میرے ہمسفر ہے وہی سفر ۔۔
مگر ایک موڑ کے فرق سے۔۔
تیرے ہاتھ سے میرے ہاتھ تک۔۔
وہ جو ہاتھ بھر کا تھا فاصلہ
کئی موسموں میں بدل گیا۔۔
اسے ناپتے۔۔ اسے کاٹتے
میرا سارا وقت نکل گیا۔۔
تو میرے سفر کا شریک ہے۔۔
میرے تیرے سفر کا شریک ہوں۔۔
یہ جو درمیاں سے نکل گیا
اسی فاصلے کے شمار میں۔۔
اسی بے یقیں سے غبار میں
تیرا راستہ کوئی اور ہے
میرا راستہ کوئی اور ہے۔۔
(امجد اسلام امجد )
اسے پتہ بھی نہیں چلا تھا کے وہ کتنے ہی لمحے سے اسے تکے جا رہا تھا۔۔ وہ بلکل اسکی عرش جیسی دکھتی تھی۔۔ مگر عرش عرش کا اتنا خوبصورت روپ۔۔ وہ مبہوت سا اسے دیکھتا جا رہا تھا۔۔
اس نے دعا کے بعد ہاتھ چہرے پر پھیرے تھے۔۔ کتنی ہی دیر وہ اسی انداز میں ہاتھ چہرے پر رکھے بیٹھی رہی تھی۔۔ اسکی سسکیاں تیز تر ہوتی جا رہی تھیں۔۔
“میں نہیں جانتی مجھے آپ سے کیا مانگنا چاہئیے اللہ۔۔ مگر مجھے کیا دینا ہے آپ تو یہ خوب جانتے ہیں جو میرے حق میں بہتر ہو مجھے دے دیجیے”۔۔
انصر نے اسکی آواز سنی تھی۔۔ دماغ کہ رہا تھا یہ آواز اسکی عرش کی نہیں ہے ۔۔
اسنے چہرے سے ہاتھ ہٹایا۔۔ دل نے بےاختیار کہا یہ چہرہ تو اسکی عرش کا ہے۔۔
جائے نماز اٹھاتی رابیل کی نظر اس پر پڑی تھی۔۔ اسے خود کو یوں تکتے دیکھ کر وہ پزل ہوئی تھی۔۔
“نماز کا وقت نکل رہا ہے”۔۔
فرشتے کو بیڈ پر بیٹھا کر اسنے اسکی جانب دیکھے بغیر کہا تھا۔۔
“عرش”۔۔
وہ بےدھیانی میں پکار بیٹھا تھا۔۔ رابیل ایک جھٹکے سے اسکی جانب گھومی تھی۔۔
“میں رابیل ہوں۔۔ رابیل حدید یزدانی”۔۔
اس نے رابیل پر قدرے زور دیتے کہا تھا۔۔
اسکی آواز پر وہ جیسے ہوش میں آیا ۔۔ ایک نظر اس پر ڈالتا باتھ روم کی جانب بڑھا تھا۔۔
اسکے جانے کے بعد گہری سانس خارج کرتی بیڈ پر بیٹھی تھی۔۔
وہ جانتی تھی وہ اس میں عرش کو دیکھ رہا تھا۔۔ مگر وہ تو رابیل تھی عرش نہیں۔۔ وہ اسکے وجود میں عرش کو تلاش کر رہا تھا۔۔ وہ سن ہو کر رہ گئی تھی۔۔
نماز پڑھ کر اسنے ایک نگاہ سوچوں میں گم رابیل پر ڈالی تھی پھر دروازے کی جانب بڑھا تھا۔۔
“رابیل کا ایک جیتا جاگتا وجود ہے۔۔ ایک الگ شناخت ہے۔۔ اور میں اس شناخت کو کسی کمزور لمحے کے حوالے ہرگز نہیں کر سکتی۔۔
یہ بات آپ ذہن نشین کر لیں کے میں عرش جیسی دکھتی ہوں۔۔ عرش ہوں نہیں”۔۔
اسکی آواز پر انصر کے باہر جاتے قدم تھمے۔۔ اسکا لہجہ بہت کچھ باور کروا رہا تھا۔۔
وہ بغیر کچھ کہے باہر نکل گیا تھا۔۔
_______
“اس لئے سادھ لی تھی چپ میں نے۔۔
اس سے بہتر کوئی کلام تھا ہی نہیں۔۔۔
اس لئے خاص کر دیا گیا “عشق “۔۔
یہ عام لوگوں کا کام تھا ہی نہیں”۔۔
“تو روز کیوں آ جاتا ہے اشعر۔۔ میں ٹھیک ہوں یار”۔۔
اسنے آنکھیں موند کر کہا ۔۔
“ہر وقت سڑے منہ کے ساتھ بیٹھا رہتا ہے اور کہ رہا ہے میں ٹھیک ہوں”۔۔
اشعر نے منہ بگاڑا۔۔
“ہاہاہا میری شکل ہی ایسی ہے یارا”۔۔
وہ اسکے انداز پر دل کھول کر ہنسا تھا۔۔
اشعر نے پیار سے اسکی جانب دیکھا رابیل کے نکاح کے بعد وہ آج یوں ہنسا تھا۔۔
“ہنستے رہا کر”۔۔
اس نے محبت سے اسکی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔۔
جلابیب نے باغور اسکی جانب دیکھا۔۔ وہ اچھی طرح جانتا تھا وہ صرف اسکے چہرے پر مسکراہٹ لانے کے لئے یوں مسخرہ بنتا تھا۔۔
ایک ہفتے میں کوئی ایک دن بھی ایسا نہیں تھا جس دن وہ اسکے پاس نہیں آیا ہو۔۔
وہ بےاختیار اسکے گلے سے لگا تھا۔۔
“اوہ بھائی میں زندہ ہوں تیرے لئے بریانی کا انتظام نہیں ہونے والا ایسے گلے لگنے سے”۔۔
اشعر نے شرارت سے کہا۔۔
“فضول ہی بکنا ہمیشہ”۔۔
اس نے کہنے کے ساتھ ہی اسکے کندھے پر دھموکا جڑا تھا۔۔
“زندگی میں تجھ جیسے کمینے بہت ضروری ہوتے ہیں”۔۔
وہ نم آنکھوں سے اسے دیکھتے مسکرایا تھا۔۔
“کبھی کبھی مجھے لگتا ہے جلابیب میں بھی ذمیدار ہوں تیرے ساتھ ہوئی زیادتی کا۔۔ میں رابی کو فورس کر سکتا تھا”۔۔
اس نے شرمندگی سے کہا تھا۔۔ اسکی حالت سے وہ واقف تھا۔۔ اسکی آنکھوں کی سوجن اس سے مخفی نہیں تھی۔۔
“جو ہوا اس میں قصور کسی کا نہیں تھا اشعر۔۔اپنی اپنی جگہ ہر شخص اپنا فرض نبھا رہا تھا۔۔ جب فرض اور محبت دونوں مقابل آجائیں تو فرض والا پلرہ ہمیشہ بھاری ہو جاتا ہے”۔۔
وہ مسکرایا تھا۔۔ اسکی مسکراہٹ کا کرب اشعر نے اپنے دل پر محسوس کی تھا۔۔
“جانتا ہے اشعر رابیل نے کہا تھا کے جب ٹوٹنے لگوں تو اپنی ذات کو اللہ کے پاس لے جاؤں وہ جوڑ دیگا۔۔ میں روز اپنا ٹوٹا بکھرا وجود اس کے پاس لے کر جاتا ہوں اشعر۔۔وہ روز مجھے جوڑ دیتا ہے”۔۔
“پہلے مجھے بھی اس بےسکونی کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی تھی اشعر۔۔ رابیل جب ساتھ تھیں تو کبھی اندر شور ہی نہیں اٹھا۔۔ رابیل سے جدا ہونے کے بعد سمجھ آیا اشعر کے یہ جو دل ہے نا اللہ نے اسے بڑے پیار سے بنایا ہے”۔۔
اس نے اپنے دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ۔۔ اشعر نے باغور اسکی جانب دیکھا۔۔ ایک سکون تھا جو اسکے چہرے سے جھلک رہا تھا۔۔ وہ اس جلابیب سے بلکل الگ رہا تھا جو کچھ دن پہلے اسکے سینے سے لگا رابیل کے لئے تڑپ رہا تھا۔۔
“جانتا ہے اشعر یہ جو دل ہے نا اسکا محبوب صرف اللہ ہے۔۔ یہ صرف اللہ کا گھر ہے۔۔ اور جب ہم اس گھر میں کسی اور کو ٹہرا لیتے ہیں نا تو پھر یہ اسی طرح بےسکون رہتا ہے۔۔ اصل سکون تو محبوب کے پاس ہی آتا ہے۔۔ میں رابیل کو بھول نہیں سکتا اشعر کیوں کے میں انھیں بھولنا ہی نہیں چاہتا۔۔ انکی محبت نے ہی تو مجھے اللہ کے عشق تک پہنچانے کا ذریعہ بنی ہے۔۔
“وہ عشق جو ممنوع نہیں ہے۔۔ باقی ہر عشق کی ممانعت ہے۔۔ اللہ کے عشق کی نہیں”۔۔
“رابیل حدید یونہی تو اس کے سحر میں گرفتار نہیں تھی۔۔ وہ واقعی ساحر تھا کسی کو بھی اپنے لفظوں سے کسی کو بھی سحر زدہ کر سکتا تھا”
اشعر کے دل نے اعتراف کیا تھا۔۔
“تو بھولنا کیوں نہیں چاہتا رابیل کو جلابیب”۔۔
اشعر نے یک ٹک اسکی جانب دیکھتے ہوئے سوال کیا۔۔
“میں خود کو یہ کہ کے دلاسہ دے دیتا ہوں می میں انھیں بھولنا نہیں چاہتا۔۔ حقیقت میں میں تو بھول ہی نہیں سکتا اشعر۔۔ یہ یہ میرے بس میں نہیں ہے”۔۔
دو آنسوں کارپیٹ پر گر کر جذب ہوئے تھے۔۔
“تو زندگی سے دور ہوتا جا رہا ہے جلابیب”۔۔
وہ سسکا تھا اپنے جگری دوست کے یہ حالت اس سے برداشت نہیں ہو رہی تھی۔۔
“بس یار زندگی مجھ سے بھاگ رہی ہے اور میں زندگی سے۔۔ دیکھ اب کس کے پیر پہلے تھکتے ہیں”۔۔
وہ کرب سے مسکرایا تھا۔۔ اشعر نے تاسف بھری ایک نظر اس پر ڈالی۔۔
_______
“ماما میں آج شام کراچی کے لئے نکلونگا”۔۔
وہ سب ناشتے پر بیٹھے تھے۔۔ اسکی بات پر ایک لمحے کے لئے اسکے ہاتھ روکے تھے۔۔
“رابیل اور فرشتے کو ساتھ لے کر جاؤگے اس بار انصر”۔۔
انہوں نے سلائس پر جیم لگاتے ہوئے کہا۔۔
فرشتے کو دودھ پلاتی رابیل کے ہاتھ تھمے تھے۔۔
“ماما میں۔۔
انصر نے کچھ کہنا چاہا تھا۔۔
“تمہاری بیوی اور بچی تمہاری زمیداری ہیں انصر تم خود جہاں رہو گے۔۔ یہ بھی وہیں رہینگی نا “۔۔
“مم ما۔۔ فشے”۔۔
فرشتے نے اسکا ہاتھ تھام کر اسے اپنی جانب متوجہ کرنا چاہا تھا۔۔
“مم ما”۔۔
انصر کا بریڈ کی جانب جاتا ہاتھ روکا تھا۔۔ اس نے بےیقینی سے فرشتے کی جانب دیکھا۔۔ وہ رابیل کو ماما کہ رہی تھی۔۔ اب تک وہ اسکی گود میں نہیں آتی تھی۔۔ اور رابیل کو ماما کہ رہی تھی۔۔ اسکا دماغ سن ہو رہا تھا۔۔
“رابیل بیٹا اپنی اور فرشتے کی پیکنگ کرو۔۔ شام میں نکلنا ہے نا انصر نے”۔۔
وہ کہ کر کسی کو بھی کچھ کہنے کا موقع دیئے بغیر اٹھ کھڑی ہوئی تھیں۔۔
“ماما آپ میری بات سنیں۔۔ میں نہیں لے جا سکتا رابیل کو ساتھ”۔۔
“عرش کو لے جانے کی بھی تو تم نے ہی ضد کی تھی نا انصر۔۔ تو یہ نہیں بھولو کے رابیل بھی اب تمہاری بیوی ہے۔۔ اسکے بھی کچھ حقوق کچھ فرائض ہیں اب تم پر انصر”۔۔
“وہ بچی بہت صابر ہے انصر اسکے ساتھ زیادتی نہیں ہونے دینا”۔۔
“اسے کہیں اپنی پیکنگ کر لے”۔۔
اس نے انکی گود میں منہ چھپا کر بچوں کی مانند کہا۔۔
“میری بیٹی ہے وہ اسے دوبارہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے مجھے اس نے پیکنگ سٹارٹ بھی کر دی ہوگی”۔۔
ان کے لہجے میں فخر بول رہا تھا یہ انصر نے باآسانی محسوس کیا۔۔
“میری بیٹی تمہیں سونپ رہی ہوں میں انصر۔۔ ایک بات یاد رکھنا بیٹا۔۔ بعض اوقات جن لوگوں کو ہم اپنی زندگی میں کوئی مقام نہیں دینا چاہتے۔۔ وہ کسی کی سب سے بڑی خواھش ہوتے ہیں”۔۔
ان کی نظروں کے سامنے جلابیب کا چہرہ آیا تھا کتنا کرب تھا اسکی آنکھوں میں۔۔
_____
“ماما رابیل کو دیکھیں ہمیں نکلنا ہے”۔۔
اسنے گھڑی پر نظریں ڈالتے ہوئے کہا تھا۔۔
“ہاں بیٹا میں دیکھتی ہوں اسے “۔۔
وہ رابیل کے کمرے کی جانب بڑھی تھیں۔۔
ساری چیزیں پیک کرنے کے بعد اپنی اور کی تصویروں کی البم بیگ میں رکھ رہی تھی۔۔ نظریں بےاختیار کونے میں رکھے ایک بیگ پر گئی تھیں۔۔ اشعر نے نکاح کے دوسرے دن اسکے حوالے کیا تھا کے یہ جلابیب کی جانب سے نکاح کا تحفہ ہے۔۔
اس نے اسی طرح رکھ دی تھی۔۔ کچھ سوچ کر اس نے وہ بیگ کھولا تھا۔۔ اندر بہت خوبصورت پیکنگ میں شاید کوئی پینٹنگ تھی۔۔
اسنے پیک کھولا تھا۔۔ اسکی توقع کے عین مطابق وہ پینٹنگ ہی تھی۔۔ وہ سن ہو گئی تھی۔۔ اس میں آنکھیں بنائی گئی تھیں۔۔ آنسوں سے لبریز آنکھیں۔۔ اٹھتی پلکیں۔۔ لیکن سب سے زیادہ اسے جس چیز نے محصور کیا تھا وہ ان آنکھوں کے اندر ڈوبتا ہوا شخص جسے گھٹنوں کے بل بیٹھا دکھایا گیا تھا اس شخص کے آنکھوں سے گرتے آنسوں نیچے آ کر آنکھوں سے گرتے آنسوں سے مل رہے تھے۔۔
اسکی نظریں اسکے سائن کے ساتھ نیچے لکھے تھیم پر گئی گئیں۔۔
“RJ”
“سحرِ عشق”
“میرا انتظار کرینگی نا رابیل۔۔
“آپ خود کے پاس بھی میری امانت ہیں پیاری لڑکی۔۔
“مجھے پتہ تھا محبت خراج مانگتی ہے۔۔ مگر کیا محبت خراج میں کسی کی زندگی مانگ لیتی ہے۔۔
اسکے کہے جملے اسکے کانوں میں گونج رہے تھے۔۔ آنسوں تواتر سے اسکا چہرہ بھگو رہے تھے۔۔
“مم مجھے معاف کر دیجیے گا جلابیب”۔۔
وہ سسکی تھی۔۔