(پس منظر اورپیش منظر )
میری فلمی شاعری کا آغاز ۱۹۵۱ء کے اوائل سے ہوتا ہے۔
اکتوبر ۱۹۵۰ء میں جب آل انڈیاریڈیوحیدر آباد (دکن )سے میر ی ملازمت ختم کر دی گئی اورمیری بیگم معراج نسیم کوبھی ایک اسکول سے ہٹا دیا گیا تو میں نے احتجاجاً اخبار بیچنے شروع کردئیے۔ چنانچہ کچھ اہلِ ادب (قمر ساحری اور وہاب حیدر )اورکچھ عوامی انجمنوں نے ریڈیو کی انتظامیہ کے خلاف آواز اٹھائی اورحید رآباد اوربمبئی کے اردو اور انگریزی اخبارات نے احتجاجی کالم بھی لکھے ۔یہ سلسلہ دو ماہ تک چلتا رہااورایک ہفتہ وار رسالے ’’پرواز‘‘نے مختلف اہل قلم کے بیانات اوررسائل کے اداریوں اور کالموں کو جمع کرکے ۹نومبر ۱۹۵۰ء کوایک خصوصی شمارہ شائع کر دیا ،حکومتی محکمے تو خاموش رہے لیکن مجھے بمبئی کے ایک رسالے ’’نیا محاذ ‘‘کی ادارت کی دعوت مل گئی اور میں اپنی بیگم او رننھی سی بچی کو اورنگ آباد میں اپنے والدین کے پاس چھوڑ کر بمبئی چلاگیا۔
یہ رسالہ بائیں بازو کی جماعتوں کا ترجمان تھا، مہاراشٹر کے محکمہ اطلاعات نے پریس سے ضمانت کے طور پر ایک بڑی رقم کامطالبہ کردیا چنانچہ بادلِ ناخواستہ رسالے کی اشاعت کوملتوی کرنا پڑا ۔انھیں دنوں مسلم ضیائی بھی بمبئی آئے ہوئے تھے اور اندھیری میں کرشن چندر کے بنگلے میں مقیم تھے۔ترقی پسند ادیبوں میں صرف کرشن چندر ایسے ادیب تھے جونسبتا ً خوشحال سمجھے جاتے تھے۔ان کے بنگلے کے اوپر کے حصے میں بمبئی آنیوالے اکثر احبا ب ٹھہر جاتے تھے ۔ان دنوں ساحر لدھیانوی بھی اپنی والدہ اور نانی کے ہمراہ وہاں قیام پذیر تھے اور ڈرائنگ روم میں سردار ملک (موسیقار انو ملک کے والد)اور مسلم ضیائی تھے ، اب میں بھی آچکاتھا ۔
روز گار میرااولین مسئلہ تھا،والد صاحب جو اورنگ آباد میں ایک پولیس افسرتھے ریاست پرہندوستان کے قبضے کے بعد ریٹائر کر دیے گئے تھے ۔بہن بھائی چھوٹے تھے، ہماری زمینوں پر بھی کچھ سیاسی لوگوں کی شہ پر ناجائز قبضہ ہو چکاتھا۔ہمارا گھر انا سخت معاشی مشکلات کاشکار تھا۔بمبئی میں میرے جاننے والے کم تھے ۔اتفاق سے ’’اِپٹا ‘‘ (انڈین پیپلزتھیٹرز ایسوسی ایشن ) میں ایک دن مجھے اوشا مل گئی ۔اوشامیری ریڈیوکی ساتھی تھی۔ اُن دنوں وہ اپنے شوہرکے ساتھ اپٹا میں کام کر رہی تھی۔یہ وہ دور تھا جب کوریا پرامریکہ نے حملہ کردیا تھا جسے لوگ تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ سمجھ رہے تھے۔ساری دنیا میں امن تحریک چل رہی تھی ۔فرانسیسی مصور پکاسو نے عالمی امن تحریک کی علامت کے طورپر ایک فاختہ کی تصویر بنائی تھی جو امن کے پرچم پر ساری دنیامیں اُڑ رہی تھی ۔امن تحریک میں ترقی پسند ادیب بھی شامل تھے۔روسی اور چینی ادیبوں کے ساتھ فرانس میں لوئی اراگاں، برطانیہ میں ٹی ایس ایلیٹ ،شمالی امریکہ میں ہاورڈ فاسٹ ‘جنوبی امریکہ میں پابلونرودا اور ترکی میں ناظم حکمت ،سبھی یک زبان ہوکر اپنے اپنے انداز میں جنگ کے خلاف لکھ رہے تھے۔پاک و ہند میں بھی یہی عالم تھا میں نے بھی امن کی حمایت میں کالموں(ہفتہ وار ’’پرواز ‘‘ حیدرآباد دکن۱۹۵۰) کے علاوہ ایک طویل نظم ’’کوریا ‘‘(مطبوعہ ’’آدمیت ‘‘حیدر آباد دکن )بھی لکھی تھی جو مشاعروں میں بھی مجھ سے بہ اصرار سنی جاتی تھی ۔خاص طور پراس کا ایک مصرعہ
تم اس جانب سے آؤ‘ ہم تلنگانے سے آتے ہیں
بہت مشہور تھا ۔اوشا نے اسی مصرعہ کو پڑھتے ہوئے ایک دن مجھ سے فرمائش کی ۔ ’’حمایت،ایک سیاسی بھجن بھی لکھ دو، پھر ہم سب مل کرتلنگانے سے کوریا چلیں گے‘‘ میں ہنس پڑا اور وعدہ کرلیا امن تحریک کے سلسلے میں وہ ’’اِپٹا ‘‘میں ایک بھجن اسٹیج کرناچاہتی تھی۔اُسے اسٹیج پراس طرح پیش کیاگیا تھا کہ پس منظر میں ایک پردے پر بمباری سے تباہ شدہ شہروں کاملبہ پینٹ کیا گیا تھا اُس کے سامنے ڈالروں کے ڈھیر پرامریکہ کے صدرٹرومین کی مورتی کھڑی کی گئی ۔اُس کے کئی ہاتھ بنائے گئے اورہر ہاتھ میں جنگی ہتھیار تھے ، مورتی کے اطراف امریکہ کے پٹھو حکمران(چنگ کائی شیک،شاہ ایران ،پاک و ہند کے کچھ لیڈر اور مشرقِ وسطیٰ کے بعض بادشاہ) بیٹھے یہ بھجن گاتے ہیں اِپٹا کے شاعر و موسیقار پریم دھون نے اِس کی دُھن ایسی پیاری بنائی تھی کہ جس نے سنا یا اسٹیج پریہ منظر دیکھا اُسے یاد ہوگیا۔یہ بھجن اُس وقت کے سیاسی پس منظر میں لکھا گیا تھا جس کا مکھڑا تھا
ڈالر دیس کے راجہ، او سب راجوں کے رکھوالے
کٹھن گھڑی ہے ہم بھگتوں پر آ کر ہمیں بچالے
او سب راجوں کے رکھوالے
(یہ بھجن میرے پہلے مجموعۂ کلام ’آگ میں پھول ‘کے دوسرے ایڈیشن (مطبوعہ ۱۹۸۰ء ) میں اِپٹاکے حوالے سے شامل ہے اورمیں نے اپنی منظوم خود نوشت سوانحِ حیات ’آئینہ در آئینہ‘‘ (مطبوعہ۲۰۰۱ء) میں بھی اس واقعہ کا تفصیلی ذکر کیا ہے)۔اس بھجن کا ایک فائد ہ تو یہ ہوا کہ ساحرؔ صاحب کے کہنے پرسردار ملک نے میوزک ڈائریکٹر حسن لال بھگت رام سے مجھے ملایا جو اُن دنوں ایک فلم’’ اسٹیج ‘‘کی میوزک دے رہے تھے (سردارملک ان کے اسسٹنٹ تھے) مجھے ’’اسٹیج ‘‘کاایک گانا لکھنے کاموقع ملامگر اس شرط پر کہ اسکرین پرمیرا نام نہیں ہوگا۔ سارے گانے سرشارسیلانی لکھ رہے تھے اس لیے صرف انہیں کانام ہوگااور گانے کامعاوضہ مجھے دوسو روپے ملے گا ۔فلم انڈسڑی میں مجھے کوئی جانتا بھی نہیں تھا۔ساحرؔ صاحب کی سفارش بھی اس لیے قبو ل کرلی گئی تھی کہ ان کی فلم ’’بازی ‘‘کے گانے ہِٹ ہوچکے تھے (بازی ساحر صاحب کی پہلی فلم تھی )اوراے آرکاردار نے بھی ان سے اپنی نئی فلم ’’نوجوان ‘‘کا کانٹریکٹ کرلیاتھا۔
مجھے تو اس دور میں صرف ایسے کام کی ضرورت تھی جو میرے معاشی مسائل میں مدد گار ثابت ہو ۔کبھی کبھی آل انڈیاریڈیو بمبئی میں رفعت سروش بھی کسی پروگرام میں ُبک کرلیتا مگر ’’میرحمایت‘‘کے نام سے تاکہ ریڈیوکے صاحبانِ اقتدار کوشبہ نہ ہوکہ یہ وہی نوجوان ہے جس نے اخباربیچ کر آل انڈیاریڈیوحیدرآباد کو بدنام کردیا تھالیکن دو ایک مہینے ہی یہ سلسلہ چل سکا۔ایک دن حیدر آباد ریڈیو کے ڈائریکٹر جی ایم شاہ نے مجھے اسٹوڈیومیں دیکھ لیا اور انھوں نے احساس دلایا کہ اس طرح رِفعت سروش کی ملازمت پر بھی اثرپڑ سکتاہے۔چنانچہ میں نے آل انڈیاریڈیو کا راستہ ہی چھوڑ دیا۔
بھجن کے اسٹیج ہوتے ہی بمبئی کی سی آئی ڈی اوشااورپریم دھون کوتلاش کرنے لگی ،وہ
انڈر گراؤنڈ جاچکے تھے۔اندیشہ تھاکہ میری بھی کوئی نشاندہی نہ کردے اس لیے مسلم ضیائی کے مشورے پرمیں کچھ دنوں کے لیے اورنگ آباد چلا گیا۔میری غیر موجودگی میں فلم کاگانا ریکار ڈہوا
دل مچلنے لگا، جاگ اٹھیں دھڑکنیں
تیری آنکھوں میں کیا آج کی رات ہے
والدصاحب چونکہ پولیس میں رہ چکے تھے اس لیے انہیں فکر تھی کہ کہیں میں گرفتار نہ کرلیاجاؤں اس لیے اُن کے اور بعض دوسرے رشتہ داروں کے مشورے پرعمل کرتے ہوئے اپنے دوایک ہم عمر عزیزوں کے ساتھ میں کھوکھرا پار کے راستے جون ۱۹۵۱ء میں پاکستان آگیا۔
ریڈیو پاکستان کراچی میں میرے کچھ پرانے ساتھی پہلے ہی کام کررہے تھے۔بزرگوں میں احمدعبدالقیوم اورمرزا ظفر الحسن اور دوستوں میں وراثت مرزا ‘جہاں آرا سعید ‘ عبدالماجد اوربدر رضواں وغیرہ، مجھے بھی کانٹریکٹ پرکام مل گیااور میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ قائد اعظم کے مزار ( اس وقت تک مقبرہ نہیں بناتھا ) کے اطراف جیل تک جوجھونپڑیاں بنی ہوئی تھیں انہیں میں،خداداد کالونی کے قریب اسلام آباد (موجود ہ کشمیر روڈ)پر پچاس روپے میں ایک جھونپڑی خریدکررہنے لگا۔ بعد ازاں مجھے معلوم ہوا کہ ان جھونپڑیوں میں علم وادب کی بعض بڑی بڑی شخصیتیں بھی آباد تھیں۔
کراچی میں میرا دل نہیں لگتاتھا۔معاشی حالات ایسے تھے کہ اپنی فیملی کو بلابھی نہ سکتا تھا۔کچھ مہینے اسی عالم میں گزرگئے۔ کھوکھرا پار کاراستہ بند ہونے کی وجہ سے اب صرف مشرقی پاکستان کے راستے ہندوستان جایا جاسکتاتھاجو بہت مہنگاسفر تھا۔کراچی سے چٹاگانگ پانی کے جہاز سے اورپھربذریعہ ٹرین کلکتہ ،بمبئی اور اورنگ آباد۔۔۔۔کئی دنوں کا سفر ۔۔۔ریڈیو سے مجھے صرف سوڈیڑھ سو روپے مہینہ ملتے تھے۔اکثر کانٹریکٹ ختم ہوجانے پر صبح و شام کے مسائل سے بھی دوچار رہتا ۔ میری اس دور کی شاعری میرے تمام احساسات اورجذبات کی گواہ ہے جو’’آگ میں پھول ‘‘ میں موجود ہے۔
ایک دن یکایک صہبا لکھنوی کی معرفت مجھے ساحرؔ صاحب کاخط ملاجس میں یہ اطلاع تھی کہ’’اسٹیج ‘‘ فلم ریلیز ہوگئی اوراس کاصرف وہی گاناہٹ ہوا جومیں نے لکھاہے تھا لیکن اس پرمیرا نام نہ ہونے کی وجہ سے کسی کو یہ معلوم نہ ہو سکاکہ وہ میرا لکھا ہوا ہے مگر مخصوص حضرات جانتے تھے ۔۔۔۔۔ سردارملک کو بھی کسی فلم کاچانس مل گیاتھا۔ساحر صاحب نے اپنے خط میں خفگی کابھی اظہار کیاتھاکہ میں انہیں بتائے بغیر پاکستان آگیا۔انہوں نے مجھے فوراً واپس آنے کے لیے لکھا (یہ خط جون ۱۹۵۲ء کاتھا)میں نے میاں افتخار الدین کے اخبار ’’امروز ‘‘ جو اِن دنوں کراچی سے بھی نکلتاتھا،کے آفس جاکر ابراہیم جلیس کو ساحر صاحب کاخط دکھایااور اُن سے مشورہ کیا۔جلیس صاحب نے کہا’’ساحر صاحب پاکستان بننے کے بعدانڈیاضرور گئے تھے مگر وہ دن اور تھے۔تم نہیں جاسکتے ۔تم ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہو تمہار انام نشر ہوتا رہتا ہے اورحیدرآباد دکن کے اخبار ’’سیاست ‘‘میں ریڈیو پاکستان سے تمہاری وابستگی کی خبربھی چھپ چکی ہے۔بہتر یہی ہے کہ تم اپنی فیملی کویہیں بلوا لو‘‘جلیس صاحب نے مزید بتایا کہ اب پرمٹ سسٹم رائج ہوگیاہے یہ پر مٹ وزارتِ داخلہ کے آفس سے ملے گا۔اتفاق سے وہاں میرا طالب علمی کے زمانے کادوست محمد میاں مالاباری متعلقہ شعبے میں افسرتھا۔اس نے حالات کی نزاکت سے مجھے آگاہ کیا اورمیری بیگم اوربیٹی کے پرمٹ کے سلسلے میں کارروائی شروع کر دی ۔میں نے ساحر صاحب کو معذرت کا خط لکھااور پرمٹ حاصل ہونے کے بعداورنگ آباد بھیج دیا۔اکتوبر۱۹۵۲ء میں کچھ عزیزوں کے ساتھ میری بیگم بحری جہاز سے پاکستان آگئیں(اِن واقعات کاذکر’’آئینہ در آئینہ‘‘میں بھی ہے)
۱۹۵۵ء میں حیدر آاباد سندھ میں ریڈیواسٹیشن کھلا تو میں نے اپنا تبادلہ وہاں کرا لیا اور باضابطہ زندگی شروع کر دی ،میں لطیف آباد کے ایک کوارٹر میں رہتا تھا۔میرے تین بچے تھے اورچوتھے کی آمد آمدتھی، تنخواہ صرف دوسوروپے ماہانہ۔ مشاعروں سے تھوڑی بہت آمدنی ہوجاتی مگر برائے نام،اسی زمانے میں، میں نے اپنے شاعر دوست عبدالعزیز خالد (انکم ٹیکس افسر) کی اعانت سے دوماہی رسالہ’’ شعور ‘‘جاری کیااورکسی طرح اپنا پہلامجمو عہ کلام ’’آگ میں پھول ‘‘ بھی چھپوا دیا۔ کچھ ماہ بعد کراچی سے فلم ڈائریکٹر رفیق چمن کا فون آیا۔وہ اس کتاب کی ایک نظم ’’غمِ رائیگاں‘‘کے کچھ اشعاراپنی فلم ’’بہن بھائی‘‘میں نغمے کی صورت میں استعمال کرناچاہتے تھے۔ میں کراچی گیا،بہت تپاک سے ملے ‘میں نے ان کی مرضی کے مطابق اشعارکو نغمے کی صورت دے دی ۔انہوں نے نہایت سلیقے اور محبت کے ساتھ مجھے ایک لفافہ بھی پیش کیاجس میں دوسو روپے رکھے ہوئے تھے۔میں یوں خوش تھاکہ یہ میرے مہینے بھر کی تنخواہ تھی جو مجھے صرف ایک گانے کے عوض ملی تھی۔ ان کی گفتگو سے امید بندھی تھی کہ شاید دیگر گانے بھی وہ مجھی سے لکھوائیں مگر وہ فلم کاغذی تیاری سے آگے نہ بڑھ سکی۔
ریڈیو پاکستان کراچی میں ایک بہت پڑھے لکھے میوزک ڈائریکٹر تھے۔مہدی ظہیر، لکھنو کے بہت اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے کراچی کے قیام کے زمانے میں مرزا ظفر الحسن کی نگرانی میں مجھ سے ایک غنائیہ بھی لکھو ایا تھا’’کلفٹن کی ایک شام‘‘ جس کے لیے ہم نے کلفٹن کی سیربھی کی تھی ۔اس غنائیے میں سنجیدہ گیتوں کے علاوہ کچھ تفریحی نغمات بھی تھے۔مثلاً بندر نچانے واے کاگیت اور ایک ٹھیلے پرچنے پکوڑی بیچنے والے کانغمہ وغیرہ۔ مہدی ظہیرنے بڑی خوبصورت دھنیں بنائی تھیں۔ایک سنجیدہ نغمہ خود بھی گایا تھا
ایک دلِ ویراں کا سہارا
ساگر ترا کنارا
دوسرے سنجیدہ اور مزاحیہ گیت مختلف گلوکاروں اوراحمد رشدی سے گوائے تھے ۔ بندر نچانے والے کے گیت کا مکھڑا تھا
ناچ چھنا چھن ناچ
کہ ناچے سارا جگ سنسار
چھنا چھن ناچ
اوردوسرے گانے کے بول تھے
چنے پکوڑی دہی بڑے جو میرے کھا کر جائے
زمانہ گیت اُسی کے گائے
یہ غنائیہ لوگوں کو اتنا پسند آیا کہ دو تین بار نشر کیا گیا ۔حیدر آباد ریڈیو پر بھی میں نے کئی غنائیے لکھے تھے جن میں ایک ’’تحریک پاکستان‘‘سے متعلق بھی تھا اس کے گیتوں کی دھنیں مہدی ظہیر کے اسسٹنٹ خلیل احمد نے بنائی تھیں ۔یہ غنائیہ’’ نویدِ انقلاب‘‘ کے عنوان سے نشر ہواتھا ( جو منصور عاقل کے رسالہ’’الاقربا‘‘اسلام آباد کے اپریل تاجون۲۰۰۲ء میں اور ’کلفٹن کی ایک شام‘ سالنامہ جنوری ۲۰۰۵ء میں بھی شائع ہو چکے ہیں)مہدی ظہیر نے لکھنٔویونی ورسٹی سے عربی میں ایم اے کیا تھا اورخلیل احمد نے گورکھپور یونی ورسٹی سے ادبیات میں،ہم تینوں ریڈیو پاکستان کراچی میں ملے اور پھر زندگی بھر ایک دوسرے کے ساتھ رہے (اب دونوں اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں) خلیل احمد کی آرزو تھی کہ اسے کسی فلم کی میوزک دینے کاچانس مل جائے ۔ ایک دن حیدر آباد میں یکایک اُس کا فو ن آیا ’’میں تمہاری مشہورنظم ’’اَن کہی ‘‘ کوایک فلم میں استعمال کر رہا ہوں ۔ اجازت ہے؟‘‘
’’لاحول ولاقوۃ ،اجازت کی کیا ضرورت ہے ، میرا سارا کلام تمہارا ہے‘‘اُسے فلم ’’آنچل ‘‘میں میوزک دینے کاچانس مل گیاتھا، کہانی ابراہیم جلیس نے لکھی تھی اور ڈائریکٹر الحامد تھے ، دونوں حیدرآبادی۔پروڈیوسر البتہ دہلی کے ایک بہت ہی شریف آدمی فریداحمد تھے۔وہ غائبانہ ہم سب کے عاشق تھے ۔ ’’اَن کہی‘‘اکثرمشاعروں میں سن چکے تھے
تجھ کو معلوم نہیں ‘ تجھ کو بھلا کیا معلوم
خلیل احمدنے’’ان کہی ‘‘کے بعض اشعارکے ساتھ میری ایک اورنظم ’’پرتو ‘‘کے کچھ اشعارملائے اور ایک نغمہ تیار کیا اور لاہورجاکر ایورنیو اسٹوڈیو میں سلیم رضاکی آواز میں ریکارڈ کروایا ، دھن اتنی اچھی تھی کہ ہر طرف دھوم مچ گئی ۔ فرید صاحب نے سارے گانے مجھی سے لکھوائے ۔اس دوران احمدرشدی بھی ہماری ٹیم میں شامل ہوگیا تھاوہ بھی حیدر آبادی تھا، ایک دن اس نے ایک دکنی لوک (عوامی )گیت سنایا
کھٹی کڑی میں مکھی پڑی اگے میر ی اماں
فرید صاحب پھڑک اٹھے، جلیس اورالحامد نے بھی اصرار کیاکہ اس کو فلم میں شامل کر لیا جائے مگر مسئلہ یہ تھا اس کے اکثر بول دکنی تھے جو یہاں کسی کی سمجھ میں نہ آسکتے تھے ۔ابراہیم جلیس نے مجھ سے کہا کہ تم اسے’’ مشرف بہ اردو‘‘ کردو۔
’ میں مزاحیہ نہ لکھ سکوں گا‘۔ میں نے معذرت چاہی
’تم سب کچھ کرسکتے ہویار، ریڈیو پربندر نچواسکتے ہو ‘چنے پکوڑی بکوا سکتے ہو۔ ایک دکنی گیت کواردو کا ’’جوکر‘‘نہیں بنا سکتے ؟ ‘‘فرید صاحب کی بھی یہی خواہش تھی، انہوں نے مجھ سے کہا ’’آدمی کوہرکام کی مہارت ہونی چاہیے ، دیکھو! میں فلم وادب کی الف ب نہیں جانتا اور آپ ایسے ادیبوں اور شاعروں کو لے کر فلم بنارہا ہوں،ہم سب کا یہ پہلا تجربہ ہوگا اور انشااللہ کامیا ب ہوگا ‘‘ابراہیم جلیس ،الحامد اوراحمد رشدی نے بھی جب اصرار کیا تومیں آمادہ ہو گیااورمیں نے اردو محاوروں کی مدد سے ایک مزاحیہ ’’دوگانا‘‘لکھ دیا۔محاورے تھے
کام کانہ کاج کا ‘ڈھائی سیر اناج کا
چھوٹا منہ اوربات بڑی یا باتیں بنانا بڑی بڑی
اورعقل بڑی یا بھینس بڑی۔۔وغیرہ وغیرہ
یہ دو گانا احمد رشدی اورآئرن پروین نے گایاتھا اورلہری اورپنّا پرفلمایاگیا ۔ گانااتنا مقبول ہوا کہ آج تک لوگوں کو یاد ہے اور میری جان یوں مصیبت میں رہی کہ ’’بعض لوگوں کے اشارے پر‘‘اکثر مشاعروں میں بھی اس کی فرمائش کر دی جاتی تھی، بڑی مشکل سے جان چھڑاتا تھا۔ ان دنوں کراچی میں ایک آرٹ فلم ’’اوربھی غم ہیں‘‘ بن رہی تھی ۔اس میں میرے بچپن کا دوست اسد جعفری (فلم جرنلسٹ )ہیر و تھااورایک باغی شاعرکاکردار ادا کررہا تھا۔فلم کے مصنف دانش دیروی اور ہدایت کار اے ایچ صدیقی کی فرمائش پر میں نے اس کا تھیم سانگ ایک نظم کی صورت میں لکھااورمیوزک ڈائریکٹر استاد نتھو خاں اور اسد جعفری کی فرمائش پراپنے’ ترنم‘ میں اسے ریکارڈکروادیاجو اسد جعفری پرفلمایا گیاتھا ’’اور بھی غم ہیں‘‘ ۱۵اگست۱۹۶۰ء کو ریلیز ہوئی اوراس فلم کو پاکستان میں پہلا ’’صدارتی ایوارڈ‘‘ دیا گیا ۔
آنچل میں ایک او رتجربہ بھی کیا گیا ، احمد رشدی سے جو عموماً شوخ اور مزاحیہ گانوں کے لیے مشہور تھا ،ایک سنجیدہ نغمہ گوایاگیا
کسی چمن میں رہو تم ‘بہار بن کے رہو
’’آنچل ‘‘کے سبھی گانے مقبول ہوئے تھے مگر یہ گاناسپرہٹ تھااوراُسی پرمجھے۶۲ء کا ’’نگار ایوارڈ‘‘
عطاہوا ۔پہلی ہی فلم پر بہترین نغمہ نگاری کاایوارڈ!حاسدین کے سینے پرسانپ لوٹنے کے مترادف تھا چنانچہ ہفت روزہ’’ کردار‘‘ اور’’نگار‘‘میں میرے خلاف مسلسل مراسلے چھپنے لگے ۔ایک بحث چھڑ گئی جو تین ماہ تک جاری رہی۔ یہ تمام بحثیں ایک کتابچے ’’کسی چمن میں رہو‘‘کے نام سے ۱۹۶۴ میں شائع ہو چکی ہے ۔ہمارے ادب میں ایسی مثالیں عام ہیں اورمیرے ساتھ میرے ’’رقیبانِ روسیاہ نے‘‘ بڑے بڑے تماشے کیے ہیں اگر کوئی صاحب ایسی کتابیں پڑھنے کا شوق رکھتے ہوں تو حسبِ ذیل کتابیں پڑھ لیں۔
۱۔ چراغ بکف مرتب : حمایت علی شاعر (۱۹۸۴ء)
۲۔ احوالِ واقعی مرتب : پروفیسر مرزا سلیم بیگ (۱۹۹۴ء)
۳۔بارشِ سنگ سے بارشِ گل تک مرتب : پروفیسررعنا اقبال (۲۰۰۲ء)
۴۔تثلیث یا ثلاثی مرتب : پروفیسررعنا اقبال (۲۰۰۵ء)
میرے مقالات اورمباحث کے مجموعے’’شخص و عکس ‘‘۱۹۸۴ء میں بھی’’تزکیہ ‘‘کے عنوان سے میرے جوابی مضامین پڑھے جاسکتے ہیں ۔محولہ بالا کتابوں میں تمام متنازعہ تحریریں تاریخ وار اشاعتی حوالوں کے ساتھ جمع کر دی گئی ہیں۔ یہ تحریریں ہمارے ماحول کی ذہنیت کا آئینہ دکھاتی ہیں۔ 1962ء میں، میں نے ریڈیو کی ملازمت چھوڑ دی۔ ۱۹۶۳ء میں سنتوش کمار اورصبیحہ کی فلم ’’دامن ‘‘ریلیز ہوگئی ۔اسکے نغمے بھی بہت مقبول ہوئے اور فلم بھی ، مجھے اسکے نغمے
نہ چھڑا سکوگے دامن نہ نظر بچاسکو گے
پر بھی ۶۳ ۱۹ء کا بہترین نغمہ نگار کا ’’نگار ایوارڈ ‘‘ملا اور ۱۹۶۴ء میں ’’کنیز ‘‘ کے ایک دو گانے
جب رات ڈھلی تم یاد آئے
ہم دور نکل آئے ،اس یاد کے سائے سائے
پر’’مصور ایوراڈ‘‘ سے نوازا گیا۔ا ن اعزازات کاردِعمل تو ہونا ہی تھا۔’’ہماری برادری‘‘ نے خوب خوب اپنے’’ ظرف ‘‘کامظاہرہ کیا اور میری شہرت کو داغدار کرنے کی کوشش کی گئی ۔لیکن اللہ کے فضل وکرم سے میرا اورخلیل احمد کا نام فلمی دنیا میں اتنا معتبر ہوچکا تھا کہ ہمارے نام پر ہی فلم کا سودا ہو جایا کرتاتھا ۔چنانچہ ۱۹۶۴ء میں،میں نے بحیثیت فلم سازاپنی ذاتی فلم ’’لوری ‘‘کا اعلان کر دیا ۔ اس کے ڈائر یکٹر سید سلیمان تھے ،کہانی ذاکر حسین کی تھی اور مکالمے احمد ندیم قاسمی نے لکھے تھے ۔ فلم کے سبھی گانے ہٹ ہوئے اور فلم بھی سپر ہٹ ہوئی ۔میرا نام بحیثیت فلم سازبھی اہم ہو گیا۔ا ب نہ سرمائے کی کمی تھی نہ مقبولیت کی ،میں گانے بھی لکھتا تھا، مکالمے اور اسکرین پلے بھی۔ معاوضہ ہزاروں میں ملنے لگااور’’لوری ‘‘کی کامیابی نے تو قسمت ہی بدل دی تھی۔لیکن ملک کے ’’سیاست داں ‘‘ بھی اپنا ہنر دکھا رہے تھے ۔۶۵میں ہندوستان سے جنگ ہوئی جو سترہ دن چلی ۔حاصل کچھ نہ ہوا ۔کشمیر اپنی جگہ رہااور ہم’ اپنی دانست میں‘فتح مند و کامراں۔سڑکیں اورشاہراہیں شہیدوں کے نام سے منسوب ہوگئیں ۔فیلڈ مارشل ایو ب خان کے بعد جنرل یحییٰ خان آگئے ۔۷۱ء میں مشرقی پاکستان پرہماری فوج نے چڑھائی کردی ، ہندوستان نے موقع سے فائد ہ اٹھایا اور۱۹۷۲ء میں ’’بنگلہ دیش ‘‘بن گیا ۔
ملک ٹوٹ جانے کے بعدمارکیٹ بھی آدھی رہ گئی تھی، فلمسازی مشکل ہوگئی ۔ٹی وی پرانڈیاکی فلموں نے یلغار کر دی۔ اس کے مقابلے کے لیے کلر فلمیں بننے لگیں جو ناکام ہوتیں تو فلم سا ز کے ساتھ ڈسٹری بیوٹر کو بھی لے بیٹھتیں۔میں نے ’’چھوٹی مارکیٹ‘‘ کے خیال سے بلیک اینڈ وائٹ فلم بنانے کافیصلہ کیا اور بحیثیت فلم ساز اورہدایت کارپہلے ’’منزل ہے کہاں تیری ‘‘ کے نام سے ایک فلم لاہور میں شروع کی مگر چند دوستوں کے ’کرم‘ کی بنا پر وہ ادھوری رہ گئی، میں کراچی آ گیا پھر ’’گڑیا‘‘کی ابتدا کی ۔اس کی تکمیل تک فلم بینوں کو کلر فلموں کا چسکہ لگ چکاتھا اورٹی وی بھی رنگین ہوگیا تھا۔نتیجہ یہ ہوا کہ میری فلم کا سود اہونے کے باوجود سینما ہال ملنے مشکل ہوگئے
کوئی ڈسٹری بیوٹر سینماکرائے پرلے کر فلم چلانے پر آمادہ نہ تھا۔اس میں یک طرفہ نقصان کا اندیشہ تھا۔چنانچہ یہ خطرہ مول نہ لیاجاسکااورفلم ریلیز نہ ہو سکی۔ میں بھی اس ماحول سے دل برداشتہ ہوچکاتھا،فلم سازی کے سبب نغمہ نگاری بھی کم ہوگئی تھی او رسب سے بڑا پہلو جو نہایت سنجیدگی سے ہمارے زیر غو ر تھایہ کہ بچے بڑے ہو چکے تھے۔وہ کالج اور یونی ورسٹی میں پڑھ رہے تھے۔ایک دن بیوی نے کہا۔’’آپ نے تو فلمی دنیامیں رہتے ہوئے اپنی اعلیٰ تعلیم مکمل کرلی ،کیا ہمارے بچے یہ کام کر سکیں گے۔؟‘‘
۱۹۶۴ء میں جب میں’’لوری ‘‘بنارہاتھا تومیں نے سندھ یونی ورسٹی سے نہ صرف ایم اے کیابلکہ پی ایچ ڈی کے لیے بھی خود کو رجسٹر کروا لیاتھا ۔یہ اور بات کہ فلمی مصروفیات ہی نے مجھے پابندنہ رہنے دیا اور میں’’ڈاکٹر یٹ ‘‘مکمل نہ کر سکا ۔دس سال گزر گئے۔
۷۴ء میں، میں نے فلم انڈسٹری چھوڑدی اورکٹی پتنگ ہو کر رہ گیا،بس ایک ہی آرزو تھی کہ بچے اعلیٰ تعلیم پالیں۔ہمارا فلمی ماحول ایسا نہیں کہ اگر کوئی بیٹا یا بیٹی اس میں دلچسپی لینے لگے تو معاشرے کے لیے قابل قبول ہو سکے ۔ اکثر فلم اسٹاروں نے اپنے بچوں کو فلمی دنیاسے دور رکھا ہے۔ دوسری بات یہ کہ فلمی دنیامیں تعلیم کا فقدان ہے۔ چند ایک پڑھے لکھے لوگ تھے بھی تو و ہ اپنی ذات میں سمٹ کر رہ گئے تھے۔ یہا ں انڈیاجیسا ماحول نہیں ہے۔میری بیگم نے ان سب مسائل پرنظر رکھتے ہوئے بہت دور تک سوچا اور مجھے آگے جانے سے روک دیا میں نے بھی اسٹوڈیوکی بجائے یونی ورسٹی کی راہ لی او رسندھ یونی ورسٹی میں پڑھانے لگا۔
آ ج خداکا فضل ہے میرے آٹھوں بچے(چار بیٹے اور چار بیٹیاں)سبھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں ۔میری بیگم نے سب کو منزل پرپہنچادیا،سب اپنے اپنے گھر کے ہوگئے اور میری رفیق حیات معراج نسیم ۔۔۔ ۲۱نومبر ۲۰۰۲ء کوجگر کے کینسر کے سبب ٹورنٹو(کینیڈا) میں انتقال کر گئیں۔ میرے بچوں نے اپنی بساط سے زیادہ کوشش کی، علاج کے لیے امریکہ اورکینیڈا لے گئے مگر وہی ہو ا جو خدا کومنظورتھا۔ٹورانٹوکے پکرنگ کے قبرستان میں اُن کی تدفین عمل میں آئی
آسما ن اُس کی لحد پرشبنم افشانی کرے سبزۂ نورستہ اِس گھر کی نگہبانی کری
میں نے مجموعی طور پر دس، پندرہ سال فلم انڈسٹری میں گزارے ‘بے شمار فلمی نغمات لکھے مگر انہیں محفوظ نہیں رکھ سکا ،ریڈیوکی ملازمت کے دوران بھی بے شما ر گیت اورقومی نغمے لکھے۔کئی غنایئے اورمنظوم ڈرامے تحریر کیے۔نثرمیں بھی اسٹیج اور ریڈیو کے کئی ڈرامے لکھے جن میں (فلم میں جانے سے پہلے )محمد علی اور مصطفی قریشی کے علاوہ کئی شاعروں اور ادیبوں نے بحیثیت اداکار بھی کام کیا۔ یہ تخلیقات رسائل میں بھی بہت کم شائع ہوئیں۔مجھے اتنا وقت ہی نہیں ملاکہ میں ان پرنظر ثانی کرتا۔ مجھے ہمیشہ یہ خیال رہا کہ کسی وقت اطمینان سے بیٹھ کر اپنی تخلیقات پرتنقید ی نظر ڈالوں گااورضروری ترمیم و تنسیخ کے بعد اشاعت کے لیے دوں گا ،دیکھتے دیکھتے نصف صد ی گزر گئی۔ اب ہر چیز توجہ سے دیکھی ہے تو اندازہ ہوا ہے کہ میری پچاس فیصد سے زیادہ تحریریں غیر مطبوعہ ہیں۔اس دوران پروفیسر رعنااقبال نے کراچی یونیورسٹی سے مجھ پر پی ایچ ڈی کا پروگرام بنالیا اورجوچیزیں منتشر تھیں انہیں یکجا کرنے لگیں۔اِن فلمی نغمات کی یکجائی میں بھی اُن کی کوششوں کابڑا دخل ہے۔میرے کئی دوستوں نے اُن کا ہاتھ بٹایا۔اس کتاب کے مرتب انور جبیں قریشی نے میرے داماد شفیق الزماں کی نگرانی میں ۱۰۰نغمات کا انتخاب کیا اور ۲۰۰۳ء میں’تجھ کو معلوم نہیں‘ کے نام سے شائع کر دیا۔
’متاعِ سخن‘ میں صرف وہ نغمے منتخب کیے گئے ہیں جو بہت مشہور ہوئے اِن میں بعض قومی نغمات بھی ہیں جو مختلف فلموں کے لیے لکھے گئے تھے۔میرے دیگر گیتوں اور قومی نغمات کے مجموعے ’سرگم‘ اور’ اپنے پرچم تلے‘ زیر طبع ہیں ۔میں نے اپنی گیتوں بھری کہانیاں بھی مرتب کر رکھی ہے،انشاء اللہ وہ بھی جلد شائع ہو جائی گی۔
یہ کتاب میری نغمہ نگاری کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس لیے میں نے اپنی کلیات میں اسی پر اکتفا کیا ہے۔شاید آپ کو بھی مجھ سے اتفاق ہو۔ حمایت علی شاعر