اپنی ننگی پیٹھ پر سورج اٹھائےـ۔گئو رکھشک کا سنہری خواب آنکھوں میں سجائے اپنا ناتواں جسم گھسیٹتے ہوئے دور تک پھیلی ہوئی سڑک پر چلتے ہوئےدفعتہ منجو نے پوچھا!
ــ’’ہمارے محافظ کہاں ہیں‘‘
تو چپ چاپ،گم سم اپنے آپ میں ڈوبی ہوئی انجو چونک پڑی’’پتہ نہیں ‘‘اسکے لہجے میں صدیوں کی تھکن تھی ہونگے کہیں نہ کہیں ‘‘
’’پر ہم انہیں ڈھونڈیں گے کس طرح‘‘
’’وہ خود ہمیں ڈھونڈلیں گے‘‘
’’ کیا یہ ممکن ہے‘‘منجو نے بے اختیار سوچا
کہاں وہ گئوشالہ کا پرکیف ماحول اور کہاں یہ شہر کی تیڑھی میڑھی سڑکیں یہ گاڑیوں کا بےپناہ ہجوم، ہارن کا شورآدمیوں کی چیخ و پکار زندگی اتنی جان لیوا تو کبھی نہ تھیـ۔
گئو شالہ میں ان کا جنم ہواتھا اور وہی گھسی پٹی زندگی رہی تھی کسی معنی و مفہوم کی ضرورت انہیں کبھی محسوس ہوئی نہ آگہی کی تمنا ہی کبھی دل میں جاگی۔حتی کہ وہ دونوں بوڑھی ہوگئیں۔امید قوی تھی کہ کسی دن ذبح ہوجائیں گی دفعتہ انہوں نےسنا کوئی سرکار آئی ہے جس نےگئو ہتھیا کو قانونی جرم قرار دیا ہے۔اور انہیں گئو سے گئوماتا بنادیا ہے۔
گئوشالہ میں خوشی کی لہر دوڑگی۔وہاں ہر کوئی اترانے لگا۔لہرانے لگا۔گنگنانے لگا۔
’’اب ہماری گردنوں پر چھری نہیں چلے گی‘‘
’’ہم طبعی موت مریں گے‘‘
’’بس کھائو پیو خوش رہو‘‘
’’مالک اب ہماری بہت دیکھ بھال کریں گے‘‘
’’نہیں بلکہ ہماری پوجا کریں گے ہم گئو ماتا جو ہیں‘‘
مگر ایسا کچھ نہ ہوا کوئی ان کی پوجا نہ ہوئی زندگی اس طرح چلتی رہی البتہ ان دونوں کے وجود پر ایک دلخراش حیرانی حاوی ہوگئ جب سے وہ گئو سے گئو ماتا بن گئ تھی انہیں پیٹ بھرچارا نہ ملا تھا کیوں ؟؟
’’تم دونوں بوڑھی ہو اس لئے‘‘ تمام نوجوان گائیں کھلکھلا کر ہنس پڑیں‘‘ بوڑھوں کی دیکھ بھال کوئی کیوں کریں ‘‘
’’کیا تم پر بڑھاپا نہ آئےگا‘‘انجو سلگ اٹھیـ۔
’’پھر تمہارا حشر بھی ہم جیسا ہوگا‘‘ منجو کو بھی غصہ آگیاـ۔
’’ارے تو فکر کس بات کی‘‘کوئی منچلی چٹک کر بولی‘‘سنا ہے سرکار ایک گئو سنچری بنارہی ہے جس میں بوڑھی گایوں کو رکھا جائےگا‘‘
’’اچھا‘‘
’’جب ہم بوڑھی ہوجائیں گی تو وہاں رہیں گی‘‘
’’تو پھر‘‘
’’تو پھر کیا ہے بس کھائوپیو خوش رہو‘‘
وہ سب آپس میں کھلکھلانے لگیںـ۔ہنسی مذاق کرنے لگیں۔
اور ان دونوں کے دل میں کچھ ٹوٹ سا گیا۔آنکھوں میں کوئی انجانا سا کرب ٹہر گیا پھر وہ سدا کھونٹے سے بندھی ہوئیں۔اپنی امنڈتی ہوئی بھوک پیاس سے الجھتی ہوئیں۔اداس خالی آنکھوں میں اکتاہٹ لئے لمحہ لمحہ یہی سوچتی رہیں کہ کوئی تغیر ہو کچھ ہو مگر کوئی انقلاب آیا نہ کوئی ہلچل ہوئی۔دن گزرتے رہے اور وقت کے ساتھ ان کی بے زبان خواہشیں۔گنگ خواب غمناک اذیتوں میں بدلنے لگے۔ایسے میں کسی دن انہوں نے سنا کہ شہر میں گئو رکھشک آئے ہیں جو ان کا مان بڑھا رہے ہیں ان کی پوجا کر رہے ہیں۔
’’گئو رکھشک‘‘ انجو کا دل دھڑک اٹھاـ۔
’’میرے محافظ‘‘ منجو کی آنکھوں میں چمک آگئ۔
پھر انہوں نے طے کیا کہ گئو شالہ میں بھوکوں مرنے سے بہتر ہے اپنے محافظوں کے پاس چلتے ہیں اور کسی دن وہ ان کی تلاش میں نکل پڑیں اور تب ہی سے وہ در در بھٹک رہی تھیں ـ۔شہر کی اس تیڑھی میڑھی سڑکوں پر آوارہ گھوم رہی تھیں اور نارسائی کی چلچلاتی دھوپ ان کا مقدر بن گئ تھی۔
’’بہن اور نہیں‘‘ چلتے چلتے تھک کر منجو رک گئـ۔
’’مجھ سے آگے چلا نہیں جاتا‘‘
وہ وہیں بیچ سڑک پر براجمان ہوگئ۔
’’ٹھیک ہے بیٹھتے ہیں‘‘
انجو بھی اس کی تائید میں وہیں بیٹھ گئ۔مگر انہیں کیا پتہ تھاکہ انہوں نے ٹرافک میں کتنی بادھا ڈالی ہے۔چند ہی لمحوں میں چاروں طرف سے ہارن کا وہ شور اٹھا کہ انہیں لگا آسمان گر رہا ہے وہ گبھرا کر اٹھیں اور دوبارا چلنے پر مجبور ہوگئیں۔
’’بہن ‘‘ منجو نے ایک زوردار آواز نکالی’’میں تھک گئ ہوں‘‘
’’چلو ان دکانوں کے سائے بیٹھتےہیں‘‘انجو نے سڑک کے دو رویہ لگے دکانوں کی جانب اشارہ کیا جہاں انواع اقسام کی اشیاء فروخت ہورہی تھیں۔دونوں نے ادھر کا رخ کیا۔مگر یہ کیا؟ وہ دونوں ششدر رہ گئیں۔دکانداروں نے انہیں اپنی دکانوں کی جانب آتے دیکھا تو فورا وہاں سے بھگا دیا۔
پھر وہی بےنام سفر تھا۔صحرا کی سلگتی ہوائوں کی طرح جس کی کوئی سمت تھی نہ منزل۔
پھر وہ دونوں مختلف سمتوںمیں چلتی ہوئیں،بھٹکتی ہوئیں،بکھرتی ہوئیں بالاخر کسی گلی میں آنکلیں جہاں چاروں طرف رہائشی مکانات تھے۔
’’ شاید وہ یہاں ہو‘‘ انجو کے دل میں موہوم سی امید جاگیـ۔
’’میرے محافظ‘‘منجو نے فلک شگاف آواز نکالی۔
مگر وہ جانے کہاں تھے،کہاں چھپ کر بیٹھے تھے کہ ڈھو نڈنے سے بھی نظر نہ آئے،تنگ سی گلیوں میں کہیں اکا دکا گائیں چارا کھاتی نظر آئیں،وہ بے تحاشہ ان کی جانب لپکیں ایک ایک سے دریافت کیا۔
’’گئو رکھشک کہاں ہیں ‘‘
’’ہمارے مالک ہمارے محافظ ہیں‘‘ہر ایک کا جواب یہی تھا۔
’’کیا مالک ہی محافظ ہوتا ہے‘‘ منجو حیران ہوئی۔
’’ پھر یہ گئو رکھشک کون ہیں جن کے قصے ہم نے گئو شالہ میں سنے تھے۔
انجو نے بے یقینی سے انہیں دیکھا۔
’’کیا پتہ کون ہیں‘‘
’’ ہمیں پیٹ بھر چارا ملتا ہے ہمیں کوئ فکر کیوں؟‘‘
’’ارے محافظوں کی چھوڑو۔۔۔ آو تم بھی کچھ کھائو‘‘انہوں نے دعوت دی۔
انجو نے چند لقمے لئے لیکن طمانیت کا کوئی احساس جاگا نہ صدیوں کی بھوک مٹی کہ دفعتہ کہیں سے مالک آنکلے اور انہیں ڈنڈوں سے مار بھگایا۔
یہ گئو رکھشک نہیں تھے یہ محافظ نہیں تھے پھر وہ کہاں تھے؟خدارا کوئی بتاتا کہ وہ کہاں تھے؟؟
چلتے چلتے ان کے تلوے لہولہان ہوگئے ان کے حوصلوں کی دھجیاں اڑنے لگیں ان کی جرائتیں بکھرنے لگیں اور خود کو یکجا کرنے کی دھن میں وہ اور بھی بکھرنے لگیں۔
پتہ نہیں گئو رکھشک کا سنہری خواب لے کرکب تک انہیں ان تیڑھی میڑھی راہوں پر چلنا تھا،بھٹکنا تھا،سفر طویل تھا مگر ان کے ناتواں جسم میں اتنی قوت کہاں تھی،چلتے چلتے دونوں نڈھال ہو کر گر پڑیں۔
وہ جانے کون تھا کہ اس نے پانی پلایا تو ان کی جان میں جان آئی وہ یہ ڈھیر سارا چارا لا رہا تھا۔
’’ گئو رکھشک‘‘ انجو کا دل دھڑک اٹھا۔
’’میرے محافظ‘‘منجو کی آنکھوں میں چمک آگئ۔
اور پیٹ بھر چارا کھاتے ہوئےان دونوں کا وجود روحانی مسرتوں اور طمانیت کے احساس سے مغلوب ہوگیا انہوں نے چاہا کہ اس احساس کو اپنے رگ وپے میں سمو لیں کہ دفعتہ وہ عورت جانے کہاں سے آنکلی۔
’’ ارے یہ کیا کر رہے ہو‘‘ وہ چلائی۔
’’ذ را بھر خوف نہیں تمہیں ‘‘
وہ اس آدمی پر برس پڑی۔
’’ گایوں کو چارا کھلا رہے ہو،جانتے ہو شہر کے حالات کتنے خراب ہیں،گئو رکھشکوں نے جینا حرام کر رکھا ہے‘‘
’’جانتا ہوں ساجدہ مگر مجھ سے ان بےزبان جانوروں کی بیچارگی نہ دیکھی گئ بوڑھی ہیں دونوں اور بھوکی بھی‘‘
’’پیٹ بھر کھانا تو ہمیں بھی نہیں ملتا ‘‘’’وہ بولی ‘‘ جب سے سرکار نے گائے کا گوشت فروخت کرنے پر پابندی لگائی ہے تم تو پورے بے کار ہوگئے ہو‘‘
’’گائے قصاب ہوں اور کوئی دھندا نہیں آتا‘‘
گائےقصاب،،دونوںنے سہم کر ایک دوسرے کی جانب دیکھا تو کیا اب ان کی گردنوں پر چھری چلنے والی تھی،یہ شخص گئو رکھشک نہیں تھا تو پھر گئو رکھشک کہاں تھے؟؟
’’تم سدا سے کام چور تو ہو ہی اب یہ رحم کا ناٹک بند کرو رحیم خان‘‘
وہ عورت دھاڑی’’کھلا پلا چکے نا،اب دفع کرو ان موذی جانوروں کو‘‘
’’رات سر پر ہے کہاں جائیں گی‘‘
’’تم اپنی خیر منائو ان پر رحم کرنا چھوڑو گئو رکھشک ہیں اس شہر میں وہ ان کی حفاظت کر لیں گے‘‘
پھر رحیم خان کے لاکھ منع کرنے کے باوجود ساجدہ نے دونوں کو ہانک دیا۔
پھر وہ شہر کی بے جہت راہوں پر دوبارا چل نکلیں،یکا و تنہا گئو رکھشکوں کی تلاش میں مگر انہیں کیا پتہ تھا وہ ان کے محافظ جن کی تلاش میں وہ گلی گلی بھٹکتی پھر رہی ہیں، صبح ہوتے ہی انہوں نے رحیم خان کے گھر پر ہلا بول دیا تھا انہیں خبر ملی تھی کہ رات رحیم خان کے گھر دو گائیں دیکھی گئ تھیں جن کو دن کے اجالوں میں نہ پا کر انہوں نے سمجھا کہ رحیم خان نے انہیں ذبح کر ڈالا ہے ان گئو رکھشکوں نے رحیم خان کو زدوکوب کیا اور گئو ہتھیا کے جرم میں اس کے گھرکو آگ لگادی۔