راستہ کاٹ کے ہر بار گذر جاتا ہے
جیسے پردیس میں تہوار گزر جاتا ہے
زندگی عشق میں یوں گذری ہے اپنی دانشؔ
جیسے بازار سے نادار گذر جاتا ہے
میری بربادی کا اَب جشن مناؤ یارو
گھر میرا سامنے میرے ہی جلاؤ یارو
اِتنی شدت سے تو برسات بھی کم کم برسے
جِس طرح آنکھ تیری یاد میں چھم چھم برسے
منتیں کون کرے ایک گروندے کے لیے
کہہ دو بادل سے برستا ہے تو چھم چھم برسے
تم کو معلوم ہے آئے گا نہ قاتل میرا
دیر کیوں کرتے ہو میت کو اُٹھاؤ یارو
رہتا نہیں اِنسان تو ہوتا نہیں غم بھی
ایک روز زمین اوڑ ھ کے سو جاہیں گے ہم بھی
ہاں حلفِ وفا شوق سے اُٹھواو لیکن
ہم لوگ وفادار ہیں بے قول و قسم بھی
ظلم کی حد سے گذر کر مجھے پتھر مارو
ہو سکے تو میری ہستی کو مٹا ؤ یاو
شعار ٹھیک نہیں یہ آدمی کیلئے
کہ دل کسی کے لیے ہو اور زبان کسی کیلئے
نہ اعتبا ر وفا کر کے وہ نگاہِ شریر
کبھی کسی کیلئے کبھی کسی کیلئے
دُشمنوں نے جو جلائی ہیں لحد پر میری
وہ شمع آخری سب مل کے بجاؤ یارو