جب ابا ہم سے رخصت ہوئے تو میری عمر کچھ زیادہ نہیں تھی۔ گھر میں ہم تین افراد تھے۔ میرے والد، امی اور میں۔ میری اکلوتی بہن کی شادی ہو چکی تھی۔ امی اکثر بیمار رہتی تھیں۔ اس وجہ سے ابا کے انتقال کر جانے کے بعد، گھر میں تنہائی کا اضافہ ہو چکا تھا۔ اور کچھ ہی عرصہ کے بعد میری شادی کر دی گئی۔
گو کہ ابا کے ساتھ میں نے اپنی پختہ عمر کا کچھ ہی عرصہ گزارا، لیکن اتنے کم عرصے میں بھی میں نے ابا سے زندگی گزارنے کے بہت سے گُر سیکھ لیے یا انھوں نے سکھا دئیے۔
میں نے جو کچھ ابا سے سیکھا، اس میں بیشتر ان کو دیکھ کر سیکھا۔ وہ کس طرح زندگی کو برتتے ہیں، کس طرح خاندانی تعلقات کو نبھاتے ہیں، کس طرح کسی جذباتی معاملے کو حل کرتے ہیں، کس طرح کسی کو مشورہ یا نصیحت کرتے ہیں۔
ابا انتہائی حساس انسان تھے۔ ان کا جو رویہ گھر سے باہر تھا، بالکل ویسا ہی گھر کے اندر بھی تھا۔ اور مزید تفصیل میں جا کر یہ کہوں گا کہ ان کا ظاہر اور باطن بالکل ایک جیسا تھا۔
ویسے اس پختہ عمر میں آ کر اب اندازہ ہوا کہ میرے والد کس قدر حساس اور معصوم انسان تھے۔ انہیں نہ سماجی چالاکی آتی تھی اور نہ ہی وہ کسی قسم کی گروہ بندی کے قائل تھے۔ ان کا حلقۂ احباب بہت مختصر تھا۔ ہر دوست پر مکمل اعتماد کرتے تھے اور ٹوٹ کر محبت کرتے تھے۔ انہوں نے گھر میں اپنی شاعری اور ادب کو اپنے تک ہی محدود رکھا ہوا تھا۔ روایتی شاعر پن سے دور تھے۔ جب لکھنا ہوتا تو اپنے بستر پر جا کر لکھتے رہتے۔ انھیں اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ بچے گھر میں کس قدر شور کر رہے ہیں یا با آواز بلند ٹی وی چل رہا ہے۔
اکثر رات بھر لکھتے رہتے اور صبح کو جب ہم دیکھتے تو بستر کے اطراف سگریٹ کے فلٹرز کا ڈھیر لگا ہوتا تھا۔ بچوں سے بہت محبت کرتے تھے۔ کسی بھی بچے کو کبھی ڈانٹتے نہیں تھے۔ ہمیں یعنی مجھے اور میری بہن کو بھی کبھی کسی بات پر باقاعدہ نہیں ڈانٹا۔ اگر کوئی بات ناگوار گزرتی تو ہمیں ان کے رویے سے اندازہ ہو جاتا اور ہم محتاط ہو جاتے۔ ان کی ناراضی زیادہ عرصہ نہ رہتی۔ دوسرے دن اگر ہم ان سے اپنی غلطی کی معذرت کرتے تو کہتے ارے بیٹا چھوڑو رات گئی بات گئی۔
انھوں نے ڈانٹ ڈپٹ اور مار پیٹ کے بغیر بہت ہی خوبصورت انداز میں ہماری تربیت کی۔ مجھ سے کہتے، بیٹا کبھی کوئی مسئلہ ہو تو پریشان نہ ہوا کرو، بلکہ اس مسئلے کو حل کرنے کی تدبیریں کرو، اور مسئلے سے ہونے والے نقصان کی انتہا کے لیے ذہنی طور پر تیار ہو جاؤ، اس طرح تم ذہنی دباؤ سے بچے رہو گے۔
اسی طرح سمجھاتے ہوئے کہتے کہ سماجی تعلقات میں کسی بھی مسئلے کے سلسلے میں کسی بھی شخص سے کوئی امید نہیں باندھنی چاہئیے۔
اکثر ایسے مشہور و معروف شاعر اور ادیب ابا کے پاس آتے جو ابا سے کلام لکھواتے اور اپنے نام سے پیش کر دیتے، جس کے سلسلے میں ابا کو کوئی افسوس نہیں ہوا۔ میں اکثر ان سے کہتا کہ آپ دوسروں کو اتنا لکھ کر دے دیتے ہیں، کیا اس طرح آپ اپنا کلام دوسروں کو دے رہے ہیں؟ اس کے جواب میں وہ کہتے کہ مجھے اس سے کوئی نقصان نہیں ہوتا، کیونکہ میں جو دوسروں کو لکھ کر دے دیتا ہوں، وہ ان کے ہی معیار کا ہوتا ہے۔
کہنے کو تو ابا دنیا دار تھے، مگر اپنے اجداد کے سلسلے سے روحانیت پر پختہ یقین رکھتے تھے۔ اکثر ان کے اشعار اس کی گواہی دیتے ہیں:
لعل ولی کے درشن کو
مست قلندر جاؤں گا
داتا کے دربار تلک
اندر اندر جاؤں گا
کچھ اتنے پاس سے ہو کر وہ روشنی گزری
کہ آج تک در و دیوار کو ملال سا ہے
کچھ قریبی دوستوں سے انھیں کافی دکھ ملے، لیکن اس کا اظہار انھوں نے کبھی کسی سے نہیں کیا۔ اور ان کے دل کی بیماری کی وجہ بھی شاید یہی تھی۔ ویسے ابا زیادہ لمبی بیماری کو پسند نہیں کرتے تھے۔ کہتے تھے کہ اگر آدمی لمبے عرصے کے لیے بیمار پڑتا ہے تو پھر گھر والوں کی بے توجہی ایک حقیقی امر ہے۔ آخر کوئی کب تک کسی کی تیمار داری کر سکتا ہے۔ ہر ایک کی اپنی مصروفیت ہے۔ خدا نے ان کی بات سن لی۔ اور اسی لیے کسی کو تکلیف دئیے بغیر چپکے سے سوتے سوتے ہی کوچ کر گئے۔ ہم لوگ تو ان کی خدمت کرنے کی حسرت لیے ہی رہ گئے۔ رمضان کے مہینے میں جب اسپتال میں داخل ہوئے تھے تو بہت زیادہ ذہنی دباؤ میں تھے۔ مجھ سے کہنے لگے کہ دیکھو مجھے پہلی مرتبہ اب سے 9 مہینے قبل ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔ اور ان 9 مہینوں میں، میں اپنی کتاب ترتیب نہ دے سکا۔ مجھے اور تو کوئی فکر نہیں ہے، لڑکی کی شادی ہو گئی، لڑکے کو ملازمت مل گئی، بس ایک کتاب کی فکر ہے، وہ کسی طرح چھپ جائے۔ میں نے کہا، ابا آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں، آپ خود ہی جلد گھر چل کر کتاب ترتیب دیں گے اور کتاب ضرور چھپے گی۔
ایک دن اسپتال میں بہت زیادہ ذہنی دباؤ میں تھے، کہنے لگے کہیں سے بھی ہمدانی (احمد ہمدانی صاحب) کو لاؤ۔ میں نے احمد ہمدانی صاحب کے آفس ریڈیو پاکستان فون کیا، مگر وہ آفس نہیں آئے تھے۔ ابا کہنے لگے میں نہیں جانتا کہیں سے بھی ہمدانی کو پیدا کرو۔ (معروف ادیب و نقاد احمد ہمدانی صاحب ابا کے قریبی دوست تھے)۔ میں ابا کو اسپتال میں اکیلا چھوڑ کر نہیں جانا چاہتا تھا۔ اتنے میں میرا ایک دوست آ گیا تو اسے بٹھا کر چلا گیا۔ احمد ہمدانی صاحب کو ان کے گھر سے لے کر اسپتال آیا۔ ابا انھیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور دونوں خوشی میں ایک دوسرے سے لپٹ گئے۔
میں نے ابا کو دو مواقع پر روتے ہوئے دیکھا۔ ایک مرتبہ جب انھیں ناصر کاظمی کی وفات کی خبر ملی تھی، تو وہ دھاڑیں مار مار کر روئے تھے۔ دوسری مرتبہ جب ان کے چھوٹے بھائی کا مرادآباد انڈیا میں انتقال ہوا تھا۔
پی ٹی وی کے پروگرام ’’ہم سورج چاند ستارے‘‘ کے تمام گیت ابا نے لکھے جو بہت مقبول ہوئے۔ ان گیتوں کی ایک کتاب ’’ہم سورج چاند ستارے‘‘ کے نام سے ابا کی زندگی میں ہی شائع ہو چکی ہے۔ جس پر رائٹرز گلڈ کا انعام بھی ملا تھا۔ اس کے علاوہ ایک کامل القادری کے ادارے کی جانب سے گولڈ میڈل بھی ملا تھا۔
٭٭٭