نور ظہیر
ابّا کا مذہب سے، کسی بھی مذہب سے، کوئی تعلق نہیں تھا۔ ہاں، تیوہاروں کو وہ کبھی کسی دھرم سے نہیں جوڑتے تھے۔ گھر میں عید ضرور منائی جاتی تھی لیکن صرف اس لئے کہ گھر پر بہت سارے لوگ آ سکیں اور مزے مزے کے کھانے بن سکیں۔ اُسی طرح سے گھر پر دیوالی بھی منائی جاتی ۔ ابّا بڑے شوق سے مٹی کے دئے خریدتے، پانی میں انھیں ڈبوکررکھتے اور اندھیرا ہو جانے پر چاردیواری پر سجاتے۔ بعد کے سالوں میں دلّی میں رنگین بلب جلانے کا فیشن آ گیا تھا۔ ابّا کو ان سے سخت نفرت تھی۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ روشنی وہ ہوتی ہے، جو چونکاتی یا چکاچوندھ نہیں کرتی، بلکہ، آہستگی سے دور تک پھیلتی ہے اور دیر تک اپنے دائرے کو روشن رکھتی ہے۔
عید اور دیوالی سے بھی بڑھ کر انھیں نیا سال منانے کا شوق تھا۔ سارا سال وہ دوستوں کی بھیجی ہوئی اور سفر کے دوران خود اپنی خریدی ہوئی شرابیں جمع کرتے۔ ہر بوتل کو، اپنی کپڑوں کی الماری کے سب سے پیچھے رکھنے سے پہلے وہ اسکی تاریخ، اسکو بنانے کا طریقہ، کہاں پر بہترین بنتی ہے، کیسے اور کب پی جانی چاہئے، یہ سب دریافت کر لیتے۔ آٹھویں کلاس میں اوّل آنے پر ابّا نے مجھے بیس جلدوں کا انسائیکلوپیڈیا انعام دیا تھا۔ اسے وہ خود بڑے شوق سے دیکھا کرتے تھے کیوں کہ اس میں دنیا بھر کی شرابوں کے اوپر ایک تفصیلی باب تھا۔
یہ ساری بوتلیں ایک ایک کرکے ۳۱دسمبر کی شام کو نکلتیں اور کھلتیں۔ کچھ سال ہمارے خالو میجر جنرل حسنین دلّی میں پوسٹڈ رہے۔ اس سال تو نیو ائیر کی پوچھئے مت! پلاسٹک کی نئی بالٹی خریدی جاتی جس میں ملٹری کینٹین سے آئی رم کی بوتلیں، لائم کارڈئل، ایپل جوس، چینی اور نیبو-سنترے کے چھلکوں کے ساتھ بغلگیر ہوتیں۔ امّی کی سب سے بڑی کفگیر سے اس پنچ کو گھنٹوں چلایا جاتا۔پھر رنگین کاغذ سے وہ بالٹی سجائی جاتی اور حوض خاص کی چھوٹی سی کھانے کی میز کے بیچ و بیچ اسکا آسن جمتا۔ پورے کمرے میں ڈوریاں باندھی جاتیں جن پر دنیا بھر سے ابّا کو آئی نئے سال کی مبارکباد کے کارڈ ٹانگے جاتے۔
شام سے لوگ آنا شروع ہوتے۔ گیارہ بجے تک کمرہ کھچا کھچ بھر جاتا۔ شعر و شاعری، لطیفوں، قصوں اور لیفٹسٹ نقطہ نظر کے مزید مسئلوں کا دور چلتا۔ پونے بارہ بجے ابّا ساری روشنیاں بجھا دیتے اور امّی سات آٹھ موم بتیاں جلا دیتیں -محبت، رفاقت، دوستی، خواہشوں اور امیدوں کی شمعیں۔ پوری جھمکتی ہوئی محفل چند منٹ خاموش ہوکر نئے سال کا انتظار کرتی۔ نیا سال جس میں اس عہد کے میر، کبیر، میرا، غالب چمکیں گے آسمان پر اپنے، نیا سال جب امید آئیگی، نیا سال جب ملک ہمارا اونچا ہوگا۔ دور بہت دور سہی، آ جاتی تم اک رات کو تھوڑی دیر کو۔
ظاہر ہے کہ ابّا کو دور دور تک مذہبی روایتوں سے کوئی لگاؤ نہیں تھا۔ ایک بار ہماری چھوٹی پھو پھی، جو ابّا سے کوئی دو برس بڑی تھیں، پاکستان کا سفر پورا کرکے لکھنؤ لوٹنے سے پہلے ہمارے یہاں دلّی میں رکیں۔ سفر بخیریت پورا ہونے کے شکرانے کے طور پر گھر میں قرآن خوانی رکھی گئی۔ امّی تو خیر نند کی خدمت میں لگی رہیں مگر ابّا نے گھر میں ہونے والی چہل پہل میں کوئی دل چسپی نہیں دکھائی۔ شام کو کھانے پر ابّا ذرا شرارت میں بولے،’’یہ کیا چھوٹی باجی، کچھ اچھے پکوان بناکر شکر ادا کرتیں۔ ایک مولوی بلوا لیا، جسکا تلفظ تک درست نہیں تھا۔‘‘ چھوٹی پھوپھی پہلے سے ہی ابّا کی اس بے رخی سے چڑھی بیٹھی تھیں۔ بگڑکر بولیں،’’ تو بنّے میاں، آپ پڑھ دیتے کلام پاک۔ پندرہ سولہ سال کی عمر میں تو آپ تڑکے سویرے اذان دیا کرتے تھے، پانچ وقت کی نماز پڑھا کرتے تھے اور حافظ قرآن تھے۔ ولایت جا کر نہ جانے کیا آپکو ہو گیا!‘‘ہم لوگوں نے ابّا کا یہ روپ کبھی دیکھا نہیں تھا۔میں نے ابّا کی طرف حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا،’’ہیں ابّا! آپ ایسے تھے؟‘‘
ابّا سنجیدہ ہو گئے،ہونٹوں سے سگریٹ نکالتے ہوئے بولے،’’یس، آئی واس اے کمپلیٹ ایڈیٹ۔‘‘
مذہب، ابّا کی نظروں میں وہ نشہ تھاجس کی لت سماج کو اسلئے لگائی جاتی ہے تاکہ وہ اپنے حالات کی اصلی وجہ ڈھونڈھنے کی کوشش نہ کرے۔ کیونکہ جو کہیں اسے وجہ مل گئی تو وہ اسے مٹانے کی کوشش کریگا۔ اور اس کوشش میں، جو اسکے حق کی لڑائی ہے، وہ سرمایہ داروں اور سامراجیہ وادی طاقتوں کا تختہ پلٹ سکتا ہے۔ یہ انکا اپنا عقیدہ تھا جسے انھوں نے زندگی بھر قائم رکھا۔ اسکے باوجود انھوں نے اپنے خیالات کبھی کسی پر حاوی نہیں ہونے دئے۔ خاص کرکے امّی پر انھوں نے کبھی کوئی پابندی لاگو نہیں کی۔
امّی محرم کی مجلسوں میں بھی جاتیں، مرثیہ بھی پڑھتیں، کوئی پریشانی ہو تو دعائیں منتیں بھی مانتیں، پریشانی لمبی کھنچ جائے تو حضرت نظام الدین کی درگاہ پر بھی ہو آتیں۔ امّی اور مذہب کا عجیب رشتہ تھا۔ اﷲ ایک ہے اور اسکی کوئی شکل و صورت نہیں ہے- اس بات پر انھیں پورا یقین تھا۔ پھر بھی انھیں خواب میں اکثر کرشن جی اور سرسوتی جی دکھائی دیتے۔ کرشن جی کا تو خیر سمجھ میں آتا ہے۔ انھیں خوبصورت اور ذہین دونوں طرح کی عورتیں پسند تھیں۔ کم سے کم رادھا اور للتا سکھی سے ایک ساتھ عشق سے تو ایسا ہی ظاہر ہوتاہے۔ امّی دیکھنے میں خوبصورت بھی تھیں اور ذہین بھی۔مگر سرسوتی جی کا یوں بلا وجہ ڈولنا ذرا حیرانی کی بات ہے۔ وہ تو کافی سنجیدہ ہستی ہیں۔ ہاں، یہ بات ضرور ہے کہ انکی مصروفیت مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے۔ بے چاری جب خالی بیٹھے بیٹھے تنگ آ جاتی ہونگی تو وزیر منزل کے آم کے باغ میں ٹہلنے چلی آتی ہوں گی۔ امّی سے انکی ملاقات اکثر وہیں ہوتی تھی۔
امّی کے یہ خواب ایسٹ مین کلر میں ہوتے تھے۔ سرسوتی ہلکے نیلے رنگ کے لباس میں ہوتیں اور انکی صداقت دیکھئے کہ وہ صبح کی سیر پر بھی چار ہاتھوں میں دنیا اٹھائے رہتیں اور تیسرے میں کتابوں کا پلندہ تھامے رہتیں -شاید اس امید میں کہ بھولا بھٹکا کوئی سنگیت کار یا عالم مل جائے تو اسے آشیرواد دے ڈالیں۔ انکے پیچھے پیچھے لمبی گردن والا دودھیا سفید راج ہنس ہوتا۔ وہ بلا کی خوبصورت تھیں اور کافی ڈھیٹ بھی۔ دیکھئے نا، باغ میں ٹہلنے سے دل نہیں بھرا تو سنگ مرمر کی سیڑھیاں چڑھتی اوپر صدر دروازے تک آ گئیں۔ یہاں پر امّی سے بھینٹ ہوئی تو مسکراتی ہوئی بولیں، ’’تمھارے لئے سونے کے جھمکے بھیجے تھے۔ ملے یا نہیں؟‘‘ امّی کے انکار میں سر ہلانے پر بولیں۔ ’’ذرا انتظار کرو، ملیں گے۔‘‘ تین دن بعد جب امّی کی ایک کہانی کو پانچ سو روپیہ انعام ملے تو امّی نے فوراً اس انعام کو سرسوتی جی کے بھیجے ہوئے جھمکے مان لیا۔ علم اور گیان کی دیوی کا ذخیرۂ الفاظ اتنا کم کیوں تھا کہ وہ روپیوں کو جھمکے کہہ رہی تھیں۔ ایسا نہ تو کوئی ان سے پوچھتا، نہ وہ خود اس پر غور کرنا ضروری سمجھتیں۔
بار بار کی ملاقاتوں سے امّی اور سرسوتی جی میں کافی قربت ہو گئی۔ سن اکہتر میں تقی حیدر صاحب نے ، جنھیں ہم بہنیں تقی بھائی کہا کرتی تھیں اور جو خود ہمارے والدین کو امّی اور ابّا کہتے تھے، شادی کرنے کا فیصلہ کیا۔ امّی اس شادی سے خوش تھیں یا نہیں، کہا نہیں جا سکتا، کیونکہ جب میں نے ان سے پوچھا تو بس اتنا جواب ملا۔ ’’سونا، جانے کسے اور آدمی جانے بسے۔‘‘ مگر اتنا ضرور تھا کہ وہ اس بات سے بہت خوش تھیں کہ دلہن کا نام سرسوتی ہے۔ بعد میں ہم سب تو انھیں چھوٹا کرکے سرس بھابھی بلانے لگے، مگر امّی انھیں سرسوتی ہی پکارا کرتیں۔
امّی نے سرسوتی کی پوجا نہ کبھی کی، نہ کہیں اور ہونے والی اس طرح کی پوجا میں کبھی شامل ہوئیں۔ بسنت پنچمی پر لگنے والے میلوں میں جانا انھیں بہت پسند تھا۔ سن ۶۴ء میں ہم لوگ، یعنی امّی اور میں ابّا کے پاس دلّی آ گئے۔ رہائشی مقام بدل لینے سے جہاں زندگی میں بہت سی خوشنما چیزیں شامل ہوئیں، وہیں روزمرہ کی زندگی میں رنگینی بھرنے والے چھوٹے چھوٹے میلے جن میں زیادہ تر مٹی، لکڑی اور بانس کی بنی ہوئی چیزیں ملتی تھیں، غائب ہو گئے۔ امّی پھر بھی دیوالی کی سجی ہوئی دکانیں دیکھنے بہت سے بازاروں کے چکر لگاتیں اور مٹی کی چیزوں کی دکانوں پر سرسوتی کی مورتی ڈھونڈتیں۔ دلّی کے کمہاروں سے انھیں یہ شکایت رہتی تھی کہ وہ چار ہاتھ کی دیوی کو کچھ بھی تھماکر اسے سرسوتی کہہ دیتے ہیں۔ کئی بار دکاندار سے انکی بحث ہوتی-’’یہ دنیا تھوڑی ہے، یہ تو سنسار ہے!‘‘ ’’اور یہ کیا بھلا؟ اس مورتی میں تو ہنس ہے ہی نہیں۔‘‘
حد تو تب ہوئی جب انھیں ایک دکان پر سرسوتی جی موڑ پر بیٹھی نظر آئیں۔ یہ تو غضب تھا! کچھ تو کرنا پڑیگا۔ اگلے اتوار، بڑے تڑکے سویرے، مجھے ساتھ لئے وہ شاہ پور گھاٹ کی طرف چلیں۔ ابّا کو ٹہلنے کا شوق تھا، سو وہ بھی ساتھ ہو لئے۔ نئی دلّی، آپکو معلوم ہی ہوگا۔ بہت سارے گاؤں کو ملاکر بسائی گئی تھی اور ان گاؤں کو لال ڈورے میں محفوظ رکھا گیا تھا۔ شاہ پور جٹ انھیں میں سے ایک گاؤں ہے جسکی آدھی سے زیادہ آبادی مسلمان، ان پڑھ اور بے حد غریب تھی۔ یہاں کے زیادہ تر لوگ کمہار تھے۔ حوض خاص اور آس پاس کے علاقے میں انھیں کی بنائی صراحیاں، مٹکے، گلّک، جھانوے اور دیوی دیوتا بکتے تھے۔جس وقت ہم لوگ حوض خاص اور شاہ پور کے بیچ کے کیکر کے جنگل کو پار کرتے ہوئے گاؤں میں داخل ہوئے، بھٹیاں ٹھنڈی ہو چکی تھیں اور کمہارنیں ان میں سے برتن نکال کر رنگنے کے لئے رکھ رہی تھیں۔ ہوا میں جھلسی ہوئی مٹی کی عجیب سی مہک تھی جو میں نے پہلے کبھی نہیں جانی تھی۔ ابّا کی طرف دیکھا تو وہ مسکرائے اور بولے، ’’یہ مٹی کی خوشبو ہے، آگ میں تپی ہوئی دھرتی کا ایک نیا روپ۔‘‘
امّی وہاں پہنچیں جہاں سوکھی ہوئی مورتیاں رنگ چڑھاکر دوبارہ سکھائی جا رہی تھیں۔ ایک نہایت بوڑھا کمہار کل رات سے رکھی مورتیوں کا معائنہ کر رہا تھا۔ ہم کو کوئی بڑا گاہک سمجھ کر پاس آیا۔
’’بھیا، ذرا مجھے ایک اچھی سی سرسوتی جی کی مورتی دینا۔‘‘ امّی کی فرمائش پر بوڑھے نے لپک کر ایک اوست ماپ کی مورتی اٹھا کر بڑھائی۔ مورتی کئی رنگوں کے لباس پہنے، لال وینا تھامے، گلابی کمل پر ٹیک لگائے، سترنگی مور پر سوار تھی۔ امّی کو اور کیا چاہئے تھا۔’’بھیا، سرسوتی جی تو سفید ہوتی ہیں اور یہ بھلا مور پر کب سے بیٹھنے لگیں؟‘‘
کمہار ایک پل کو گہری سوچ میں ڈوب گیا، پھر کچھ ہچکچاتے ہوئے بولا، ’’بات یہ ہے بی بی جی، سفید سادی مورتیاں تو آجکل کوئی خریدتا نہیں ہے اور ہنس تو سفید ہی ہوتا ہے ۔ اسے تو رنگین کیا نہیں جا سکتا، تو مور ہی ٹھیک ہے۔ جو بکے ہی نہ، وہ بھگوان کس کام کا؟‘‘یہ لاجک سنکر امّی تو سنجیدہ ہو گئیں مگر ابّا نے مسکراتے ہوئے جیب سے بٹوا نکال کر پانچ روپئے میں وہ مورتی خرید لی۔
شاہ پور جٹ سے واپسی میں ابّا نے میری، خدا، گاڈ یا بھگوان سے ، جو بھی کہئے، پہلی سنجیدہ واقفیت کروائی، ’’خدا، انسان کی سب سے بڑی ایجاد ہے۔ اس ایجاد کے سہارے وہ ہر سوال کا آسان راستہ پا لیتا ہے، ’اﷲ کی مرضی ہے‘۔ جب ایجاد اس کی اپنی ہے تو ظاہر ہے کہ ضرورت کے حساب سے وہ اس کا روپ بھی بدلتا رہتا ہے۔ جوشؔ ملیح آبادی کی ایک رباعی کے دو مصرعے ہیں:
اے بندۂ حق بات کو میری پہچان انسان حقیقت ہے اور اﷲ گمان
ابّا کے انتقال کے کئی سالوں بعد انکا ایک گیت میرے ہاتھ لگا۔ یہ گیت انھوں نے ۲۵یا ۲۶سال کی عمر میں آکسفورڈ میں لکھا تھا اور اپنی نظموں کے مجموعے ’پگھلا نیلم‘ میں شامل نہیں کیا تھا۔ اس گیت کا ایک بند اس طرح سے ہے:
تعمیریں ہیں، خیراتیں ہیں تیرتھ اور حج بھی ہوتے ہیں
خون کے دھبّے دامن سے یوں دولت والے دھوتے ہیں
کیوں دان کے ٹکڑے کھائیں ہم، سارا سنسار ہمارا ہے
مزدوروں نے ملکوں ملکوں جھنڈا لال اٹھایا ہے
جو بھوکھا تھا جو ننگا تھا اب غصہ اس کو آیا ہے
سارا سنسار ہمارا ہے، سارا سنسار ہمارا ہے
شاہ پور گھاٹ سے لوٹتے ہوئے مجھے ناستکتا کا پہلا سبق پڑھانے کے وقت انکی عمر ۶۶سال کی تھی، برابری کے فلسفے پر انھوں نے ۲۶سال کی عمر میں جو عقیدہ تھا وہ ۶۶سال کی عمر میں بھی اتنا ہی مضبوط اور اعتماد کے ساتھ قائم تھا۔
ایک بار حوض خاص کے اس گھر میں فراقؔ صاحب بھی آکر ٹھہرے۔ ان کے آنے کی خبر پا کر امّی پر جیسے صفائی کا جنون سوار ہو گیا۔ باورچی خانے سے لیکر اپنی الماری تک سب کچھ الٹ کر پھر سے ترتیب سے لگایا۔کیوں کہ فراقؔ صاحب، زیادہ تر وقت ابّا کے کمرے یعنی بیٹھک میں گذارنے والے تھے، اسلئے یہاں بھی جم کر جھاڑ پونچھ ہوئی۔ اس صفائی سے میں اور گھر میں کام کرنے والی لڑکی رسّو بھی نہیں بچ پائے۔ فراقؔ صاحب کے آنے کے ایک دن پہلے ہم دونوں کو دو بار نہلوا دیا گیا۔ ہم دونوں کو کانپتے ہوئے شام کی ڈھلتی دھوپ میں بال سکھانے کی کوشش کرتے ابّا نے دیکھا۔ کچھ دیر عادتاًچپ رہے، پھر باورچی خانے میں جھانک کر امّی سے بولے، ’’ارے رضیہ، فراقؔ کے بارے میں ایک بات تو تمھیں کہنا ہم بھول ہی گئے۔۔۔‘‘ امّی کے چہرے پر گھبراہٹ کی ایک لہر دوڑ گئی۔ اب یہ نہ جانے کیا بھول گئے۔ جھنجھلا کر بولیں، ’’تو کہو نا! اتنا بڑا پس منظر کیوں کھینچ رہے ہو؟‘‘
ابّا اطمینان سے صدری میں ہاتھ ڈالتے ہوئے بولے، ’’در اصل یہ ہے کہ فراقؔ صاحب۔۔۔۔‘‘
بیچ جملے کی خاموشی سے امّی چڑھ گئیں اور جھنجھلا کر بولیں، ’’اﷲ! کہہ چکو نا!‘‘
’’․․․․․کہتے ہیں بھائی․․․․․فراقؔ صاحب اصل میں شاعرہیں۔‘‘
’’یہ کون نہیں جانتا؟ ‘‘ امّی نے پوچھا۔
’’او! ہمیں لگا تم انھیں میونسپلٹی کا انسپکٹر سمجھ رہی ہو۔‘‘امّی نے کھسیاکر جھاڑ پونچھ روک دی اور ابّا نے ہم دونوں لڑکیوں کو اشارہ کیا ، ’’اندر چل کر دونوں ایک ایک چمچ برانڈی پیو۔ نہیں تو کل ملوگی فراقؔ صاحب سے ناک سڑ سڑ کرتی ہوئی۔‘‘
فراقؔ صاحب ایک عجیب و غریب شخصیت تھے۔ جہاں بیٹھتے، محفل کی جان ہو جاتے۔ شعر تو سناتے ہی، حاضر جوابی اور لطیفوں سے محفل لوٹ لیتے۔ مشاعروں میں بھی شعروں کے بیچ بیچ میں، نہ جانے کب اور کیسے سوچے ہوئے خاکے سناتے جاتے۔ ایسا سماں باندھتے کہ کے درباری بھی ان کے آگے پانی بھرتے۔ سب کے بعد مائیک پر آتے اور سارے لوگ انکے شعروں اور واقعوں کو سن کر جھوم جھوم اٹھتے۔ پھر وقت کیسے پنکھ لگاکر اڑ جاتا، پتہ ہی نہیں چلتا۔
ایسی ہی ایک محفل اس شام کو سجی، جب فراقؔ صاحب گھر پر ٹھہرے تھے، اور فراقؔ صاحب نے نادانستہ ہی میرے لئے مذہب کے تنگ دائرے میں تخلیق کی پوری ایک دنیا کھول دی۔ ہوا یہ کہ جب فراقؔ صاحب کے سامنے شمع آئی، گھر پر ہونے والی محفلوں میں امّی -ابّا نے پرانی روایت کو زندہ کیا تھا۔ تو فراقؔ صاحب نے سب سے پہلے تو اپنا گلاس اٹھایا۔ ا س میں آدھے سے کچھ زیادہ وہسکی کو بڑے غور سے دیکھا، پھر ایک گھونٹ میں اسے گلے سے نیچے اتارتے ہوئے بولے، ’’لو بھیا، آ گئے واپس۔ اب یوں منہ پھاڑے کیا تاک رہے ہیں۔ پوچھئے کہاں سے؟‘‘۔۔۔۔۔۔۔محفل میں سے کسی نے پوچھا، ’’کہاں سے فراقؔ صاحب؟‘‘
’’ارے انہائی سے جہاں سب کو جانا ہے، ہم پہلے ہو آئے۔ بھئی بڑے احمقوں کی محفل ہے۔ وہاں یعنی جنت سے۔ اماں جنت سے ہوکے آ رہے ہیں۔ ․․․پوچھئے گا نہیں، کیا دیکھا؟‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امّی کی سرسوتی جی میں دلچسپی یا فراقؔ صاحب کا خدا کا ایسا انسانی روپ تو سمجھ میں آتا ہے، غور طلب یہ ہے کہ ہندو دکانداروں یا کلاکاروں نے امّی سے پلٹ کر کبھی نہیں کہا کہ آپ تو مسلمان ہیں آپ کون ہوتی ہیں دخل دینے والی؟ ہمارے دیوی دیوتا ہنس پر بیٹھیں یا مور پر، آپکو کیا؟ یا فراقؔ صاحب کو قہقہے لگاتے ہوئے مسلمان شاعروں نے کبھی یہ کیوں نہیں یاد دلایا کہ خدا تو ایک غائبانہ ہستی ہے جس کا نہ کوئی وجود ہے نہ شکل و صورت، پھر یہ خداکی خدائن کیوں کر آئیں۔ یہ شریعت میں دخل اندازی ہے اور وہ بھی ایک ہندو کی۔‘‘
آج کے دور میں جیتے ہوئے، جب حسین جیسے فنکار کو ایک سرسوتی کی تصویر بنانے پر طرح طرح کی ملامتیں اٹھانی پڑ رہی ہیں اور روملہ تھاپر جیسی تاریخ داں کو اکبر کی انتظامی قابلیت کی تعریف کرنے کے لئے ہر سرکاری عہدے سے ہٹایا جا چکا ہے، تو خیال آتا ہے کہ وہ مسلمان کیا ہوئے جنھیں ہندوؤں کی دیوی دیوتاؤں میں روپک ڈھونڈھنے کا شعور تھا، جو پھاگ میں رادھا اور کرشن کی چھیڑ چھاڑ کے گیت گاتے تھے اور بس دیوالی کی رات کو کاجل پارتے تھے؟ اور وہ ہندو کیا ہوئے جن کے تاشوں کی چمک اور شربت کے پیاؤ کے بغیر تعزیے نہیں اٹھتے تھے؟ انسانیت کی وہ روایتیں، جو ایک دوسرے کو سمجھ کر زندگی سے رنگینی بٹورنا سکھاتی تھیں۔ جو خود پر اور ایک دوسرے پر ٹھٹھولی کرنے کو مذہبی اصولوں پر وار نہیں مانتی تھیں اور مل کر ہنسنے یا خوش ہونے کا اپنا بنیادی حق اور زندگی کی طرف اہم فرض گنتی تھیں، کہاں کھو گئیں؟ آج جب فرقہ پرست طاقتیں ہمیں بار بار ان تنگ دائروں میں سمیٹ دینے کی کوشش کر رہی ہیں، جن کے وجود کو ہم نے کبھی نہیں مانا، تب اس دور کے بارے میں رک کر سوچنا ضروری ہے۔ کیا وہ بس ایک دور تھا جسے ہر فانی چیز کی طرح گذر جانا تھا سو گذر گیا اور اپنے پیچھے کچھ خوشنما یادوں کے سوا کچھ نہ چھوڑ گیا؟ یا وہ ہماری نسل کی کمزوری تھی کہ ہم اپنی بیش قیمتی وراثت کو سنجو کے نہ رکھ پائے؟
اگلے دن پھر شام کو گھر پر مشاعرے کا انتظام تھا۔ جھٹ پٹے کے وقت بہت سے شاعر اکٹھے ہوئے جن میں غلام ربانی تاباںؔ، رفعت سروشؔ، سلام مچھلی شہری، سردار جعفری اور نیاز چچا کے علاوہ اور بھی بہت سے لوگ موجود تھے۔ امّی نے گھر کے سامنے کے دالان میں مشاعروں کا انتظام کر رکھا تھا۔ شعروں، لطیفوں اور تذکروں کے دور کے ساتھ شراب کا دور بھی بین بین تھا۔ کوئی نو بجے فراقؔ صاحب کی طبیعت کا لحاظ کرتے ہوئے امّی نے اندر کے کمرے میں کھانا لگا دیا۔ سردار (جعفری) چچا، اس محفل میں ساقی کا رول ادا کر رہے تھے۔ کھانے پر جانے سے پہلے انھوں نے بڑے احتیاط سے وہسکی کی آخری بچی بوتل ایک کرسی کے نیچے رکھ دی۔
کھانے سے سب لوگ جلدی نبٹ لئے، کیونکہ فراقؔ صاحب نے ابھی تک کچھ نہیں سنایا تھا اور ان کو سننے کی للک سب کے دل میں تھی۔سردار چچا نے بے حد مستعدی دکھاتے ہوئے سب سے پہلے ہاتھ دھو لئے اور شعروں کا دور دوبارہ شروع ہونے سے پہلے، سب کو ایک ایک جام تقسیم کر دینے کی نیت سے باہر حفاظت سے رکھی ہوئی بوتل کی طرف بڑھے۔ جگہ پر رکھی بوتل غائب تھی۔ سردار چچا سب سے پہلے امّی سے مخاطب ہوئے۔ ’’رضیہ آپا، ہم کھانے سے پہلے یہاں ایک بوتل رکھ گئے تھے، اب مل نہیں رہی ہے۔ آپ جانتی ہیں کہاں ہو سکتی ہے؟‘‘
’’لو بھلا! شعر سن رہے ہیں، کھانا دیکھ رہے ہیں،ہمیں آپ کی بوتل کی بھلا کیا خبر؟‘‘
ٹکا سا جواب پا کر سردار چچا ذرا گھبرائے۔ دو ایک اور لوگوں سے دریافت کیا اور پل بھر میں اطمینان سے شعر سننے والوں کی محفل بے قراری سے کھوئی ہوئے بوتل ڈھونڈھنے لگی۔ گاؤ تکیہ، کشن الٹے گئے۔ کرسیاں ،میز کھسکائی گئیں، حد تو یہ کہ زمین پر بچھے گدوں کے نیچے بھی تلاشی ہوئی۔ موجودہ لوگ، زیادہ تر بائیں بازو والے یعنی سرکار کے مخالف لوگوں میں سے اور کبھی نہ کبھی اپنے یا دوستوں کے گھروں پر پولس کی تلاشی جھیل چکے تھے۔ یقین مانئے، تلاشی میں کوئی کوتاہی نہیں برتی گئی۔
اس سب گڑبڑ کے بیچ فراقؔ صاحب باہر نکل آئے۔ معاملے کی سنگینی سے انھیں بھی واقف کرایا گیا ۔ ایک پل آنکھیں بند کرکے انھوں نے سوچا، پھر آنکھیں پھاڑ کر سب کو ڈرا دینے والے اپنے خاص انداز میں بولے ، ’’اماں، آپ لوگ ایک بوتل کے غائب ہونے کی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔ دیکھتے نہیں ایک آدمی بھی تو غائب ہے؟‘‘سب کو کھانے میں مشغول دیکھ کر نیاز چچا بوتل لیکر رفو چکر ہو گئے تھے۔ فراقؔ صاحب نے زور سے قہقہہ لگایا اور بولے، ’’اب منہ کیا تاک رہے ہیں جناب؟ آیئے، اچھے شعر سن کر بھی کبھی کبھار جھوما جائے۔‘‘
٭٭٭
’’اپنی ذاتی زندگی میں کبھی کبھار میں مذہبی امور میں کسی حد تک شوخ بھی ہوجاتاہوں۔ بعض عقلی باتیں
دل کو لگتی ہیں لیکن خدا جانے کعبہ شریف کی دیواروں میں کیا بھید تھے کہ کعبہ کاسامنا ہوتے ہی میری
ساری شوخیاں اورعقلی باتیں دھری کی دھری رہ گئیں۔ پھر میرے ساتھ وہاں ایسے ایسے اسرار رونما
ہوئے اور اتنے انوکھے روحانی تجربے ہوئے کہ انہیں پوری طرح بیان کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ ‘‘
(سفر نامہ سوئے حجاز از حید ر قریشی سے اقتباس )