میری آنکھوں میں آنسو پگھلتا رہا، چاند جلتا رہا
تیری یادوں کا سورج نکلتا رہا، چاند جلتا رہا
کوئی بستر پہ شبنم لپیٹے ہوئے خواب دیکھا کیے
کوئی یادوں میں کروٹ بدلتا رہا، چاند جلتا رہا
میری آنکھوں میں کیمپس کی سب ساعتیں جاگتی ہیں ابھی
نہر پر تو مرے ساتھ چلتا رہا، چاند جلتا رہا
میں تو یہ جانتا ہوں کہ جس شب مجھے چھوڑ کر تم گئے
آسمانوں سے شعلہ نکلتا رہا ، چاند جلتا رہا
رات آئی تو کیا کیا کرشمے ہوئے تجھ کو معلوم ہے؟
تیری یادوں کا سورج اُبلتا رہا ، چاند جلتا رہا
رات بھر میری پلکوں کی دہلیز پر خواب گرتے رہے
دل تڑپتا رہا، ہاتھ ملتا رہا ، چاند جلتا رہا
یہ دسمبر کہ جس میں کڑی دھوپ بھی میٹھی لگنے لگے
تم نہیں تو دسمبر سلگتا رہا، چاند جلتا رہا
آج بھی وہ تقدس بھری رات مہکی ہوئی ہے وصی
میں کسی میں ، کوئی مجھ میں ڈھلتا رہا ، چاند جلتا رہا ۔۔
طویل سانس ہوائوں کے سپرد کرتے ہوئے اس نے گال پر لڑھکتے آنسئوں کو بہنے دیا تھا ۔۔۔۔
“کہاں ہو تم پارس ۔۔۔؟
ایک بار تو مل جائو ۔۔ کوئی رابطہ تو کرو ۔۔۔۔ میں ہر دستک پر بھاگ کر جاتی ہوں ۔۔ شائد کہ تم آئے ہو لیکن ہر بار امید ٹوٹ جاتی ہے ۔۔۔۔ کبھی کبھی میں خود ہی خود پر حیران ہوجاتی ہوں ۔۔ اتنی محبت ۔۔۔۔!!! مجھے ۔۔! تم سے ۔۔! لگتا ہے تم نے قسم کھائی ہے مجھے ستانے کی ۔۔ یا تم نے مجھے ایک بار پھر دھوکا دے دیا ہے ۔۔۔؟؟؟؟
کچھ سمجھ نہیں آرہا ۔۔۔
ایک بار تم مل جائو بس ایک بار ۔۔۔۔!!!
منہ نہ توڑدوں میں تمہارا تو کہنا ۔۔۔۔۔۔!”
ہمیشہ کی طرح وہ دل ہی دل میں پارس سے گلے شکوے کر رہی تھی جب پیر پٹختے ہوئے سفید گلابی جان کو گود میں اٹھائے علیشہ کمرے میں داخل ہوئے تھی ۔۔
تیزی سے مڑ کر اس نے اپنے آنسو صاف کیئے تھے ۔۔۔۔۔
ٹھنڈی سانس خارج کر کے اس نے سوالیا نظروں سے علیشہ کو دیکھا تھا ۔۔۔۔
“یار باجی ۔۔۔۔!
ساشہ آپی کی بھی سمجھ نہیں آتی ۔۔ کیوں اس سلیم حلیم کے بچے کو سنبھال رہی ہیں ۔۔؟
جس کس بچہ ہے وہ خود سنبھالے ۔۔۔ میں تو اسے پوٹی کروا کروا کر تھک گئی ہوں ۔۔۔۔۔”
آنکھیں سکیڑ کر اسے گھورتے ہوئے میشا نے ہاتھ کے اشارے سے اسے قریب آنے کو کہا تھا ۔۔
اور جب علیشہ الجھتے ہوئے اس کے قریب ہوئے تو میشا نے ہلکی سی چپت اس کے گال پر رسید کر دی تھی ۔۔
گال سہلاتے ہوئے وہ خفگی سے اسے گھورنے لگی ۔۔۔۔۔
“اب کیا کردیا میں نے ۔۔؟”
“ساشہ صحیح کہتی ہے ۔۔ بہت زبان چلنے لگی ہے وریشہ اور تمہاری ۔۔۔ بڑی بہن ہوں میں تمہاری ۔۔!!! تمہیں کوئی لحاظ نہیں ۔۔؟؟ کچھ بھی بولے چلی جارہی ہو ۔۔۔ آئندہ اس طرح بات کرتے ہوئے دوبارہ نہ سنوں میں تمہیں ۔۔۔۔۔!!”
“بچی نہیں رہی میں ۔۔”
“تم سو سال کی بھی ہوجائوگی تو ہمارے لیئے بچی ہی رہوگی ۔۔۔۔!”
اس کی دراز قامتی پر زیرلب ماشااللہ کہتی وہ اٹھ کھڑی ہوِئی تھی ۔۔۔۔
“ساشہ کہاں ہے ۔۔۔؟”
“کچن میں ۔۔۔۔! اور مت جائیں ۔۔ یہیں بیٹھیں ۔۔۔ پارس بھائی بھی کچن میں کھڑکی وغیرہ کی مرمت کر رہے ہیں ساتھ ساتھ ساشہ آپی کے دماغ کی بھی ۔۔”
بات ختم کرکے وہ بڑی کمینگی سے ہنسی تھی ۔۔
بمشکل اپنی مسکراہٹ چھپا کر میشا نے اسے آنکھیں دکھانی چاہی تھیں ۔۔۔ لیکن اگلے ہی پل دونوں کھلکھلا کر ہنس پڑی تھیں ۔۔۔
*****************
“کچھ لوگ بڑے پتھردل بن بیٹھے تھے ۔۔۔!”
“ٹھک ۔۔!”
“ایک معصوم دل توڑ کر سمجھتے تھے وہ سدا خوش رہیں گے ۔۔۔۔”
“ٹھک ٹھک ۔۔!!”
“بڑے غرور سے ہمیں نظرانداز کرنے لگے تھے ۔۔۔”
“ٹھک ٹھک ٹھک ۔۔۔!!!”
“چھین لیا قدرت نے سارا غرور ان سے ۔۔۔!”
“ٹھک ٹھک ٹھ۔۔۔۔۔۔۔۔!!!”
“تم چپ کروگے ۔۔۔۔؟؟؟”
اور وہ جو دل جلے جملے کہنے کے ساتھ ساتھ ہتھوڑی سے کھڑکی کے ٹوٹے دروازے کی مرمت کررہا تھا اور ہر جملہ مکمل کرن کے بعد میوزک کے طور پر ہتھوڑی دروازے پر بجا رہا رہا تھا اس کے بھڑک اٹھنے پر ہاتھ روک کر گردن گھما کے طنزیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگا ۔۔۔۔۔
اس کے اس طرح دیکھنے پر ساشہ جزبز ہوتی پھر سے کھیر میں چمچہ چلانے لگی جو اس کی بےدھیانی کے باعث تلی سے چپکنے لگی تھی ۔۔
کچھ دیر خاموشی چھائی رہی لیکن ساشہ کو اس کی مستقل جمی نظریں چبھنے لگی تھیں ۔۔
“وریشہ ۔۔۔!!!”
اس کی پکار پر وریشہ بوتل کے جن کی طرح حاضر ہوئی تھی ۔۔۔
“یہ کھیر دیکھو تم ۔۔۔ تھک گئی ہوں میں ۔۔۔۔۔!”
“تو کس نے کہا تھا فقط ضد میں آکر شادی کرلیں ۔۔۔ وقت سے پہلے بوڑھی ہوگئی ہیں آپ ۔۔۔۔
پہلے وہ ایک عجوبہ عباس ۔۔۔!! چلو اسے تو کوئی راستہ نہ دیکھ کر آپ کے سر پر بٹھا دیا گیا تھا ۔۔ مگر وہ شہزادہ سلیم ۔۔۔!!!
کیا سوچ کے آپ نے اس جیسے بونگے کا انتخاب کیا ۔۔؟
کوئی ضد میں بھی شادی کرتا ہے کیا ۔۔۔۔۔؟؟؟”
کھیر میں چمچہ چلاتے ہوئے وہ مسلسل بولے بھی چلی جارہی تھی ۔۔ اور ساشہ بہن کی باتوں سے زیادہ منان کی طنزیہ نظروں سے خائف ہورہی تھی ۔۔۔
اس کی آنکھیں چھلک پڑی تھیں ۔۔۔۔۔
“میرے نصیب ہی اتنے برے ہیں ۔۔۔ مجھے کیوں دوش دیتے ہو تم لوگ ۔۔۔؟؟؟
مرجائوں گی تو مرنے کا دوش بھی مجھے دو گے ۔۔؟ ۔۔۔۔۔۔ قدرت ، قسمت ، ان چیزوں کا ذکر سنا ہے کبھی ۔۔۔؟؟
جس کے دل میں جو آتا ہے بول دیتا ہے ۔۔ جیسے مجھ میں احساس ہی نہیں ہے یا بہری ہوں میں ۔۔۔!
تم ۔۔۔۔ تم ! کم از کم تم ! باتیں سنانے کا حق نہیں رکھتے ۔۔ سلیم محبت نہیں تھا تو ضد بھی نہیں تھا ۔۔۔۔ کسی نہ کسی کو تو چننا تھا مجھے کیونکہ میں اتنی پراعتماد نہیں ہوں کہ ساری زندگی اکیلے جی سکوں ۔۔۔۔۔!
ایک بار نہیں دو بار طلاق کا داغ لگنے کے باوجود بھی میں ۔۔۔۔ میں سنبھل نہیں پائی ۔۔ میں اب بھی خود میں وہ اعتماد اور بےنیازی نہیں پاتی ۔۔ میں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
منان کے سر پر کھڑی چیختی چلاتی وہ یکدم بات ادھوری چھوڑے ہچکیاں لے کر رونے لگی تھی ۔۔۔ پریشان سی کھڑی وریشہ چولہا بند کر کے تیزی سے کچن سے نکل گئی تھی ۔۔
“پلیز ساشہ ۔۔ ایک بار مجھ پر یقین کر لو صرف ایک بار پلیز ۔۔۔
کیسے سمجھائوں ۔۔؟ میں تمہیں کیسے سمجھائوں ۔۔۔؟؟ ۔۔ مم۔۔۔۔ مجھے وہ الفاظ نہیں مل رہے جو تمہیں اس محبت سے آگاہ کرسکیں جو میرے دل میں تمہارے لیئے ہے ۔۔۔۔۔۔۔
چار سال تم پر قیامت بن کر گزرے ہیں تو میں بھی پل پل مرا ہوں ساشہ ۔۔۔!”
“بند کرو اپنے یہ ڈائلاگز ۔۔۔!”
غیر مرئی نقطے پر نظریں جمائے خاموشی سے آنسو بہاتی وہ یکدم اکتا کر اس وحشت زدہ ماحول سے نکلنا چاہتی تھی جب اس کی بےنیازی پر طیش میں آتا وہ اس کا ہاتھ تھام کر جھٹکے سے اپنے سامنے زمین پر بٹھا چکا تھا ۔۔۔۔۔
“کیسے نہیں سنوگی ۔۔؟ سننی پڑے گی تمہیں ۔۔۔۔۔۔ سنوگی نہیں تو جانو گی کیسے ۔۔؟؟؟
پہلی بار میں ۔۔ مجھ پر میرے جذبات ٹھیک سے واضح نہیں ہوئے تھے ۔۔۔
لیکن دوسری بار میں جان گیا تھا ساشہ ۔۔۔!!!! میں جان گیا تھا یہ محبت ایسی ویسی بھول جانے والی نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔ لیکن جب تم نے سلیم کا انتخاب کیا پوری طرح سے ٹوٹ گیا تھا اندر سے میں ۔۔ تمہیں اس کے ساتھ ہنستا بولتا دیکھتا تھا تو انگاروں پر لوٹتا تھا دل میرا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
لیکن میں نے سب برداشت کیا ۔۔ کیونکہ میں جانتا تھا یہ میری سزا ہے ۔۔۔۔۔ میں سزا جان کر کچھ صبر کرگیا تھا ۔۔ دل پر جبر کر لیتا تھا ۔۔۔۔ لیکن اب نہیں کرپائوں گا ۔۔۔ یہ سزا بہت تھی ۔۔۔۔ بہت بہت بہت تھی ۔۔۔۔۔!!! ختم کردیا ۔۔ جلا کر رکھ دیا مجھے اندر سے اس رقابت کی آگ نے ۔۔۔۔۔۔
اب بس کردو پلیز ۔۔ مزید سہوں گا تو مرجائوں گا ۔۔۔۔ اندر سے ہی نہیں میں سچ مچ مرجائوں گا خدا کی قسم ۔۔!!
بس ایک بار اعتبار کر کے دیکھو ۔۔۔
تمہیں میں تمہاری ذات کا اعتماد دوں گا ساشہ ۔۔!
تم دوسروں کے سہارے کے بغیر جینا سیکھ جائوگی ۔۔۔!!!
تم سے سارے غم ، تکلیفیں چھین لوں گا ۔۔۔۔ بس ایک بار بھروسہ کرکے دیکھو ۔۔ ایک پل کو بھی پچھتاوا ہو تو کہنا ۔۔۔! جو چاہو وہ سزا دینا ۔۔!! بس ایک بار ۔۔! اور نہیں ہوگا برداشت۔۔۔۔۔!!”
سر جھکائے بےخودی میں وہ اور بھی کچھ کہہ رہا تھا لیکن ساشہ نے آہستگی سے اپنا ہاتھ اس کے بندھے ہوئے ہاتھوں کے درمیان سے نکالا تھا اور خالی خالی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کچن سے نکل گئی تھی ۔۔۔
“انسان کی محبت ۔۔ اس کی طلب ۔! بہت جان لیوا ہوتی ہے ۔۔۔۔!”
خالی ہاتھوں کو تکتے ہوئے وہ بڑبڑایا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
ساشہ اپنے جلدبازی میں کیئے فیصلے پر ٹھیک سے پچھتا بھی نہیں پائی تھی جب سلیم نے اسے ایک بیٹے سمیت طلاق بھی تھما دی تھی ۔۔۔
وہ فطرتاً آزاد فزائوں کا باسی تھا ۔۔۔۔۔ اس نے ساشہ کو پسند ضرور کیا تھا ۔۔ شادی بھی کرنا چاہی تھی ۔۔۔۔ کیونکہ اتنا وہ سمجھ گیا تھا ساشہ جیسی لڑکی شادی کے بغیر اس کی دسترس میں کبھی نہ آتی ۔۔۔!
کچھ مہینے اس نے واقعی ساشہ کے ساتھ مخلص رہ کر گزارے تھے لیکن فطرت نہیں بدلتی ۔۔۔!!!
ساشہ کے احتجاج پر اس نے بہت اطمینان سے اسے طلاق دے ڈالی تھی اور ساشہ ایک بار پھر بےاماں ہو چکی تھی ۔۔۔۔۔۔
منان کو لگتا ہے یہ طلاق اس کی لمبی لمبی دعائوں کے نتیجے میں ہوئی ہے ۔۔۔۔۔
ایک گلٹ بھی رہتا تھا اسے۔ ۔ ۔۔
اس کی محبت جنونی تھی ضدی تھی ۔۔ وہ محبوب کو دوسروں کی بانہوں میں خوش دیکھ کر صبر کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتا تھا ۔۔۔!!!!
تھکا ہارا سا وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔۔۔۔
آنکھ کے کنارے صاف کرتے ہوئے وہ ایک اچٹتی نظر جھجھکتے ہوئے کچن میں داخل ہوتی میشا پر ڈال کر باہر نکل گیا تھا ۔۔۔۔
*******************
“یہ گھر ہے ۔۔۔۔۔
سن رہے ہو نا ۔۔۔۔؟؟”
کاشف نے اس کا بےتاثر چہرہ دیکھ کر اس کا شانہ ہلایا تھا ۔۔۔
اس کے شانے پر بہت سے زخم تھے ۔۔۔ ہلکی سی سسکاری بھر کر اس نے اثبات میں سر ہلا دیا تھا ۔۔۔
وہ سر ہلاتا وہاں سے چلا گیا تھا جبکہ پارس کی سرخ پڑتی گرے آنکھیں اس چھوٹے سے گھر کے درودیوار پر بھٹک رہی تھیں ۔۔۔۔
اسٹک کے سہارے آگے بڑھتے بڑھتے وہ یکدم ساکت ہوا تھا ۔۔۔
آنکھوں سے بہت سے موتی ایک ساتھ ٹوٹ کر گرے تھے ۔۔۔۔۔
لب آپس میں یوں جڑے تھے جیسے اب کبھی جدا نہیں ہوں گے ۔۔۔۔۔
گھٹی گھٹی سسکیاں بھرتے ہوئے وہ پیچھے ہوتا چلا گیا تھا ۔۔ اور پھر اس نے اپنا رخ موڑ لیا تھا ۔۔۔۔۔
کیا رہ گیا تھا اس کے پاس ۔۔۔؟
کیا لے کر جاتا وہ ۔۔۔؟
میشا کونسا اس کے عشق میں گرفتار تھی ۔۔۔؟؟؟
وہ اپنی دنیا میں مگن ہوگی ۔۔ خوش ہوگی ۔۔۔۔
کبھی جب ذہنی طور پر کچھ سنبھلا تو منان سے رابطہ کر لے گا ۔۔۔ بس ۔۔۔۔۔ زندگی ایسے ہی گزر جائے گی ۔۔۔۔۔!”
*******************
گھر کی دہلیز پر بیٹھا وہ سنسان راستے پر نہ جانے کیا تلاش رہا تھا۔۔ جب دروازہ آہستگی سے کھلا تھا ۔۔۔ خیالوں میں الجھے الجھے ہی اس نے اپنی نظریں اٹھائی تھیں اور ساشہ کو دیکھ کر حیرت زدہ سا چمکتی آنکھیں لیئے اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔
کچھ لمحے خاموشی کی نظر ہوئے تھے ۔۔۔۔ ساشہ الفاظ ترتیب دینے لگی تھی ۔۔ جبکہ منان سراپا سماعت بنا تھا ۔۔۔۔۔
“جو ہوا ۔۔۔۔ وہ کیوں ہوا ۔۔؟”
ساشہ کی سرسراتی آواز پر اس نے اپنی نظریں اس کے صبیح چہرے پر ٹکا دی تھیں ۔۔۔
“کچھ قدرت کا کھیل تھا ۔۔۔ کچھ ہماری غلطی تھی۔۔۔۔۔۔!”
“تمہاری ۔۔۔۔!”
ساشہ نے جتایا تھا ۔۔
“ہماری ۔۔!”
منان نے جیسے سمجھایا تھا ۔۔۔
“میری کیا غلطی تھی بھلا ۔۔۔؟؟”
“تم نے صرف میری ضد میں آکر ۔۔ مجھے تکلیف دینے کے لیئے ۔۔۔ سلیم سے شادی کر لی ۔۔۔۔؟”
“میں تمہیں کتنی بار سمجھائوں ۔۔؟ وہ فیصلہ میں نے ضد میں نہیں کیا تھا ۔۔۔۔!!”
“ٹھیک ہے میں نے مان لیا ۔۔۔ لیکن تم بھی مان جائو ۔۔۔ تم میں لاکھ خوبیاں صحیح۔۔! لیکن ضد بہت ہے تم میں ۔۔۔۔!”
“ایسا کچھ نہیں ہے ۔۔ ہنہہ ۔!!”
“یہ دیکھو ۔۔۔ یہ تم ضد میں آگئی ہو ۔۔۔!”
“میں جا رہی ہوں ۔۔ گڈ نائٹ ۔۔۔!”
بیزاری سے کہتے ہوئے وہ جانے لگی تھی جب منان نے دروازے کے آگے بازو پھیلا کر اس کا راستہ روک لیا تھا ۔۔۔
آنکھیں گھما کر ساشہ نیچے جھکی تھی ۔۔ منان نے بھی جلدی سے بازو نیچے کیا تھا ۔۔۔
پھ ساشہ اوپر ہوئی تھی منان نے بھی اپنا بازو اوپر کر دیا تھا ۔۔
کچھ پل یہ کھیل چلتا رہا تھا پھر ساشہ نے کمر پر ہاتھ ٹکا کر اسے گھورا تھا ۔۔۔۔۔
“نہیں چاہتی کہ تمہیں معاف کروں ۔۔۔۔!”
“معاف نہ کرو ۔۔۔ لیکن بھروسہ کر کے دیکھو ایک بار ۔۔!!”
“بہت مشکل ہے ۔۔۔۔”
“ناممکن نہیں ۔۔۔!”
“دو بار اس رشتے سے دھوکا کھایا ہے ۔۔۔۔ اب ڈر لگنے لگا ہے ۔۔۔۔۔”
“جو فیصلے ضد یا مجبوری میں کیئے جاتے ہیں وہ اکثر تکلیف کا باعث بن جاتے ہیں ۔۔
عباس تمہاری مجبوری تھا ۔۔۔ سلیم تمہاری ض۔۔۔۔۔آ۔۔۔۔د۔۔۔ اچھا خیر ۔۔!!!”
ساشہ کی گھوری اتنی سخت تھی ۔۔ لفظ “ضد” لڑکھڑا کر رہ گیا تھا ۔۔۔
“ایک فیصلہ دل سے بھی کر کے دیکھو ۔۔۔۔۔ ایک بار دل کی بھی سن کر دیکھو ۔۔!”
مدھم سی گزارش پر ساشہ نے شال کے اندر ہی سینے پر لپیٹے ہاتھ زرا کھول کر دل کی دھڑکن کو سنا تھا ۔۔۔۔ اور دل کی سرگوشیاں سن کر وہ گھبرا گئی تھی ۔۔۔
“تو تمہیں یہ لگتا ہے ۔۔ کہ میرا دل تمہارے لیئے راضی ہے ۔۔۔؟؟”
“ہاں مجھے ایسا ہی لگتا ہے ۔۔ مجھے یقین ہے ۔۔۔۔!”
“سوچ لو ۔۔۔ دو بچے بھی ہیں میرے ۔۔۔۔۔۔”
ساشہ کی نیم رضامندی پر پہلے پہل تو منان کچھ کہنا ہی بھول گیا تھا ۔۔۔ اور جب یقین آیا کہ جو سنا ہے وہ صحیح سنا ہے ۔۔ تو ایک بےساختہ سی ہنسی اس کے لبوں سے پھوٹی تھی ۔۔۔۔ اور پھر سنسان رات میں اس کے فلک شگاف قہقے ساشہ کے کان پھاڑنے لگے تھے ۔۔۔۔
“جب نارمل ہوجائو۔۔ تب بات کریں گے ۔۔۔”
“نہیں نہیں رکو۔۔ سوری ۔۔۔”
منان بمشکل اپنی ہنسی روک کر بولا تھا ۔۔ ۔ ہونٹ خود بہ خود پھیلے جا رہے تھے ۔۔۔
کچھ دیر تک چہرہ ادھر ادھر کیئے اپنے جذبات پر کنٹرول کرتا رہا ۔۔۔ پھر خوابناک سے انداز میں بولتا چلا گیا تھا ۔۔۔۔
“تم نے مجھ پر احسان کیا ہے ساشہ ۔۔ احسان ۔۔۔!
یہ میرا وعدہ ہے ۔۔۔۔!!! میں آج یہ وعدہ کرتا ہوں ساشہ ۔۔۔۔۔۔۔
تمہیں ایک پل کے لیئے بھی اپنے فیصلے پر پچھتاوا نہیں ہوگا ۔۔۔
تمہارے قریب رہ کر لیکن تم سے دور ہو کر کافی سنور گیا ہوں میں ۔۔۔۔ میں اب کبھی ۔۔۔۔ کبھی ایسے کسی کام کا سوچ بھی نہیں سکتا جو مجھے تم سے دور کردے ۔۔۔۔۔
تم سے دوری نے جب اتنا بدل دیا ہے ۔۔۔۔ تو جب تم مجھے بدلو گی ۔۔ تو میں کتنا بدل جائوں گا ۔۔۔ ؟
جس روپ میں ڈھالو گی ۔۔ ڈھل جائوں گا ۔۔۔ جس رنگ میں رنگو گی ۔۔ رنگ جائوں گا ۔۔۔۔”
حیرت سے اسے تکتی ساشہ کھلکھلا کر ہنسی تھی ۔۔
“پتا نہیں کیا کیا بولے جا رہے ہو ۔۔ مجھے تم سے بس ایک وعدہ چاہیے ۔۔۔۔۔”
“میں ہر وعدہ نبھائوں گا ۔۔۔!”
“پہلے سن تو لو ۔۔۔”
“سنا دو ۔۔ لیکن میں وعدہ کر چکا ہوں کہ میں وعدہ نبھائوں گا ۔۔۔۔”
“اچھا ۔۔۔۔۔!!!
تو تم مجھ سے وعدہ کر چکے ہو ۔۔۔ جان کی نیپی بدلنے کی ذمہ داری تم اٹھائو گے۔۔۔؟”
“کیا ۔۔۔؟؟؟”
وہ دہشت ناک انداز میں چیخا تھا ۔۔۔۔
“کیا ، کیا ۔۔؟”
“محبوب سے ایسے وعدے کون لیتا ہے بھلا۔۔۔۔؟”
حیرت ہی حیرت تھی اس کی آنکھوں میں۔ ۔۔
“دو بچوں والی محبوبہ لیتی ہے ۔۔۔!!”
منان کے صدامتی انداز میں پوچھنے پر ساشہ نے یہ جواب صرف سوچا تھا ۔۔ کہنے کی ہمت نہیں کر سکی تھی ۔۔۔۔ مسکراہٹ دبا کر شانے اچکاتی وہ اندر چلی گئی تھی جبکہ پیچھے منان اس عجیب و غریب وعدے پر کبھی ہنس رہا تھا ۔۔ کبھی منہ بنا رہا تھا ۔۔۔۔
خوشی اتنی تھی ۔۔ درحقیقت وہ پگلایا ہوا تھا ۔۔۔۔۔
******************
سر اٹھائے وہ روشن نظروں سے عمارات کا جائزہ لے رہی تھی ۔۔۔ لیکن اس کی چمکدار آنکھوں میں سکون کہیں نہیں تھا ۔۔۔۔۔
دو پل کو رک کر اگر کوئی اس کی آنکھوں میں جھانکتا تو آسانی سے ان خوبصورت آنکھوں کی وحشت اور رت جگوں کی داستانیں پا لیتا ۔۔۔۔۔۔!
آس پاس نظریں دوڑاتی ان جانے پہچانے راستوں پر وہ اعتماد سے قدم بڑھا رہی تھی ۔۔ جب اس کی نظریں ۔۔ قدم ۔۔۔ اور پھر سانسیں بھی تھم سی گئی تھیں ۔۔
کچھ دیر گنگ رہنے کے بعد وہ پوری رفتار سے آگے دوڑ پڑی تھی ۔۔۔۔۔۔ آتے جاتے لوگوں سے ٹکرا کر ۔۔ انہیں بدلحاظی سے سائڈ کرتی ۔۔۔ بہت سے لوگوں کی باتیں سنتی ۔۔ بہت سوں کو خود سناتی وہ دوڑتی چلی جارہی تھی ۔۔۔۔۔۔
صرف ایک جھلک ۔۔۔!
صرف ایک جھلک میں وہ اسے پہچان چکی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
وہ جو شائد آئینے میں خود کو دیکھ کر نہ پہچان سکے ۔۔ میشا اسے پہچان گئی تھی ۔۔۔۔
وہ زمین پر غائب دماغ سا بیٹھا تھا ۔۔ نظریں غیر مرئی نقطے پر جمی تھیں ۔۔۔ سامنے ہی ایک گتے کا ٹکڑا پھیلا تھا جس پر کچھ سکے پڑے تھے ۔۔۔۔۔۔
یقین و بےیقینی کا شکار وہ اس کے عین سامنے کھڑی گہری گہری سانسیں لیتے ہوئے اپنا تنفس بحال کر رہی تھی ۔۔۔ یا شائد اپنی چیخیں روک رہی تھی ۔۔
جو خوشی اور غم دونوں صورتوں میں اس کے منہ سے نکلا کرتی تھیں ۔۔۔۔
خوشی تھی ۔۔ بلکہ بےانتہا خوشی تھی ۔۔
کہ پارس اس کے پاس ۔۔ اس کے سامنے موجود تھا ۔۔۔۔
اور اذیت سے دل کٹ رہا تھا ۔۔ کہ وہ کس حال میں موجود تھا ۔۔۔!!!
“پارس ۔۔۔۔!”
اس کی دھیمی پکار پر پارس کے وجود میں کوئی جنبش نہیں ہوئی تھی ۔۔۔ وہ خود اپنی پکار نہیں سن سکی تھی ۔۔ پارس کیا سنتا ۔۔۔؟
دل پر ہاتھ رکھ کر میشا نے چند ایک گہری سانسیں بھر کر اپنے آنسئوں کو اندر اتارا تھا اور اگلے ہی پل وہ زمین پر گرتی اس کے سینے سے لگ گئی تھی ۔۔
وہ اس افتاد پر ہڑبڑا کر رہ گیا تھا ۔۔۔۔ ایک ہاتھ تو کسی کام کا نہیں تھا ۔۔ دوسرا ہاتھ اس نے میشا کو ہٹانے کے لیئے اٹھایا تھا لیکن جانی پہچانی سی خوشبو اسے گم صم کرگئی تھی ۔۔
اپنا ہاتھ پہلو میں گرا کر وہ اس کے شانے میں منہ دے کر سسک پڑا تھا ۔۔۔
قریب سے گزرتے لوگوں نے حیرت سے اس منظر کو دیکھا تھا ۔۔۔
لیکن انہیں کسی کے دیکھنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا ۔۔۔۔۔۔ وہ ابھی اس یقین کے مرحلے سے ہی گزر رہے تھے ۔۔ کہ وہ دونوں ایک دوسرے کے پاس تھے ۔۔۔
میشا نے اس کے کمزور سے وجود کے گرد اپنی گرفت مضبوط سے مضبوط تر کر دی تھی ۔۔ جیسے اسے ڈر ہو کہ اگر وہ پارس سے الگ ہوئی تو پارس اس سے ہمیشہ کے لیئے دور چلا جائے گا ۔۔۔۔
وہ اسے خواب بھی سمجھ رہی تھی ۔۔ خواب جو ادھورے رہ جاتے ہیں ۔۔۔ ٹوٹ جاتے ہیں ۔۔۔!!
“اگر یہ خواب ہے تو خدا کرے میری آنکھ کبھی نہ کھلے ۔۔۔۔۔۔
ایسے ہی ابدی نیند سوجائوں میں ۔۔۔”
میشا کے بری طرح دھڑکتے دل نے شدت سے دعا کی تھی ۔۔۔۔۔۔
بہت دیر بعد جب ان دونوں کو اس منظر کے حقیقت ہونے پر یقین آگیا ۔۔ تب نظریں چراتے وہ دونوں الگ ہوئے تھے ۔۔۔
“یہاں کب آئے تھے۔۔۔؟؟”
میشا یہ سوال چیخ چیخ کر ۔۔ اس پر مکوں کی برسات کرتے ہوئے پوچھنا چاہتی تھی لیکن پارس کی حالت دیکھتے ہوئے صبر کر گئی تھی ۔۔۔
“دو ہفتے پہلے ۔۔۔”
اس جواب پر وہ اسے دیکھ کر رہ گئی تھی ۔۔
“میں تو خود کو شیشے میں دیکھتا ہوں تو خود ہی خود کو پہچان نہیں پاتا ۔۔۔۔ تم نے کیسے پہچان لیا۔۔۔؟”
“آنکھوں سے نہیں دیکھا تھا ۔۔۔ دل سے دیکھا تھا میں نے ۔۔۔!”
اظہار میں اب وہ اور دیر نہیں کرنا چاہتی تھی ۔۔۔۔ وہ اسے بتا دینا چاہتی تھی ۔۔
کہ وہ کیا تھا اس کے لیئے ۔۔۔۔۔!!
نظریں اٹھا کر پارس نے بےیقینی سے اسے دیکھا تھا ۔۔۔۔
یہ میشا کی طرف سے دل والا معاملہ کب ہوا ۔۔۔؟؟
“جب تم یہاں آگئے تھے ۔۔۔۔ تو ہمارے پاس کیوں نہیں آئے ۔۔۔؟
کچھ احساس ہے کیا گزری ہے ہم پہ۔۔ ؟
چار سال چار صدیوں کے طرح گزارے ہیں ۔۔۔۔۔ میں نے کبھی اللہ سے شکوہ نہیں کیا ۔۔ لیکن تمہاری وجہ سے میں نے اللہ سے شکوے بھی کیئے ہیں ۔۔۔۔!”
جذبات میں آ کر اس نے یک ٹک خود کو تکتے پارس کے بازو پر پر تھپڑ رسید کر ڈالا تھا ۔۔ اور جب پارس کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکلی تب جلدی سے اپنے ہاتھ سے وہاں سہلانا شروع کر دیا تھا ۔۔۔۔۔
پارس اپنا درد بھول کر حیرت سے کبھی اس کا چہرہ تو کبھی اپنا بازو سہلاتے اس کے ہاتھ کو تکنے لگتا ۔۔۔۔
“میں۔۔۔۔۔۔ مم ۔۔۔ میرے پاس ۔۔۔۔۔۔۔ میرے پاس کچھ نہیں رہا میشا ۔۔۔
میں کسی کا کام کا نہیں رہا ۔۔ ناکام ہوں ، بیکار ہوں میں ۔۔۔
مجھے یہیں چھوڑ جائو ۔۔۔ اور کبھی مت ملنا مجھ سے ۔۔ چاہو تو طلاق لے لو۔۔۔۔۔۔۔”
“کیا بکواس کیئے جارہے ہو ۔۔۔!”
میشا بھڑک اٹھی تھی ۔۔ ساتھ ہی آنکھوں سے آنسئوں کی برسات پھر جاری ہوچکی تھی ۔۔۔
“بکواس نہیں کر رہا ۔۔۔۔ میری بات غور سے سنو میشو ۔۔! غور سے دیکھو زرا میری طرف ۔۔۔!!
میری کبھی چل نہیں سکوں گا اب ۔۔!”
“ہاں تو اچھی بات ہے ۔۔۔۔ چاہو گے بھی تو چھوڑ کر نہیں بھاگ پائوگے ۔۔۔!!”
میشا نے جھٹ جواب دیا تھا جیسے پہلے سے سوچ کر بیٹھی ہو۔ ۔۔۔۔
“اچھا ۔۔!! اور میرا چہرہ ۔۔۔!!! یہ ڈینٹ کبھی صاف نہیں ہوں گے۔ ۔۔۔۔”
“یہ بھی ٹھیک ہی ہوا ۔۔۔۔ ورنہ ساری پرابلمز ایک طرف اور پیارے سے میاں کی مصیبت ایک طرف ۔۔۔!
ہر وقت یہ دھڑکا ستاتا رہتا کبھی کوئی حسینہ تمہیں لے نہ اڑے ۔۔۔۔۔”
لمحے کی دیر کیئے بغیر اس نے پھر جواب دیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
کتنی ہی دیر تک پارس کچھ بول نہیں پایا تھا ۔۔۔ اور جب بولا تھا ۔۔ تب میشا کو گنگ کر دیا تھا ۔۔۔۔۔!!!
ٹکر ٹکر اس کی پژمردہ صورت تکتی وہ شائد مزاق کا کوئی شائبہ تلاش کر رہی تھی ۔۔ لیکن جب اسے یقین ہوگیا جو بات پارس نے کہی تھی ۔۔ وہ سچ تھی ۔۔۔۔ ایک حقیقت ۔۔!
ایک جھرجھری اس نے بےساختہ لی تھی ۔۔۔۔
اور اگلے ہی پل وہ مسکرادی تھی ۔۔
بھیگی آنکھوں سے اسے تکتے پارس کو شبہ ہوا تھا وہ پگلا وگلا تو نہیں گئی صدمے سے ۔۔!!
“یہ بھی اچھا ہوا ۔۔۔ تمہیں تمہارے کیئے کی سزا دنیا میں ہی مل گئی ۔۔۔۔ اب اطمینان سے ہم جنت میں چلنے کی تیاری کر سکیں گے ۔۔۔۔۔۔ لیکن سنو ! جنت میں تم میرے سوا کسی حور کو مت دیکھنا ۔۔۔!!”
دل تو خون خون تھا اس ۔۔
لیکن اپنے دل کی حالت وہ پارس پر آشکار نہیں کرنا چاہتی تھی ۔۔۔سو لاپراہ بنی بےپرکی ہانکے جا رہی تھی اور پارس اسے گم صم سا دیکھے چلا جا رہا تھا ۔۔۔۔!!!
“اب مجھے کیا گھورے جا رہے ہو ۔۔۔؟”
“فلحال میں دنیا میں ہی مل جانے والی اپنی جنت اور حور کو دیکھ رہا ہوں ۔۔۔۔۔ دیکھنے دو ۔۔!”
میشا نے اس کی توجہ خود سے ہٹانے کے لیئے درمیان میں ہاتھ لہرایا تھا ۔۔ جسے پکڑ کر سائڈ کرتے ہوئے پارس نے اس کے ایک ایک نقش کو بغیر دیکھا تھا ۔۔۔ ۔۔۔
اور ایک بار پھر اسے رونے کا دورا پڑ گیا تھا ۔۔
لیکن میشا نے اسے چپ نہیں کرایا تھا ۔۔۔ اس کے چکٹتے ہوئے ایک دوسرے سے ملے گھنگریالے بالوں پر ہاتھ پھیرتی وہ خود کو سنبھالنے میں ہلکان ہورہی تھی ۔۔۔۔
“اب چلو بھی روندو ۔۔۔۔۔۔! سب تمہیں اتنا یاد کرتے ہیں ۔۔ مون بھائی تو روتے بھی ہیں ۔۔۔۔۔!!”
اسے سہارا دے کر اٹھاتے ہوئے میشا نے اسے اس کی اسٹک پکڑائی تھی ۔۔ اور جب وہ اسٹک کے سہارے قدم بڑھانے لگا تب اس کی تکلیف کا احساس ہونے کے باوجود بھی میشا نے اس کا بازو دونوں ہاتھوں سے تھام لیا تھا ۔۔۔۔۔۔
پارس کو اس کے ایسا کرنے سے اتنی جسمانی تکلیف نہیں اٹھانی پڑی تھی ۔۔ جتنا قلبی سکون حاصل ہوا تھا اسے ۔۔۔۔۔!
“پتا ہے ۔۔! مون بھائی اور ساشہ کی شادی ہوگئی ہے ۔۔۔!”
اس کے دھماکہ انگیز انداز پر پارس نے اپنی سیاہ حلقوں والی آنکھیں سکیڑی تھیں ۔۔۔۔۔
“یہ تو ہونا ہی تھا ۔۔۔۔!!!”
“مگر ہوا نہیں تھا ۔۔۔”
میشا کے آنکھیں نچانے پر اس کی آنکھوں میں استعجاب در آیا تھا ۔۔۔۔
“وہ بھی مزے میں نہیں رہے تھے ۔۔۔ قدرت نے انہیں بھی بڑی گہری چوٹ دی تھی ۔۔۔!”
وہ اسے سلیم والا سارا قصہ سنانے لگی تھی ۔۔ اور پارس لوگوں کی حیران نظریں محسوس کرتا افسردہ سا مسکراتا رہا تھا ۔ ۔ ۔
ایک ٹوٹا پھوٹا گندہ میلا شخص ۔۔ اور اس کے شانے سے سر ٹکائے چلتی وہ اجلی اجلی لڑکی ۔۔۔۔!!!
منظر دلچسپ تھا ۔۔!
لوگ ایک بار تو ضرور اس جوڑے کو چونک کر دیکھتے تھے ۔۔۔
باتوں کے درمیان میشا نے اس کی جھکی نظریں اور پسینے سے تر چہرہ دیکھا تھا ۔ ۔ ایک لمحہ کو الجھیِ ۔۔ پھر سب سمجھ گئی ۔۔۔۔۔
ایک بار پھر اس نے بہادری سے اپنے آنسئوں کو اندر ہی اتارا تھا ۔۔۔۔
اس کا پارس اس کے پاس تھا ۔۔۔ اسے پارس کی محبت حاصل تھی ۔۔۔۔۔ اور کیا چاہیے تھا ۔۔؟
ہلکے پھلکے انداز میں وہ اسے گھر چل کر دو گھنٹے تک باتھ لینے کی اور “اکی فقیر” سے تشبیہ دیتی ہنسنے پر مجبور کر ہی گئی تھی ۔۔۔۔۔
ترکی کا خوبصورت دن اختتام پذیر ہونے کو تھا ۔۔۔
جبکہ اس چھوٹے سے گھر میں شام ڈھلے خوشیوں کی صبح اتری تھی ۔۔۔۔۔!!!
*************
ختم شد ..
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...