ایلاف کا دماغ بھک سے اڑ گیا تھا اس سوال پہ۔
“کیا کہا آپ نے؟” ایلاف کو یقین ہی نہیں آیا تھا۔
اذلان شاہ کانوں کا اتنا کچا بھی ہو سکتا ہے۔
” ہم نے پوچھا’سلمان کون ہےایلاف بی بی؟” اذلان شاہ نے اپنا سوال دوبارہ دہرایا تھا’سپاٹ سے انداز میں وہ بے مہر شخص لگ رہا تھا۔
“جس سے آپ نے سنا ہے،اسی سے پوچھ لیتے نا آپ کومیرے پاس نہ آنا پڑتا۔”ایلاف چٹخ کے بولی۔
” آپ کو کیا لگتا ہے ہم نے پوچھا نہیں ہوگا؟ہم آپ سے صرف تصدیق چاہتے ہیں تاکہ فیصلہ کرنے میں آسانی رہےایلاف بی بی۔ ” اذلان شاہ کا انداز بے حد بے لچک تھا۔
” شک کر رہے ہیں آپ مجھ پہ؟” ایلاف نے صدمہ سے پوچھا۔
” شک!ہمارے اور آپ کے بیچ ابھی تو اعتبار کا پل بننا شروع ہوا تھا مگر آپ کی اصلیت نے سب پاش پاش کر دیا ہے۔” اذلان شاہ کو بھی کچھ صدمہ نہ تھا۔
ایلاف بےیقینی سے اسے دیکھتی رہی،یہ اذلان شاہ ہی تھا نا!
” ایک شوہر اور ایک مرد کیلئے اس سے بڑھ کر شرمندگی کا مقام اور کیا ہوگا جب کوئی اس سے آ کے کہے کہ اس کی بیوی اس سے خوش نہیں،اس کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی، اسے آزادی چاہئے تاکہ وہ اپنی پسند سے زندگی گزار سکے۔ہم نے آپ سے پہلے ہی کہا تھا ایلاف بی بی کہ نہیں رہنا چاہتیں تو نہ رہیں مگر اب اس مقام پہ جب آپ کو دنیا اذلان شاہ کی بیوی کے نام سے جانتی ہے تو آپ اب اپنے راستے الگ کرنا چاہتی ہیں۔پیغام بھی بھیجا تو اپنے دعویدار کے ہاتھوں!” اذلان شاہ پھٹ پڑا تھا۔
اور ایلاف!اس کا بھی دماغ گھوم گیا تھا۔
اس کی پرانی زندگی کبھی اس کا پیچھا نہیں چھوڑے گی۔یہ حوالہ قبر تک اس کے ساتھ جائے گا۔ان پرانی گلیوں سے ہمیشہ اسے ذلت کے ٹوکرے ملتے تھے اور آج بھی ایسا ہی ہوا تھا۔انہی گلیوں کے ایک رہنے والے نے،ایک مکین نے ایک بار پھر اس کیلئے ذلت کی سوغات بھیجی تھی جو ایلاف کی چار ماہ کی ریاضت کو بیکار کر گئی تھی۔
“ان گلیوں سے مجھے ہمیشہ رسوائیاں ملیں ہیں اور اب بھی۔۔۔۔میں نے آپ سے کہا تھا میں وہاں دوبارہ نہیں جانا چاہتی مگر آپ کے کہنے پہ گئی تھی میں وہاں،وہیں رابعہ باجی کے گھر بھی چلی گئی تھی۔ مجھے پتا ہوتا کہ ان کے گھر جانا میری زندگی میں ایک بار پھر زہر گھول دے گا تو میں کبھی نہیں جاتی۔اذلان شاہ آج ایک بات کلئیر کر لیتے ہیں۔میں روز روز آپ کو صفائیاں نہیں دے سکتی۔ایک سلمان تھا،ایک ثاقب بھی تھااور بھی پتا نہیں کتنے ہوں گے۔” ایلاف غصے سے بولتے بولتے ہانپ گئی تھی۔
اذلان شاہ لب بھینچے خاموشی سے سنا گیا۔
” وہ سلمان’ رابعہ باجی کا دیور ہے۔اس دن جب میں ان کے گھر تھی تو میں نے ان سے ہی بات کی تھی۔اس نے ہماری باتیں سنی ہیں وہ بھی ادھوری اور اپنے مطلب کا نتیجہ نکال لیا۔کھٹکے کی آواز پہ باجی اندر گئیں تھیں اور میں بیوقوف سمجھی وہ بلی ہے مگر وہ تو سلمان نام کا ایک ناگ نکلا جو میری زندگی مین زہر گھولنے آیا ہے۔ایک بات کان کھول کے سن لیں آپ،میرا ان غیرت سے عاری مردوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اس رات وہ سب وہاں تھے میری ہم سفری کے خواہ’ان میں سے ایک بھی آگے نہیں بڑھا تھا صرف آپ تھے،آپ اذلان شاہ جنہوں نے مجھے اپنے نام کی چادر دی اور آج کیا آپ اسے میرے سر سے اتارنا چاہتے ہیں؟آپ کو ہوا کیا ہے؟کیا کوئی بھی آپ کے پاس آ کے کہے گا کہ وہ آپ کی بیوی سے محبت کا دعویدار ہے۔برائے مہربانی پیر صاحب آپ اسے چھوڑ دیں تاکہ میں اسے اپنا سکوں۔ہوا کیا ہے آپ کی غیرت کو؟آپ نے اس کا منہ کیوں نہیں توڑا۔”ایلاف نے سیدھا سیدھا اسکی غیرت کو جوش دلایا تھا۔
” ہم اور اس کا منہ توڑتےجو اتنے یقین سے وہ ساری سچائیاں اور حقائق بتا رہا تھا جو ہمارے اور آپ کے بیچ میں تھیں۔ہم فرشتہ نہیں ہیں ایلاف جو ہمیں پتا ہوتا کہ وہ ادھوری بات پہ فسانہ ہمیں سنا رہا ہے۔ہماری جگہ کوئی بھی ہوتا کیا اس کی غیرت گوارا کرتی کہ اس کی بیوی اپنے دکھ سکھ اپنے شوہر کے بجائے کسی اور سے کر رہی ہے۔” اذلان نے اس سے الٹا سوال پوچھا تھا۔
وہ ساری باتیں جو اس گھر کے ملازمین تک نہیں جانتے تھے وہ شخص سلمان جانتا تھا۔
“اذلان ایک بات آپ جان لیں۔آپ سے پہلے میری زندگی میں نہ کوئی آیا ہے نہ آئے گا۔میرے پاس آپ کو یقین دلانے کیلئے کوئی گواہی نہیں ہے،کرنا ہے تو کریں،نہیں تو جو مرضی ہے کریں مگر اب میں اپنے کردار پہ کوئی بات برداشت نہیں کروں گی۔” ایلاف بپھرا ہوا طوفان بنی ہوئی تھی۔
آگ لگانی ہے ایسے ساتھ کو جہاں ہر وقت صفائیاں دینی پڑیں۔
” اور آپ اگر رابعہ کے گھر گئیں تھیں تو ہم سے پوچھنا تو دور کی بات بتانا بھی گوارا نہیں کیا؟” اذلان کو اس سارے فساد کی جڑ ایلاف کا رابعہ کے گھر جانا لگ رہا تھا۔
” کیا؟اب میں سانس بھی آپ سے پوچھ کے لوں۔کیا میرا اپنے اوپر کوئی حق نہیں؟” ایلاف کو لگا آج سے اس کے سانس لینے پہ بھی پابندی ہوگی۔
پیر اذلان شاہ آج صحیح معنوں میں روایتی مرد لگ رہا تھا۔
” فضول بات مت کریں۔اگر مرد کو خدا نے عورت کا کفیل بنایا ہے تو کسی وجہ سے ہی بنایا ہے۔آپ ہم سے پوچھ لیتیں یا بتا دیتیں ہمارے علم میں تو ہوتا پھر یہ سارا گھڑاک کھڑا ہی نہ ہوتا۔” اذلان شاہ کو وہی قصور وار لگی تھی۔
” آپ نی غلطی کو قدرت کے فیصلوں میں نہ لپیٹیں پیر صاحب۔اگر اتنا ہی مانتے ہیں تو جانتے ہیں کہ تہمت کی سزا کیا ہوتی ہے؟ جا کے پکڑیں اس رزیل انسان کو جس نے مجھ پہ تہمت لگائی ہے۔میں پاکباز ہونے کا دعوی نہیں کرتی مگر میرے کردار میں کوئی کھوٹ نہیں ہے۔میں چار ماہ سے آپ کے گھر میں ہوں آج تک آپ کے بغیر گھر سے نہیں نکلی۔صرف ایک بار آپ کے ڈرائیور کے ساتھ اور آپ کی محافظوں کے ساتھ گئی تھی۔اتنا تو آپ جان گئے ہوں گے۔” ایلاف کا بس نہ چلتا تھا وہ اذلان شاہ کو کیسے بتائے۔
“ایلاف پھر بھی آپ کو بتانا چاہئے تھے۔اپنے رشتے کے کچے پن سے ہم دونوں ہی واقف ہیں۔”
” مجھے آپ سے کچھ نہیں کہنا اور جو آپ کا دل کرے،کیجئے!” ایلاف کو غصہ ہی آگیا تھا اذلان کی ایک ہی بات کی رٹ سن کے۔
” ہم جانتے ہیں آپ کو برا لگا ہے مگر ہم بھی کیا کرتے ہمارے نام کی بے قدری ہو اسے بے مول کیا جائے،ہم سے برداشت نہیں ہوتا۔آئی ایم سوری!آئندہ آپ جہاں بھی جائیں،ہمیں علم ہونا چاہئے ہم مزید کوئی اسکینڈل افورڈ نہیں کرسکتے۔وہ بھی اس موڑ پہ جب سارے خاندان کو پتا چل چکا ہے۔ہم آپ کو زندہ دفن تو کرسکتے ہیں مگر آپ کو آزاد نہیں کرسکتے۔”یہ کہتے ہوئے وہ وہی پرانا اذلان لگا تھا ایلاف کو
سرد مہر
اناپرست
اپنے سے ہزاروں میل کے فاصلے پہ کھڑا پیر اذلان شاہ۔
ابھی تو کچھ برف پگھلنی شروع ہوئی تھی۔ابھی تو کچھ اعتبار کے رنگ چڑھنے شروع ہوئے تھے۔
ایسا کیوں ہوتا تھا؟
جب بھی ان دنوں کے درمیان اعتبار کا رشتہ بننے لگتا،شک کا ناگ پھر سے انہیں ڈس لیتا۔
ایلاف کو اپنی زندگی میں شک کا سانپ،سانپ سیڑھی والے کھیل میں موجود اس سانپ کی طرح لگا تھا جو جیت کے قریب کھلاڑی کو بار بار اٹھا کے نیچے پٹخ دیتا تھا۔
اذلان شاہ جا چکا تھا ایلاف نے مزید بنا کچھ کہےلب بھینچ لئے تھے۔
“اسے ہر سانس کی اطلاع بھی اب اذلان کو دینی ہوگی۔” ایلاف کی بدگمانی پھر سر چڑھ چکی تھی۔
میں اگر ہوں اس کی پناہ
میرا دل تو قید نہیں رہا
میرے ہر نفس پہ ہے حق میرا
میں کہاں جاؤں جئیوں کس طرح
نہ مدوا ہے کوئی پیاس کا
نہ سکون پاتا دماغ ہے
جو نہ دھل سکے
جو نہ مٹ سکے میری زندگی میں وہ داغ ہے
______________________________
” پیر سائیں!کھانا لگا دیا ہے آجائیں۔” امیراں نے اذلان کو آندھی طوفان کی طرح باہر جاتے دیکھا تو فورا اس کے پاس آئی۔
اذلان بنا رکے آگے بڑھ چکا تھا۔
” انہیں کیا ہوا ہے؟” امیراں نے حیرت سے سوچا۔
“بی بی! صاحب کھانا کھائے بغیر چلے گئے۔ واپس آئیں گے آپ کیلئے لگاؤں کھانا؟” امیراں ایلاف کے پاس آ گئی تھی۔
“کھانا نہیں زہر لا دو مجھے،اور اپنے پیر سائیں سے ہی جا کے پوچھنا۔خدائی فوجدار ہیں نا خدانخواستہ جو ان کا دل کرتا ہے کرتے ہیں۔جب دل کیا زمین سے اٹھا کے پہلو میں بٹھا لیا،جب دل کیا پھر سے پاتال کی پستیوں میں دھکیل دیا۔” ایلاف نے آدھی بات امیراں سے کی اور آدھی بات سوچی تھی۔
اپنے سوگ میں اس نے اذلان کا سوری سنا ہی نہ تھا۔
” ہیں!” امیراں کو وہ پاگل لگی تھی۔
ابھی تو ٹھیک تھیں یہ۔
” جاؤ یہاں سے۔” ایلاف کا دماغ اس وقت تپتی ہوئی بھٹی بنا ہوا تھا۔
امیراں نے کھسکنے میں ہی عافیت جانی۔
______________________________
” داد شاہ اسے ڈھونڈو وہ ہمیں ہر قیمت پہ چاہئے۔وہ اسی شہر میں ہی ہے،یہ کام جتنا جلدی ہو اچھا ہے۔” اذلان شاہ ڈرائیو کرتے ہوئے داد شاہ سے مخاطب تھا۔
داد شاہ اس کا صحیح معنوں میں
وفادار تھا۔
فون بند کرنے کے بعد اذلان لب بھینچ کے سامنے ونڈ اسکرین کے پار دیکھنے لگا۔
” آپ نے اچھا نہیں کیا۔آپ کو اس کا منہ توڑ دینا چاہئے تھا۔” ایلاف کی باتیں اس کے کانوں میں گونجنے لگی تھیں۔
کشادہ پیشانی پہ سلوٹیں پڑنی لگیں تھیں۔
” تہمت لگانے کی سزا تو آپ جانتے ہیں نامیں پاکباز ہونے کی دعویدار نہیں مگر میرا کردار مضبوط ہے۔آپ اتنا تو یقین رکھتے،میرے پاس اپنی گواہی دینے کیلئے کچھ بھی نہیں ہے۔” ایلاف کا حسرت بھرا لہجہ اس کی سماعتوں میں زندہ تھا۔
آج پہلی بار اذلان شاہ کو اپنے عمل پہ پشیمانی ہوئی تھی۔
وہ لڑکی اس کی بیوی تھی۔ چار ماہ سے اس کی عزت تھی۔
اذلان شاہ کی ذہن کی دہلیز سے وہ بہت سے ان کہے،لمحے چپکے سے اندر آئے تھے۔
وہ ایلاف کا ولیمہ کی رات اسے نتھ اتارنے کو کہنا۔
وہ فجر کے پرنور لمحوں میں اذلان کا ایلاف کو نوز پن پہناناجو اس کی ناک میں بہت شان سے چمکتی تھی۔
جو گواہ تھی!
اس لمحے ان کے دل کی دھڑکنوں کے ساتھ دھڑکنے کی۔
وہ ایلاف کا اس بھیگی رات میں ڈر کے اسے روکنا۔
اس کی پروا کرنا!
وہ ایلاف کا پاکیزہ لمس
پرنور سا قرب
اس کی دھڑکنوں کا شور
“پھر اذلان شاہ تم نے کیوں اتنی جلدی کی؟”اذلان نے اذیت سے آنکھیں بند کرلیں تھیں۔
ندامت کا شدید احساس اس پہ حاوی ہوا تھا۔
اور
تقدیر کا فیصلہ کیا تھا
جھٹکا تو لگتا ہے
جب بندہ حد توڑے
سزا تو ملتی ہے
جب
خطا کی جائے
اذلان نے گاڑی کنٹرول کرنی چاہی مگر ہر بار ہم طاقتور نہیں رہتے۔
ہماری نہیں چلتی
تقدیر کا فیصلہ
ایک زوردار تصادم تھا۔
گاڑی ایک جھٹکے سے ٹکرائی تھی۔
______________________________
“انہیں لگتا ہے وہ اگر نہیں ہوں گے تو ایلاف کچھ کر نہیں سکتی۔نہیں چاہئے مجھے ایسے سہارے جن کی قیمت مجھے اپنی عزت نفس کی صورت میں ادا کرنی پڑے۔اللہ کی دنیا بہت بڑی ہے۔کہیں بھی چلی جاؤں گی مگر یہاں رہ کر اپنی مزید توہین نہیں کرواؤں گی۔ ” ایلاف سوچ چکی تھی۔
اس گھر میں اس کا کچھ بھی نہیں تھا۔
” جب دینے والا ہی اپنا نہیں تواس کی دی ہوئی چیزیں لے کے میں کیا کروں۔” ایلاف الماری کھولے کھڑی اپنی ضرورت کی چیزوں کو دیکھ کے بولی اور الماری کے پٹ بند کرنے لگی تھی۔
تبھی اس کی نظر سامنے کہ شیلف پہ رکھی اذلان شاہ کی چادر پہ پڑی تھی۔
یہ وہی چادر تھی جو اذلان نے اسے اپنا نام دینے سے پہلے دی تھی۔
جب پوری دنیا نے اس کے سر سے چادر چھینی تھی۔
تب وہی تھا جس نے اسے مان دیا تھا۔
اپنا نام دیا تھا!
” بس اعتبار نہ دے سکے اور نہ کرسکے۔” ایلاف اس کی چادر پہ نرمی سے ہاتھ پھیرتے ہوئے یاسیت سے سوچے گئی۔
“درمیاں تیرے میرے جب سے لوگ آنے لگے”
“میں اس کے بعد سے تنہا ہوں اور بے آس ہے تو”
نہ جانے کس احساس کے زیر اثر اس نے وہ چادر اٹھا لی تھی اور الماری بند کردی تھی۔
“اس گھر میں میرا واحد اثاثہ یہی ہے۔”ایلاف بڑائی تھی۔
” بند ہونٹوں پہ میرے ریت جمی جاتی ہے”
“تو میرے پاس ہے پھر بھی میری پیاس ہے تو”
“کہنے کو ہمارا رشتہ دنیا کا سب سے نزدیک ترین اور مضبوط رشتہ ہے لیکن درمیان میں بے اعتباری اور لوگ ہمیشہ آڑے آجاتے ہیں سو کیا فائدہ ایسے رشتے کا اذلان شاہ جس میں اعتبار ہی نہ ہو۔”
ایلاف سوچتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔چادر اس کے ہاتھ میں تھی۔
اس نے اذلان کو یہ چادر کبھی واپس نہیں کی تھی۔ نہ اس نے کبھی پلٹ کے پوچھا تھا۔
ایلاف نے جانے کیلئے قدم اٹھائے تھے۔جب اس کا موبائل بجا جو اذلان نے ہی اسے لے کے دیا تھا۔
نمبر اجنبی نہیں تھا مگر نمبر والا اجنبیوں سے بڑھ کے تھا۔
ایلاف نے فون نہ اٹھانا چاہا مگر پھر
” کچھ تو زادہ راہ ہو آگے کیلئے۔” کا سوچ کے اس نے فون اٹھا لیا تھا۔
دوسری طرف سے جو خبر سنائی گئی تھی ایلاف کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی تھی۔
” نہیں!یہ کیسے ہوسکتا ہے؟” ایلاف کے وجود سے جان ہی نکل گئی تھی۔
” میں نے یہ تو نہیں چاہا تھا۔” ایلاف کا دماغ سن ہوچکا تھا
دوسری طرف داد شاہ تھا۔
” بی بی! آپ جلدی آئیں ہاسپٹل،وہاں جاگیر میں سب کو خبر ہوچکی ہے۔آپ کی ضرورت ہے یہاں۔پیر سائیں آپریشن تھیٹر میں ہیں۔شاہ بی بی روانہ ہوچکی ہیں۔آپ آرہی ہیں یا ان کے ساتھ آئیں گی۔” داد شاہ اسے اذلان شاہ کے ایکسیڈنٹ کی اطلاع دیتے ہوئے بولا تھا۔
ایلاف نے کچھ کہنا چاہا مگر زبان نے ساتھ ہی نہ دیا تھا۔ابھی کچھ گھنٹوں پہلے ہی تو اس نے ہی اذلان شاہ سے کہا تھا۔
” تہمت لگانے کی سزا ملتی ہے تو۔۔۔”
” کیا اذلان شاہ اسی کے لپیٹے میں آگیا ہے۔نہیں ایسا نہیں ہوسکتا!” ایلاف نے نفی میں سر ہلایا تھا۔
کچھ دیر پہلے کی ساری کیفیت اسے بھول چکی تھی۔
امیراں کو بھی پتا چل چکا تھا۔وہ بھاگ کے ایلاف کے کمرے میں آئی تھی جو نیم جان سی اذلان کی چادر سینے سے لگائے زمین پہ بیٹھی تھی۔
اس کے ہاتھ پیر برف ہو رہے تھے۔
” بی بی! ہمت کرو اٹھو۔ایسا نہ کرو۔ڈاکٹر کو بلاؤں۔” امیراں اسے ہلاتے ہوئے بول رہی تھی۔
” ڈاکٹر کو نہیں امیراں،یہ جو درد ہے۔یہ جو کم بختی ہے،اسے کوئی دنیا والا نہیں مٹا سکتا۔میں تمہیں کیسے بتاؤں کہ وہ اپنے سے دور ہزاروں نوری کے فاصلے پہ کھڑا شخص مجھے اپنی انا کے باوجود اتنا عزیز ہوگیا ہے کہ اس کے حادثے کی خبر نے میرے وجود سے جان ہی نکال دی ہے۔” ایلاف نے اذیت سے سوچا تھا۔
” تو واقعی منحوس ہے ایلاف ،ماں باپ کے بعد اب شوہر کو بھی موت کے منہ میں پہنچا دیا۔مجھے رشتے راس نہیں آتے میں اکیلی ہی ٹھیک ہوں۔”
ابھی تو اس رشتے کی نرماہٹ محسوس ہونے لگی تھی اسے۔
وہ اذلان شاہ کا اپنائیت بھرا احساس۔
ہولے سے نوز پن پہناتے ہوئے دھیرے سےشرارت سے اس کی ناک دبا دینا۔
وہ اس کی فکر اور پروا کے عملی مظاہرے۔
وہ اس کا اپنی چادر کا حصار اسے دینا۔
اسے کمبل اوڑھا کے موسم کی شدت سے بچانا۔
وہ کیا کیا یاد کرتی اور کتنا یاد کرتی۔
ایلاف کو ابھی تو محبت کی جان کاری ملنے لگی تھی مگر اس کی یہ سیاہ بختی ہمیشہ آڑے آتی تھی۔
” محبت ہو بھی جائے تو
میرا یہ بخت ایسا ہے
جہاں پر ہاتھ رکھ دوں
وہاں پر درد بڑھ جائے
محبت سرد پڑ جائے”
______________________________
اس منحوس دوپہر کی تاریک شام ہوچکی تھی۔شدت گریہ سے ایلاف کی سبز آنکھوں میں جیسے لہو ٹھر گیا تھا۔
ایلاف کا دل اور زبان محو مناجات تھا۔ وہ اپنے کمرے میں ہی تھی۔
وہ اسپتال جانا چاہتی تھی مگر اسے شاہ بی بی کا انتظار تھا تاکہ کچھ تو ہمت ملے۔
کیسے دیکھوں گی اس شخص کو جو اتنا توانا اور مضبوط ہے۔
لیکن اب!
لہو میں ڈوبا ہوا،پٹیوں میں جکڑا ہوا ہے
اور اگر جو کوئی بری خبر ہوئی
اس کے بخت کی سیاہی اذلان شاہ کو کھا گئی تو؟
ایلاف کا دل بند ہونے لگتا تھا۔
اسے کسی پل قرار نہ تھا۔
شاہ بی بی تو پھر ماں تھیں وہ پہلے اسپتال گئی تھیں پھر گھر آئیں تھیں۔
شاہ بی بی کی آمد کا سن کے ایلاف پاگلوں کی طرح اپنے کمرے سے دوڑ کے آئی تھی۔
” اماں سائیں!اذلان شاہ ٹھیک تو ہیں نا۔اماں سائیں ہمیں معاف کردیں ہماری سیاہ بختی آپ کے بیٹے کو نگل گئی۔”ایلاف ان کے گلے لگ کے بولی تھی
شاہ بی بی نے اسے لپٹا لیا اور خاموشی سے اسکا سر سہلانے لگی تھیں۔
مگر ایلاف کو قرار کہاں تھا۔
” اماں سائیں!چلیں اسپتال چلتے ہیں۔”
” ہم اسپتال سے ہی آرہے ہیں۔ایلاف!” شاہ بی بی ضبط کی کڑی منزلوں پہ تھیں۔ان کا اپنا دل پھٹ رہا تھا۔
” اماں!شاہ ٹھیک تو ہیں نا۔پلیز بولیں۔آپ بولتی کیوں نہیں ہیں؟”ایلاف چیخ پڑی تھی۔انکی خاموشی سے اسے ڈرانے لگی۔
یہ بولتی کیوں نہیں؟
“ایلاف ہوش کرو۔اذلان شاہ ٹھیک ہے مگر۔۔۔”شاہ بی بی چپ ہوگئیں۔ ان کا کلیجہ منہ کو آرہا تھا۔
” کیا مگر؟بولیں اماں۔” ایلاف کو لگا اس کے دماغ کی نس پھٹ جائے گی۔
” وہ کومے میں چلا گیا ہے۔اس کے سر کی چوٹیں بہت خطرناک تھیں۔اس کے اعصاب متاثر ہوئے ہیں۔” شاہ بی بی نے قیامت ڈھا ہی دی تھی۔
ایلاف پاس پڑے صوفے پہ ڈھے سی گئی تھی۔
” میرا کوئی نہیں رہتا اماں سائیں۔خدا میری اتنی آزمائشیں کیوں لیتا ہے؟اذلان کو بھی دور کردیا مجھ سے،میں اب کیا کروں؟” ایلاف کی آواز کہیں دور سے آئی تھی۔
” ایلاف حوصلہ کرو میری بچی۔تم بھی ہمت ہار گئیں تو کیا ہوگا ہمارا بیٹا زندہ لاش بن گیا ہے۔ ہوا کیا تھا اس نے کبھی اتنی ریش ڈرائیونگ نہیں کی۔اس سے آج تک ایک معمولی خرابی نہیں ہوئی تو یہ اتنا بڑا حادثہ۔وہ گھر سے نکلا تھا،بتاؤ ایلاف کیا ہوا تھا۔” شاہ بی بی نے پوچھ لیا تھا۔
“میں کیسے ہمت کروں اماں؟میری ہمت تو آپ کا بیٹا تھا۔میں تو بہت کمزور ہوں،گھر میں کچھ نہیں ہوا تھا۔” ایلاف مر کے بھی نہیں بتانا چاہتی تھی کسی کو اور اس بات کے بعد تو بالکل نہیں۔
اپنے مسئلے اپنے تک ہی رکھنے چاہئیں ایلاف کو سبق مل چکا تھا۔
نہ وہ رابعہ باجی سے کہتی وہ سب اور نہ یہ سب ہوتا۔
” اماں سائیں ہماری وجہ سے ہوا ہے یہ سب،ہمیں رشتے راس نہیں آتے۔” ایلاف کا سویا ہوا احساس کمتری جاگ چکا تھا۔
” ایلاف!ایسی باتیں مت کرو۔تم مسلمان ہو کے ایسی فضول سوچ رکھتی ہو۔پریشانی میں ہی مسلمان کی آزمائش ہوتی ہے اور تم اس کا مقابلہ کرنے کے بجائے کیا کر رہی ہو۔مسلمان مصیبت میں کبھی نہیں گھبراتا۔خدا کی رضا میں راضی رہو ایلاف۔اس کے ہر کام میں کوئی مصلحت ہوتی ہے۔” شاہ بی بی کو اس کی مایوسی پسند نہیں آئی تھی۔
دل تو ان کا بھی رو رہا تھا۔
آنکھیں ان کی بھی نم تھیں مگر انہیں ہمت کرنی تھی۔
ان کا سرمایہ حیات داؤ پہ لگ چکا تھا۔
” میں کیا کروں؟جس کے پاس جاؤں وہی دور ہوجاتا ہے۔ ” ایلاف بےبسی سے بولی۔
” ایلاف ایک بات کہیں آپ سے،رونا دھونا بند کریں۔بہت ہوچکا!آپ ایک عام آدمی کی بیوی نہیں ہیں۔پیر اذلان شاہ کی بیوی ہیں۔ایک اچھی بیوی کون ہوتی ہے ایلاف؟” شاہ بی بہ نے اس سے وہ سوال پوچھا تھا جس کا جواب اسے معلوم ہی نہ تھا۔
وہ خاموشی سے انہیں دیکھے گئی۔
“ہم بتائیں!ایک اچھی بیوی اور بلند عورت وہ ہوتی ہے جو اپنے شوہر کی غیر موجودگی میں۔۔۔”ان کے دل کو دھکا سا لگا تھا۔
“اس کی عزت اور مال کی حفاظت کرتی ہے ۔وہ روتی نہیں ہے،خیانت نہیں کرتی ہے،حفاظت کرتی ہے کیونکہ خدا اور اس کے رسول کو یہی محبوب ہےتو بتاؤ ایلاف تم کیا کروگی؟بنو گی اچھی بیوی،بنو گی نگہبان پیر اذلان کی گدی کی؟” شاہ بی بی نے اس سے پوچھا تھا۔
” میں اور گدی کی نگہبان مطلب؟” ایلاف نے وضاحت چاہی تھی۔
” جاگیر کے دشمن اب وار کریں گے۔میدان صاف دیکھ کے کیوں کہ میرا جرنیل بچہ میدان میں نہیں بستر پہ ہے۔ وہ ہماری کمزوری سے فائدہ اٹھائیں گے۔ان کا لحاظ ختم ہوجائے گا۔”شاہ بی بی کو مستقبل صاف نظر آرہا تھا۔
” مگر کیوں ابھی کمال شاہ اوراحمد شاہ ہیں۔” ایلاف نے کہا۔
” پیر اذلان گدی کا وارث ہے وہ بڑا ہے اور پھر اس کی اولاد،کمال اور احمد ساتھ تو دے سکتے ہیں مگر گدی پہ نہیں بیٹھ سکتے۔کمال بیچارہ تو ویسے بھی سرکاری نوکری کرتا ہے،کمشنری نے اسے گھما رکھا ہے اور احمد شاہ وہ تانیہ شاہ کے کنٹرول میں ہے۔ تانیہ پوری کوشش کرے گی گدی کا رخ پیر خرم شاہ کی طرف کرنے کی کیونکہ وہ گھر کے بچوں میں سب سے بڑا ہے اور اس صورت میں جبکہ سفیان شاہ کو اذلان شاہ نے سب سے دور کر رکھا ہے وہ اور اہل ہوجائے گا۔” شاہ بی بی نے اس مستقبل کا نقشہ کھینچ کے دکھا دیا تھا۔
” وہ اہل نہیں ہے۔” ایلاف کے زخم پیر خرم شاہ کے نام پہ پھر ہرے ہوگئے تھے۔
” یہ میں تم اورتیسرا وہ جو بستر مرگ پہ ہےجانتا ہے اور کوئی نہیں،کوئی یقین نہیں کرے گا۔بولو ایلاف اتنے محاذوں پہ اذلان شاہ اکیلا لڑتا تھا۔تم کر پاؤ گی،بتاؤ گی دنیا کو کہ وہ اکیلا نہیں ہے،اس کی بیوی ہے۔” شاہ بی بی نے اس سے سوال کیا تھا۔
” ہاں اماں سائیں،ہم بنیں گے ان کے محافظ۔ایک بار انہوں نے ہمیں نامراد نہیں رکھا تھاتو ہم کیسے انہیں بے اماں کریں۔ہم بنیں گے ان کی گدی کے رکھوالے ان کی جگہ ان کی ہے یا پیر سفیان شاہ کی۔ ” ایلاف نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔
ایک بار پوری دینا نے اسے چھوڑ دیا تھا
تب اذلان شاہ نے اسے اپنایا تھا۔
اب پوری دنیا اذلان شاہ کو چھوڑنے چلی تھی تو ایلاف نے اس کا ساتھ دینے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
” ایلاف یہ راہ آسان نہیں ہے۔”
” تر نوالہ ہم بھی نہیں ہیں۔” ایلاف کا لہجہ ہی بدل چکا تھا۔
” چھلنی ہوجاؤگی۔”
” ترکش میں تیر ہمارے بھی بہت ہیں۔”ایلاف اٹل ہوچکی تھی
” بہت سنگ بار ہے یہ راستہ۔”
” پتھر تو ہمارا وجود بھی ہوچلا ہے۔” ایلاف کے لہجے میں چٹانوں جیسی سختی تھی۔
” لوگ طعنے دیں گے۔”شاہ بی بی اسے سارے خدشات بتارہی تھیں۔
” پروا نہیں!زہر ہم میں بھی بہت ہے اور شہد بازاروں میں بہت ہم آزمائشوں کی بھٹی میں کیمیا گر بن چکے ہیں۔شہد اور زہر ملا کے استعمال کرنے کا فن ہمیں ان ہی لوگوں نے سکھایا ہے۔” ایلاف اٹھتے ہوئے بولی۔
کچھ دیر بعد وہ اذلان شاہ کی ہی چادر پہنے کریم اسکارف سے حجاب کئے اسپتال جانے کو تیار ہوچکی تھی۔
“ہم چلیں تمہارے ساتھ۔” شاہ بی بی نے پوچھا۔
” نہیں اماں آپ آرام کریں۔اپنی بقا کی جنگ اب میں خود لڑوں گی۔آپ بس دعا کریں،جب اکیلا ہی چلنا ہے تو پھر عارضی سہاروں کا کیا کریں گے۔” ایلاف نے چادر اچھی طرح لپیٹ لی تھی۔
” دنیا ادھر سے ادھر ہوجائےاذلان شاہ،ایلاف اذلان شاہ ہمیشہ آپ کے ساتھ رہے گی۔” ایلاف نے خود سے عہد کرلیا تھا۔
وہ پہاڑوں کی بیٹی تھی نسلا اس کا باپ پہاڑوں کا رکھوالا تھا۔ وہ زرینہ جیسی جی دار عورت کی بیٹی تھی
جس نے اپنی بقا کی جنگ خود لڑی تھی تو ایلاف نے بھی ثابت کرنا تھا کہ جی دار وہ بھی ہے۔
عورت مضبوط ہوجائے تو اس کاحوصلہ ہمالیہ سے بھی بلند اور سمندروں سے بھی گہرا ہوتا ہے۔
______________________________