صاحب میرے والد صاحب ایک ڈاکٹر تھے بہت بڑے ڈاکٹر ہماری زندگی بہت اچھی گزر رہی تھی گھر میں پیسے کی ریل پیل تھی کسی شے کی کمی نہ تھی میری بڑی چاروں بہنوں کے نام ارم اس سے چھوٹی مریم پھر آ منہ پھر عائشہ آ تی تھیں اور ان کے بعد میں پیدا ہوا ابو بتاتے تھے کہ میں بہت منتوں مرادوں کے بعد پیدا ہوا تھا امی ابو جب عمرہ کرنے گئے تو ابو کہتے کہ میں نے روضہ رسول پہ کھڑے ہو کر اللہ سے رو رو کر دعا مانگی کہ مجھ فقیر کی جھولی بھی مرادوں سے بھر جائے ۔۔۔۔ اس لیے انھوں نے میرا نام فقیر محمد رکھا اس کے بعد پھر رانیہ پھر صائقہ اور سب سے چھوٹی سیرت جب یہ حادثہ ہوا سیرت بہت چھوٹی تھی اب تو وہ بھی جوان ہو گی فقیرے نے خلاؤں میں گھورتے ہوئے کہا ۔۔۔۔کیا مطلب تیری اور بہنیں بھی ہیں مگر تیرے کیس کی ہسٹری کے مطابق تو نے اپنے ماں باپ اور ایک بہن کا غیرت میں آ کر قتل کر دیا تھا کیونکہ تجھے شبہ تھا کہ تیری بہنیں اور ماں بد چلن ہے اور تیرا باپ ان کو منع کرنے کی بجائے ان سے دھندہ کرواتا ہے۔۔۔۔۔۔ نہیں صاحب میری ماں اور بہنیں میں قرآن کی قسم کھا کر کہتا ہوں بد چلن نہیں تھیں یہ سب شوکی گولی مار کی سازش تھی کیا مطلب باقی بہنیں کہاں ہیں تمھاری کبھی ملنے نہیں آ ئیں تم سے اگر وہ زندہ ہیں ۔۔۔۔۔۔۔جیلر نے حیرت سے پوچھا ۔۔۔۔۔۔صاحب ہم سب بہن بھائی بہت اچھے تعلیمی اداروں میں پڑھ رہے تھے میری بڑی دونوں بہنیں جو ان دنوں میڈیکل یونیورسٹی میں تھیں اور بد قسمتی سے شوکی گولی مار بھی ان کے ساتھ ہی پڑھتا تھا جو کہ شہر کے ایک بہت بڑے بدنام غنڈے کا سپوت تھا جس کی وجہ سے کوئی شریف لڑکا یا لڑکی ان کو منہ نہ لگاتے مگر یہ میری بہنوں پہ فدا ہو گیا فدا ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ میری بہنوں سے شادی کرنا چاہتا تھا بلکہ ان کی زبان میں فدا ہونے کا مطلب صرف اس عورت سے طوائف کی طرح چند گھنٹے کے لیے اپنی حوس پوری کرنا ہوتا ہے میری معصوم بہنیں جن کی میں قسم دیتا ہوں کبھی کسی غیر مرد کی طرف آ نکھ اٹھا کے نہ دیکھا تھا ایسے گندے کام کے بارے میں سوچ بھی کیسے سکتی تھیں بقول ان کے پہلے تو وہ ان کو طرح طرح کے لالچ دے کر اس کام کے لیے اکساتا رہا جب بات نہ بنی تو مختلف طریقوں سے انھیں تنگ کرنے لگ گیا میری بہنوں کا میڈیکل میں آ خری سال تھا اور وہ جانتی تھیں کہ شوکی گولی مار کی اپروچ کہاں تک ہے وہ کبھی ان کو میڈیکل کلیر نہ کرنے دیتا سب پروفیسر اس سے ڈرتے تھے کسی کو پاس فیل کروانا ان کے بائیں ہاتھ کا کام تھا اس لیے چپ چاپ سب برداشت کرتی رہیں اور گھر میں بھی کسی کو نہ بتایا مگر ایک دن اس کمینے نے اپنی کمینگی کی ساری حدیں پار کر دیں اور میری بہنوں کو جب وہ گھر لوٹ رہی تھی اغوا کر وا لیا ۔۔ ۔ ۔ہم لوگوں نے پولیس میں رپورٹ کروائی ہر جگہ انھیں تلاش کیا لیکن وہ ہمیں کہیں نہ ملیں صاحب ہمارے گھر میں ہر وقت ایک مرگ کی کیفیت طاری رہتی رات ہوتی تو لگتا کہ وہ کسی مرد کی دردندگی کو برداشت کر رہی ہوں گی دن چڑھتا تو ہمیں لگتا کہ ان کی مسخ شدہ لاشیں کسی کچرے کے ڈھیر کے پاس پڑی ہوئی ہوں گی اور کوئی ان کی تصویر بنا کے اخبار پہ دے کر لکھے گا کہ بدکردار لڑکیوں کا یہ ہی انجام ہوتا ہے پر صاحب نو ماہ گزر گئے ارم اور مریم کا کہیں پتہ نہ چل سکا کہ انھیں زمین کھا گئی کہ آ سمان اوپر سے دنیا والوں کی الگ باتیں برداشت کرتے کہ کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہوں گی آ جائیں گی واپس جب ان کے عاشقوں کا ان سے دل بھر جائے گا وہ خود چھوڑ جائیں گے آ پ کی دہلیز پر۔۔۔۔۔۔ میرے گھر میں تو قیامت سے پہلے ہی قیامت آ گئی تھی ان والدین کا کیا حال ہو گا جن کی جوان بیٹیاں لاپتہ ہوں ماں تو ہر پل جیتی مرتی تھی ذرا سی آ ہٹ ہوتی تو پاگلوں کی طرح دروازے کی طرف بھاگتی کہ ارم اور مریم لوٹ آ ئیں ہیں اور صاحب وہاں کچھ نہ ہوتا ایک دن وہ واقعی لوٹ آ ئیں مگر اکیلی نہیں ان کے پیٹ میں نو نو ماہ کے حرام کے بچے پل رہے تھے ہوا کچھ یوں ایک دن ابو کے ایک جاننے والے نے رات کے دو بجے ہمیں فون کیا جسے سنتے ہی میرے ابو نے امی اور مجھے ساتھ لیا اور فورا ہی اس ہاسپٹل چلے گئے وہاں جا کر ہم نے دیکھا کہ میری دونوں بہنیں وہاں ڈلیوری کے لیے داخل ہیں اور ان کی حالت بہت خراب ہے ہم سب ایک دوسرے کے گلے لگ کے ان کی اس بربادی پر پھوٹ پھوٹ کے رو پڑے مگر ارم اور مریم کو تو رونا بھی نہیں آ رہا تھا شاید رو رو کے ان کے آ نسؤں سو کھ گئے تھے ابو کو وہاں کی لیڈی ڈاکٹر نے کہا کہ ہم لوگ جتنی جلدی ہو سکے انھیں یہاں سے لے جائیں کیونکہ جو لوگ انھیں داخل کروا کے گئے ہیں وہ ان کی ڈلیوری ہوتے ہی لینے آ جائیں گے ابھی صرف ان کے ساتھ ایک بوڑھی خاتون ہے جسے میں نے بہانے سے باہر بٹھا رکھا ہے مگر ارم کی حالت ٹھیک نہیں تھی اس لیے لیڈی ڈاکٹر نے ہمیں ایک گھنٹہ ویٹ کرنے کا کہا اور اس دوران ہی شوکی گولی مار اپنے آ دمیوں کے ساتھ وہاں پہنچ گیا ابو کو اس کی شکل دیکھتے ہی پتہ نہیں کیا ہوا ہمارے لاکھ منع کرنے کے باوجود نہایت غصے سے اس کی طرف لپکے اور اسے گریبان سے پکڑ لیا بولے حرام زادے کسی طوائف زادی کی گندی اولاد تیری ہمت کیسے ہوئی میری بیٹیوں کو چھونے کی۔۔۔۔۔۔ آ ج تجھے میں زندہ نہیں چھوڑو ں گا مگر صاحب سب کچھ الٹ ہو گیا اور ابو کی زندگی کی پتہ نہیں یہ غلطی تھی یا ایک باپ کا اپنی بیٹیوں کے لیے محبت ۔۔۔۔۔۔۔۔ شوکی اس اچانک حملے سے بوکھلاہٹ کا شکار ہو گیا ابو پاگلوں کی طرح اسے لاتیں مکے اور گھونسے مارے جا رہے تھے اس کے بعد شوکی کے بندوں نے ابو کو بازؤں سے پکڑ لیا اور ہمارے سروں پر بھی گنیں تان کر کھڑے ہو گئے شوکی کپڑے جھاڑتا ہوا زمین سے اٹھا اور میرے باپ کی طرف بڑھا اور نہایت غصے سے بولا کیا کہا مجھے طوائف کی اولاد آ ج تک کسی کی ہمت نہیں ہوئی کہ شوکی کے آ گے اونچا بول سکے تو نے تو ہر حد پار کر دی تیرے مارے ایک ایک تھپڑ کی قیمت شوکی تجھ سے سود سمیت واپس لے گااور تجھ سے ایسا بدلہ لے گا کہ تیری روح کانپ اثھے گی ۔۔۔۔۔ سن لے اے بڈھے تو نے میری ماں کو طوائف کہا میں تیری ساتوں بیٹیوں کو طوائف بناؤں گا اور پورا زمانہ تجھے سات بیٹیوں کے باپ کے نہیں بلکہ سات طوائفوں کے باپ کہہ کر پکارے گا اور تیری یہ جو دو بیٹیاں ہیں نہ جو پہلے صرف میرے خاص خاص دوستوں کو خوش کرنے کے لیے کبھی کبھی ننگی ہوتی اب روز کوٹھے پہ گاہکوں کو خوش کرنے کے لیے ننگا ناچ کریں گے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک باپ کا کلیجہ یہ سن کر پھٹ گیا۔۔۔۔۔ وہ اپنے آ پ پر قابو نہ رکھ سکا اور میں نے اپنے باپ کے آ خری الفاظ سنے بے غیرت کتے تجھے میں زندہ نہیں چھوڑو ں گا اور اس کے ساتھ ہی میرا باپ نے شیر کی طرح جست لگا کر شوکی کو گلے سے دبوچ لیا اتنے زور سے کہ اس کی آ نکھیں باہر ابل آئیں شوکی کی غیر حالت دیکھ کر اس کے ساتھیوں نے فائرنگ شروع کر دی اور میری آ نکھوں کے سامنے میرے باپ نے تڑپ کر جان دے دی میری ماں اسے بچانے کے لیے بھاگی تو وہ بھی اسی فائرنگ کی زد میں آ گئ اس کے بعد وہ کمینہ کالر جھاڑتا ہوا کھانسی کرتا ہوا اٹھا اور میرے نزدیک آ کر بولا اس کمبخت کے بیٹے کو بھی گولی مار دو تاکہ اس خاندان کا کوئی والی وارث نہ رہے۔۔۔۔ اور اس کی سب بیٹیاں شام سے پہلے میری کوٹھی پہ پہنچا دو تاکہ اس بڈھے کی روح مر کے بھی اپنی بیٹیوں کے بربادی کے غم میں چین نہ پا سکے ۔۔۔میری بڑی بہن ارم لیبر روم میں اپنے مردہ بچے کے پیدا ہوتے ہی اٹھ کر پوری قوت سے میری جانب لپکی اور ہائے میرا ویر(بھائی) کہہ کر مجھ سے لپٹ گئی اور مجھے لگنے والی ساری گولیاں اس کی پشت میں پیوست ہو گئیں اس کے بدن سے سرخ رنگ کا گرم خون فوارے کی طرح ابل کر باہر نکلا جس سے ہم دونوں خون میں لت پت لڑکھڑا کے زمین پہ گر گئے اتنا کہہ کے فقیرے کی آ نکھوں سے آنسو بھی فوارے کی طرح ابل پڑے اور وہ دونوں ہاتھوں سے چہرہ چھپا کے بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا جیلر کی بھی ہچکی بندھ گئی کچھ دیر رونے کے بعد جب من کا بوجھ کچھ ہلکا ہوا تو فقیرے کی آ واز پھر سے ابھری صاحب وہ اپنی طرف سے مجھے بھی مار گئے تھے اگر میں زندہ تھا تو آپی ارم کی وجہ سے جنھوں نے میرے حصے کی موت اپنے گلے لگا لی وہ لوگ چلے گئے اور اپنے پیچھے پانچ لاشیں چھوڑ گئے تین مردہ اور دو زندہ لاشیں ایک میری لاش اور دوسری میری بہن مریم کی جس کی درد زہ سے چیخنے کی آ وزیں مجھے باہر تک سنائی دے رہی تھیں لیکن اس سے بھی زیادہ شدت کا درد مجھے اپنے سینے میں اٹھتا محسوس ہو رہا تھا میں پوری قوت سے چیخنا چاہتا تھا لیکن میری آ واز حلق میں دب گئی تھی مجھے یوں لگ رہا تھا کہ میں پتھر کا بن گیا ہوں میں حواس باختہ زمین پہ بیٹھا ان تینوں کی لاشوں کو تک رہا تھا میرے وجود سے جیسے جان نکل گئی ہو مجھ میں اتنی بھی ہمت نہ تھی کہ میں قریب لیٹی آ پی ارم کے نیم عریاں جسم کے اوپر کپڑا ڈال دوں سب لوگ ڈر کے مارے نہ جانے کن کونوں میں چھپ گئے تھے اور پھر تھوڑی دیر بعد ہی پولیس آ گئی اور لاشوں کو اپنی تحویل میں لے کر مجھے بھی وہاں سے اٹھاکر اپنے ساتھ لے آ ئے آ خری آ واز جو میں نے وہاں کی فضا میں سنی وہ آ پی مریم کے بچے کی رونے کی آ واز تھی اس کے بعد مجھے کچھ پتہ نہیں کہ میری چھ بہنوں کے ساتھ کیا ہوا کیونکہ شوکی گولی مار نے اپنے پورے اٹر رسوخ کو استعمال کر کے مجھے ہی میرے گھر والوں کا قاتل ثابت کر دیا اور یوں مجھے عمر قید کی سزا ہو گئی ۔۔۔۔۔۔فقیرے نے ایک گہری سانس بھری اور چپ ہو گیا جیسے آ گے کی داستان سنانے کے لیے الفاظ ختم ہو گئے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔دونوں کتنی دیر تک خاموش بیٹھے خالی کمرے کو گھورتے رہے فقیرے اس کے بعد تجھے اپنی بہنوں کے بارے میں کبھی پتہ نہ چلا کہ وہ کس حال میں ہیں جیلر نے دوبارہ بات شروع کی صاحب اس دن کے بعد مجھے لگتا کہ میرے اندر باہر ہر طرف انگارے ہی انگارے ہیں میں دن رات ایک غم کی بھٹی میں جل رہا تھا نہ مجھے دن قرار آ تا نہ رات کبھی ماں باپ کی خون میں نہائی تڑپتی لاشیں میری آ نکھوں کے سامنے آ جاتیں اور رات کو آ نکھیں بند کر تا تو بہنوں کی چیخیں سنائی دیتیں اتنی کربناک چیخیں جیسے کوئی ان کے زندہ جسموں سے گوشت کاٹ کے الگ کر رہا ہو ہر وقت میرے کانوں میں ان کی آ واز یں گونجتی چھوڑ دو مجھے میں طوائف نہیں ہوں مجھے ہاتھ مت لگانا میرے قریب مت آ نا میں طوائف نہیں ہوں میں ایک شریف لڑکی ہوں اور اس کے ساتھ ہی جب ان کے درد کی شدت سے پاگلوں کی طرح قہقہے سنائی دیتے ہیں جیسے کوئی ان کو کتوں کی طرح نوچ رہا ہو فقیرے نے ایک بار پھر رک کر لمبی اور سرد آہ بھر ی اور بولا سرکار آ پ سے پہلے جو جیلر تھے وہ بھی بہت اچھے تھے ایک دن انھوں نے میرے ایک کام جو کہ ہم دونوں کے بیچ ایک راز ہی رہے گا سے خوش ہو کر مجھ سے پوچھا کہ بتاؤ تجھے کیا انعام دوں میں نے ان سے صرف تین دن کی رہائی مانگی وہ بہت پریشان ہو گئے ان کا خیال تھا کہ میں ان سے کوئی پیسے ویسے مانگوں گا پر ایک عمر قید کے قیدی کے لیے آ زادی کی چند سانسوں سے بڑا انعام کیا ہو سکتا تھا انھوں نے مجھ سے ایک دن کی مہلت مانگی اور پھر دوسرے دن ایک موٹر سائکل اور کچھ رقم میرے حوالے کی اور صرف اتنا کہا بیٹا تین دن بعد واپس آ جانا صرف یہ سوچ کے کہ تو جیل میں اپنا یقین ایمان بھروسہ قید کر کے جا رہا ہے اور تجھے یہ واپس اس وقت ملے گا جب تو واپس لوٹ کے آ ئے گا اور مجھے پورا یقین ہے کہ تو لوٹ آ ئے گا اور جس کام کے لیے تو جا رہا ہے اللہ پہ بھروسہ رکھنا اور تین دن میں جتنا مکمل ہو سکے اسے کر لینا اور واپس آ جانا کیونکہ تو نے مجھے زبان دی ہے اور بندے کی زبان کے پیچھے اس کا ایمان پوشیدہ ہوتا ہے اگر تو بندہ اپنی زبان کے قولوں کا پکا ہو گا تو اس کا ایمان بھی پکا ہو گا اور اگر وہ مکر گیا تو اس کا ایمان بھی ختم پھر چاہے ساری عمر وہ اپنے آ پ کو میں مسلمان مسلمان کہہ کر جھوٹی تسلیاں دیتا رہے مگر اس کے رب کو ایسے بےایمان ایمان کی کوئی لوڑ(ضرورت)نہیں ہوتی اور میں وہاں سے سیدھا اپنے گھر کی طرف چل پڑا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...