اس نے ابھی روٹی کا پہلا نوالہ منہ میں ڈال کر نیچے بھی نہ کیا تھا۔جب ایک بار پھر سے میڈم کے دفتر میں شنوائی ہوئی۔وہی میڈم کی نک چڑی ملازمہ نے بہت لہکتے ہوئے پیغام دیا۔تو بہت سی لڑکیوں نے کھانے سے ہاتھ روک کراس کی جانب دیکھا تھا۔ان سب کی نگاہوں میں کوئی تاثر تھا۔جو اس کی سمجھ سے بالا تر تھا۔وہ خاموشی سے کرسی گھسیٹتی اُٹھ گئی۔البتہ اندر سے ایک طوفان تھا۔جو ٹھاٹھے مار رہا تھا۔
میڈم کو آج کل تم سے بہت خاص اُنسیت ہو رہی ہے۔ساتھ بیٹھی زری نے کہا۔تو و ہ بمشکل تمام مسکرائی تھی۔البتہ مسکراہٹ میں بہت مصنوعی پن تھا۔
کمرے میں داخل ہونے سے پہلے اس نے رُک کر اور سوچتے ہوئے جھجک کر دستک دی اور قدرِ توقف کے بعد قدم اندر رکھے۔
میڈم آج اپنے کمرے کی جانب نہیں گئی تھیں۔اس وقت وہ لڑکیوں کے ساتھ ہی ٹیبل پہ کھانا کھاتی تھیں۔اور پھر چہل قدمی کے لئے باہر جاتیں۔
جی میڈم؟
اگر چہ بلانے کی وجہ معلوم تھی۔تبھی لہجے کی بے زاری کو اس نے چھوپانے کی ہر گز کوشش نہیں کی تھی۔
آؤ۔۔۔آؤ رک کیوں گئی۔وہ بڑی انہماک سے اخبار کی ورق گردانی میں مشغول تھیں ۔اس کے آنے پہ اخبار تیہہ کرتے رک کر اور بڑی لگاوٹ والی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ان کی بات ماننا اس کی مجبوری تھا۔
وہ کاموشی سے آگے بڑھی اور صوفے پہ پُر تکلف انداز میں بیٹھ گئی۔
صبح جو تم سے بات ہوئی۔تم نے اس کے بارے میں کیا سوچا؟ان کی نظریں اس کے چہرے کے ایک ایک تاثر کو بڑی باریکی سے پڑھ رہی تھیں۔اس نے ایک سرد اور بھر پور نگاہ سے اُنہیں دیکھا۔اور چہرہ اس درجے جُھکا لیا۔کہ وہ اس کے تاثرات نہ دیکھ سکیں۔
کیا میں نے کہاتھا ۔کہ میں سوچوں گی؟بہت سرد انداز تھا۔
مگر پھر بھی ہم نے وقت دیا۔وہ بے اختیا ر کہنے لگیں۔
ٹھیک ہے ۔میں نے سوچاہے میڈم !اورمیری طرف سے انکار۔۔۔ آپ کو یہ مجھ سے کیوں اُمید ہوئی۔کہ میں اس گھٹیا کام میں آپ کی مدد کر سکتی ہوں؟حا لا نکہ میں نے سوچا ہے کہ میں آپ کی شکائت کروں گی۔اس کے لہجے میں محسوس کیا جانے والا ایک سخت تاثر تھا۔
مجھے یقن ہے کہ تم جتنی شکل سے ذمہ دار اور سمجھ دار ہو ۔اتنی عملی طور پہ بھی ہو گی۔اور کوئی ایسا کام نہیں کرو گی۔جس سے تمہیں اور تمہارے گھر والوں کو نقصان پہنچے۔
میڈم مسکرا دیں۔
اور ویسے بھی۔۔۔
ایک کمزور اور بے معنی سی لڑکی۔۔۔کیا خیال ہے ہمیں کوئی نقصان پیہنچا سکتی ہے۔جس کی اپنی جڑیں کمزورہوں۔ان کے چہرے پہ بے فکری کی مسکراہٹ تھی۔فرح نے ایک نظر اُنہیں دیکھا۔اور ہونٹ کاٹتی نظر واپس جُھکا گئی۔اسے لگا تھا اگر اس نے انکار کر دیا ہے۔تو اس سے دوبارہ نہیں پوچھا جائے گا۔
بات صرف اتنی ہے۔کہ ہم جس سے کام لیتے ہیں اس کے اندر تک کو جھانک لیتے ہیں۔ہمارے ساتھ کام کرنے والی ایک ایک لڑکی کی سانس کی مہک تک ہماری رسائی ہے۔اور تم جیسی بے گھر لڑکیاں ویسے بھی ضیا صاحب کو بہت پسند ہیں۔تمہارے بارے میں تھوڑی سی جانچ پڑتال نے ہمیں ہمارے مطلب کی چیز سمجھا دی اور بس۔وہ مسکرائیں اور فرح کو پہلی بار احساس ہوا کہ وہ اکیلی ہے۔پھوپو اسے پندہ روز قبل ادھر چھوڑ کر گئی تھیں۔اور اس کے بعد ان کا فون پہ اس کے ساتھ مسلسل رابطہ تھا۔اور اب جو معملہ درپیش تھا۔اس کے بعد اس کا دل چاہ رہا تھا۔کہ گھر واپس لوٹ جائے۔۔۔
لیکن ۔۔۔۔
لیکن کس منہ کے ساتھ۔
میڈم آپ مجھے کسی بھی وجہ سے بلیک میل نہیں کریں گی۔یہ میں بخوبی جانتی ہوں۔میرے گھر والے بھی زندہ ہیں۔یہ بھی آپ کو معلوم ہوگا۔اور یہ پتہ ہو گا ۔کہ میں ایک با شعور باہمت لڑکی ہوں۔۔۔
آپ کی یہی بات مسٹر ضیا کہتے ہیں اُنہیں اپیل کرتی ہے۔ بھئی اب ہم تو نہیں جانتے ان پہ آپ کی کس بات کا اثر ہوا ہے۔بہرحال ہمیں اس سے کیا۔ان کی مسکراہٹ بڑی ربوٹک سی تھی۔فرح نے گہرہ سانس لیا۔اور اُٹھ کھڑی ہوئی۔
میڈم۔۔۔میرا اس سب سے کوئی تعلق نہیں۔میں ایک عام سی ڈری رہنے والی معمولی سی لڑکی ہوں۔مجھے مجبور مت کریں کہ میں پولیس میں آپ کی کمپلین کر دوں۔میں یہاں مذید کچھ روز رہ لوں چلی جاؤں گی۔براہِ مہربانی مجھے تنگ نہ کیا جائے۔
کیا وہ کسی فلم کا یا نا ول کا کردار تھی۔جو وہ اس قسم کی بات کہہ رہی تھی۔یا پھر گھر والوں کی بے عتباری کے بعد اسے لگ رہا تھا ۔کہ زندگی کا مقصد محض دوسروں کی نظروں میں اچھے نمبر لے کر پاس رہنا ہی ہے۔جو اس قدر خطر ناک لوگوں کے پردہ فاش ہوجانے پہ بھی کوئی خاص تاثرنہیں دے رہی تھی۔یا۔۔
یا پھر دینا نہیں چاہتی تھی۔
معصومیت کا دعوا بھی اور بتائے دینے کی دھمکی بھی۔ابرو اُٹھا کر دل جلاتی مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا۔
میں دھمکی نہیں دے رہی۔بتا رہی ہوں۔اور اگر آپ مجھے مزید تنگ کریں گیں۔تو عین ممکن ہے ۔کہ میں ادھر سے چلی جاؤں۔اللہ حاف٭۔۔۔کہہ کر بلکہ جتا کر وہ وہاں رُکی تھوڑا تھی۔اسے لگا اس کا کام ختم ہو چکا۔
اور ہاں جانے سے پہلے آخری بات۔۔۔میرے بارے میں آپ کے ہاتھ ایسا کچھ نہیں آئے گا۔جس سے آپ مجھے بلیک میل کریں۔کمال جرت سے مُڑ کر اس نے جتاتے ہوئے کہا۔اور پھر دروازہ کھول کر باہر نکل گئی۔
میڈم نے مسکرا کر کریڈل پہ دھرا رسیور اُٹھایا اور کوئی نمبر پُھرتی سے دبا کر رسیور کان سے لگایا۔
السلامُ علیکم ۔۔۔
جی جی آپ ہی کا کام کر نے بیٹھی تھی۔
بس اتھری گھوڑی کی طرح کود رہی ہے ابھی تو۔لہجے میں بلا کی نرمی مگر الفاظ میں بلا کی چکنائیت اور مسکراہٹ کی آمیزیش تھی۔
سر کام جاری ہے۔اُمید ہے ۔کہ آپ کو شکائت نہیں ہو گی۔یک طرفہ گفتگو تھی۔سمجھ سے با لا تر۔
جی جی آپ بھروسہ رکھیئے آپ کو شکائت کا موقع نہیں ملے گا۔رسیور رکھنے سے پہلے چند اختتامیہ کلامات ادا کئے گئے اور فون رکھ دیا گیا۔اُنہوں نے گہرا سا نس لے کر بظاہر پر سکون مگر تنے ہوئے عصاب کو پُر سکون کرنے کی خاطر پُشت کرسی سے ٹکا کر سر بھی ٹکا لیا۔ان کی نظر چھت کی جانب جبکہ سوچ کہیں دور چھت کے پار اُفق سے اُبھرتے بادلوں کی پٹی کی مانند دوڑ رہے تھے۔
اس نے کمرے میں داخل ہو کر دروازہ بند کیا۔اور پھر تیزی سے فون اُٹھا کر پھوپو کے گھر کا نمبر ملایا۔جسے ملازم نے اُٹھا یا تھا۔
بابا میری بات میڈم ذہرہ سے کروانا۔اس کی آواز میں بہت تیزی تھی۔یوں جیسے بات کرنے کی بہت جلدی ہو۔
بی بی تو میم باہر گئی ہیں سر کے ساتھ۔بابا اس کی آواز پہچانتے تھے۔وہ اکثر جب بھی بات کرنے کو فون کرتی ۔گھر کا ملازم ہی رسیور اُٹھا تاتھا۔اُنہوں نے شائد ابھی اپنا ذاتی فون نہیں لیا تھا۔کہ پیچھلا وہ اسے دے چکی تھیں۔
کب تک آئیں گیں ؟اسے سخت اُلجھن ہوئی۔
یہ تو جی مجھے نہیں پتہ۔عاجزی سے جواب ملا۔
اچھا۔چلیں جب آئیں میری کال کا بتا دیجئے گا۔اور پھر اس نے فون رکھ دیا۔کیا زندگی بن گئی تھی۔اس نے خالی خالی نظروں سے وائٹ واشڈ روم کو دیکھا۔جس کی جنوبی سمت کھڑکی کے دونوں پٹ بند تھے۔اور جس کیسامنے بھاری پردے پڑے قالین کو چھو رہے تھے۔اس نے فون سائڈ ٹیبل پہ رکھا۔اور چت لیٹ گئی۔فکر اور خوف اس وقت اس کے ساتھ تھا۔
::::::::::::
گھر واپس آنے کے بعد وہ بیڈ پہ لیٹی ایسی سوئی ۔کہ پھر ذریت کے کمرے میں آنے کا بھی علم نہ ہو سکا۔اس نے کمرے میں داخل ہو کر ہلکی روشنی میں بڑے سے لحاف میں دُبکے اس کے وجود کو دیکھا۔اور گہرا سانس لیتا ایک فائل لئے صوفے پہ بیٹھ گیا۔
سائڈ لمپ کی روشنی میں اس نے لمپ کے قریب پڑے سگریٹ پیک کو اُٹھایا اور پھر فائل سے نظر ہٹائے بغیر ایک سگریٹ نکال کر منہ میں رکھا اور لائٹر سے شعلہ دہکایا۔
ایک کش لے کراس نے ایک نظر پھر سے ماہ نور کو سوئے دیکھا۔اور پھر کچھ سوچ کر فائل وہی صوفے پہ پھینک کر کمرے سے نکل کر ٹیرس پہ آ گیا۔
ٹیرس کی چھت سے لگے بلب کی سفید روشنی میں اس کا سیاہ عکس بائیں جانب دیوار پہ پڑ رہا تھا۔اس نے موبائل فون جینز کی جیب سے نکالا اور چمکتی سکرین پہ انگلی پھیر کر ایک نمبر ڈائل کیا۔
ہم۔۔۔سلام کا جوا ب اس نے ہوں میں دیا تھا۔
اکمل اس وقت گہری نیند میں تھا جب اس کی کال آئی۔اب وہ دونوں بات کر رہے تھے۔جب گرم کمرے میں ٹیرس کے دروازے سے ہلکی ہوا کی ٹھنڈک نے کمرے میں لیٹی ماہ نور کو حوش کی دنیامیں لا پٹخا۔اس کا چہرہ لحاف سے باہر تھا۔تبھی ٹھنڈی ہوا میں پھیلے ذریت کے پر فیوم نے اسے جگا دیا تھا۔
اس نے مُندی مُندی آنکھوں سے باہر سے اندر آتی روشنی میں کمرے کے ماحول پہ ایک اچٹتی نگاہ ڈالی اور کسلمندی سے کروٹ بدلی۔
مجھے اس سے کوئی سرو کار نہیں ۔میری طرف سے وہ بھاڑ میں جائے۔اس کی آواز میں محسوس کی جانے والی سخت تھی۔ماہ نور نے دونوں آنکھیں وا کر کے اور ذرا سر اُٹھا کر آواز کی جانب دیکھا۔
میرا اس سے کوئی مطلب نہیں ہے۔تم جانتے ہو۔وہ اس کی قاتلہ ہے۔اور میرے لئے وہ ہمیشہ وہی تھی،ہے اور رہے گی۔اس کی آواز اب کی بار کچھ اور واضح اور کچھ اور سخت تھی۔ماہ نور اُٹھ کے بیٹھ گئی۔وہ کچھ اُلجھی اُلجھی نظر آتی تھی۔
اکمل میں نے اس سے کمیٹمنٹ اس لئے نہیں کی تھی۔کہ میں نے اس سے شادی کرنی تھی۔
تم جانتے ہو۔میرا مقصد کیا تھا۔اس کے لہجے میں غصہ تھا۔ماہ نور کو لگا اسے سُننے میں غلطی ہوئی ہے۔
میں تم سے مزید اس سب کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتا۔میں سو رہا ہوں۔اس نے جھنجھلا کر فون بند کیا۔اور کمرے میں آ گیا۔اس نے مُڑنے سے پہلے ماہ نور کو سوتے دیکھا تھا۔
یہ پتہ نہیں کیا کھا کے سوتی ہے۔بڑ بڑا کر ا س نے اسے دیکھا تھا۔اس بات سے بالکل انجان کے وہ سُن بھی سکتی ہے۔ماہ نور کو بُرا تو کیا لگنا تھا۔اسے تو اس کے باہر بولے گئے الفاظ پہ حیرت تھی۔اگرچہ اسے زیادہ باتوں کی گہرائی میں جانا پسند نہیں تھا۔مگر اب یہاں معملہ کچھ اور تھا۔اور وہ اس لڑکی کے بارے میں سوچنے پہ مجبور تھی۔جس کے بارے میں وہ بات کر رہا تھا۔
کیا تم سو رہی ہو؟
خاموشی۔۔۔
کیا میں سمجھوں کے تم جاگ رہی ہو؟
خاموشی۔۔۔
اچھا تم تو سچ میں سو رہی ہو۔ماہ نور نے آنکھیں بند رکھیں تھیں۔اس کے وجود میں ذرا جمبش نہ ہوئی۔ذریت نے سائڈ لمپ آن کرتے اسے دیکھا۔اور پھر سر فائل پہ جُھکا لیا۔
تمہارے بھائی کی کال آئی تھی۔سوری بتانا بھول گیا تھا۔اس کی آواز ایک بار پھر سے فضامیں گونجی۔اور ساتھ ہی ماہ نور کا دل سُکڑ کے پھیلا۔
کا۔۔۔کیا کہہ رہے تھے وہ۔بہت غیر ایرادی طور پہ اس نے جھٹکے سے منہ سے بلینکٹ اُتا ر کر پوچھا تھا۔ذریت بہم سا مسکرایا۔مگر ظاہر نہیں کیا۔
بتائیں بھی۔۔۔اس کی خاموشی پہ وہ جھنجھلا گئی تھی۔بھائی کی بات پہ تو اس کا دل چاہا تھا۔کہ اُڑ کے ان کے پاس چلی جائے۔اگرچہ وہ کچھ دیر پہلے وہاں سے ہی آئی تھی۔مگر کیا تھا۔کہ دل اور کہیں لگنے کو ہی نہ آتا تھا۔
آپ تو سو نہیں رہی تھیں؟
اتنے شور میں تو مُردے اُٹھ بیٹھیں۔میں تو پھر ۔۔۔اس کی بات پہ اس نے بڑے انداز میں پُرسکون انداز میں کہا۔تو ذریت نے مسکرا کر اسے دیکھا تھا۔
خیر بھائی کیا کہہ رہے تھے۔؟وہ اب بھی وہیں تھی۔
پوچھ رہے تھے۔کہ تم کیسی ہو۔
بس؟
ہاں بس
مطلب اُنہوں نے اور کچھ نہیں کہا؟اسے یقین نہیں آیا۔
اور بھی کچھ کہنا تھا کیا؟
نہیں میرا مطلب ہے۔اُنہوں نے میرے آنے کا نہیں پوچھا۔اس کا دل تو تھا ابھی کہ مزید وہاں رُکتی مگر اب کیا کیا جاسکتا تھا۔
نہیں !ویسے بھی آپ کل ابھی وہاں سے آئی ہیں۔
تو؟
تو کچھ نہیں۔پھر چلے جانا۔فائل کا اگلا ورق پلٹتے اس نے اس کے بگڑ کر تو کہنے پہ بہم سا مسکرا کر کہا ۔تو جواب میں وہ خاموش ہی رہی تھی۔
تقریباً دس منٹ تک جب وہ کچھ نہ بولی ۔تو اسے لگا وہ سو گئی ہے۔
کیا تم میرے لئے چائے بنا سکتی ہو؟
ماہ نور بھائی کے بارے میں سوچ رہی تھی۔چونک گئی۔
شرفاء اس وقت سو تے ہیں نہ کہ کسی کو چائے کا بول کے تنگ کریں۔جواب بڑا تڑخ کے دیا گیا تھا۔وہ ہونٹ دبا کے مسکرایا۔
میں کیا بندے کھاتا ہوں۔جو آپ میرا شمار شریفوں میں نہیں کرتیں۔کبھی آپ کبھی تم
مجھے کیا پتہ میں کونسا آپ کے ساتھ ہوتی ہوں۔کروٹ بدل کر ا س نے بھی جواب دینا عین ضروری سمجھا تھا۔نیند تو اُڑ چکی تھی۔اب تو بس بہانے تھے۔
جو دل کے بہت پاس ہوں۔ان کے لئے ضروری نہیں ہوتا کے ساتھ بھی ہوں۔بظاہر سر فائلوں سے اُلجھاتے اس نے ایک بے ضرر جملہ کہا تھا۔مگر وہ ماہ نور کو حیران کر گیا تھا۔اس نے بند آنکھیں پوری وا کردیں۔اور بالکل خاموش ہو گئی۔وہ اس وقت یہ سمجھنے سے قاصر تھی۔کہ آیاکہ جملہ اسی کی طرف اُچھالا گیا ہے۔یا پھر محض اس کی ذہنیت تھی۔
ذریت نے جواب میں خاموشی پا کر اسے مُڑ کر دیکھا تھا۔وہ خاموش تھی۔
تو کیا میں انکار سمجھوں؟
خاموشی۔۔۔
جواب تو دے دیں۔۔۔شائد بات کا تاثر ختم کرنے کا معمولی کا طریقہ کار تھا۔ویسے اس کی ضرورت کیا تھی؟
ٹھیک ہے بھئی مرضی آپ کی۔گہرا سانس لے کر اس نے بہت ٹھہرے ہوئے انداز میں کہا۔اور پھر جُھک کر ہاتھ میں پکڑے پین سے دستخط کرنے لگا۔البتہ بڑی بے چینی سے ماہ نور کے پہلو بدلنے کو اس نے بڑی شدت سے محسوس کیا تھا۔
:::::::::::
دروازہ لاک کرنے سے پہلے اس نے جرسی کے اگلے بٹن بند کئے اور وہیں جرسی کی جیب سے چابی کال کر بیڈ پہ پڑے بیگ کو کندھے پہ ڈالتی باہر آ گئی۔دروازہ لاک کر کے اس نے سکول کے لئے نکلنا تھا۔
صبح میں آج کافی دھند نظر آ رہی تھی۔ہر چیز سفیدی میں لپٹی سرد و منجمد۔اس نے گیٹ سے نکلتے ایک نظر مُڑ کر ہوسٹل کی بلڈنگ کو دیکھا۔اور ابھی قدم آگے بڑھائے ہی تھے۔جب وہیں گیٹ کے قریب بنے کمرے سے گارڈ باہر آیا تھا۔اس کے ہاتھ میں ایک خاکی لفافہ تھا۔
لفظ میڈم پہ اس نے ابرو اُٹھا کر اسے دیکھا تھا۔
یہ آپ کے لئے صبح کوئی موٹروالا دے کے گیا ہے۔میں نے دفتر میں دیا تھا۔پر میڈم نے کہا ۔کہ آپ کا شائد ضروری لفافہ اس لئے جب آپ سکول جانے لگو ۔تو آپ کو پکڑا دوں۔قد میں لمبا اور وزن میں خاصے بھاری گارڈ نے بڑی دل جمعی سے بتاتے ہوئے لفافہ اسے تھمایہ تو اس نے ناسمجھی سے پکڑ کر لفافہ کھول لیا۔
مجھے کون ۔۔۔کیا بھیج سکتا ہے۔بڑبڑاتے اس نے لفافے میں ہاتھ ڈالا،اور قدم وہیں گیٹ کے قریب اندر کی جانب لان کیجانب بڑھا دئے۔
سنگی بنچ پہ بیٹھتے اس نے سخت سفید سطح کو دیکھا۔اور پلٹ دیا۔
کاغذ کی سطح کو پلٹتے ہی اس کے سامنے ایک بڑے سارے پوسڑکی شکل کی ایک تصویر تھی۔اور بالکل بھی ایسی نہیں تھی۔کہ اسے اس کے سوا کوئی اور دیکھتا۔بعض اوقات انسان ایسے زور دار اور غیر یقینی جھٹکے سے دوچار ہوتا ہے۔کہ وقتی طور پہ اس کی تمام حسیات مفلوج ہو جاتی ہیں۔اور اس کے لئے ہر ایک چیز اپنا مقصد کھو دیتی ہے۔وہ بس بے معنی و لا تعلقی کی سطح پہ آ ٹھہرتا ہے۔اس کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔عزت جانے کا خوف اس قدر سخت تھا۔کہ اسے سمجھ نہیں آیا کہ وہ کیا کرے۔اور وہ اس ایک لمحے میں بے حس ہو گئی۔
اس کا جسم ساکن ہوا۔اور اوپر گویا برفباری ہونے لگی۔
سردی میں ایک دم سے شدت آ گئی۔اور اس کے وجود میں چونٹیوں کی سی سنسناہٹ ہونے لگی۔
اس نے بہت خالی نظروں سے اس پوسٹر کو دیکھا۔اور پھر اسے بغیر کسی خاص قسم کا تاثر دئے اپنے بیگ میں ڈال لیا۔وہ نہیں سمجھ رہی تھی۔کہ وہ اس لمحے کیا کر رہی ہے۔
اس نے ایک نظر ہوسٹل کی پُر شکن عمارت کو دیکھا۔اور بہت خاموشی سے قدم باہر گیٹ کی جانب بڑھا دئے۔اس کے چہرے پہ سوائے بے حسی کے اور کائی تاثر نہ تھا۔
:::::::::::::::
اس نے چلتے چلتے تھک کر ایک سنگی بینچ کو دیکھا اور اسی پہ بیٹھ گئی۔اس کا سانس دُھکنی کی طرح چل رہا تھا۔اور آنکھوں میں سکوت سا تھا۔ایک چشمے کی مانند جس میں کنکر گِرنے سے پہلے سکوت ہوتا ہے۔اس کی آنکھوں کی گہرائی میں بھی مکمل سکوت اور بے حسی تھی۔بغیر کسی جوش و ولولے کے ۔اس نے گہرا سانس لے کر سڑک کے کنارے چلتی گاڑیوں کو دیکھااور پھر مخالف سمت میں لگے درخت پہ اپنی نگاہ ٹکا دی۔
ہلکی ٹھنڈی ہوا میں درخت کے پتے ہل رہے تھے۔اور ہلکے سُروں میں دُھن پیدا کرتے تھے۔اس نے چند لمحوں تک درخت کو دیکھا۔اور جب آنکھیں تھک گئیں تو نگاہ کا رُخ پہلو کی طرف موڑ لیا۔
بوڑھی نہ جانے کب سے اس کی ایک ایک حرکت نوٹ کرتی اس کو اپنی نگاہ میں رکھے ہوئے تھی۔اب جو اس نے مُڑ کر دیکھا تو اپنی خزاں رسیدہ سی خوبصورتی کے ساتھ مسکرا دی۔اس کے چہرے پہ جُھریاں ایسے تھیں گویا۔پت جھڑ کے موسم میں کسی پُرانے درخت سے کوئی پُرانا عمر رسیدہ پتا گِرا ہو۔اور جس کی سطح پہ بے تحاشا بل ہوں۔
کب سے ادھر ہو؟اس کو اپنی جانب دیکھتا پا کر بوڑھی نے پوچھا۔فرح نے چونک کر اس کی جانب دیکھا
میں؟
ہاں تم۔۔۔
کیوں؟جواب دینے کی بجائے اس نے معصومیت سے پوچھا تھا۔
کوئی غم معلوم ہوتا ہے۔بڑی متانت سے خاتون نے کہا۔تو اس نے خالی خالی نظروں سے اسے دیکھا اور چہرے کا رُخ موڑ لیا۔
میں کسی غم میں کیوں ہوں گی؟
اس لئے کہ یہاں ہر کسی کو کوئی نہ کوئی غم ہے۔تم بھی تو اسی دنیا کی رہنے والی ہو۔بوڑھی نے بہت نرمی اور ملائمت سے اسے سمجھانے والے انداز میں کہا تو وہ اسے دیکھنے لگی۔
تو اماں آپ کا کیا مطلب ہے کہ اس دنیا میں آ کے کوئی خوش نہیں رہتا؟
ارے پگلی۔۔۔اس کی معصومیت پہ بوڑھی ہنس دی تھی۔یوں جیسے کوئی بچہ کوئی بہت احمقانہ بات کرتا ہے تو والدین ہنس دیتے ہیں۔
خوش تو بہت سے لوگ رہتے ہیں۔لیکن صرف وہ جو رہنا چاہتے ہوں۔
مطلب؟
لو ۔۔۔اب مطلب پوچھنے لگی۔اتنی سی بات بھی سمجھ نہیں آتی۔وہ اسے بالکل بچے کی ہی طرح ٹریٹ کر رہی تھیں۔فرح نے منہ بنایا۔
ارے بھئی جو چاہتے ہوں کہ وہ خوش رہنا چاہیں۔ان کاغم کب کچھ بگاڑ پائے ہیں۔ان کو کب فکر اور پریشانی گھیر پائی ہے۔
لیکن بعض اوقات کچھ باتیں ایسی بھی تو ہوتی ہیں۔جن پہ پریشان ہونا لازمی ہے۔
ہاں بالکل۔لیکن ایسی باتیں عموماً وہ ہوتی ہیں ۔جن کا حل ہوا جانا ضروری ہوتا ہے۔ان کا کوئی دوسرا رستہ نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ ان کا حل نکالا جائے۔سمجھی؟
اس نے سر اثبات میں ہلا دیا۔
شاباش!اس کا اثبات میں ہلتا سر دیکھ کر بوڑھی جیسے خوش ہو اُٹھی۔
اب میں تم سے یہ تو نہیں پوچھوں گی ۔کہ مسئلہ کیا ہے۔لیکن اتنا ضرور کہوں گی۔کہ پریشان مت ہو۔بس حل نکالو۔حل تمہارے سامنے ہی ہوگا۔بس غور کرو۔
رونے گڑ گڑانے سے کچھ نہیں ہوتا۔بہادری عورت کا زیور ہوتی ہے۔
لوگ کہتے ہیں عورت کا زیور حیا ہوتی ہے۔ ٹھیک کہتے ہیں۔دین بھی یہی کہتا ہے ۔اور پھرکیا کہنے اس خوبصورتی کے ۔ کہ جس میں بہادری بھی شامل ہو۔ کوئی شک نہیں کہ اگر حیا کیساتھ عورت بہادر بھی ہو۔حیادار اور بہادر عورت سے زیادہ خوبصورت کوئی عورت شائد ہی ہو۔اس کا حُسن ایسا دو آتشہ ہوتا ہے۔کہ کوئی کیڑا مکوڑا اس کے گرد منڈلا بھی نہیں سکتا۔ہر کسی کو اپنے پنکھ جل جانے کاخطر ہوتا ہے۔آخر میں اپنی ہی بات سے خوب محظوظ ہو کر بوڑھی نے کھل کھلا کر کہا تو وہ بھی مسکرا دی۔
اچھا بھئی۔میں نے بھی کیا خوب کہی۔۔۔فرہاد کے ابا سہی کہتے ہیں۔جہاں باتیں کرنے کو بیٹھتی ہوں۔پھر کہاں اُٹھتی ہوں۔
گھر سے پالک لینے نکلی تھی۔اور اب کہو۔کہ یہاں بیٹھ کر باتوں میں لگ گئی۔اُٹھ کر کھڑے ہوتے بوڑھی نے ہنستے ہوئے کہا۔تو اس نے اس قدر باتونی اور باذوق قسم کی اماں کو دیکھ کر دل ہی دل میں سراہا تھا۔
جامن رنگ سوٹ پہ چھوٹے چھوٹے غلابی پھولوں والے شلوار قمیض میں بوڑھی خوب باذوق دیکھ رہی تھیں۔ عمر رسیدہ چہرہ بھی اس نے اُٹھنے کے ساتھ سیاہ چادر سے ڈھک لیا۔
فرح اسے دیکھتی رہی۔اور وہ اس کے سر پہ ہاتھ رکھ کر آگے بڑھ گئی تھیں۔فرح کو ان کا یہاں سڑک کے کنارے بیٹھنا سمجھ نہیں آیا تھا۔وہ بس اُنہیں جاتا دیکھتی رہی ۔یہا ں تک کے وہ آنکھوں سے اجھل نہ ہوگئیں۔
اس نے چند لمحے تک مزید وہاں بیٹھ کر گاڑیوں کو دیکھا۔مگر اب کی بار نظر میں فرق تھا۔سو جلد وہاں سے اُٹھ گئی۔
:::::::::::::
ماہ نور ۔۔۔
جی؟اس نے ان کی کپڑوں کی الماری کو خالی کرتے مصروف انداز میں چہرہ موڑے بغیر پوچھا تھا۔
کل مومنہ کا فون آیا تھا۔تسبیح کرتے اُنہوں نے رُک کر کہا۔تو ماہ نور کے ہاتھ رُک گئے۔اور مُڑ کر اُنہیں دیکھا۔
کیا کہہ رہی تھیں؟
کل۔۔۔وہ ذرا دیر کو رُکیں اور گہرا سانس لیا۔
کل ان کے ہاں قرآن خوانی کا نتظام ہے۔کہہ رہی تھی۔کہ ہم ضرور آئیں۔تو۔۔۔
تو تم اور ذریت چلے جانا۔
آپ نہیں جائیں گیں؟
نہیں۔۔۔میں گھر پہ ہی پڑھ دوں گی۔میرے سے سفر نہیں ہوتا۔گھوٹنے کا درد دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔اس نے اُن کا چہرہ دیکھا۔وہاں تکلیف کا تاثر گہرہ تھا۔وہ ان کے قریب چلے گئی۔اور ان کے گھوٹنے پہ ہاتھ رکھا۔چہرے پہ واضح پریشانی کے آثار تھے۔
اگر زیادہ درد ہے۔تو ہم ابھی ڈاکٹر کے پاس چلیں۔اسے ان کی ذرا سی تکلیف خوف زدہ کر دیتی تھی۔اب بھی وہ گھبرائی۔
ہاں سوچ رہی ہوں۔کہ ایک چکر ڈاکٹر کے پاس لگا ہی لیں۔ویسے بھی کیا فائدہ اگر اورتکلیف بڑھ گئی۔پھر بھی تو جانا ہی ہے۔آخر میں وہ مسکرائیں۔انہیں مسکراتے رہنے کی عادت تھی۔
ماہ نور نے سر ہلا دیا۔ذریت کے ساتھ جائیں گیں۔ ؟
ہم۔۔۔آ تو جائے وہ نالائق۔کل سے پتہ نہیں کہاں ہے۔وہ کل رات گھر نہیں آیا تھا۔
تمہیں بھی اس نے کچھ نہیں بتایا؟
وہ۔۔۔
وہ ۔نہیں اُنہوں نے مجھے بھی کچھ نہیں بتایا۔اسے کیا ضرورت تھی جھوٹ بولنے کی۔۔وہ خود جھوٹا تھا۔ اس نے اس رات ایک ایک بات کو ابھی تک اپنی میمری کی سیف میں لاک رکھا تھا۔اور موقع کی تلاش میں تھی۔کہ حقیقت کا پتہ چلائے۔آخر وہ لڑکی جس کی وہ بات کر رہا تھا۔کون تھی ؟دوسری طرف کون تھا۔یہ وہ اچھے سے جانتی تھی۔اکمل کے سوا اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا تھا۔لیکن لڑکی کون تھی۔جس کے بارے میں اتنی ذومعنی وہ باتیں کر رہا تھا۔اس کو جاننے کی اسے بڑی شدید خواہش سر اُٹھا چکی تھی۔اور اس خواہش کا سر کُچلنا کم از کم اس کے اختیار میں نہیں تھا۔
اچھا دادی جان آج میںآپ کو کچھ اچھا سا بنا کر کھلانا چاتی ہوں۔بتائیں آج آپ کیا کھائیں گیں؟اُٹھنے سے پہلے اس نے بہت پُر جوش ہو کر پوچھا تو دادی جان چونک گئیں۔
کیا تم مومنہ کی طرف نہیں جاؤ گی؟وہ پوچھے بغیر نہ رہ سکیں۔
وہ تو جب ذریت آئیں گے تبھی پتہ چلے گا۔اس نے کہا اور پھر اُنہیں سوالیہ انداز میں دیکھتے واپس الماری کی طرف مُڑ گئی۔
ارے بھئی تم اس کو فون تو کرو۔
کیا بنے گا اس لڑکے کا۔شادی سے پہلے بھی اس کا یہی حال تھا۔اور اب شادی کے بعد بھی اس لڑکے کو عقل نہیں آئی۔دادی جان باوجود غصے کے کبھی اپنے لہجے کو نہیں بدلتی تھیں۔ان کے ایک ایک انداز سے نرمی اور حلاوت ٹپکتی مقابل کو سیراب کر جایا کرتی تھی۔
میں۔۔۔میں کرتی ہوں۔وہ تیزی سے باہر نکلی ۔
اسے کہو جلدی گھر آئے۔آج اگر لیٹ آئے تو بے شک کمرے میں نہ گُھسنے دینا۔کمرے سے نکلتے بھی اس نے اُ ن کے الفاظ سُن لئے تھے۔مسکرا دی۔
لاؤنج میں آ کر اس نے جرسی کی جیب سے موبائل نکالا اور صوفے پہ بیٹھ کر ٹانگوں کو اُوپر صوفے پہ اکٹھا کیا اور بڑی فرست سے اس کا نمبر ڈائل کیا۔
اسلامُ علیکم !گھمبیر و مصروف آواز۔ماہ نور نے بولنے سے پہلے لمبا سانس لیا۔
ذریت نے پُشت چھوڑ کر کان سے لگے فون کو ہٹا کر چہرے کے سامنے کیا اور پھر واپس کان سے لگایا۔جیسے نمبر کی تصدیق کی ہو۔
جی مادام؟اس کے کچھ بھی بولنے سے پہلے اس نے پو چھا تو ماہ نور نے منہ بنایا۔یہ کیا طریقہ ہوا بھلا بولنے کا ۔(شوخے)
/جی مادام/
آپ کو یاد ہے کہ آپ کا کوئی گھر بھی ہے؟لہجے کو بے پروا بناتے اس نے پوچھا تو ذریت نے چونک کر سامنے دیوار پہ لگے گھڑیال کو دیکھا اور پھر آنکھیں سکیڑ کر دائیں جانب بڑی سی قد آدم کھڑکی سے باہر موسم کو ۔اور سر کرسی کی پُشت سے ٹکا دیا۔
وہ کل سے آفس میں مسلسل کام میں مصروف تھا۔ایک نئے پر وجیکٹ کے سلسلے میں اسے کل پیرس جانا تھا۔اور کام کے اس مسلسل بوجھ اور جنجھٹ میں گھر کا یاد ہی نہیں رہا تھا۔
میں آپ کو کال کرنے کا سوچ رہا تھا۔آپ تیار رہیں مومنہ آپی نے بلایا ہے۔ادھر جانا ہے۔بجائے اس کے کہ وہ اس کی بات کو جواب دیتا اس نے ایک نیا حُکم دے دیا تھا۔ماہ نور نے نا گواری سے صوفے سے ٹانگیں واپس نیچے اُتاریں۔
میں نے بھی کچھ پوچھا ہے۔اس کا جواب دینا اگر آپ مناسب سمجھیں تو براہِ مہربانی دے دیں۔دادی جان کو جواب دینا ہے۔مکمل لا تعلقی۔۔۔ذریت نے سمجھ کر سر ہلایا۔
آپ بس ا ن کو بول دیں کے میں دس منٹ میں گھر آ رہا ہوں۔وہ بھی تیار رہیں وہ بھی جائیں گیں۔اور کچھ؟
میں نے آپ سے کب کہا کہ میں آپ کے ساتھ جاؤں گی؟
اوہ ۔۔۔تو آپ نہیں جائیں گیں؟
میری جو مرضی ہو گی میں وہی کروں گی۔اسے اپنا اس طرح اگنور کیا جانا سخت بُرا لگا تھا۔کسی کو بھی لگ سکتا تھا۔ایک انسان جسے دو دن تک گھرتک کا حوش نہ رہے اس کا کیا مطلب ہو سکتا تھا۔وہ اس وقت یہی سوچ رہی تھی۔
ٹھیک ہے۔میں گھر آ رہا ہوں پھر بات کرتے ہیں۔ابھی میں ذرا مصروف ہوں۔کہہ کر اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی ا س نے فون واپس رکھ دیا تھا۔
ماہ نور کا دل چاہا تھا ہاتھ میں پکڑا فون زمین پہ دے مارے۔
/آفس/
سر بھابھی کی کال ہے تو پلیز آپ گھر چلے جائیں۔میرا خیال ہے کہ اس وقت وہ بہت غصے میں ہیں۔اس کے سامنے اس کا امپلائے کم دوست زیادہ بلال بیٹھا تھا ۔اس نے اس یک طرفہ گفتگو کا نتیجہ آخز کرتے ہوئے کہا۔تو ذریت نے سر ہلایا اور سامنے کی فائل واپس کھول لی۔
بیویوں کا کام غصہ کرنا ہی ہوتا ہے۔سو ۔۔۔ایزی۔بہت عام سے انداز میں اس نے کہا تو بلال اسے دیکھنے لگا۔اس بندے کو وہ شائد کبھی سمجھنے کی کوشش کرتا تو مشکل میں پڑ جاتا۔
::::::::::
اس نے واپس کمرے میں آ کر اُنہیں ایک نظر دیکھا۔اور کھولی الماری کی جانب بڑھی۔
کیا کہا اس نے؟
کہہ رہے ہیں ۔کہ دس منٹ میں آ رہے ہیں۔
اس نے بتایا نہیں کہ ہے کہاں؟اس نے جس طرح منہ لٹکا کر کہا تھا اُنہیں عجیب لگا تھا۔ایسے کیا کہہ دیا تھا۔کہ ہنستی کا منہ لٹک گیا تھا۔
نہیں اُنہوں نے نہیں بتایا۔آئیں تو آپ خود پوچھئے گا۔کپڑے تیہہ کرتے الماری میں سیٹ کرتے اس نے کہا اور پھر خاموش ہو گئی۔اُنہوں نے تسبیح واپس رکھی اور ایک نظر ماہ نور کو دیکھ کر لیٹ گئیں۔
:::::::::::::::
نارنجی سورج ڈوب رہا تھا۔جس وقت اس نے آٹو سے اُتر کر اسے پیسے دئے تھے۔
اس کے دونوں ہاتھوں میں کچھ شوپنگ بیگز تھے۔جن کا وزن دیکھنے میں چند کلو سے زیادہ بالکل نہیں لگتا تھا۔
اس نے سست روی سے چلتے نظریں جُھکائے پیدل ہوسٹل تک کے سفر کا آغاز کیا اور ساتھ ہی دماغ میں تانے بانے بُننے لگی۔وہ اس وقت سخت مصیبت میں تھی۔اس کا بات کا علم شدت سے تھا۔زندگی میں اتنے مسائل شائد ہی کسی نے دیکھیں ہوں جتنے اس ے دیکھ لئے تھے۔یہ اس کا خیال تھا۔۔۔
ہوسٹل کا رستہ محض دس منٹ کی مسافت پہ تھا۔مگر وہ اسے طے ایسے کر رہی تھی۔کہ شائد پہنچنے میں آدھا گھنٹا لگتا۔
بس ایک لمحا سا حائل ہے۔جو زندگی کو پل میں یا تو روک دیتا ہے یا پھر پل میں سُدھار دیتا ہے۔اس لمحے کے آگے بھی بے بہا کہانیاں ہوتی ہیں اور پیچھے بھی۔۔۔
کاش میں نے اس روز کوئی ایسا قدم اپنے حق میں اُٹھایا ہوتا۔جو کم از کم مجھے گھر سے بے گھر تو نہ کرتا۔چلتے ہوئے وہ سوچ رہی تھی۔
اس کی ذات کی کہانی ایک موبائل فون سے شروع ہوئی تھی۔۔۔ایک انجانے میں کی گئی غلطی سے جس کا انجام اس کی سوچ سے زیادہ تکلیف دے تھا۔
اس نے گہرا سانس لے کے اپنے اندر کی گھوٹن کم کرنے کی کوشش کی اور پھر اپنے سامنے سینہ تانے کھڑے ہوسٹل کی عمارت کو دیکھا اور قدم اندر کی جانب بڑھا دئے۔اس نے سارے دن میں اب ہوسٹل کی عمارت میں قدم رکھا تھا۔
*
اس نے گہرہ سانس لے کرسر گاڑی کی سیٹ سے ٹکا دیا۔۔۔اور آنکھیں بند کر لیں۔
آپ کو یقین ہے کہ وہی تھیں؟ بابر نے فون جیب سے نکالتے اس کی جانب دیکھ کر پوچھا تھا۔ابرار نے آنکھیں موندے ہی سر اثبات میں ہلا یا۔
بھائی اگر وہ ہوتیں تو پھر ماہ نور ضرور بتاتی۔جبکہ کل جب میں نے اس سے کال پہ بات کی اور اسے بتایا کہ شادی کی تصویریں بہت اچھی ہیں۔خاص طور پہ اس کی اور فرح کی ۔تو اس نے کہاکہ میں اسے وہ بھیج دوں۔فرح سے تو اب پتہ نہیں کب ملنا ہو۔۔۔
یار!یہ بھی تو ممکن ہو کہ وہ جانتی ہی نہ ہو۔ابرار نے آنکھیں کھول کر سیدھے بیٹھتے اس سے کہا۔اور گاڑی کی چابی انگیشن میں ڈال کر گھوما دی۔
ہاں یہ ممکن ہے۔کہ ماہا کو بھی نہ معلوم ہو۔
ویسے آپ ہو بڑی چھوپی چیز۔۔۔۔اب تک یہ الفاظ بابر دو سو بار تو بول ہی چکا تھا۔
اچھا۔۔۔
بھائی اتنا کم تاثر۔۔۔ویسے آپ نے ان کو آواز کیوں نہیں دی؟
ان دونوں نے فرح کو مارکٹ میں ایک شوپ کے باہر دیکھا تھا۔ابرار اس کی طرف بڑھا مگر وہ ہجوم میں کہیں گُم ہو گئی۔تب سے وہ دونوں اسے ڈھونڈ رہے تھے مگر وہ دوبارہ نظر نہیں آئی۔
بابر تمہارا دماغ تو نہیں خراب۔۔تمہیں نہیں لگتا کہ اگر میں اسے آواز دیتا تو لوگ مجھے پاگل سمجھتے اور اس کی جو بے عزتی ہوتی وہ الگ۔ابرار پہ سخت جھنجھلاہٹ سوار تھی۔
پر بھائی میں نے سُنا ہے کہ جب انسان کو عشق ہوتا ہے تو وہ دنیاسے کٹ جاتا ہے۔وہ اپنے محبوب کو دیکھتا ہے تو اس کے لئے باقی ہر چیز بے معنی ہو جاتی ہے۔بابر کی مسکراہت گہری ہوئی۔اسے تو بہت مزہ آ رہا تھا ابرار کو تنگ کرنے میں۔
میرے بھائی معاف کر۔۔۔تو نے تو جیسے عشق میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔اور اب اگر تو بولا تو یقین کر میں نے تمہیں گاڑی سے باہر دھکا دے دینا۔ابرار کے ماتھے پہ ناگواری کے بل تھے۔ بس ہاتھ جوڑنے باقی رہ گئے تھے ۔بابر نے مسکراہٹ روک کر چہرہ دوسری جانب شیشے سے ٹکا لیا۔
ٹھیک ہے بھئی۔۔۔میں تو سوچ رہا تھا۔کہ اب بھابھی لانے کی فکر کرتے ہیں۔آخر کو ہم نے ہی آپ کا سوچنا پر۔۔۔
بس چُپ اب۔۔۔سوچنے دو مجھے۔اس نے راہ میں ہی اس کی بات کاٹ دی۔اور گاڑی کا رُخ گھر کی جانب موڑ دیا۔
:::::::::::
جس وقت اس کی گاڑی پورچ میں آ کر رُکی ماہ نور الماری کے کام سے فارغ ہو کر اپنے کمرے میں نماز پڑھنے جا رہی تھی۔اس نے راہداری سے گُزرتے ہارن کی آوازز ضرور سُنی مگر رُکی نہیں ۔
کمرے میں آ کر اس نے وضو کیا اور نئیت باندھی۔
السلامُ علیکم!بالوں پہ ہاتھ پھیرتے اس نے بہت تھکے ہوئے انداز میں سلام کیا۔اور ایک طائرانہ نظر بھی کمرے میں ڈالی۔
پوتے کی آواز سُنتے ہی دادی جان اُٹھ بیٹھیں اور سوچنے کا کام روک دیا۔
وعلیکم السلام!
کیا آپ نے قسم کھا رکھی ہے۔کہ آپ نے اپنی بوڑھی دادی کو ضرور شرمندہ کروانا ہے۔آپ کو اچھا نہیں لگتا۔کہ آپ کی دادی آپ سے خوش ہو؟دادی جان کا پیچھلا جلال لوٹ رہا تھا۔ذریت جو ان کے قریب بیٹھ رہا تھا ٹھٹک کر رُکا۔اور سر جُھکا دیا۔
سوری دادی جان۔
آپ کو چاہئے کہ آپ مجھے اور ماہ نور کو اپنی غیر موجودگی کا بتائیں ؟
آپ کہاں تھے۔؟
پہلے آپ مجھے آپ آپ کہنا بند کریں۔منہ بنا کر اس نے ان کی جانب دیکھا اور پھر ان کی گود میں سر رکھا ۔دادی جان پوتے کی رگ رگ سے واقف تھیں۔
آپ پہلے مجھے میری بات کا جوا ب دیں۔
اچھا یہ بتائیں آپ کی بہو کہاں ہے؟اس کو بلائیں پھر بتاتا ہوں۔ان کی سفید شال کے نیچے منہ چھوپاتے اس نے کہا تووہ مسکرا دیں اور اس کے چہرے سے چادر ہٹائی۔وہ نماز پڑھ رہی ہے۔اور تم وقت پہ گھر آیا کرو۔بیچاری نے رات میں اتنا اچھا کھانا بنایا اور تم نے مِس کر دیا۔
اچھا جیسے؟
جیسے کے بچے جاؤ اُٹھو۔اور جا کر تیار ہو۔تم دونوں نے مومنہ کی طرف جانا ہے۔باتیں گول کرنا وہ اچھے سے جانتا تھا۔
آپ نہیں جا رہیں؟
نہیں
کیوں؟
ایک تو تم سوال بہت کرتے ہو۔۔۔میرے گھوٹنے میں درد ہے۔اب اور سوال نہیں ۔ہو آؤ اُدھر سے پھر ڈاکٹر کی طرف چلتے ہیں۔
اور وہ جو آپ کا ڈاکٹر ویکلی آپ کا چیک اَپ کرنے آتا ہے وہ؟
وہ آج کل چھٹی پہ ہے۔بڑے تحمل سے اس کے اگلے سوال دیا۔
کیوں؟ذریت کے ماتھے پہ ناگواری کے بل تھے۔
اس لئے کہ اس کی بھی کوئی زندگی ہے۔وہ اپنی فیملی کے ساتھ نیویارک گیا ہے۔ہر کوئی تمہاری طرح نہیں ہوتا ۔کہ گھر والوں کو کام کے سامنے بھول ہی جائے۔اس پہ چوٹ کرنا وہ نہیں بھولی تھیں۔
اچھا اب آپ اپنی بہو سے مل کے میرے پہ طنز بھی کریں گیں۔اس نے مصنوعی بیچارگی سے کہا۔تو دادی جان نے بمشکل مسکراہٹ روکی۔
اچھا اب یہ طنز ہو گیا۔۔۔جب میں بولتی ہوں کہ گھر وقت پہ آؤ۔تو تمہیں بات کیوں سمجھ نہیں آتی۔پھر میں بوڑھی کچھ بولوں تو تمہیں طنز لگتا ہے۔
آپ۔۔۔آپ مجھے ہمیشہ ایسے ہی بلیک میل کرتی ہیں۔وہ جب اپنے آپ کو بوڑھی بولتی تھیں۔ذریت کو گِلٹ ہونے لگتا۔کہ شائد وہ ان کا خیال نہیں پا رہا۔حلنکہ یہ سب تو زندگی کے سائکل ہیں جن کا چلنا لازمی ہے۔
ذریت حسن اس وقت بحث بے معنی ہے۔چلواور تیار ہو کر آؤ۔رات میں کھانے کی میز پہ بات ہوگی۔
جانے سے پہلے کھڑکیوں کے پردے برابر کر جانا۔یہ صاف اشارہ تھا ۔کہ اب وہ اس سے کوئی بات نہیں کریں گی۔اس نے ان کی گود سے سر اُٹھایا تو وہ تکیہ درست کرتیں لیٹ گئیں۔اس نے جانے سے پہلے ان کا کمبل درست کیا ۔اور کمرے سے نکل گیا۔
::::::::::::::
اس کے کمرے میں آنے سے پہلے ماہ نور کپڑے تبدیل کر کے چادر اوڑھ کر کمرے سے جا چکی تھی۔
وہ کمرے میں داخل ہوا۔تو کمرے کی مخصوص خشبو نے اس کا استقبال کیا۔وہ جب سے اس کمرے میں آئی تھی۔کمرے میں روشنی اور خُشبو کا ٹھراؤ مسلسل ہو چکا تھا۔یہ اس کے ذہن میں آنے والا پہلا خیال تھا۔اس نے دروازہ واپس بند کیا۔اور کمرے میں ایک متلاشی نظر دوڑائی۔وہ وہاں نہیں تھی۔
کدھر گئیں مادام؟ بڑ بڑا کر اس نے باتھ روم کے کھولے دروازے کو دیکھا۔اور سر جھٹک کر بیڈ پہ بیٹھنے سے پہلے ریک سے جوتا نکالا۔
ٹائی گلے سے اُتار کر وہیں بیڈ پہ پھینکی اور کوٹ کو صوفے کی پُشت پہ ڈال کر اس نے واڈروب کا پٹ کھول کر کھدر کا گہرا نیلا شلوار سوٹ نکالا اور باتھ روم میں گھوس گیا۔
بیس منٹ بعد وہ باہر سیڑھیاں اُتر رہا تھا۔اور ماہ نور صوفے پہ بیٹھی چائے پینے میں مصروف مکمل لاتعلق نظر آتی تھی۔البتہ آنکھ کے کنارے سے وہ اس کو قمیض کے کف بند کر تے دیکھ چکی تھی۔
گہرے نیلے شلوار قمیض پہ سرمئی کوٹ پہن کر وہ سراہے جانے کے قابل لگ رہا تھا۔اس کی شخصیت کا سارا نکھا رجیسے عود آیا ۔اور ایک سوبر پن جھلک رہا تھا۔اس کے سنجیدہ چہرے پہ ماہ نور کو دیکھ کر کوئی تاثر بظاہر نظر نہیں آیا مگر اندر سے وہ اس کی ناراضی محسوس کر کے خوب محظوظ ہوا تھا۔
کیا تم میری مدد کرو گی؟
کف سے جھگڑتے اس نے آخر ہاتھ اس کے سامنے کیا۔وہ اس کے بالکل سامنے کھڑا تھا۔
ماہ نور نے اسکے چہرے کی جانب دیکھنے سے اجتناب برتا اور کپ سامنے میز پہ رکھ کر ہاتھ اس کے کف کی جانب بڑھایا۔
بٹن کافی سخت تھا۔شائد وہ یہ لباس پہلی بار پہن رہا تھا۔نیا ہونے کی وجہ سے کف بھی سخت تھے۔
بمشکل تمام اس نے اس کے کف کا بٹن بند کیا تھا۔اور اس عرصے میں وہ اس کا مکمل جائزہ لے چکا تھا۔
مونگیہ اور گہرے نیلے کھدر کے ٹراؤزر شرٹ پہ غلابی رنگ میڈیم جرسی میں۔سر پہ سوٹ کے ساتھ ہی کے دوپٹے کو سلیقے سے جمائے ہوئے ۔پرمژدہ چہرے کے ساتھ بھی اچھی لگ رہی تھی۔ذریت نے اس کے سرد ہاتھ کی ہتھیلی کو اپنے دونوں ہاتھوں کے درمیان رکھا اور مسکرا کر اسے دیکھا۔ماہ نور جو واپس کپ اُٹھانے والی تھی۔اس اچانک افتاد پہ گھبرا گئی۔اور ایک غصیلی نظر اس کے چہرے پہ ڈال کر چہرہ جُھکا گئی۔
چلیں؟
اس کے ہاتھ کو پکڑے ،اور دوسرے ہاتھ سے اس کے سر کے دوپٹے کو اسے ماتھے کی جانب سرکاتے اس نے نرمی سے پوچھا تھا۔اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی وہ اس کا ہاتھ پکڑے اسے باہر تک لے آیا۔ماہ نور اسکے ساتھ بہت ربوٹک انداز میں چلی آئی ۔
اس نے گاڑی کے قریب رُک ایک ہاتھ سے گاڑی کا دروازہ کھولا اور پھر اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
جب وہ بیٹھ گئی۔تو دروازہ بند کرتااپنی سیٹ کی جانب آیا۔ماہ نور کو یقین بھی آ رہا تھا ۔اور وہ بے یقین بھی تھی۔فون پہ موجود ذریت حسن سے یہ والا ذریت بالکل الگ تھا۔یا پھر تب وہ سچ میں مصروف تھا۔تبھی اس تھکاوٹ کی بِنا پر ایسے بول گیا۔
میں کل پیرس جا رہاہوں۔گاڑی کو سڑک پہ ڈال کر اس نے سٹئیرنگ ویل گھوماتے ہوئے اس کی جانب ایک نظر دیکھ کر نظر واپس سامنے جما لی۔
اچھا۔۔۔اپنے ہاتھ کے ناخنوں سے کھیلتے اس نے مختصر جواب دیا ۔
کچھ چاہئے؟
نہیں۔
سوچ لو۔۔۔
کچھ چاہے ہو گا تو میں یہیں سے لے لوں گی۔اس نے بہت آہستگی سے ایک بار پھر سے جواب دیا۔اور ہاتھوں سے کھیلنا چھوڑ کر باہر دیکھنے لگی۔
ویسے تم نے آگے پڑھائی کا کیا سوچا؟اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی۔وہ ماہ نور سے کیا بات کرے۔پر وہ کرنا بھی چاہ رہا تھا۔اس لئے بات کو طول دینے کا آسان حل یہی تھا۔کہ پڑھائی کا ہی پوچھتا۔
ماہ نور نے بُرا سا منہ بنا کر اسے دیکھا تھا۔ذریت کو لگا اس نے غلط سوال پوچھا لیا ہے۔جیسے اکثر لوگوں کی پڑھائی سے کافی بُری یادیں وابستہ ہوتی ہیں۔بہت سے مضامین میں فیل ہونے کے بعد اُنہیں پڑھائی سے نفرت ہو جاتی ہے۔اور جب کوئی ان سے پڑھائی کا ذکر کرتا ہے ۔تو بُرے منہ بناتے ہیں۔
کیا ہوا؟
میں نے شادی سے پہلے پڑھائی کا مکمل خیر باد کہہ دیا تھا۔
کیوں؟
بی ۔اے بہت زیاد ہ تو نہیں ہے۔کہیں تم فیل تو نہیں ہوئی؟مسکراہٹ روک کر بظاہر چڑانے کو ا سنے ایسے کہا تھا ۔پر ماہ نو ر کو صاف محسوس ہوا۔کہ وہ اس کا مزاق بنا رہا تھا۔
میں نے بی اے میں اے پلس لیا تھا۔صاف جتانے والا انداز۔
اچھا۔۔۔مجھے پتہ نہیں کیوں۔لگتا ہے کہ تم ایسا میرے سامنے نمبر بنا نے کو کہہ رہی ہو۔ویسے گھر جا کر مجھے اپنا رزلٹ کارڈ دیکھانا۔
آپ کو کیا میں فیل ہوں یا پاس۔آپ نے کونسا دنیا فتح کر لی ہے۔دانت چبا کر آخر اس سے جو بن پڑا اس نے جواب دے کر موقع پہ چھکا لگانے کی تھی۔ذریت نے بمشکل ہنسی روکی۔
لڑکیوں کو کبھی ان کی صحت یا پھر ان کے رزلٹ پہ کچھ ایسا نہیں کہنا چاہئے ۔جس سے انہیں اپنی بے عزتی محسوس ہو۔یہ ان کے لئے ایک حساس موضوع ہوتا ہے۔وہ ایسے بُدکتی ہیں جیسے بندر کی دم پہ پاؤں آ جائے وہ بُدکتا ہے۔
میں نے کب کہا ۔کہ میں نے دنیا فتح کی ہے۔خیر۔۔۔یہ لاحاصل بحث ہے۔اسے کسی اور وقت کے لئے اُٹھا رکھو۔
میں کل جا ررہاہوں۔دس دن شائد لگیں۔اُمید ہے کہ آپ مجھے شدید یاد کریں۔کیوں سہی کہا میں نے؟اختتام پہ ایک آنکھ سے اشارہ کیا۔گویا چڑایا۔ماہ نور نے ایک نا گوار نظر اسے دیکھ کر نظر واپس شیشے کی جانب موڑ لی۔
اگر مجھے پتہ ہوتاکہ آپ اتنے ۔۔۔ایسے نکلیں گے ۔تو میں کبھی آپ سے شادی کرنے کی حماقت نہ کرتی۔صاف لفظوں میں اسے یہ کہی رہی تھی۔کہ وہ اس فیصلے پہ پچھتا رہی ہے۔ویسے سچی بات تھی۔کہ دس دن پہلے دو دن کے لئے ایک ڈرامے کا سین دیکھ کر اور ہیرو کے جزبات سے بھرپور اپنی بیوی کے لئے بولے گئے الفاظ سُن کر وہ ایسے ہی پچھتائی تھی۔
چلو اب کیا ہو سکتا ہے۔اب تو ہو گیا جو ہونا تھا۔ویسے بھی کسی ذہین نے کہا تھا۔کہ اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیا ں چُگ گئیں کھیت۔
ویسے اگر تم اتنے اور بڑے ایسے والے الفاظ کی تشریح کر دو۔تو مجھ نا سمجھ کی عقلِ سلیم میں شائد کوئی بات پڑھ جائے۔اس وقت شوخی پورے عروج پہ تھی۔اور ماہ نور جیسی زندہ دل لڑکی کے لئے زیادہ دیر ناراض رہنا مشکل تھاسو وہ ہنس دی البتہ چہرے کا رُخ اس نے موڑنے کی کوشش نہیں کی۔
آپ کو سیدھی باتیں سمجھ کہاں آتی ہیں۔
غالباً یہ آپ نے کہا تھا۔وہ اسے اس کی غلط بیانی پہ تصیح کر گیا۔اور ساتھ ہی مسکرا کر گاڑی کارُخ موڑا۔منزل قریب تھی۔
میں سب سمجھتی ہوں۔میں نے تو ویسے ہی کہا تھا۔اس نے منہ بنا کر ایسے کہا جیسے کہہ رہی ہو۔اتنے تم شوخے۔۔۔
چلیں ابھی کہ لئے ا س بحث کو بھی ملتوی کرتے ہیں۔کیونکہ منزل آ چکی ہے۔اس نے گاڑی پارکنگ کی جانب موڑتے ہوئے کہا۔تو ماہ نور نے مسکرا کر پہلی بار اس عرصے میں دیکھا تھا۔
آپ پتہ نہیں کتنی بحثیں اور تکرار آگے کے لئے ملتوی کر رہے ہیں۔ایسا نہ ہو ایک دم پھنسیں اور بھاگنے کو رستہ بھی میسر نہ ہو۔اُترنے سے پہلے اس کے ذہن میں جھمکے سے بالکنی کی گفتگو یاد آئی ۔تو کہہ گئی۔اور ا س سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا ۔ماہ نور میڈم یہ جا وہ جا۔
کیا اس نے مجھے کہا؟خود سے بڑ بڑا کر اس نے خود سے ہی پوچھا۔اور پھر ڈیش بورڈ سے فون اُٹھا کر خود بھی سڑ ک پار کرتا گھر کے گیٹ کے اندر غائب ہو گیا۔
::::::::::::::
آپ کو کیا لگتا ہے۔
اس قسم کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر کے آپ مجھے اس کام کے لئے راضی کر لیں گی۔میڈم میں آج کے دور کی لڑکی ہوں۔اپنے حق کے لئے مجھے لڑنا بھی آتا ہے۔اور ڈٹ کر لینا بھی۔اس کے لہجے میں غیض و غضب تھا۔میڈم نے بڑے تحمل سے اُسے دیکھا۔اور پُر سکون انداز میں کُرسی جھولتی رہیں۔
فرح کا دل چاہ رہا تھا۔اس کے چہرے پہ موجود اس مکرو مسکراہٹ کو نوچ ڈالے۔اور اس عور ت کا وہ حال کر کے سارے مُلک میں موجود اس جیسے کامپ اُٹھیں۔اور اپنی حرکتوں سے بعض آئیں۔
پاکستا میں موجود بہت عورتیں ایسی ہیں۔جو خود عورت ہو کر عورت کی دُشمن ہیں۔
ہمارا معاشرہ ایک اسلامی معاشرہ تو ہے۔مگر محض نام کے طور پر۔اسلام کی بیٹی ،اسلام کی عورت تو تیر سے لے کر نیزے اور تلوار تک چلا لیا کرتی ہے۔ ڈرتی ہے اور نہ گھبراتی۔۔۔اپنے لئے اپنے حسب کے لئے لڑتی ہے۔ظالم کے سامنے جُھکنا اپنی توہین سمجھتی ہے۔سر قلم کر واسکتی ہے۔لیکن اگر کوئی کہے کہ جُھک جاؤ۔تو منہ نوچ ڈالتی ہے۔
اور کیوں جُھکیں ظلم کے سامنے۔۔۔جب ہمارا دین،ہمارا مذہب ہمیں حق لینا سکھاتا ہے۔جب اللہ نے ہمیں عظیم بنایا تو پھر ہیں ہم عظیم۔بس یہ کافی ہے۔۔۔
ہم م۔۔۔آپ تقریر اچھی کرتی ہیں۔مجھے یقین ہے۔کہ آپ اپنے سکول کالج میں بہت اچھا بولتی ہوں گی۔جواب موضوع سے بالکل ہٹ کر آیا تھا۔فرح کا دماغ جل اُٹھا۔اور ضبط جواب دینے لگا۔
میری بات سُنیں۔۔۔وہ اس کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔اور ہاتھ میں پکڑے پوسٹر کو اس کی میز کی جانب اُچھال دیا۔
میں کوئی ایسا کام نہیں کروں گی۔جس سے میرے مُلک کی نوجوان نسل کو نقصان پہنچے۔چاہے اس کے لئے مجھے کچھ بھی کرنا پڑے میں کروں گی۔کوئی بھی قربانی دینی پڑے دوں گی۔اس کے لہجے میں کاٹ تھی۔فیصلہ کر کے ڈٹے رہنے کا عزم تھا۔
بہت اچھی بات ہے۔آپ قائم رہیں اپنے فیصلے پر۔لیکن ایک منٹ۔۔۔وہ رُکیں اور سیدھی ہو بیٹھیں۔
میز پہ دھرا لیپ ٹوپ آن کیا۔
کیا آپ مجھے میرے کام کی داد دینا پسند کریں گی؟مسکر کر کہتے ہوئے۔لیپ ٹوپ اس کی جانب گھومایا۔
فرح نے لیپ ٹوپ کی چمکتی سکرین کو دیکھا۔اور گِرنے سے بچنے کو ہاتھ قریب پڑی میز پہ رکھا۔
اس کا سارا عزم جیسے جھاگ کی طرح بیٹھنے لگا تھا۔میڈم اب پھر کرسی پہ جھولتی اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ رہی تھی۔
کل تک سوچیں۔۔۔اگر تب بھی دل نہ مانے تو ایک دن اور لیں۔اور اگر تب بھی دل نہ مانے تو وہ کیجئے جو ہم آپ سے کہیں۔دل کی ہر بات مانی نہیں جاسکتی۔وہ کسی نے کیا کہا تھا۔کہ دل تو بچہ ہے۔اپنی ہی کہی گئی بات کے اختتام پہ و ہ منہ پہ ہاتھ رکھ کر ہنستی چلی گئیں۔فرح کا ضبط جواب دیتا وہ کمرے سے نکل گئی۔وہ اس عورت کے سامنے بالکل نہیں گِرنا چاہتی تھی۔
*
اس نے کمرے کا دروازہ بڑی شدیدآواز کے ساتھ بند کیا۔اور بیڈ پہ بیٹھ کر دونوں ٹانگیں اکھٹی کرلیں۔اور بازوں سے اُنہیں گھیر لیا۔آنسو موتیوں کی صورت آنکھوں سے بہہ کر گال بھگو رہے تھے۔اس کے سسکنے کی آواز سارے کمرے میں گونج رہی تھی۔
کیسے بے حِس گھر والے ہیں۔کسی کو میرا خیال نہیں۔۔۔کسی کومیری پروا نہیں۔کہ میں کس حالت میں ادھر پڑی ہوں۔بے بسی کی حالت میں وہ وہ کررہی تھی۔جو وہ کر سکتی تھی۔
اپنوں سے شکوے کے سوا اس کے پا س اور کوئی چارا نہیں تھا۔
::::::::::
ما ہ نور سو تو نہیں گئی تھی؟
کمرے کی نیم تاریکی میں ننگے پاؤں قالین پہ چکر کاٹتے ابرار نے فون کان سے لگائے اپنی حالت سے مختلف بہت اطمینان سے پوچھا تھا۔
ماہ نور فون کان سے لگائے بال برش کرنے میں مصروف تھی۔کھلکھلائی۔۔۔
نہیں بھائی۔
اچھا۔۔۔مجھے لگا میں نے کال کرنے میں دیر کر دی۔اس نے تھک کر صوفے پہ بیٹھتے کہا۔
نہیں۔۔۔میں اور ذریت ابھی دادی جان کا چیک اَپ کروا کے آئے ہیں۔بس سونے والی تھی۔اچھا کیا آپ نے فون کر لیا۔اس نے بالوں میں برش پھیرنے کا کام ایک لمحے کو نہیں روکا تھا۔
ہم۔۔۔اب ذریت کی دادی ٹھیک ہیں؟وہ اصل بات کی طرف جانے کے لئے بے چین گھیریاں ڈال رہا تھا۔
جی۔۔۔بس سردی کی وجہ سے جوڑوں کا درد ہے۔آپ دُعا کریں اللہ اُن کو صحت عطا فر مائیں۔۔۔
آمین۔۔
ذریت نے فائل اُٹھاتے اس کے الفاظ سُنے تھے۔وہ فائل سٹڈی کرنے کو سٹڈی جا رہا تھا۔ماہ نور کے بولنے سے وہ ڈسٹرب ہو رہا تھا۔محترمہ نے آدھا گھنٹہ تو لگانا ہی تھا۔بہتر تھا کہ وہ اپنا کام کر لیتا ۔
ماہ نور۔۔۔تمہاری دوست فرح کس ہوسٹل میں رہ رہی تھی؟ایک دم سے اس نے غیر متوقع سوال کیا تو ماہ نور ٹھٹکی۔ہاتھ میں چلتا برش اس نے روک کر ڈریسنگ ٹیبل سے آہستہ سے رکھا۔
وہ کیڈٹ کالج کے قریب کسی پراء ویٹ ہوسٹل میں رہتی تھی۔کیوں آپ کیوں پوچھ رہے ہیں؟خیریت؟
اس کے اندر کے جاسوس نے انگڑائی لی تھی۔
ابرار نے بات بنائی۔ہاں بھئی ! بھلا کیا بات ہونی۔بس ایک دوست نے پوچھا تھا۔اس کی بہن نے ہوسٹل شفٹ ہونا تھا ۔اس لئے میں نے کہا کہ وہ زیادہ پریشان نہ ہو۔میں کوئی پتہ کر کے بتا دوں گا۔اس کی بہن امریکہ سے ادھر پڑھنے آ رہی ہے۔عادت کے بالکل برخلاف خاصا گھڑا لمبا جواب دیا۔ماہ نور نے سمجھ کے سر ہلا یا۔
پر ۔۔۔لوگ تو وہاں پڑھنے جاتے ہیں۔اور وہ ادھر پڑھنے آ رہی ہے۔عجیب بات ہے۔ایک نئی بات۔
پتہ نہیں۔۔۔شائد اس لئے کہ وہ اسے وہاں کے معاشرے سے باہر نکالنا چاہتے ہوں۔میں تو خیر سہی وجہ نہیں جانتا۔ویسے بھی ہمارے مُلک کی تعلیم بھی کم اہمیت نہیں رکھتی۔ابرار آج ہر بات تفصیل سے کر رہا تھا۔ماہ نور کو بھائی کو سُننا اچھا لگ رہا تھا۔
اچھا ماہ نور ہوسٹل کا نام تو تم نے بتایا ہی نہیں۔ماحول وغیرہ تو اچھا ہے ناں وہاں کا؟
بھائی فرح کی فیمل خاصی سخت ہے۔اُنہوں نے بہت دیکھ بھال کر اسے اس ہوسٹل میں داخل کروایا تھا۔اور اس روڈ پہ صرف ایک ہی تو ہوسٹل ہے۔اور ہے بھی روڈ پہ ہی۔نام مجھے ابھی یا د نہیں آ رہا۔آپ کو آسانی سے مل جائے گا۔اس نے بولنے کے ساتھ موبائل کو کان کے اور کندے کے درمیان سیٹ کیا اور پھر بال باندھنے لگی۔
اچھا۔۔۔
تم سیٹل ہو گئی سہی سے؟
ہاں جی کوشش کر رہی ہوں۔اُداسی سے اس نے کہا تھا۔
میری گُڑیا بہت بہادر ہے۔سیٹل جلد ہو جائے گی۔ابرار نے سکون کا سانس لے کے سر صوفے سے ٹکاتے آنکھیں بند کرتے اسے کہا تھا۔ماہ نور نے معصومیت سے سر ہلا دیا جیسے وہ دیکھ رہا ہو۔
بابر بھائی سے میری صبح بات ہوئی تھی۔بلکہ ان سے تو روز ہوتی ہے۔بول رہے تھے کہ آپ کی شادی کر دی جائے۔ایک دم سے ذہن میں آئے بابر کے ساتھ اس کی کہی گئی بات بھی ذہن میں آئی تو ماہ نور نے کہنے میں جھجک محسوس نہیں کی تھی۔وہ بہن تھی۔بھائی کی فکر اس کے سوا ادھر کس کو ہونی تھی۔
ابرار نے بند آنکھوں کے ساتھ مسکرا کر دل ہی دل میں بابر کو شاباش دی تھی۔
کیا بکوا س کر رہا تھا وہ؟لہجے میں مسکراہٹ کا انصر نمایاں تھا۔ماہ نور نے شدت سے محسوس کیا۔اس کا بھائی مسکرا رہا تھا ۔دنیا کا خوبصورت منظر ہو گا یقینا۔۔۔
بس یہی کہ لڑکی وہ آپ کے لئے دیکھیں گے۔کہ گھر پہ اُنہوں نے بھی رہناہے۔اور کہہ رہے تھے۔بھابھی میں اپنی پسند سے لاؤں گااور ہم دونوں کو اس پہ کوئی عتراض نہیں ہونا چاہئے۔
میں نے کہا ۔کہ میں بھی ساتھ جاؤں گی۔تو کہتے کہ جائیں گے تو ہم دونوں لیکن پسند ان کی ہوگی۔ہنستے ہوئے وہ بتا رہی تھی۔اور ابرار کی مسکراہٹ بھی ساتھ ساتھ گہری ہو تی جارہی تھی۔
اچھا۔۔۔تم دونوں مطلب مجھے قیدی بنانے کی کوشش میں ہو۔
جی بالکل۔۔۔اب آپ کو بھی زنجیریں ڈال ہی دینا چاہئیں۔ماہ نور نے ہنستے ہوئے بات کے اختتام پہ فُل سٹوپ ہی جیسے لگا کر ختم کی۔
دیکھتے ہیں گُڑیا۔
اچھا ابھی میں سونے لگا ہوں۔تم بھی آرام کرو۔اس نے کہا تھا۔
ماہ نور نے مسکرا کر اللہ حافظ بولا اور کال کاٹ دی۔
میرے ویر دا ویا ۔۔۔
مینوں گوڈے گوڈے چا
:::::::::::::
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...