میری آنکھوں کا تجھ سے کوئی تو تعلق یے
سامنے جب بھی آتے ہو دل کھل سا جاتا ہے
بڑی سی کھڑکی کے باہر روشن دن جھانک رہا تھا۔ سورج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔ آنکھیں کھلتے ہی رانیہ کی نگاہ اپنے ساتھ لیٹے رامش پر پڑی۔ رات کے مقابلے میں اب وہ کافی بہتر محسوس کر رہی تھی۔۔ اس نے سائیڈ ٹیبل سے ہئیر بینڈ اٹھایا اور اپنے بالوں کے گرد باندھنے لگی۔۔ وہ لاشعوری طور پر رامش کے قریب ہو گئی اور کافی دیر اسے دیکھتی رہی۔۔
“کچھ چاہیۓ تھا کیا آپ کو۔۔۔؟؟” رامش نے اس کی نظر خود پر جمی محسوس کرتے ہوۓ پوچھا۔۔
“تھینک یو۔۔۔” رانیہ کی آنکھوں کے کٹورے ایک دم بھیگ گۓ۔۔ رامش ڈر گیا اور اٹھ کر بیٹھ گیا۔۔
“کیا ہوا آپ کو۔۔۔ اس طرح سے کیوں رو رہی ہیں آپ۔۔؟؟” رامش نے پریشانی کا عنصر لیۓ ہوۓ پوچھا۔
“میں جانتی ہوں جس طرح سے ہماری شادی ہوئی یہ سب کہنا بہت مشکل ہے۔۔ لیکن آپ رمشا کو بھول جائیں۔۔۔ میں اس رشتے کو ایک موقع دینا چاہتی ہوں اور آپ کے ساتھ کے بغیر یہ ممکن نہیں۔۔” رانیہ نے آنکھوں میں ایک امید لیۓ پوچھا اور اس امید کو رامش نہیں توڑنا چاہتا تھا۔۔۔
“میں کوشش کروں گا کہ آپ کو مجھ سے کوئی شکایت نہ ہو۔۔” کہہ کر رامش وہاں سے اٹھ گیا۔۔۔
*————————–*
دردانہ بیگم سلطانہ بیگم کے گھر کے باہر کھڑی تھیں۔ وہ ابھی کسی شش و پنج میں مبتلا تھیں کہ پارسا نے گیٹ کھول دیا۔۔
“آئیں خالہ۔۔ بہت بہت مبارک ہو آپ کو نئی بہو کی۔۔۔۔” پارسا کے لہجے کی کاٹ دردانہ بیگم نے صاف محسوس کی۔۔
“میں آپا سے ملنے۔۔۔۔” دردانہ بیگم بولیں۔
“امی تو ماموں کی طرف ہیں۔۔ آئیں آپ اندر۔۔” دردانہ بیگم سیدھی بیڈ روم کی طرف چلی گئیں۔۔ وہیں بیڈ پر لیٹے لیٹے ان کی آنکھ لگ گئی۔
رات آٹھ بجے ان کی آنکھ کھلی تو اس خیال کے تحت کہ سلطانہ بیگم آ گئی ہوں گی, وہ ان کے کمرے کی طرف گئیں۔
“بہن ہے میری اگر ایک دو دنوں کے لیۓ آ گئی ہے تو کونسا غضب ہو گیا۔۔۔” سلطانہ بیگم کی آواز دردانہ بیگم کی سماعتوں سے ٹکرائی۔۔
“ہاں ہاں تمہاری بے وقوف بہن۔۔ کیا کہتی تھی تم کہ پارسا کی شادی تو رامش سے ہو گی۔۔ میں نے چال ہی ایسی چلی ہے۔۔ کہاں گئی تمہاری چال۔۔۔” قیصر کا لہجہ غصے بھرا تھا۔۔
“جو ہوا اس میں دردانہ کا کیا قصور۔۔ اس نے تو پوری کوشش کی تھی۔۔” سلطانہ بیگم کمزور لہجے میں بہن کی حمایت میں بولیں۔۔
“کیا کچھ نہیں کیا تھا تم نے پچیس سال پہلے مقبول اور اس کی بیوی کو گھر سے نکلوانے کے لیۓ۔۔۔ صرف اس لیۓ کہ رامش اس رانیہ کا مقدر نہ بنے مگر دیکھ لو رامش کی بیوی وہ بن ہی گئی۔۔۔” قجصر صاحب نے سلطانہ بیگم کو ان کا عکس دکھایا۔۔
“مقدر سے کون لڑ سکتا ہے قیصر۔۔۔ ہماری پارسا کے لیۓ رامش سے بھی بڑھ کے مل جاۓ گا۔”
دردانہ بیگم کی آنکھیں آنسوؤں سے لبا لب ہو گئیں۔۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھیں کہ ماضی میں جھانکنا اتنا اذیت ناک بھی ہو سکتا ہے۔۔ کمرے میں آ کر انھوں نے اپنا بیگ اٹھایا اور کسی کو بتاۓ بغیر اپنے گھر چلی گئیں۔۔
*————————-*
“آپی یہ لوگ ہمارے رشتے دار ہیں۔۔ مجھے تو یقین ہی نہیں آ رہا۔۔” لان میں کرسیوں پر بیٹھے ہوۓ مہرین بولی۔۔
“مجھے تو امی نے ان لوگوں کے بارے میں پہلے ہی بتایا ہوا تھا۔ تم سے اس لیۓ چھپایا کہ تم چھوٹی تھی۔۔۔” رانیہ نے پرسکون لہجے میں بتایا۔
“آپی مجھے تو ان آنٹی کی کسی بات کا بھی یقین نہیں آ رہا۔ اللہ جانے وہ کیوں امی کے پیچھے پڑی ہوئی ہیں۔” مہرین اپنی انگلیاں مس کرتے ہوۓ بولی۔۔
“وہ سب جھوٹ کہہ رہی ہیں مہرین۔۔ امی نے مجھے بتایا تھا کہ کسی نے ان کے خلاف سازش کر کے اس گھر سے نکلوایا تھا ورنہ ہم اپنی زندگی میں اتنی مشکلات کبھی نہ دیکھتے۔۔” رانیہ کے لہجے میں دکھ بھرا آیا تھا۔۔۔
“ٹھیک کہہ رہی ہے رانیہ۔۔۔ وہ سب ایک غلط فہمی سے زیادہ کچھ بھی نہیں تھا۔۔۔۔” فرمان صاحب پتا نہیں کب سے ان کی باتیں سن رہے تھے اسی لیۓ بولے۔۔
دونوں نے اٹھ کر ان کو سلام کیا اور پھر اس کے بعد ان تایا بھتیجیوں میں گئے دنوں کے نہ ختم ہونے والے قصے چھڑ گئے۔۔۔
*————————-*
ہے ایک طرفہ تماشا _______ طبیعت عشاق
کبھی فراق میں باتیں, کبھی وصال میں چپ
شہریار آفریدی کی سمجھ میں بابا کی بات آ گئی تھی مگر اس پر عمل کرنا اسے دنیا کا مشکل ترین کام لگ رہا تھا۔۔
“کیوں اتنا سوچ رہے ہو شہریار آفریدی۔۔۔ اپنا کیوں نہیں لیتے ہو تانیہ کو۔۔۔ اسے بھی تو سہارا چاہیۓ۔۔ بن جاؤ اس کا سہارا۔۔” شہریار آفریدی کے ضمیر نے اسے جھنجھوڑا۔۔
“میں یہ سب۔۔۔۔ کبھی نہیں۔۔۔۔” شہریار ایک دم سر پکڑ کر بولا۔۔
“ذرا دیکھو اسے جا کر۔۔ کتنی اکیلی ہے وہ۔۔۔ تم مل جاؤ گے تو مکمل ہو جاۓ گی۔۔ سوگ منانا چھوڑ دو شہریار آفریدی۔۔۔۔” ضمیر کی آواز کو دبانا آسان کام نہیں تھا۔۔
شہریار آفریدی نے پورٹیکو سے گاڑی نکالی اور سکون کی غرض سے بلاوجہ سڑکوں پر دوڑانے لگا۔۔۔
*————————-*
ﯾﻮﮞ ﺗﻮ ﮐﮩﻨﮯ ﮐﻮ ﺑﮩﺖ ﻟﻮﮒ ﺷﻨﺎﺳﺎ ﻣﯿﺮﮮ
ﮐﮩﺎﮞ ﻟﮯ ﺟﺎﺅﮞ ﺗﺠﮭﮯ ﺍﮮ ﺩﻝِ ﺗﻨﮩﺎ ﻣﯿﺮﮮ
رمشا آفندی کی شادی کو چار مہینے ہو گئے تھے۔ ابھی تک تو اسے ایبک کے ساتھ کوئی مشکل نہیں ہوئی تھی لیکن اب اس کا بنک اکاؤنٹ خالی ہو گیا تھا۔۔ شام کو ایبک گھر آیا تو اس نے پیسے مانگے۔۔
“ایبک مجھے کچھ پیسے ضرورت تھے۔۔ شاپنگ کرنی تھی میں نے تھوڑی۔۔”
“میرے پاس کہاں سے آۓ پیسے۔۔۔ تمہارا باپ کونسی فیکٹری میرے نام کر گیا تھا۔۔” ایبک الماری میں سے کپڑے نکالتے ہوۓ بولا۔۔
“پاپا کے بارے میں ایک لفظ مت بولا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔۔” رمشا نے ایبک سے کپڑے لیۓ اور فرش پر پھینک دئیے۔
ایبک نے ایک زوردار تھپڑ اس کے گال پر رسید کیا۔۔۔
“میرے پاپا کے پیسوں پر پلنے والے کتے ہو تم ایبک۔۔۔ جس کا نمک کھایا اسی کے آگے بولتے ہو۔۔۔ آج تک تم سے ایک پیسہ نہیں مانگا بلکہ تمہاری شاہ خرچیوں کے لیۓ بھی تمہیں دیتی آئی اور ایک تم ہو کہ۔۔۔۔” رمشا غصے سے پھنکارنے لگی۔۔
“سو سوری مشی ڈارلنگ۔۔۔ مجھے یہ سب نہیں کہنا چاہئیے تھا۔۔۔ مجھے کوئی ڈھنگ کی جاب ملے تو تمہاری ہر عیاشیاں پوری کروں گا۔۔۔” ایبک نے رمشا کے گرد گھیرا تنگ کر دیا۔۔ وہ اسے ناراض کرنے کا رسک نہیں لے سکتا تھا۔۔ رمشا نے سوچ لیا کہ وہ خود جاب کرے گی اور اب ایبک کو ایک پیسا بھی نہیں دے گی۔۔
*———————–*
“مومن عورتیں اپنا بناؤ سنگھار ظاہر نہ کریں مگر ان لوگوں کے سامنے: شوہر, باپ, شوہروں کے باپ, اپنے بیٹے, شوہروں کے بیٹے, بھائی, بھائیوں کے بیٹے, بہنوں کے بیٹے, اپنے میل جول کی عورتیں, اپنے مملوک, وہ زیر دست مرد جو کسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں, اور وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں۔” (النور ٣١)
“ایک عورت اپنی پوری زینت کے ساتھ آزادی سے جس حلقے میں رہ سکتی ہے وہ اس آیت میں بتایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ جو لوگ ہوں, چاہے رشتہ دار ہوں یا اجنبی, ایک عورت ان کے سامنے بن سنور کر نہ آۓ۔
اگر اوپر آیت پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک عورت اپنے باپ, دادا, پردادا, نانا, پرنانا کے سامنے بھی اس طرح زینت کے ساتھ آ سکتی ہے جس طرح شوہر کے سامنے آئے۔ اسی طرح بیٹوں میں پوتے, پرپوتے, نواسے, پرنواسے شامل ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ شوہروں کے بیٹوں کا بھی ذکر ہے جس کا مطلب ہے کہ سگے یا سوتیلے بیٹوں میں زینت کر کے آ سکتے ہیں۔
بھائیوں میں بھی دیکھا جائے تو سگے اور سوتیلے بھائی شامل ہیں۔ بھائی اور بہنوں کی اولاد میں ان کے اپنے بچے, پوتے, پرپوتے, نواسے اور پرنواسے شامل ہیں۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ سگے چچا اور ماموں سے پردہ کرنا چاہیۓ مگر ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔
اگلی بات بیان کی گئی ہے کہ میل جول کی عورتوں کے سامنے بھی زینت کی اجازت ہے۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ اس سے مراد مسلمان عورتیں ہیں, غیر مسلم عورتوں سے پردہ کرنا چاہیۓ۔ دوسرے گروہ کے مطابق ان سے مراد تمام عورتیں ہیں خواہ مسلم ہوں یا غیر مسلم۔ تیسرے گروہ کے مطابق یہ وہ عورتیں ہیں جن کا ایک عورت سے میل جول ہو, جانی پہچانی ہوں, ساتھ میں کام کرنے والی اور تعلقات رکھنے والی ہوں, پھر چایے وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم۔ اجنبی عورتیں اس دائرے میں شامل نہیں۔ اجنبی عورتوں سے ملاقات کی حد وہی ہے جو غیر محرم رشتہ داروں کے سامنے آزادی کی زیادہ سے زیادہ حد ہے یعنی عورت منہ اور ہاتھ ان کے سامنے کھولے۔
مملوک سے مراد ایک گروہ کے مطابق وہ لونڈیاں ہیں جو کسی عورت کی ملک میں ہوں خواہ وہ مشرکہ ہوں یا اہلِ کتاب میں سے, ایک مسلمان مالکہ اس کے سامنے اظہارِ ذینت کر سکتی ہے۔ پردے کے معاملے میں غلام کی حیثیت وہی ہے جو کسی آزاد اجنبی مرد کی ہے۔ ایک غلام کے لیۓ اس کی مالکہ محرم نہیں ہے کیونکہ وہ آزاد ہونے کے بعد سابقہ مالکہ سے نکاح کر سکتا ہے۔ دوسرے گروہ کے مطابق لونڈیاں اور غلام دونوں ہی اس میں شامل ہیں۔
اس کے بعد ایسے مردوں کا ذکر ہے جو تابع ہوں اور خواہش نہ رکھتے ہوں۔ اپنے محرم مردوں کے علاوہ کسی مرد کے سامنے عورت تب زینت کر سکتی ہے اگر اس میں دو صفات ہوں۔ ایک یہ کہ وہ تابع اور ماتحت ہو۔ دوسرا یہ کہ وہ خواہش نہ رکھنے والا اور نفس کا غلام نہ ہو یعنی اپنی عمر, عقلی کمزوری, مسکنت یا محکومی کی وجہ سے اس میں یہ طاقت نہ ہو کہ صاحبِ خانہ کی ماں, بہن, بیوی یا بیٹی کے بارے میں غلط نیت رکھے۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں صرف روٹی سے غرض ہوتی ہے, کچھ لوگ کسی خاندان کے ساتھ رہ کر گھر کا فرد بن جاتے ہیں اور ایسے لوگ اس گھر کی عورتوں کی طرف غلط نگاہ سے دیکھتے بھی نہیں۔
سب سے آخر میں ایسے بچوں کا ذکر ہے جن میں صنفی احساسات نہ پیدا ہوئے ہوں یعنی دس بارہ سال کے لڑکے۔ اس سے زیادہ عمر کے لڑکوں میں احساسات شامل ہونے شروع ہو جاتے ہیں تو پھر ان کے سامنے زینت کرنا جائز نہیں۔” میڈم جویریہ اطمینان سے ڈائس کے سامنے آ گئیں۔ اتنے عرصے بعد رانیہ کو دیکھ کر وہ کافی مطمئن تھیں۔
*————————–*
رمشا نے اپنے جاننے والے کی مدد سے ایک آفس جوائن کر لیا تھا۔۔۔ اپنی خوبصورتی کی وجہ سے تھوڑے ہی دنوں میں اس کی پروموشن ہو گئی تھی۔۔۔ وہ صبح نو بجے جاتی اور رات نو بجے گھر آتی۔۔۔ آفس میں اس کے کردار کے بارے میں چہ میگوئیاں ہوتی رہیں مگر اس نے پروا نہیں کی۔۔ اسے اپنے کردار کا بہتر پتا تھا کہ وہ کچھ غلط نہیں کر رہی۔۔۔ دن بہت روانی سے گزرتے جا رہے تھے۔۔۔ رمشا ماں بننے والی تھی اور یہ خبر اس کے کیرئیر کے لیۓ بہت خطرناک تھی اس لیۓ اس نے بچے کو ضائع کرنے کا سوچا۔۔۔
“ہم اس بے بی کو ایفورڈ نہیں کر سکتے ایبک۔۔ تم کیوں نہیں سمجھ رہے۔۔” رمشا اپنی ضد پر اڑی ہوئی تھی۔۔
“لیکن مجھے یی بچہ ہر حال میں چاہیۓ۔” ایبک بولا۔۔
“تو تم دوسری شادی کر لو۔۔۔ پھر چاہے جتنے بچے پیدا کرو۔۔ میری بلا سے۔۔۔” اس بات پر ایبک نے رمشا کو بہت مارا۔۔ اس کے چہرے پر ہر جگہ تھپڑوں کے نشان ثبت تھے۔۔ ایک ہفتے کے لیۓ اس نے آفس سے لیو لے لی۔۔۔
*———————-*
کَوئی صِراطِ عِشق سے گُزرے_____تَب کُھلتا ہے،
عِشق سے پہلے عِشق کا مَطلَب _____کَب کُھلتا ہے
شہریار آفریدی جان گیا تھا کہ سراب کا پیچھا کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ اس نے اپنے گھر والوں سے تانیہ کے بارے میں رائے مانگی تو انھوں نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ اس کی اور تانیہ کی دھوم دھام سے شادی ہوئی۔ تانیہ کو یہ سب ایک خواب کی مانند لگ رہا تھا۔۔۔ خوابوں کو حقیقت کا روپ دھارتے دیکھ کر اس کی شخصیت کافی نکھر گئی تھی۔۔۔
رانیہ نے بھی رامش کے ساتھ اس شادی میں شرکت کی تھی۔ ان دونوں کا رشتہ اب کافی حد تک ٹھیک ہو گیا تھا کیونکہ وہ سمجھوتا کرنا سیکھ گئے تھے۔۔۔ اپنے ہمسفر کے ساتھ سب کی زندگی ایک نئی راہ پر چلنا شروع ہو گئی تھی ماسواۓ رمشا کے۔ ۔ وہ دن بدن نفسیاتی مریضہ بنتی جا رہی تھی۔۔۔ اسے اس سب سے نکلنے کے لیۓ رانیہ کا ساتھ چاہیۓ تھا۔۔ ایک پر خلوص دوست کی صورت میں۔۔۔
*————————-*
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...