حیدر قریشی کے ماموں پروفیسر ناصر اور میری بڑی بہن آصفہ کی جب شادی ہوئی تو اس سے پہلے ہی مبارکہ ناصر، میری بھانجی، مبارکہ حیدر بن چکی تھیں۔ میں نے پروفیسر ناصر کو مختلف خاندانوں کے لڑکے لڑکیوں کے مابین کامیاب رشتے تجویز کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ اتنی آسانی اور محبت سے وہ متفکر والدین کے معاملات طے کرتے تھے کہ انکی جرات اور سرعت پر بسا اوقات مجھ پر اندیشے کا ایک احساس بھی گزرتا تھا۔ تاہم اسی بنا پر اگر عادتا انہوں نے مبارکہ اور حیدر کو عین نوجوانی میں جوڑنے کی جلد بازی کی بھی ہو، تو بھی ان دونوں کے طویل ساتھ کی روداد ان کی جوہر شناسی پر دلیل ہے۔
مجھے یاد نہیں ہے کہ میری بہن نے کبھی مبارکہ کا ذکر ‘ ناصر صاحب کی بیٹی’ کہہ کر ہم سے کیا ہو۔ اس لحاظ سے میں حیدر قریشی کا ماموں سسر بنتا ہوں۔ مگر یہ ادب کا رشتہ اس میں یوں گڈمڈ ہوا ہے کہ عمر اور رشتے میں میں ذرا کچھ آگے تو ادب میں وہ میلوں میل۔
مبارکہ اور حیدر سے رشتہ داری کا تعلق بننے کے کچھ ہی سال بعد میں آسٹریلیا منتقل ہو گیا۔ بعد میں مبارکہ اور حیدر بھی جرمنی جا بسے۔ پاکستان کی کچھ ملاقاتوں کے سوا ہم مل نہیں سکے۔ گویا مبارکہ کو میں نے جتنا حیدر کی تحریروں سے جانا ہے، براہِ راست اتنا جان نہیں سکا۔ اور اسکا کچھ غم سا بھی رہے گا۔ مگر حیدر کی تحریروں میں مبارکہ سے ملنے کے مواقع ابھی باقی ہیں۔ خود حیدر قریشی نے ‘پسلی کی ٹیڑھ’ میں لکھا تھا کہ ‘اس خاکے کا دوسرا حصہ مبارکہ کی وفات کے بعد لکھوں گا یا میری وفات کے بعد وہ لکھے گی’۔ اب مبارکہ، حیدر قریشی پر اس انٹرنیٹ والے ‘سوتن کے کمرے’ میں بیٹھ کر اپنے بارے میں لکھنے کا کچھ اور بوجھ ڈال گئی ہیں۔
ساتھ میں بھی ایک دوری ہوتی ہے، اور دوری میں بھی ساتھ۔ منزہ یاسمین نے ایک انٹرویو لیا تھا جس میں مبارکہ نے اپنے اور حیدر کے بارے میں یہی بات کہی تھی کہ ‘ ہمارے ٹیسٹ (taste) ایک دوسرے سے بالکل متصادم ہیں مگر رشتہ بہت ہی پکا ہے۔ مرنے کے بعد بھی نہ ٹوٹنے والا’ ۔ اللہ کرے کہ اس رشتے کی نشانیاں نسلوں تک اسکو یاد کریں۔
مبارکہ نے زندگی کی جو جنگ لڑی ہے، اسکی تاریخ حیدر قریشی نے لکھی ہے۔ مگر وہ مبارکہ کی اس جدوجہد میں اپنے کردار کا واضح ذکر کرنا بھولتے رہے ہیں۔ انکی تحریروں کو بین السطور دیکھیں تو منظر گویا یوں ہے کہ
ساحل پر اک شخص کھڑا تھا
ابھر ابھر کر ڈوبی نائو
حیدر قریشی،
میں نے کہا تھا کہ آپ سے ملاقات ایک قرض ہے مجھ پر۔
ملوں گا ان شا ء اللہ ۔لیکن مبارکہ نہیں ہونگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔