کاوش پرتاپگڈھی
میرے حصے میں کہاں آئی ہے اچھی مٹّی
اور جو آئی ہے وہ بھی تو ہے تھوڑی مٹّی
ڈھنگ کا ایک بھی برتن نہ بنا شام ہوئی
چاک پہ رکھی ہے کس قسم کی، کیسی مٹّی
آپ بے مصرف و بے کار سمجھتے ہیں جسے
ایک دن اُگلے گی سونا یہی اپنی مٹّی
ہم کو معلوم ہے ناموسِ وطن کیا شے ہے
دیوتاؤں سے بھی بڑھ کر ہے وطن کی مٹّی
انچ دو انچ بھی رکھی نہیں حصے کی زمیں
بخوشی بانٹ دی ہر قسم کی ساری مٹّی
مینہہ برسا ہے ابھی تیز قدم کیسے چلوں
راہ میں چاروں طرف بکھری ہے چکنی مٹّی
پاک تھی صاف تھی آنکھوں سے لگاتا تھا اسے
کس کے ناپاک قدم سے ہوئی گندی مٹّی
اس نے ہنس ہنس کے کلیجے سے لگایا سب کو
چاہے بھوری ہو کہ گوری ہو کہ کالی مٹّی
اک زمانے سے ہوں غربت کی ہواؤں کا اسیر
ناک میں اب بھی مہکتی ہے وطن کی مٹّی
وہ زمانہ گیا جب مٹّی تھی بس مٹّی ہی
آج سپنے میں بھی ملتی نہیں ویسی مٹّی
نگری نگری وہ ہواؤں سا پھرا کرتا ہے
دیکھیے ملتی ہے کاوش کو کہاں کی مٹّی