میرے رشکِ قمر، تو نے پہلی نظر، جب نظر سے ملائی مزا آگیا
برق سی گر گئی، کام ہی کر گئی، آگ ایسی لگائی مزا آگیا
جام میں گھول کر حُسن کی مستیاں، چاندنی مسکرائی مزہ آگیا
چاند کے سائے میں اے میرے ساقیا! تو نے ایسی پلائی مزا آگیا
نشہ شیشے میں انگڑائی لینے لگا، بزمِ رِنداں میں ساغر کھنکنے لگے
مے کدے پہ برسنے لگیں مستیاں، جب گھٹا گھر کے چھائی مزا آگیا
بے حجابانہ وہ سامنے آگئے، اور جوانی جوانی سے ٹکرا گئی
آنکھ ان کی لڑی یُوں میری آنکھ سے، دیکھ کر یہ لڑائی مزا آگیا
شیخ صاحب کا اِیماں بہک ہی گیا، دیکھ کر حُسنِ ساقی پگھل ہی گیا
آج سے پہلے یہ کتنے مغرور تھے، لُٹ گئی پارسائی مزا آگیا
آنکھ میں تھی حیا ہر ملاقات پر، سُرخ عارض ہوئے وصل کی بات پر
اس نے شرما کے میرے سوالات پہ، ایسے گردن جُھکائی مزا آگیا
اے فناؔ شکر ہے آج بعدِ فنا، اُس نے رکھ لی میرے پیار کی آبرُو
اپنے ہاتھوں سے اُس نے مری قبر پہ، چادرِ گُل چڑھائی مزا آگیا
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...