(Last Updated On: )
میرے خط کا پیام نہ آیا
پھر جواب سلام نہ آیا
پھر میرے دل کو اس نے توڑا ہے
میرے ہونٹوں پہ نام نہ آیا
وہ جو باتیں وفا کی کرتا تھا
اب وفا کا کلام نہ آیا
ایک مدت سے ہے شب ہجراں
وصل کا بھی پیام نہ آیا
گلہ اس سے مجیب!اب کیا ہو؟
جس کے دل میں قیام نہ آیا
****