مری جفا طلبی کو دعائیں دیتا ہے
وہ دشت سادہ وہ تیرا جہان بے بنیاد
گیارہ سال کی عمر، یعنی سن بلوغ کو پہنچتے پہنچتے مجھے سب کچھ سکھا اور سمجھا دیا گیا تھا۔
مثلاً یہ کہ ہماری انسانی کائنات کے دو نام ہیں: جزیرۂ آلوچۂ سیاہ، اور جمبُ دویپ۔ اور وہ کائناتی محور، جس کے سہارے کائنات کی ہر شے قائم ہے، اس کا نام کوہستان میرو ہے۔ اسے سمیرو بھی کہتے ہیں۔ سمیرو یا میرو کے پانچ رخ ہیں: اول مشرقی رخ جو نیلم کا بنا ہوا ہے۔ دوسرا جنوبی رخ جو سرخ یاقوت کا ہے، اور تیسرا مغربی رخ، یہ زرد پکھراج کا ہے۔ چوتھا شمالی رخ ہے جو سفید براق بلور کا ہے۔ اور سب سے آخری رخ سمیرو کے مرکز میں ہے۔ یہ گہرے سبز زمرد کا ہے۔
اس کائنات کے شمالی خطے میں ناقابل گذار پہاڑ ہیں اور دشت اور صحرا ہیں، یہ خطہ اس قدر وسیع اور گھنا ہے کہ اگر اوپر جا کر بہت دور سے اس کا مشاہدہ کیا جائے تو لگتا ہے کہ سارا جمبُ دویپ اور کچھ نہیں ہے، صرف کوہ و صحرا ہے۔ لیکن یہ سلسلۂ کوہستان و دشت و صحرا ختم بھی ہو جاتا ہے اور جہاں یہ ختم ہو جاتا ہے وہاں وسیع و عریض میدان ہیں۔ اتنے وسیع کہ جہاں تک نظر جائے، لگتا ہے صرف میدان ہی میدان ہے۔ لیکن غور سے دیکھیں تو اس میدان میں بستیاں بھی آباد ہیں۔ وہاں کے باشندوں کو اتّرا کورو کہتے ہیں۔ ان کی عمریں ہزار برس یا اس سے زیادہ ہوتی ہیں۔ وہ اپنی معبود دیویوں سے شادیاں بھی رچا لیتے ہیں لیکن کسی شادی کی مدت حیات سات سے آٹھویں دن تک نہیں پہنچتی۔ آٹھویں دن کیا ہوتا ہے؟ یہ کسی کو نہیں معلوم۔ دیوی سے شادی کرنے والا شاید جاں بحق ہو جاتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ غیر معمولی لمبی عمروں کے باوجود اس خطے میں آبادی کا دباؤ اتنا نہیں ہوتا کہ لوگ ایک دوسرے سے نبرد آزما ہوں اور اس طرح وسیع و عریض علاقوں میں جنگ و قتال کر کے جل تھل کو کشتوں سے بھر دیں۔ اس کی نوبت ہی نہیں آتی اور آبادی کا تناسب برقرار رہتا ہے۔
دیویوں سے شادی کرنے والوں کے علاوہ اور لوگ بھی ہیں جو اس خطے میں جینے مرنے کا وظیفہ پورا کرتے ہیں۔ بے شمار درخت، جھاڑیاں، اونچے نیچے پہاڑ ہیں اور ان گنت ندیاں ہیں۔ یہ سب اپنی اپنی زندگیاں بھرتے ہیں اور انھیں کچھ خبر نہیں کہ یہیں پاس میں کہیں اترا کورو لوگ (یا جنات؟ یا دیو؟ ) بھی رہتے ہیں۔ سچ پوچھو تو ان کی زبانوں میں (کیوں کہ الگ الگ علاقے کے لوگ الگ زبان بولتے ہیں) میں جن، پری، دیو، پری وغیرہ الفاظ ہیں ہی نہیں۔ کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں سخت گرمی پڑتی ہے۔ ان کے یہاں ٹھنڈی چیز کا تصور نہیں۔ وہ ٹھنڈے اور گرم میں فرق نہیں کر سکتے اور ان کی زبان میں برف کے لئے کوئی لفظ نہیں ہے۔ انھیں گرم پانی پلائیں یا ٹھنڈا یخ پانی، انھیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ایک قول یہ بھی مجھے پڑھایا گیا کہ جزیرۂ آلوچۂ سیاہ خود کوئی کائنات نہیں ہے، وہ در اصل تمام کائناتوں کا مرکز ہے۔ اور جزیرۂ آلوچۂ سیاہ کو سات سمندر گھیرے میں لیے ہوئے ہیں۔ ان سمندروں کی تفریق اس طرح قائم ہے کہ ہر ایک سمندر کے بعد ایک خطۂ زمین ہے۔ کچھ لوگوں کا مشاہدہ ہے کہ ان سات سمندروں میں الگ الگ چیزیں بھری ہوئی ہیں۔ اول میں آب تلخ و نمکیں، دوئم میں شربت گڑ، سوئم میں شراب، یا سوم رس، چہارم میں مکھن، پنجم میں جغرات، اور چھٹویں میں دودھ۔ آخری سمندر کے بعد کوئی خطہ نہیں ہر طرف پانی ہی پانی ہے۔
ایک بڑی مایوسی کی بات یہ تھی کہ کسی کو نہیں معلوم کہ تمام کائناتوں کا آخری سرا کہاں ہے۔ کہا گیا کہ اس سرے کے بارے میں ہم جان بھی لیں کہ وہ کس طرف اور کتنے فاصلے پر ہے تو بھی ہم وہاں تک پہنچ نہیں سکتے۔ لیکن دکھم، جو انسان کی اصل تقدیر ہے، اس سے نجات تب ہی مل سکتی ہے جب ہم تمام کائناتوں کے انتہائی آخری کنارے کو چھو لیں گے۔ معلوم ہوا کہ دکھم، یعنی دکھ، درد، غم، انتشار سے کسی کو نجات نہیں۔
میرے استاد کی عادت تھی کہ بولتے بولتے سو جایا کرتے تھے۔ ہماری یا کسی کی مجال نہ تھی کہ ان کو بیدار کرے، یا درس چھوڑ کر چلا جائے۔ ایک دن کا واقعہ ہے کہ میرے استاد سر صبح ہی سو گئے اور سر شام بیدار ہوئے۔ ان کے چہرے پر، اور چہرے ہی پر کیوں، ان کی ساری شخصیت پر، ان کی پور پور پر، نور کی قوت برستی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔ بے تاخیر، اور اس طرح، گویا وہ سوئے ہی نہ تھے، انھوں نے کہنا شروع کر دیا:
ہاں، یہ جزیرۂ آلوچۂ سیاہ بھی کسی کا بنایا ہوا ہے۔ یہ بے انت نہیں ہے۔ بس اتنی بات درست ہے کہ کوہستان میرو ساری کائنات، بلکہ تمام کائناتوں کا محور ہے۔ اس کوہستان کے مختلف کوہ و در کو تم ایک نیلوفر کے پھول کی طرح تصور کر سکتے ہو۔
اور جب تصور کر سکو گے تو اسے وجود میں بھی لا سکو گے۔ اس طرح کہ کوہستان میروئے نیلوفری کی چار پنکھڑیاں ہیں۔ اور ہر پنکھڑی ایک بر اعظم ہے۔ اور جنوبی پنکھڑی کا نام بھارت ہے اور یہ ملک، جس پر تم آباد ہو، اسی بھارت یا ہند یا سندھ کا ایک حصہ ہے۔
میری تعلیم کے آخری سال کئی پوشیدہ قوتوں کو اپنے اندر پیدا کرنے اور پھر ان سے خارجی ماحول پر اثر انداز ہونے، بلکہ کبھی خارجی ماحول کو نیست و نابود کر کے نیا ماحول خلق کرنے کی مشق میں صرف ہوئے۔ میں کچھ سمجھتا، کچھ نہ سمجھتا، لیکن سوال کرنے یا تفصیل و کوائف معلوم کرنے کا یارا مجھ میں نہ تھا۔ کسی میں بھی نہ تھا۔ میرے والدین میں بھی نہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ ان کا عقیدہ تھا کہ حقیقت در اصل تمھارے ذہن کا داخلی ترین حصہ ہے۔ تو کیا حقیقت الگ سے، معروضی طور پر، کچھ نہیں؟ ایک بار میں نے ہمت کر پوچھ ہی دیا۔ والدہ تو دوپٹے میں منھ چھپا کر میری بیوقوفی، یا معصومیت پر مسکرانے لگیں۔ لیکن میرے والد چپ رہے۔ میں خوش ہو رہا تھا کہ بڑے میاں کو اچھا چت کیا ہے۔ اب کل جا کر اپنے استاد جی کی بھی استادی نکالوں گا۔ لیکن چند لمحے کے سکوت کے بعد میرے باپ گویا ہوئے۔
معروض کیا ہے؟ صرف انداز بیاں ہے۔ تم اس گھڑے کو دیکھ رہے ہو اور اس میں بھرے ہوئے پانی کو بھی دیکھ رہے ہو۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ جب تم اس کے پاس جانے کا ارادہ کرو تو پاس تک نہ پہنچ سکو؟ اگر تم ایک چیونٹی میں تبدیل ہو جاؤ تو تم گھڑے کا منھ بھی نہ دیکھ پاؤ گے۔ گھڑے کی سطح چیونٹی کو اتنی ہی وسیع اور لا حد نظر آئے گی جیسے انسانوں کی زمین کی سطح تمھیں محسوس ہوتی ہے کہ مسطح ہے، چپٹی ہے اور بے انت ہے۔ اور اگر تم کسی اونچی جگہ کھڑے کر دیے جاؤ گے تو تمھیں گھڑا نظر بھی نہ آئے گا۔ اور ابھی تو ہم تین شخص اس گھڑے کو دیکھ رہے ہیں۔ ہم کہیں بھی جا کر گواہی دے سکتے ہیں کہ ہماری کوٹھری میں ایک پانی کا گھڑا ہے اور وہ پانی سے بھرا ہوا بھی ہے۔ اس وقت تو تم اپنی آنکھوں، اپنی قوت مشاہدہ، قوت ادراک کے بل پر گواہی دے سکتے ہو اور وہ بالکل سچی گواہی ہو گی۔ لیکن اگر ہم لوگ یہاں نہ ہوں؟ کوئی بھی نہ ہو؟ تو پھر کون گواہی دے گا کہ پانی کا گھڑا یہاں ہے؟ پھر تمھاری قوت مشاہدہ کس کام کی جب وہ موجود اور غیر موجود میں فرق کرنے کی صلاحیت نہ رکھتی ہو؟
مجھے یہ فضول سی بال کی کھال لگی۔ لیکن اچانک میرے باپ نے سر اٹھا کر مجھے دیکھا تو میں نے دیکھا کہ ہماری کوٹھری کی چھت سے ایک چاند لٹک رہا ہے۔ پھر میں نے محسوس کیا (یا دیکھا) کہ وہی چاند چھت سے اتر کر میرے دل میں روشن ہو گیا ہے۔ گھبرا کر میں نے اپنا سر جھنجھوڑا، ہاتھ پاؤں پھینکے جیسے مجھے صرع کا دورہ پڑ گیا ہو۔ لیکن اب جو ہوش آیا تو چاند کہیں نہ تھا۔ چھت پہلے کی طرح سنسان تھی۔
یہ بھی ان لوگوں کا کوئی شعبدہ ہو گا، میں نے دل میں سوچا۔ کیا ایسا بھی ممکن ہے کہ آگ نہ جلائے یا پاتی تر نہ کرے؟
اگلے دن درس شروع ہونے کے پہلے استاد نے مجھ سے پوچھا، کیا تم جانتے ہو کہ تمھاری ریڑھ کی آخری ہڈی سے لے کر سر کی آخری ہڈی تک بہتر ہزار ندیاں ہیں؟ میں نے کہا، جی نہیں۔ استاد کی بات مجھے بالکل احمقانہ لگتی تھی، لیکن زبان پر حرف استفسار یا انکار لانے کی مجال کہاں تھا؟ استاد نے فرمایا، یہ بہتر ہزار ندیاں تمھارے بدن کے تمام حصوں کو انفاس کی قوت پہنچاتی ہیں، کچھ بہت تیزی سے، کچھ آہستہ آہستہ اور کچھ بالکل آہستہ۔ اگر یہ ندیاں نہ ہوں تو انفاس کی مناسب قوت کے بغیر تم اپاہج ہو جاؤ، خاص کر تمھارا دماغ کچھ نہ رہ جائے، پلپلی جھلیوں کا گندہ مجموعہ ہو کر رہ جائے۔
میں چپکا سنتا رہا۔ اور تمھارے بدن میں سات چکر ہیں۔ ہر چکر کو بیدار کرنے اس کی قوتیں بیدار ہوتی اور زندگی کو بامعنی بناتی ہیں۔ اور ساتویں چکر کے نیچے، تمھاری ریڑھ کی آخری ہڈی کے آخری جوڑ کے نیچے کنڈلنی کا مستقر ہے۔ وہ ایک ناگ ہے جو ہر وقت خوابیدہ رہتا ہے۔ وہ جو حق کا سچا تلاشی ہے، وہ اپنے وجود کی فہم حاصل کرنے جد و جہد میں مصروف کنڈلنی کو جگانے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر تم ایسا کر سکو تو کیا ہر طرح کے دکھ درد سے آزاد ہو سکو گے۔ نہیں، ہر طرح کا دکھ تو نہیں، لیکن جینے مرنے کے دکھ کو سہنے کی صلاحیت تم میں پیدا ہو جائے گی۔ وہ معروضی ہو یا موضوعی، لیکن تم دنیاوی زیست کے دکھ سے ہر طرح آزاد ہو گے۔ تم جانتے ہو، انسانی وجود کی سب سے بڑی آزمائش دکھم ہے۔ پیدائش سے لے کر موت تک وہ تمھارے ساتھ رہتا ہے، مختلف درجوں میں اور مختلف شکلوں میں۔ جب تم دودھ پیتے بچے تھے اور تمھیں بھوک لگتی تھی اور تمھارے رونے گلا پھاڑ پھاڑ کر چلانے کے باوجود تمھیں دودھ نہ ملتا تو تم اس وقت اپنی ننھی منی ہستی کے سب سے بڑے دکھ میں مبتلا تھے۔
اور اب، جب تم خود کو کائنات میں تنہا نظر آتے ہو، تنہائی سے بڑھ کر کوئی دکھ نہیں۔ ہاں موت کا خواب البتہ ایک دکھ ہے جو موت کے وقت سب سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ کنڈلنی کوئی علامت نہیں، کوئی استعارہ نہیں، تم خود ہو۔ اسے جگاؤ گے تو خود تمھیں کائنات کی سب سے بڑی بیداری نصیب ہو جائے گی۔ کوئی ضروری نہیں کہ تمھیں کنڈلنی کو جگانے کے لئے خود کو کسی پہاڑ کے غار میں بند کر لینا پڑے۔ تم نے سنا ہو گا، ایک زمانے میں لوگ اپنے خزانے پر ایک سانپ متعین کر دیتے تھے۔ سانپ کو ہٹاؤ تو خزانے کا راستہ دکھائی دے۔ کیا وہ کوئی طلسمی سانپ تھا، یا علامتی سانپ، یا واقعی اپنے دانتوں کے پیچھے کوئی زہریلی تھیلیوں والا، نوکدار دانتوں والا، دو شاخہ زبان والا؟ کیا معلوم؟
میری سمجھ میں کچھ بھی تو نہ آیا۔ بھلا انسانی جسم میں کوئی سانپ بھی سویا ہوا ہو سکتا ہے؟ سچ مچ کا سانپ، اور بھی ناگ دیوتا؟ ہو گا۔
اور یہ بھی کوئی ضروری نہیں کہ تم کنڈلنی کو جگا لو تو تم دکھ سے واقعی آزاد ہو جاؤ۔ ہاں، دکھ تمھاری نگاہوں میں حقیر یا غیر اہم لگنے لگتا ہے۔ دکھ تو کائنات کا مرکز ہے، اس سے فراغ کہاں؟ پیدا ہونے سے لے کر نجات حاصل کرنے کے درمیان جتنی منزلیں ہیں وہ دکھ سے عبارت ہیں۔ اور یہ نہ بھولو کہ سب سے بڑا مرحلہ نجات حاصل کر لینے کا ہے۔ اس کے بعد تمھاری زندگی میں کوئی مقصد نہر ہے گا۔ تو تم وہاں پہنچ کر کیا کرو گے؟
ایک سبق نے تو میری عقل ہی غارت کر دی۔ ذہنی اور مادی کائناتیں آپس میں مدغم ہو سکتی ہیں۔ تم اپنے لیے چاند خلق کر سکتے ہو اور اسے آسمان پر معلق بھی کر سکتے ہو۔ کیا تم نے غور کیا کہ خارجی مظہرے سمندر، پہاڑ، آسمان وغیرہ اگر نظر آتے ہیں تو یہ تمھارے ذہنی مظاہر کا پرتو بھی ہو سکتے ہیں جنھیں تمھارا شعور ادراک کے پردے منعکس کر سکتا ہے؟ یعنی ذہنی مظاہر ہی اصل مظاہر ہیں؟
یہ سب مجھے پڑھایا گیا۔ پڑھایا ہی نہیں، سکھایا گیا۔ سکھایا ہی نہیں میری ذات اور وجود کا حصہ بن گیا۔ مجھے یقین ہو گیا کہ مظاہر اگر داخلی ہیں تو میں انھیں خارجی سطح پر بھی دیکھ سکتا ہوں۔ اور اگر دیکھ سکتا ہوں تو وہ موجود ہیں۔ اور اگر وہ موجود ہیں تو میرے ہی خلق کردہ ہیں۔
تو پھر یہ شعر و شاعری، یہ عشق و محبت، یہ دریافت اور ایجاد۔ یہ سب کیا ہیں؟ یہ سب تم ہو، تمھارے باہر کچھ نہیں۔ ہر بار مجھے غیب سے یہی جواب آتا۔ مجھے اپنے آپ سے، ہر شے سے خوف آنے لگا۔ یہ دنیا، یہ وجود، یہ تگ و دو، یہ دوستیاں، ملک گیریاں، کشور ستانیاں، یہ سب میں ہی ہوں؟ ہاں۔ اگر یہ سب تم نہیں ہو تو تم کچھ بھی نہیں ہو۔ تم ہی ان کے خلاق ہو اور تم ہی ان کو نیست و نابود کرو گے، کر سکتے ہو، اب بھی یہی کر رہے ہو۔
میں یہ سب سن، پڑھ اور سیکھ کر زندگی سے اکتا گیا تھا۔ میں اپنے گھر، اپنی درسگاہ، اپنے گاؤں، سب کو بے معنی اور فضول جاننے لگا تھا۔ یہ کون سی تعلیم ہے اور کون سی عقل جو مجھے سکھاتی تھی کہ میں ہی اپنا بنانے والا اور پھر اپنا ہی زوال ہوں اور پھر صفحۂ ہستی سے خود کو مٹانے والا بھی ہوں۔ آخر اور بھی لوگ ہیں۔ کھاتے، پیتے، انسانی افعال اور انسانی آلودگیوں سے خالی نہیں۔ وہ جیتے، لڑتے بھڑتے، بدلہ لیتے، جرم و سزا کے مراحل سے بھی گذرتے ہیں۔ لیکن وہ میری ہی طرح کے لوگ نہیں تو پھر کیا ہیں؟ کیا انھوں نے اپنے آپ کو خود ہی بنایا ہے۔ تو کیا ان کو نجات کی فکر نہیں؟ لیکن نجات بھی دکھم کا انت تو نہیں؟ تو ان کے دکھ کیسے ہیں؟ ویسے، جیسے کسی جانور کے ہوتے ہیں؟ جسے کوئی پروا نہیں کہ فکر کرے کہ وہ کہاں سے آیا تھا اور مرنا کسے کہتے ہیں؟ بس مرنے سے خوف، زندگی کو قائم رکھنے کی جد و جہد، اسے وہ سمجھتے ہیں۔
ان کو شاید موت کی حقیقت کا علم بھی نہیں۔ ہاں، دکھ وہ ضرور جانتے ہیں، یا شاید جانتے ہیں لیکن اس نام سے نہیں؟ کیا وہ نام کا تصور بھی رکھتے ہیں، یا یہ ہم ہیں جو اشیا کو نام دے کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے اس شے کو اپنے علم کے حصار میں قید کر لیا؟ لیکن موت کے بعد کیا ہے؟ شاید کچھ نہیں، ورنہ ہر ارذل ترین ذی روح زندگی کو بر قرار رکھنے کے لیے اتنی تگ و دو کیوں کرتا ہے، اتنے دکھ کیوں بھوگتا ہے؟ مرنے بعد کیا ہو گا، انھیں نہیں معلوم، زندگی کو وہ جانتے ہیں۔ اسی لیے زندگی کو عزیز رکھتے ہیں۔