پر میرے امتحان ابھی ختم نہ ہوئے تھے فقیرے نے چپ کی ایک لمبی سانس بھری جیلر نے گھڑی کی طرف دیکھا رات کے دو بج چکے تھے اس نے آ فس کے کولر سے ٹھنڈے پانی کے دو گلاس پئیے اور ایک بھر کر فقیرے کے لیے لے آیا جسے اس نے ایک ہی سانس میں یوں ختم کر دیا جیسے صحرا کے لمبے سفر سے تھکے ماندے پیاسے مسافر پیتے ہیں آ گے کیا ہوا باقی دو بہنیں بھی ملیں تجھے کہ نہیں جیلر نے آ نکھیں موند کر کرسی کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے پوچھا جی صاحب شام ہوتے ہی میں شہر کے مغرب میں واقع بستی سرخاب گوٹھ چل پڑا کیونکہ میری معلو مات کے مطابق شہر کا غریب طبقہ اکثر یہاں اپنی حوس پوری کرنے آ تا تھا اور یہاں بہت سی غربت سے تنگ لڑکیاں بھی آ جاتی تھیں چار پیسے کمانے یعنی پیشہ ور عورتوں کے علاوہ دھاڑی دار عورتیں بھی تھیں یہ بات مجھے یہی آ کر پتہ چلی
پیشہ ور عورتیں یہاں کی مستقل رہائشی تھیں جنھوں نے رہنے کے لیے کچے پکے مکان بنا رکھے تھے جبکہ دھاڑی دار عورتیں یہاں لگے ہوئے جھونپڑے نما گھر جن میں ایک چارپائی اور بستر ہوتا کرائے پر لے لیتیں اور صبح مالک کو کرایہ ادا کر کے اپنے گھروں کو چلی جاتیں میں نے اپنی بہنوں کو تلاش کرنا شروع کر دیا شام سے رات اور رات سے آ دھی رات ہو گئی مگر ان میں سے کوئی مجھے نہ ملی اب یہ جگہ میری آ خری امید تھی وہاں کا کوئی گھر میں نے رہنے نہیں دیا تھا جہاں میں ان کی تلاش میں نہ گیا پر وہ شاید وہاں نہیں تھیں میں مایوس ہو کر رات کے دو بجے واپس چل پڑا ابھی دو تین گلیاں کراس کر کے مین روڈ کی طرف مڑا ہی تھا کہ آ گے کوئی لڑائی جھگڑا ہو رہا تھا جس کی وجہ سے راستہ بند تھا دس بارہ بندے کسی عورت کو زبردستی گھسیٹ کر اپنے ساتھ لے کر جانا چاہتے تھے مگر وہ عورت جانا نہیں چاہتی تھی میں بھی نیچے اتر آ یا اتنے میں قریب کے گھر سے ایک اور عورت پھرتی سے باہر نکلی اور اس پہلی عورت کا بازو پکڑ کر اپنی جانب کھینچا چھوڑو تم لوگ اسے یہ ٹھیک نہیں ہے آ ج صبح ہی اس کا بچہ گرایا ہے ابھی تو یہ ٹھیک سے بیٹھ بھی نہیں سکتی تم جیسے دس سانڈوں کو ایک ساتھ کیسے سہے گی ارے سندری یہ تو تم لوگوں کو ایڈاوانس لیتے ہوئے پہلے سوچنا چاہیے تھا ہم اب اسے اپنے ساتھ لے کر ہی جائیں گے اور اس لڑکی کو زبردستی اٹھا کر رکشے میں ڈال لیا ارے ظالموں چھوڑ دو اسے یہ مر جائے گی وہ عورت اس کی حالت دیکھ کے پوری قوت سے چلائی ۔۔۔۔۔اتنے میں اسی گھر سے دو تین مرد اور نکل آ ئے لے جاؤ لے جاؤ کچھ نہیں ہوا اسے نہیں مرے گی ڈرامے کر رہی ہے کام چور کہیں کی بچہ گرا کے آ ئی ہے کوئی پہاڑ نہیں گرا کے آ ئی نہیں مرتی بڑی ڈھیٹ ہے۔۔۔۔۔۔۔ ان مردوں نے اس پچھلی عورت کا ہاتھ پکڑ کر اندر کی طرف کھینچا نہیں صاب یہ ٹھیک نہیں ہے رحم کرو اس پہ وہ عورت پھر ایک بار اپنا ہاتھ زبردستی چھڑا کر اس رکشے میں بیٹھی لڑکی کے پاس پہنچ گئی اچھا اتنی ہی ہمدردی ہے اس سے تو ہمارا دس ہزار واپس کر دے ہم چھوڑ جاتے ہیں اسے. ۔۔۔۔۔ صاب ہم چلتے ہیں اس کے بدلے میں آ پ کے ساتھ۔۔۔۔۔۔ پر اسے اتار دے ارے تو اندر چل کیا بک بک کیے جا رہی ہو ۔.۔۔۔۔لے جاؤ اسے اگر مر جائے تو اسے یہاں واپس مت لانا ادھر ہی کسی گندے نالے میں پھینک دینا ایک موٹے آ دمی نے اونچی آ واز میں کہا اور اس چیختی چلاتی عورت کو زبردستی اندر گھسیٹ کر دروازہ بند کر لیا میرے دل میں پتا نہیں کیوں اس لاچار عورت کے لیے اتنی ہمدردی جاگی وہ سب رکشے میں بیٹھ کر جانے ہی والے تھے کہ میں ان کے پاس پہنچ گیا بات سنو تم مجھ سے دس کے بیس ہزار لے کو اور یہ لڑکی مجھے دے دو میں نے موٹر سائکل ان کے قریب لے جا کر کہا لڑکی کا چہرہ بالوں سے ڈھکا ہوا تھا اور وہ سر نیچے کیے بیٹھی تھی اس لیے میں اس کی شکل نہ دیکھ سکا اچھا اتنی پسند آ گئی ہے تجھے چل رانجھے پکڑ اس سے بیس ہزار اور لڑکی اس کے حوالے کر دے ہم کوئی اور لے جاتے ہیں ویسے بھی کہیں سچ میں مر گئی تو ہمارے لیے مصیبت نہ کھڑی ہو جائے رانجھے نے بیس ہزار میرے ہاتھ سے گن کر لیا اور لڑکی کو بازو سے کھینچ کر نیچے پھینکا اور رکشہ دوڑا لیا وہ لڑکی بیمار زدہ لڑکھڑا تے قدموں سے آ ہستہ آ ہستہ چل کر میرے پاس آ ئی اور اپنے لمبے سیاہ بالوں کو چہرے سے پیچھے جھٹک کر بولی جی صاحب چلیں کہاں جانا ہے یا ادھر گھر میں ہی چلیں اور میں نے پہلی بار چاند کی مدہم روشنی میں اس لڑکی کا چہرہ غور سے دیکھو اور ۔۔۔ ۔۔اس کی شکل دیکھتے ہی میرا دل بند ہو نے لگا کیونکہ وہ میری بہن صائقہ تھی میرے منہ سے صرف اتنا نکلا صائقہ میری بہن اور صائقہ نے بھی مجھے پہچان لیا دوڑ کے پاگلوں کی طرح مجھ سے لپٹ گئی بھائی بھائی کرتی میں اسے اپنے سے الگ کرنے کی کوشش کرتا پر وہ مجھے چھوڑ ہی نہیں رہی تھی ویر مجھے چھوڑ کے نہ جانا مجھے اپنے ساتھ لے جاؤ صائقہ پہ عجیب ہی ہسٹریائی کیفیت طاری ہو گئی تھی اگر اس کی آ واز سنی کے اس گھر میں سے کوئی نکل آ تا تو ہمارے لیے بہت مشکل ہو جاتا وہاں سے نکلنا اس لیے میں نے صائقہ کو زبردستی منہ پہ ہاتھ رکھ کے چپ کروایا اور اسے اپنے پیچھے بٹھا کر صبح کی اذان سے پہلے گھر آ گیا میری سب بہنیں جاگ کر میرے واپس آ نے کا انتظار کر رہی تھیں صائقہ کو دیکھتے ہی ساری اس سے لپٹ گئیں مجھے تین راتیں ہو چکی تھی جاگتے ہوئے اب میری نیند سے بس ہو گئی تھی نماز پڑھتے ہی میں وہیں جائے نماز پہ ہی سر رکھ کے سو گیا اور نہ جانے کتنی دیر سوتا رہا آ ج میری رہائی کا آ خری دن تھا اور رات کو میں نے واپس چلے جانا تھا جب سو کر اٹھا تو دوپہر ہو چکی تھی
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...