؟؟؟
اُسکے بازو پر سر رکھا تو مایا کے منہ سے سیسکی نکلی تو نور اُٹھ کر بولی جبکہ اب واش روم سے پانی گرنے کی آوازیں بند ہو چکیں تھیں
"نہیں میری جان آپ سوجاؤ”
اُسکا سر اپنے سینے پر رکھتی بولی تو نور جسے ماں کی گود اتنے دنوں بعد نصیب ہوئی تھی چند سیکنڈ میں ہی نیند کی آغوش میں چلی گی ۔۔۔۔۔بے شک یہ تربیت کا ہی اثر تھا جو اُسے کسی کا درد محسوس ہوتا تھا ۔۔۔۔۔بازل ایک اچھا باپ ثابت ہوا تھا
اپنی باتوں کی وجہ سے بازل کا سامنے کرنے سے ڈر لگتا تھا ۔۔۔۔اُسے لگا تھا کہیں اُسکے جذبوں کا تمسخر۔ نہ اڑایا جائے۔۔۔۔۔۔تب سے بازل اُسکے سامنے نہیں آیا تھا اور ابھی اُسے بازل کا سامنا کرنے سے خوف آرہا تھا
ابھی آنکھیں بند کی ہی تھیں جب خوشبوں کا ریلا اُسکی سانسوں میں شامل ہوا دھڑکنیں بلا وجہ ہی تیز ہوئیں ۔۔۔قدموں کی بھاری چانپ کا رخ اپنی طرف محسوس کرتی زبردستی آنکھیں بند کرکے لیٹی رہی
نور جو اب اُسکے اوپر پورا قبضہ جمائے پھیل کر لیٹی ہوئی تھی کیوں کے بازل سے مکمل ناراضگی چل رہی تھی
اور اُسکی چھوٹی چھوٹی مدھم سی سانسیں محسوس ہورہیں تھیں ۔۔۔۔۔جبکہ اُسکی نسبت مایا کی سانسیں کافی اودھم مچائے ہوئے تھیں
بازل کی آنکھیں چمکیں مایا کے اوپر جُھک کر نور کو اُٹھانا چاہا تو دوسری طرف مایا کی حالت غیر ہورہی تھی اُسکے اردے اور سانسیں اپنے چہرے پر گرتی محسوس کرکے دل بند ہوتا محسوس ہُوا
بازل نور کو احتیاط سے اُسکے اوپر سے اُٹھا کر دوسری سائڈ پر لیٹایا اور بلنکیڈ ٹھیک کرکے دوبارہ مایا کی طرف آیا جو کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے ہوئے تھی
تھوڑی سی جگہ بنا کر بیٹھا مایا کے سینے پر سے اُسکا ہاتھ اُٹھا کر اپنے مضبوط ہاتھوں میں لیا
"ماہی ۔۔۔۔۔۔۔کیا تم مجھے معافی کے قابل سمجھتی ہو ”
اُسکے ہاتھ پر ہلکی سی جسارت کی جس کے نتیجے میں پٹ سے آنکھیں کھول کر اپنا ہاتھ اُسکی مضبوط گرفت سے نکلنے کی ناکام سے کوشش کرنے لگی
"میں چاہتا ہوں آج ہم ایک دوسرے کی تکلیفیں ختم کرنے کی کوشش کریں ایک دوسرے کو ماضی کی قید سے نکال لیں ۔۔۔۔۔۔میں چاہتا ہوں ۔۔۔۔۔۔اپنے ماضی کو تم پر کھول دوں ۔۔۔۔اُسکے بعد تمہارا فیصلہ ہے اگر مجھے اپنے قابل سمجھوں تو ہم نئی زندگی جس میں خوشیاں ہماری منتظر ہیں اُسکا آغاز کریں ”
مایا کی آنکھوں سے نکلتے آنسو کو نظر انداز کرتا گویا
وہ چاہتا تھا اج ساری مسافتیں ختم ہوجائیں ۔۔۔۔ اُسکی قربانیوں کا ثمر اُس کے عشق کے بدلے میں نوازہ جائے لیکن یہ مایا کے فیصلے پر تھا وہ اُسکا ماضی جان کر اپنی زندگی اُسے شونپتی یہ اس بار اُسے خود چھوڑ کر چلی جاتی
•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...