(Last Updated On: )
احد کو اپنی جانب دیکھتے ہوۓ وہ مال سے باہر آکر اپنی گاڑی میں بیٹھ چکاتھا اور اب سڑکوں پر بلا مقصد گاڑی چلاۓ جا رہا تھا ۔وہ صبح سے احد کے گھر کے باہر گاڑی میں بیٹھا تھا اور انکو دیکھتے ہی انکا پیچھا کرنے لگا اسے بھی یہ محسوس ہوا کہ پری کو اسکی موجودگی کا احساس ہو چکا ہے ۔
اب وہ گاڑی کا اپنا گھر کی جانب کرنے لگا تھا وہ خوش تھا کہ پری کو دیکھ لیا تھا اس نے۔۔۔۔
چھ مہینے ہو چکے تھے پری اپنے بابا یعنی احد کے ساتھ جتنی خوش تھی شاید ہی کبھی رہی ہو احد اسے لندن اپنے خوبصورت ویلا میں لایا تھا دبئی میں دو مہینے رہنے کے بعد وہ اسے کافی جگہوں کی سیر کرا چکا تھا اور اب ایک مہینے سے وہ لندن میں تھے ۔
لندن میں آکر احد اکثر اپنے کام کے سلسلے میں باہر رہتا تو پری میڈ کے ساتھ جو دبئی سے اب انکے ساتھ ساتھ رہتی تھی ویلا کے باہر ہی پارک میں چہل قدمی کرنے نکل جاتی تھی
اسکی جولی لبنہ اور زید سے بھی فون پر بات ہوتی رہتی تھی اب یمنا اور ثناہ بھی کبھی کبھار فون کر لیتے تھے ۔۔۔ سنبل سے بھی اسکی بات ہوچکی تھی جو اب اپنے شوہر کے پاس بارڈر کے قریب کسی مقام پر تھی جسکی وجہ سے انکی زیادہ بات نہیں ہو پاتی تھی۔
وہ اکثر پارک میں کسی کو خود کو دیکھتے ہوۓ محسوس کرتی تھی مگر اسے کبھی کوئ نظر نہیں آیا تھا۔۔۔
جی جناب مگر میں اس وقت جواب نہیں دے سکتا آپکو انتظار کرنا پڑے گا۔۔جی اوکے اوکے!!!!
احد فون پر بات کرتے ہوۓ ایئر پورٹ سے باہر آرہا تھا پری گاڑی میں بیٹھی اسی کا انتظار کر رہی تھی اسی کا انتظار کر رہی تھی وہ آج شاہ پیلس جا رہے تھے سب کے اسرار پر احد مانا تھا تو پری نے کچھ نہیں کہا تھا۔۔۔
احد کے گاڑی میں بیٹھتے ہی گاڑی شاہ پیلس کی جانب چلنے لگی ۔۔
ڈرائیور پہلے مجھے ہمارے آبائ قبرستان لے چلو ۔۔
یہ کہتے ہوۓ احد نے پری کی جانب دیکھا جو قبرستان کا نام سنکر احد کی جانب دیکھنے لگی تھی اور نمی اسکی آنکھوں میں تیرنے لگی تھی۔
قبرستان میں باری باری اپنے دادا پھر دادی اور آخر میں سلونی کی قبر پر وہ احد کے ساتھ فاتحہ پڑھکر جب جانے لگی تو سلونی کی قبر پر بیٹھ کر رونے لگی ۔۔احد بھی اسکے برابر میں بیٹھ گیا۔
پری بیٹا پلیز روؤں مت سلونی کو دکھ ہوگا اور وہ سمجھے گی میں نے تمھیں خوش نہیں رکھا ہے ۔
احد نے اپنی آنکھوں میں آۓآنسو صاف کرتے ہوۓ پری کو کہا۔
نہیں بابا میں بہت خوش ہوں جب سے آپ کے ساتھ ہوں اور ماں بھی یہ سب جانتی ہے بابا آپ گریٹ ہو۔
یہ کہتے ہوۓ پری احد کے گلے لگی تھی تو احد اسے گاڑی کی طرف لے جانے لگا۔
پری بیٹا مجھے آپ سے ایک بات کرنی ہے لندن میں میرے ایک دوست کی فیملی کو آپ بہت پسند آئی ہو مگر میں نے انھیں ابھی تک کوئ جواب نہیں دیا ہے بہت اچھے لوگ ہے میں انھیں اچھی طرح جانتا ہوں ۔
احد کی اس بات پر پری چونک گئ تھی اور حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی۔
ارے پری بیٹا ڈرو مت آپکی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوگا بس میرے بتانے کا مقصد یہ تھا کہ اچھے لوگ ہے اور ہر باپ کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنی زندگی میں اپنے بچوں کا گھر بسالے مگر میں تمھارے لیے انتظار کرنے کا کہہ چکا ہوں اوکے تو سوچ لینا اس بارے میں اور ہاں کوئی جلدی نہیں ہے ۔
وہ دونوں گاڑی میں دوبارہ بیٹھ چکے تھے مگر پری کا ذہن کسی عجب کشمکش میں الجھ گیا تھا۔۔۔
وہ لال لمبے فراک میں سر پر لال دوپٹہ سے اپنا چہرہ چھپاۓ اسکی جانب آرہی تھی ۔
اسے اپنی جانب آتا دیکھ کر اب اسکے قدم بھی آگے بڑھنے لگے تھے کہ اچانک کسی سمت سے کسی کی آواز آئ۔
اینجل!!!!!
یہ سنتے ہی وہ اپنا لال فراک سنبھالے آواز کے تعاقب میں دھوڑی تھی۔
وہ جو اسے اپنی جانب آتا دیکھ کر خود بھی اسی کی طرف بڑھنے لگا تھا اسے اسطرح کسی اور کی آواز پر خود سے دور جاتا دیکھ کر اسکے پیچھے بھاگنے لگا تھا۔
وہ دوڑتے دوڑتے کسی کے سینے سے جا لگی تھی اور اسکے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی نظروں سے اوجھل ہونے لگی تھی
پری!!!
پری!!!!
زور سے آواز دیتے ہوۓ نوفل نیند سے اٹھا تھا ۔
نوفل کی آواز سنکر یمنا اور ثناہ کمرے میں آگۓ تھے
کیا ہوا آپکو ؟؟؟
یمنا نے نوفل کے پاس آکر پوچھا تو وہ اسکی بات کا جواب دیۓ بغیر اٹھکر واشروم کی جانب بڑھا
یمنا کی آنکھوں میں آنسو آگۓ تھے چھ مہینے ہوگۓ تھے مگر ابھی تک نوفل یمنا کو اسکے حقوق نہیں دے پا رہا تھا اور یمنا بھی اسے وقت دے رہی تھی کہ وہ سب بھول جاۓ اور خود اسے اپنا لے مگر اب وہ ڈرنے لگی تھی اور ثناہ بھی وہ یمنا سے دور نا چلا جاۓکیونکہ جب سے احد نے اپنے اور پری کی آنے کا کہا تھا تب سے نوفل بے چین رہنے لگا تھا۔۔
شاہ پیلس میں آکر پری اور احد کو ایک ہفتہ ہوچکا تھا ۔
پری اس وقت سرونٹ کوارٹر میں اپنی کچھ چیزیں سمیٹ رہی تھی وہ اصل میں اپنے بابا یعنی احد کے دیۓ ہوۓ ریڈیو کو لینے آئ تھی ۔
پری ریڈیو لیکر شاہ پیلس کی جانب جانے لگی تو یمنا اسے نظر آئ جو باہر گارڈن میں گم سم بیٹھی تھی ۔
اسے اکیلا دیکھ کر پری اسکے پاس آئی۔
یمنا کیسی ہو کیا میں یہاں بیٹھ سکتی ہوں۔
پری نے یمنا کی طرف مسکراتے ہوۓ دیکھ کر پوچھا
ہاں یار اس میں پوچھنا کیوں آؤ نا بیٹھو۔
یمنا نے پری کا ہاتھ تھامے اپنے ساتھ بینچ پر بٹھایا۔
۔
اور سناؤ پری کیسی ہو اور اب کیسا لگ رہا ہے تم خوش ہو نا؟؟
یمنا کے پوچھنے پر پری مسکرائ۔
ہاں بہت خوش ہوں مجھے میرے بابا مل گۓ سب مل گیا اب سب اچھا لگتا ہے تم اپنی بتاؤ۔
پری کی اس سوال پر یمنا کے چہرے پر ایک درد بھری مسکراہٹ آگئ ۔
پری کبھی کبھار سب مل کر بھی ہم خوش نہیں ہوتے ہے ۔۔۔۔۔
یمنا یہ کہہ کر اپنے آنسو روکنے کی کوشش کرنے لگی تھی پری اسکی جانب حیرت سے دیکھ رہی تھی تبھی یمنا نے نوفل کو دیکھا جو ان دونوں کی طرف دیکھ رہا تھا تو یمنا جلدی پری سے مخاطب ہوئی ۔
یار پری پلیز ایک گزارش ہے پوری کروگی دیکھو نا مت کرنا تم نے ویسے بھی مجھے میرے شادی کا گفٹ نہیں دیا ہے اسے میری شادی کا گفٹ ہی سمجھ لو۔
پری اسے سوالیہ نظروں سے دیکھنےلگی تھی تھبی احد جو پری سے بات کرنے کیلیے اسی کی طرف آرہا تھا نوفل پر نظر پڑتے ہی اسے بھی ساتھ لیکر باتیں کرتے ہوۓ وہاں پہنچ چکا تھا۔۔
کیا باتیں ہو رہی تھی دونوں لیڈیز کے بیچ ۔
احد نے خوشگوار انداز میں پوچھا۔
انکل میں پری سے اپنی شادی کا گفٹ مانگ رہی تھی تو پری دو گی نا مجھے گفٹ۔
پری ابھی بھی حیرانی سے یمنا کی جانب دیکھ رہی تھی ۔تو احد نے جواب دیا۔
ہاں دیگی جو مانگنا ہے مانگو بیٹا پری کو میں آرڈر دیتا ہوں وہ ضرور تمھاری بات پوری کرے گی۔
یمنا نے یہ سنکر نوفل کی طرف دیکھتے ہوۓ پری سے کہا۔
میں نے ہمیشہ نوفل کو گا کر اپنی دل کی بات بتانے کی کوشش کی ہے مگر میری آواز اتنی اچھی نہیں ہے تو آج میرے دل کی بات میں نوفل تک پہنچانا چاہتی ہوں تو پھر میں جو گانا بولو گی پلیز وہ گا دومیرے لیے پلیز ۔۔۔
یمنا کی بات سنکر پری نے احد کی طرف دیکھا جو مسکرا رہا تھا
ہاں پری بیٹا بہت دن ہوگۓ ہیں میں بھی سننا چاہتا تھا تمھاری آواز تو چلو پھر ہاں تو یمنا بتا دوجو نوفل کو بتانا چاہتی ہو۔
احد کے ایسا کہنے پر یمنا خوش ہوتے ہوۓ پری کے کان میں گانے کے بول بتا کر اب اسکے گانے کا انتظار کرنےلگی
پری نے اپنا رخ دوسری جانب کرلیا تھا اور اپنی آنکھیں بند کر لی تھی اور ان آنکھوں میں اب کسی کا عکس تھا کسی نیلی آنکھوں والے کا۔۔۔۔
تو آتا ہے سینے میں جب جب سانسیں بھرتی ہوں ۔
تیرے دل کی گلیوں سے میں ہر روز گزرتی ہوں۔۔
ہوا کے جیسے چلتا ہے تو میں ریت جیسے اڑتی ہوں۔
کون تجھے یوں پیار کرے گا جیسے میں کرتی ہوں۔۔۔
۔
یمنا نوفل کی طرف نم آنکھوں سے دیکھ رہی تھی اور نوفل نے اسے دیکھ کر چہرہ پھیر لیا تھا۔
پری کی پلکیں بھی بھیگ چکی تھی کسی کی یاد میں
تو جو مجھے مل گیا سپنے ہوۓ سر پھرے
ہاتھوں میں آتے نہیں اڑتے ہیں لمحے میرے ۔
میری ہنسی تجھ سےمیری خوشی تجھ سے
تجھے خبر کیا بے خبر
جس دن تجھ کو نا دیکھو پاگل پاگل رہتی ہوں کون تجھے یوں پیار کرے گا
جیسے میں کرتی ہوں۔
پری کے چھپ ہوتے ہی احد کے ساتھ وہاں موجود ملازم اور ملازمائیں بھی تالیاں بجانے لگے تھے یمنا بھی پری سے ہنستے ہوۓ گلے ملی تھی اور نوفل بھی بس ہلکا سا مسکرا رہا تھا ۔۔۔۔
رات کے کھانے پر سب ساتھ بیٹھے ہوۓ تھے تب احد نے فہد سے مخاطب ہوکر کچھ کہا
۔بھائ پری کیلیے رشتہ آیا ہے لوگ بہت اچھے ہیں میں انھیں پرسنلی بھی جانتا ہوں وہ لندن میں پری کو دیکھ چکے ہیں شام کو انکا فون آیا تھا وہ کل آ ۓ گے ہم سب سے ملنے۔
احد کی بات سنکر پری اور نوفل کے علاوہ سب کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی تھی۔۔
تو پھر تم نے رشتہ کرنے کا سوچ لیا ہے کیا؟؟
فہد نے احد سے پوچھا تھا ۔
نہیں بھائی ابھی تک نہیں میں نے فیصلہ پری پر چھوڑا ہے وہ جب تک نہیں چاہے گی تب تک میں کوئی جواب نہیں دونگا اور یہ میں انکو بھی بتا چکا ہوں۔۔۔
اب دونوں بھائ بزنس کی باتیں لیکر بیٹھ چکے تھے جبکہ پری کل کیلۓ پریشان ہو چکی تھی۔
یمنا کچن میں کھڑی کسی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئ تھی جب ثناہ وہاں آئ اور اسے اسطرح دیکھا تو اسکے قریب آکر اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے اپنی جانب متوجہ کیا۔
یمنا کیا سوچ رہی ہو اور اس وقت کچن میں کیا کر رہی ہو۔
ثناہ کی طرف دیکھتے ہوۓ یمنا نے گہری سانس لی۔
کچھ نہیں خالہ بس اپنے اور نوفل کے رشتے کے مستقبل کے بارے میں سوچ رہی تھی وہ مجھے اپنا نام تو دے چکا ہے مگر زندگی میں شامل کرنے کیلیے وقت مانگ چکا ہے مجھے ڈر ہے کہ یہ وقت میری عمر جتنا لمبا نہ ہو ۔
یمنا یہ کہہ کر ثناہ کے گلے لگ کر رونے لگی تھی۔تو ثناہ بھی اسکی حالت پر افسوس کرنے لگی اور بولی۔
نہیں بیٹا ایسا نہیں ہے تم دیکھ لینا پری کا بس کسی اچھے گھر میں رشتہ ہو یہ دعا کرو پھر نوفل خود اسے بھول کر تمھیں تمھاری جگہ دے گا ۔
پری جو کچن میں پانی کی بوتل لینے آئی تھی ساری باتیں سنکر اب وہاں سے اپنے کمرے میں چلی گئی تھی۔
اگلے دن شام کو احد کے فون بجا جب سب ساتھ میں چاۓ پی رہے تھے
اوہ ینگ مین کیسے ہو ۔؟؟کیا شاہ پیلس کے باہر تو اندر آجاؤ نا ۔ہاں ہاں ہم سب گھر پر ہی ہے
احد نے فون رکھتے ہی پری کی
طرف دیکھا اور کہا۔
پری بیٹا جولی اور زید آرہے ہیں۔
یہ کہہ کر احد اٹھکر باہر کی جانب گیا تھا اور اسکے ساتھ نوفل اور فہد بھی مگر پری کے دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہونے لگی تھی۔۔
جولی اور زید ڈرائینگ روم میں بیٹھے سب سے باتیں کر رہے تھے تبھی احد نے زید سے آھل کا پوچھا۔
زید آھل نہیں آیا تم لوگو کے ساتھ؟؟
آھل کا نام سنتے ہی پری کا دل زور زور سے دھڑکا تھا۔
من مست مگن بس تیرا نام دہراۓ۔
نہیں وہ اپنے سسرال گیا ہوا ہے شادی کے کارڈز کے سلسلے میں ۔
زید کے منہ سے یہ سنتے ہی پری پر جیسے قیامت ٹوٹی تھی اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ بھاگ کر چلی جاۓ وہ خود کو بامشکل کمپوز رکھے ہوۓ تھے ۔
اچھا تو دونوں بھائیوں کی شادی ساتھ ساتھ ہے مبارک ہو
فہد اٹھکر زید کے گلے ملا تھا اور ساتھ ہی احد اور نوفل بھی ۔
تو بھئ کب ہے شادی ؟
احد نے پوچھا۔
اسی لیے تو آۓہیں یہ شادی کارڈ ہے آپ سب ضرور آنا۔
جولی نے کارڈ ثناہ کی جانب بڑھایا تبھی ملازمہ نے کسی مہمان کے آنے کی اطلاع دی تو احد اور فہد باہر چلے گۓ اور تھوڑی دیر بعد نوفل اور زید بھی وہاں سے چلے گۓ ۔
۔۔
اور پری کیا کر رہی ہو آج کل ؟؟
جولی نے پری سے پوچھا۔
۔
کچھ نہیں بس کھیتوں کی سیر اور گھر پر ہی۔
اچھا تم شادی میں آنا میں چلتی ہوں زید مس بل دے رہا ہے اوکے با ۓ۔
جولی سب سے ملکر چلی گئ پری اسے چھوڑنے جانے لگی تو ثناہ نے اسے روکا
رکو پری باہر تمھارے رشتہ کیلۓ لوگ آۓ ہوگے ایسے سامنے جانا اچھا نہیں جولی کو میں اور یمنا چھوڑ دے گے تم اپنے کمرے میں جاؤ۔۔۔
ثناہ پری کو اسکے کمرے میں جانے کا کہہ کر باہر چلی گئی تھی ۔پری جو کب سے خود پر قابو رکھے ہوۓ تھی اب وہ ضبط ٹوٹ چکا تھا وہ روتے ہوۓ اپنے کمرے میں آئ تھی اور دروازہ بند کرکے پلنگ کے قریب پہنچ کر نیچھے بیٹھ کر رونے لگی تھی ۔
وہ خود کو بے بس محسوس کر رہی تھی وہ منہ پر ہاتھ رکھ کر رو رہی تھی تاکہ کسی کو اسکی بے بسی کا پتہ نا چلے ۔
رات کو کھانے کے بعد احد سب کے ساتھ پری کیلۓ آۓ ہوۓ رشتے کے بارے میں بات چیت کر رہا تھا
وہ لوگ تو شادی کی تاریخ مانگ رہے تھے جبکہ میں نے ابھی تک ہاں بھی نہیں کی ہے ۔
احد نے کہا
کچھ بھی کہے مگر لڑکا بہت خوبصورت لگا مجھے کیوں فہد ہے نا؟؟
ثناہ نے فہد کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا۔
۔۔
۔ہاں واقعی میں لڑکا تو مجھے بھی بہت اچھا لگا مگر میں ہم کیا کرسکتے ہے جب پری ہی کچھ نہیں کہتی ۔
فہد نے پری کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا جو ان سب کی باتیں سنکر سر جھکاۓ بیٹھی تھی
نہیں بھائ پری کو کوئ فورس نہیں کرے گا بس ایک ایڈوانٹج ہوتا مجھے بھی اور میرے سارے کولیگ اور فرینڈس کو آھل کی شادی میں وہ آتے تو پری کی بھی شادی کی ڈیٹ ساتھ ہی رکھ کر سب کا ٹکٹ ویزا کا خرچہ ایک کر دیتے ۔
احد نے اپنی راۓ دی تو ثناہ بولی۔
ارے ہم انکے ساتھ ساتھ ڈیٹ رکھ دینگے بلکہ میں تو کہتی ہوں ایک ہی میرج ہال رکھ لیتے ہیں ان سے بات کر لیتے ہے مجھے نہیں وہ انکار کرے گے ویسے بھی رشتہ بہت اچھا ہے ہاں بول دینی چاہیۓ
ثناہ بھی اب پری کو دیکھ رہی تھی۔
نہیں بھابھی ہم بعد میں دیکھ لینگے جب پری کی مرضی ہوگی ۔
احد کی بات پوری ہوئ نہیں تھی کہ پری کی آواز آئی۔
بابا مجھے منظور ہے آپ ہاں کہدے ان لوگوں کو۔
پری کی بات سنکر سب خوش ہوۓ تھی
احد پری کے قریب آیا تھا اور اسکے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوۓ اسے گلے لگا لیا تھا
پری بیٹا یہ لو لڑکے کی تصویر دیکھ لو ۔
احد نے پری سے الگ ہوتے ہوۓ اپنا موبائل جیب سے نکال کر اسکی جانب بڑھایا ۔
نہیں بابا آپ نے پسند کیا ہے کافی ہے ۔
یہ کہہ کر پری وہاں سے اپنے کمرے میں آگئ تھی اور احد اب مسکراتے ہوۓ زید کو فون کر رہا تھا۔۔۔