میرے گرد بنی رسموں کی زنجیریں
مجھے سولی چڑھاتی خوابوں کی تعبیریں
ان سب کو تو توڑ کے رکھ دے
مجھے بس میرے جینے کا حق دے
جا بجا سرخ خوبصورت گلابوں سے سجا کمرہ انتہائی خوابناک ماحول بنا رہا تھا رخسار اسے کمرے کے وسط میں بچھے بیڈ پر بٹھا چکی تھی سب کزن لڑکیوں کو کمرے سے نکال کر وہ سویرا کے پاس آئیں ۔۔۔
” سویرا !! میری بہن مجھے پتا ہے تم اس وقت کن خدشات سے گزر رہی ہو بس میری ایک بات یاد رکھنا تمہارا اور شہریار کا یہ رشتہ اللہ کے حکم سے بنا ہے مانا وہ تھوڑا خفا ہے لیکن ہے تو ایک مرد ہی تم اسے اپنی وفا اپنی تابعداری سے جیت سکتی ہوں ۔۔۔سن رہی ہو نا میں کیا کہہ رہی ہوں ۔۔۔؟؟ ” انہوں نے خاموش بیٹھی اپنی حنائی ہتھیلیوں کو تکتی سویرا کو مخاطب کیا
” جی آپی !! ” وہ بامشکل اثبات میں سر ہلاتی ہوئی بولی
” بس تم جو شہریار کہے مانتی جانا دیکھنا شروع کا یہ مشکل وقت گزر جائیگا پھر شاہو تمہاری ہر بات مانے گا بس تم صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا ۔۔۔” انہوں نے پیار سے اس کے ہاتھ تھپ تھپائے
“اب میں چلوں جاکر تمہارے اکرم بھائی کو دیکھو شام سے دوستوں کے ساتھ فائرنگ میں لگے ہوئے ہیں ۔” وہ اٹھ کھڑی ہوئیں
” آپی !!! پلیز مت جائیں مجھے ڈر لگ رہا ہے ۔۔۔” سویرا نے اپنی بھیگی پلکیں اٹھائیں
“سویرا میری بہن !!!ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے ہمت کرو میں جا کر شاہو کو بھیجتی ہوں ۔۔” وہ اسے تسلی دیتے ہوئے باہر نکل گئیں
رخسار کے جاتے ہی سویرا نے ایک گہرا سانس لیا کمرے میں ائیر کنڈیشن کی ٹھنڈک پھیلی ہوئی تھی جو اس کی رگوں میں اتر رہی تھی وہ اپنے نازک مہندی سے سجے دودھیا ہاتھوں کو مسل رہی تھی اس کی مہندی کا رنگ بہت گہرا آیا تھا سب ہی کزنز نے اسے خوب چھیڑا تھا اور اس وقت وہ یہی سوچ رہی تھی کہ کیا مہندی کے رنگ کی گہرائی زندگی میں عزت سے سر اٹھا کر جینے کا سبب بن سکتی ہے ؟؟ اسے محبت پیار کچھ بھی نہیں چاہئیے تھا بس دو بول اس کی عزت کے لئیے اس کے وقار کے لئیے چاہئیے تھے وہ اپنی سوچوں میں گم تھی جب دروازے کی ناب گھمانے کی آواز اس کے کانوں میں پہنچی وہ چوکنا ہو کر سر جھکا کر بیٹھ گئی اپنی بھیگی ہتھیلیوں کو مسلتے ہوئے وہ گھنیری پلکیں جھکائے ساکت بیٹھی تھی دل تھا کہ خوف سے لرز رہا تھا ۔۔۔۔
________________________________________
گاؤں کے وسط میں وسیع سبزہ زار میں گھری قیمتی پتھروں سے سجی حویلی آج اپنے وارث شہریار کی شادی کی تقریب میں پوری شان و شوکت اور آن بان سے دمک رہی تھی باہر پٹاخہ پھوڑے جارہے تھے آسمان میں رنگ برنگے انار پھوٹ رہے تھے اکرم زاہد اقبال وسیم سب دوست کزنز فائرنگ کر کے اپنی خوشی کا اظہار کررہے تھے ۔تو اندر بزرگوں کی محفل جمی ہوئی تھی
” فرزانہ آپا !! آپ اتنی چپ چپ کیوں ہیں ؟؟ آپ نے کسی بھی رسم میں حصہ نہیں لیا کیا شاہو آپ کا بیٹا نہیں جو آپ نے اتنی بے رخی برتی ؟؟ ” سلیم صاحب اپنی بہن کے پاس بیٹھتے ہوئے گویا ہوئے
” رہنے دیں بھائی صاحب یہ سب منھ دیکھے کی محبتیں ۔۔۔” وہ اپنے شانوں سے ان کے ہاتھ ہٹاتے ہوئے تلخی سے بولیں
” فرزانہ آپا !! اتنی بدگمانی اچھی نہیں ہوتی ۔۔” وہ سنجیدہ ہوئے
” سلیم میں نے ایک بار نہیں ہزار بار کہا تھا کہ شہریار کی شادی کسی سے بھی کردو مگر خدارا اس لڑکی سے مت کرو مگر میری سنتا ہی کون ہے اس گھر میں ۔۔”
” آپا سویرا ہمارا خون ہے عزت ہے اس حویلی کی ۔۔۔”
” رہنے دو سلیم میاں !! اس لڑکی کی رگوں میں اس کی ماں کا خون دوڑتا ہے جس نے میرے چھوٹے بھائی کو اپنے جال میں پھنسا لیا تھا خود تو مر گئی اور یہ بلا ہمارے سر چھوڑ گئی ۔۔”
” پیاری آپا یہ شاہ بی بی کا فیصلہ تھا جو ان بچوں کے بچپن میں ہی لے لیا گیا تھا اور آپ یہ مت بھولیں اس کی رگوں میں ہمارے بھائی کا خون بھی ہے وہ خود سویرا کو شہریار کے نکاح میں دیکر گیا تھا ۔۔۔”
” آپ اگر چاہتے تو شاہ بی بی سے اپنی بات منوا سکتے تھے جبکہ شاہو بھی اس رشتے کو نبھانا نہیں چاہتا تھا لیکن آپ نے شاہ بی بی نے کسی نے بھی اس کی رضامندی نہیں لی بس فیصلہ سنا دیا۔۔۔۔”
” فرزانہ آپا !! آپ کو ابھی ایسا لگ رہا ہے کہ یہ ایک ظالمانہ فیصلہ ہے لیکن آپ یہ بھی تو دیکھیں اس طرح ہماری زمینیں اور دونوں فیکٹریاں یہ حویلی ساری جائیداد گھر میں ہی رہے گی ۔۔۔” انہوں نے سمجھایا
” لیکن وہ لڑکی منحوس ہے پیدا ہوتے ہی اپنی ماں کو کھا گئی پھر یاد کرو اس کی پہلی سالگرہ پر فیکٹری میں آگ لگی تھی پھر میرا بھائی چلا گیا مجھے تو ڈر ہے سب پتا نہیں کیا ہوگا ۔۔۔ ”
” آپا وہ سب قدرت کے فیصلے تھے آپ دیکھئیے گا اب کچھ نہیں ہوگا ۔۔۔”
” سلیم میاں لکھ لو یہ شادی نہیں بربادی ہے بربادی !! آپ سب کے ایک غلط فیصلے نے ایک ایسی منحوس لڑکی کو ہمارے سر پر بٹھا دیا ہے جسے میں دیکھنا تک نہیں چاہتی یہ لڑکی مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتی ہے ۔۔۔”
ابھی وہ بول ہی رہی تھیں کہ باہر سے شور و غل کی آوازیں سنائی دیں ۔۔
” میاں جا کر ان لڑکوں کو منع کرو خوشیاں تو ایسے منا رہے ہیں جیسے کوئی ملکہ بیاہ کر آئی ہو ۔۔” وہ تلملا کر بولیں
” سلیم ماموں !! ” ایک لڑکا دوڑتا ہوا آیا
” اکرم بھائی کو گولی لگی ہے قادر بھائی انہیں اسپتال لے گئے ہے ۔۔۔”
” ہائے اللہ میرا بیٹا ۔۔۔” فرزانہ کے تو کلیجہ پر ہاتھ پڑا
” رخسار بیٹی !! ” سلیم صاحب نے اونچی آواز لگائی
” جی بابا سائیں ۔۔۔” رخسار اندر داخل ہوئی
” بیٹا جلدی سے میرا فون لاؤ ۔۔۔۔”
” سب ٹھیک تو ہے بابا سائیں آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے ۔۔۔” رخسار نے پریشانی سے ایک نظر روتی ہوئی پھپھو پر ڈالی
” بنو اب سب ٹھیک کیسے ہو گا اس لڑکی کی منحوسیت میرا بیٹا کھا گئی ہائے میرا اکرم ۔۔۔۔” فرزانہ رو پڑیں
” کیا کہہ رہی ہیں پھپھو !! ” رخسار نے سہمی ہوئی نظروں سے باپ کو دیکھا
” کچھ نہیں بیٹا !! تم اندر سے میرا والٹ اور سیل لاؤ ۔اکرم کو گولی لگی ہے لڑکے اسے اسپتال لے گئے ہیں مجھے بھی نکلنا ہے ۔۔ ” وہ رسان سے بولے
” بابا سائیں !! وہ وہ ٹھیک تو ہیں ؟ ” رخسار نے بمشکل آنسو پیتے ہوئے پوچھا
” سب ٹھیک ہو گا تم بس دعا کروں اپنی ماں اور شاہ بی بی کا خیال رکھنا میں اسپتال پہنچ کر صورتحال بتاتا ہوں ۔۔۔”
_______________________________________
شہریار کافی دیر سے حویلی کے پچھلے حصے میں اسموکنگ کررہا تھا رخصتی ہو چکی تھی شاہ بی بی اسے ڈھیروں دعائیں اور کمرے میں جانے کی ہدایت دے چکی تھیں اور وہ سب سے نظر بچا کر اس گنجان حصہ میں کھڑا ہوا تھا اس کا دل کمرے میں جانے سے انکاری تھا گھنٹے سے بھی اوپر ہو گیا تھا جب اسے باہر غیر معمولی شور کو احساس ہوا وہ دوڑتے ہوئے باہر پہنچا تو اکرم بھائی خون میں لت پت پڑے تھے ہوائی فائرنگ کرتے ہوئے گولی پلٹ کر ان کے بائیں شانے میں دھنس گئی تھی وہ جلدی سے اپنے کزن قادر بھائی کے ساتھ انہیں لیکر پجارو میں بیٹھا ۔۔۔
” شہریار تم اندر دلہن کے پاس جاؤ !! ” قادر بھائی نے اسے ٹوکا
” دلہن کہی بھاگی نہیں جارہی ہے آپ جلدی کریں ان کا بہت خون بہہ رہا ہے ۔۔” وہ تند لہجہ میں بولا
وہ سب اسپتال پہنچ چکے تھے اکرم بھائی کو فوری طور پر ایمرجنسی میں آپریشن تھیٹر لے جایا گیا تھا ویسے تو یہ ایک پولیس کیس تھا مگر پیسے کی طاقت سب کام کروا لیتی ہے
وہ سب آپریشن تھیٹر کے باہر کھڑے تھے جب سلیم صاحب ادھر پہنچے اور وہ شہریار کو اسپتال میں دیکھ کر حیران رہ گئے
” اکرم کیسا ہے ؟؟ ڈاکٹر کیا کہتے ہیں ؟؟ ” انہوں نے اپنی حیرت اور غصہ پر جو شہریار کو دیکھ کر امنڈ آیا تھا قابو پاتے ہوئے پوچھا
“بابا سائیں ابھی آپریشن چل رہا ہے ڈاکٹر باہر آتا ہے تو یہ کچھ پتا چلیگا ۔۔۔” شہریار نے جواب دیا
” ہمم !! ” وہ سر ہلاتے ہوئے ویٹنگ روم کی طرف بڑھ گئے
ایک گھنٹے کے طویل انتظار کے بعد ڈاکٹر باہر آیا اسے دیکھ کر سلیم صاحب بھی کھڑے ہو گئے
” اب کیا حال ہے ہمارے بیٹے کا ؟؟ ”
” گولی دل کو چھوتی ہوئی اوپر سینے میں لگی تھی اسے باہر نکال دیا ہے مریض کا خون بہت ضائع ہوا ہے آج کی رات اہم ہے آپ دعا کریں انہیں صبح تک ہوش آجائے ۔۔۔” ڈاکٹر نے پروفیشنل انداز میں جواب دیا
سلیم صاحب کے چہرے پر برسوں کی تھکن اتر آئی تھی وہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے شہریار کی جانب مڑے
” شہریار بیٹا رات بہت ہو گئی ہے اب تم حویلی جاؤ سویرا بیٹی انتظار کر رہی ہوگی ۔۔”
” نہیں بابا سائیں !! جب تک اکرم بھائی کو ہوش نہیں آتا میں ادھر ہی ہوں آپ گھر جائیں آپ کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں ہے میں آپ کو ان کی طبیعت فون پر بتاتا رہوں گا ۔۔۔”
” قادر بھائی آپ بابا سائیں کو لیکر حویلی جائیں میں ہوں ادھر ۔۔۔”
” لیکن شہریار !! ” سوبر سے قادر بھائی نے اسے سمجھانا چاہتا
” لیکن ویکن کچھ نہیں بھائی !! یہ اندر اکرم بھائی صرف میرے بڑے بھائی نہیں بہنوئی بھی ہیں میں انہیں اس تکلیف میں چھوڑ کر نہیں جاسکتا ۔۔۔” وہ دو ٹوک لہجے میں بولا
________________________________________
خود ہی خود کو پاگل بنایا میں نے
بے تعبیر خواب سجایا میں نے
کسی دوسرے کا مجھے معلوم نہیں
خود اپنا بہت دل دکھایا میں نے
کسی شخص پہ اعتماد نہیں ہو رہا
ایسا اک گھاؤ ہے کھایا میں نے
خود ہی محبت کو ٹھکرایا اُس کی
پھر سینہ پیٹا ، ماتم منایا میں نے
(عاقب بٹ )
وہ سر جھکائے بیٹھی تھی جب قدموں کی آواز اس کے بالکل قریب آکر تک گئی پھر کسی نے نہایت ہی بیدردی سے اس کے چہرے کو اپنی گرفت میں جکڑ کر اوپر کیا ۔۔۔
” پھپھو !! ” اس کے منھ سے نکلا
” منحوس !! تو ادھر بیٹھی کن سپنوں میں گم ہے ۔۔۔” انہوں نے اس کے دھان پان سے وجود کو گھسیٹتے ہوئے بیڈ سے نیچے اتار کر زمین پر پٹخا
” تیری وجہ سے صرف تیری وجہ سے آج میرا اکرم اسپتال میں ہے غلطی میری ہی ہے جو میں نے تجھے پیدا ہوتے ہی نہیں مار دیا نہ تم اپنی منحوسیت لیکر اس خاندان میں آتیں نا ہی آج میرا بیٹا اسپتال میں ہوتا ۔۔۔” وہ اسے زور زور سے پیٹ رہی تھیں
سویرا کی بےیقین نظریں فرزانہ پھوپھو کی آنکھوں سے ٹکرائی جن سے شرارے پھوٹ رہے تھے
“پھپھو !! آپ آپ ….”سویرا کی سسکی ابھری
انہوں نے اس کو سر کے بالوں سے جکڑا جس پر پہلے ہی بھاری عروسی دوپٹا پنوں سے ٹکا ہوا تھا تکلیف کی شدت سے سویرا کے آنسو نکل آئے
” یہ رونے دھونے اور مظلومیت دکھانے کا ڈرامہ بند کرو اس طرح تم اپنے تایا کو متاثر کر سکتی ہوں مجھ پر ان ڈھکوسلوں کا اثر نہیں ہوتا اور نا ہی میں تمہارے ان مگرمچھ کے آنسوؤں سے متاثر ہو سکتی ہوں ۔۔۔” انہوں نے اسے ایک زور دار جھٹکا دیا وہ جا کر میز سے ٹکرائی ، کانچ کی کئی چوڑیاں ٹوٹ کر کلائی کو لہلو لہان کر چکی تھی
” تمہاری وجہ سے میرے بیٹے کو گولی لگی ہے صرف اور صرف تمہاری منحوسیت کی وجہ سے میرا اکرم اسپتال میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا ہے تمہاری وجہ سے تمہارا باپ مرا اور تم یہ سیج سجا کر سمجھتی ہو کہ میں تمہاری جیسی منحوس کو اس حویلی میں ٹکنے دونگی ؟؟ نہیں کبھی نہیں میں تمہاری منحوسیت کا سایہ بھی اس حویلی کے بچوں پر پڑنے نہیں دونگی ۔۔۔” وہ حقارت سے کہتی ہوئی اسے گھسیٹتے ہوئے کمرے سے باہر نکالنے لگی
” اگر تم میں ذرا برابر بھی اپنے باپ کا خون ہے غیرت ہے تو ادھر سے دفعان ہو جاؤ ۔۔۔” وہ اسے راہداری میں دھکا دیتے ہوئے بولیں
فرزانہ دلہن بنی سویرا کو راہداری میں روتا سسکتا چھوڑ کر کمرہ لاک کر کے جا چکی تھیں
“سویرا بیٹی !!! ” پتا نہیں کتنی دیر بعد اس کے کانوں سے تایا ابو کی آواز ٹکرائی
” یہ کیا ہوا ہے ؟؟” وہ پریشانی سے اس کے زخمی وجود کو دیکھ رہے تھے ماتھے پر نیل ، گال پر انگلیوں کے نشانات ثبت تھے ہونٹوں کے پاس سے خون کی لکیر بہہ رہی تھی
” شاہ بی بی ، زاہدہ بیگم ، رخسار !! ” وہ بلند آواز سے چلائے
تھوڑی ہی دیر میں سب لوگ وہاں جمع ہو گئے
” کس نے اس بچی کا یہ حال کیا ہے ؟؟ ” وہ غرائے
شاہ بی بی تو سویرا کو اس حال میں دیکھ کر دہل گئیں
” رخسار تم فوراً سویرا کو میرے کمرے میں لیکر آؤ اور زاہدہ آپ فرسٹ ایڈ باکس لیکر آئیں ۔۔” شاہ بی بی نے ہدایات دیں ۔۔۔
______________________________________
ویرانی سی چھائی ہے
اداسی ہے آنکھوں میں
بے چین سا دل ہے میرا
بے سکون سی میری روح ہے
سمجھنے سے قاصر ہوں حالت اپنی
کوئی تو بتاۓ کہ
زندگی کی راہوں
تلخی کیوں اس قدر ہے
درد کا یہ سفر جانے کب ختم ہوگا
لاحاصل سی اب تو منزل حیات لگتی ہے
بے سبب سی اب تو یہ زندگی لگتی ہے
اشکوں میں دھل گۓ ہیں
دل کے یہ خواب سارے
خزاں کا یہ موسم جو روح پہ چھایا ہے
آنکھوں میں اب تو خوابوں کی قبردیکھتی ہے
روح کے سناٹوں میں
آواز اپنی اب تو پرائی لگتی ہے
سکون کی تلاش ہے اب تو
زندگی کی تلاش ہے اب تو
خوشیوں کی تلاش ہے اب تو
(شزا خان )
سویرا کا جوڑ جوڑ دکھ رہا تھا شاہ بی بی اسے اپنے سینے سے لگائے ہوئے بیٹھی تھیں جب رخسار گرم پانی اور تولیہ لیکر اندر داخل ہوئی
شاہ بی بی نے اپنے بوڑھے کپکپاتے ہوئے ہاتھوں سے گرم پانی میں تولیہ بھگو کر اس کے چہرے پر جمے خون کو صاف کیا رخسار خاموشی سے اس کی کلائی میں چبھی ہوئی کانچ کی چوڑیوں کے ٹکڑے نکال رہی تھیں جب زاہدہ ہاتھ میں ہلدی ملا نیم گرم دودھ اور درد کی گولی لیکر اندر داخل ہوئیں
” سویرا بیٹی !!! ہمت کرو یہ دودھ کے ساتھ گولی لو ۔۔” انہوں نے پیار سے اس اٹھا کر دودھ کا گلاس اس کے لبوں سے لگایا
” رخسار بیٹی !! بہن کو اس کے کمرے میں لے جاؤ اور لباس تبدیل کروا کر آرام سے سلا دو ۔۔۔” شاہ بی بی نے سوچتے ہوئے کہا
” پر شاہ بی بی !! اس حالت میں اسے اکیلے کیسے چھوڑ دیں ۔۔۔” زاہدہ نے فوری کہا
“اس کے سر کا سائیں ہے وہ سنبھال لیگا کسی کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے !! ” وہ دو ٹوک لہجے میں بولیں
رخسار سویرا کو سہارا دیتی ہوئی شہریار کے کمرے تک لائیں !! وقت بھی کتنی عجیب شئے ہے ابھی چند گھنٹوں پہلے وہ سجی سنوری شرمائی گھبرائی سی سویرا کو سیج پر بٹھا کر گئی تھیں اور اب ۔۔۔۔
“سویرا چندا اٹھو ہمت کرو یہ جیولری اور بھاری لباس تبدیل کرو ۔۔۔” انہوں نے اسے کرسی پر بٹھایا اور اب اس کے دوپٹے سے پنیں نکال کر زیور اتارنے میں مدد کررہی تھیں
کس قدر ارمانوں سے انہوں نے بیوٹیشن کے ساتھ مل کر اسے دلہن بنایا تھا وہ اپنے آنسو پیتے ہوئے اس کی مدد کررہی تھیں ایک تو سویرا کی یہ حالت دوسرے ان کے شوہر اسپتال میں تھے رخسار کی اپنی دل کی حالت بہت خراب تھی
” چلو شاباش یہ زیور تو اتر گیا ہے اب تم یہ لباس تبدیل کر لو ۔۔۔”
سویرا بڑی بےدلی سے اٹھی اور رخسار کے ہاتھ سے گلابی شلوار قمیض لیکر واش روم کی طرف بڑھ گئی بھاری بھرکم عروسی جوڑے سے نجات حاصل کرکے وہ باہر نکلی ویسے بھی وہ کوئی من چاہی روایتی دلہن تو تھی نہیں کہ اپنے شوہر کے انتظار میں سجی سنوری بیٹھی رہتی اس وقت یہ کمرہ یہ پھولوں سے سجی سیج اسے کانٹوں کا بستر محسوس ہو رہی تھی وہ بڑی مشکل سے خود کو گھسیٹتے ہوئے بستر تک لائی اور کنارے پر بیٹھ گئی
” سویرا تم لیٹ جاؤ , شہریار اسپتال میں ہے شاید صبح ہی آئیگا ۔۔۔”
” رخسار آپی !! ” وہ سسکی
” کیا آپ بھی مجھے منحوس سمجھ رہی ہیں ؟؟ میری وجہ سے اکرم بھائی ۔۔۔۔” وہ رو پڑی
” نہیں سویرا گڑیا !! تم منحوس نہیں ہو ہر گز نہیں ہو اور دیکھنا تمہارے اکرم بھائی بھی ٹھیک ہو نگے ۔۔۔”
” رخسار آپی !! اگر اکرم بھائی کو کچھ ہو گیا نا تو میں اپنے آپ کو کبھی بھی معاف نہیں کرونگی ۔۔۔”
” سسششش کچھ نہیں ہو گا چلو تم یہ ٹیبلٹ لو ۔۔۔” انہوں نے نیند کی گولی اس کی جانب بڑھائی اور اسے کمبل اوڑھا کر اے سی کی کولنگ تیز کرکے نائٹ بلب جلا کر باہر نکل گئیں
سویرا کو شہریار کی خوابگاہ اجنبی سی محسوس ہو رہی تھی وہ اچھی طرح سے جانتی تھی کہ شہریار نے یہ رشتہ صرف تایا ابو اور شاہ بی بی کے دباؤ میں آکر جوڑا تھا اور یہ جو سب کہہ رہے تھے کہ وقت کے ساتھ سب ٹھیک ہو جائے گا صرف ایک جھوٹی تسلی کے سوا اور کچھ نہیں تھا وہ سوچوں میں کھوئی ہوئی نیند کی وادی میں اترتی چلی گئی
کچھ عجیب سا رشتہ ہے
میری آنکھوں اور پانی کا
جیسے چاند اور چکور کا
جدا ہوتے نہیں یہ جانے کیوں
بہتے ہیں کیوں یہ میری آنکھوں سے
وجہ ہر بار اس پانی کی
ہوتی ہے یہ تلخی رویوں کی
ہر بار یہ عہد ہوتا ہے
میری آنکھوں کا خود سے ہی
کہ نہ بہنے دینگی یہ پانی
مگر ہر بار یہ وعدہ پھر ٹوٹ جاتا ہے
وہی آنکھوں سے نیر بہتی ہے
پھر وہی تکلیف ہوتی ہے
کروں اسکا کیا شکوہ
یہ تو اپنوں کی دین ہوتی ہے
(شزا خان )
______________________________________
صبح کے چار بجنے والے تھے وہ اسپتال کے ایک کونے پر کھڑا سگرٹ پی رہا تھا جب اسے آئی سی یو میں ہلچل سی دکھائی دی وہ سگرٹ کو پھینک کر پیر سے مسلتا ہوا تیزی سے آئی سی یو کی جانب بڑھا ۔۔۔
اکرم بھائی کو ہوش آگیا تھا انہیں ڈاکٹر دیکھ رہا تھا سانس لینے میں بھی دشواری ہو رہی تھی ۔۔
” ایکسکیوز می ڈاکٹر !! اب مریض کی طبیعت کیسی ہے ؟؟ ” اس نے سوال کیا
” ہوش آگیا ہے خطرے سے باہر ہیں انہیں جلد ہی روم میں شفٹ کردیا جائیگا ۔۔۔” ڈاکٹر پروفیشنل انداز میں جواب دیتے ہوئے آگے بڑھ گیا
شہریار نے اندر داخل ہو کر اکرم بھائی کو دیکھا جو ابھی بھی نیم بیہوشی میں لگ رہے تھے وہ تاسف سے انہیں دیکھتا ہوا نرس سے ان کی پوری تفصیلات پتا کرنے لگا کچھ دیر اندر ٹہر کر وہ باہر نکلا تو ویٹنگ روم میں لیٹے قادر بھائی جاگ چکے تھے وہ انہیں اپ ڈیٹ کرتا ہوا فون نکال کر بابا سائیں کو فون ملانے لگا
” اسلام وعلیکم بابا سائیں !! مبارک ہو اکرم بھائی کو ہوش آگیا ہے وہ خطرے سے باہر ہیں ۔۔۔” اس نے لائن ملتے ہی کہا
” وعلیکم السلام !! اللہ کا شکر ہے اب تم فوراً واپس آؤ میں اور رخسار اسپتال کیلیے نکل رہے ہیں ۔۔۔”
” بابا سائیں پہلے آپ آجائیں پھر میں گھر چلا جاؤں گا ۔۔۔”
” شہریار !! بس بہت ہو گیا اکرم اکیلا نہیں ہے قادر ہے ادھر اب تم جلدی سے حویلی پہنچو پھر میں اور رخسار اسپتال جائیں گے ۔۔۔”
” پر بابا سائیں ۔۔۔ ”
” بس !! مجھے اب مزید کچھ نہیں سننا تم حویلی آرہے ہوں ۔۔۔”
بابا سائیں رابطہ منقطع کر چکے تھے وہ ایک سرد آہ بھرتے ہوئے فون جیب میں رکھتے ہوئے قادر بھائی کی کو بتانے کے لیے ویٹنگ روم کی جانب بڑھا انہیں سب بتا کر اب وہ پجیرو میں بیٹھا حویلی کی جانب روانہ ہوچکا تھا ۔۔۔
ایک گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد عالیشان حویلی اس کے سامنے کھڑی تھی چوکیدار نے اسے دیکھتے ہی بڑا آہنی دروازہ کھولا اور وہ گاڑی اندر لے گیا ۔۔۔
وہ یہاں آنا نہیں چاہتا تھا انفیکٹ وہ تو اس حویلی کی فضا میں جہاں اسے بے بس کرکے ایک زبردستی کے بندھن میں باندھ دیا گیا تھا سانس تک لینا نہیں چاہتا تھا لیکن اپنے بابا سائیں کی محبت کے آگے ان کے مان کے آگے ہار گیا تھا اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ کم از کم اپنے ماں باپ کو تو خوش کردے ۔۔۔
گاڑی سے اتر کر وہ دو قدم ہی آگے بڑھا تھا کہ عروہ کا ہیولہ اس کی نظروں کے آگے آکر کھڑا ہو گیا ۔۔۔
” شیری !! کیا تم مجھے دھوکہ دو گے ؟؟ کیا واقعی تم مجھے بھول جاؤ گئے ؟؟ ” وہ ہیولہ اس سے آنکھوں میں نمی لئیے سوال کررہا تھا
وہ ساکت سا ہوگیا !!! کیا واقعی وہ عروہ کو دھوکہ دینے جارہا ہے ؟؟ کیا وہ ایک دھوکہ باز انسان ہے سب سے بڑھ کر کیا سویرا وہ دبو سی لڑکی عروہ کی جگہ لے سکتی ہے ؟؟
اس کے ذہن میں اٹھتے ان تمام سوالات کی بوچھاڑ نے ایک تلاطم سا پیدا کر دیا تھا ایک عجیب سی وحشت بھر دی تھی اس کا دل چاہا کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر واپس چلا جائے ابھی وہ سوچ میں گم کھڑا ہوا تھا کہ کسی نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھا وہ چونکا
” شاہو !!! وہ کیسے ہیں اب ۔۔” رخسار نم آنکھیں صاف کرتی ہوئی پوچھ رہی تھیں
” رخسار آپی !! آپ مت روئیں حوصلہ کریں ۔اکرم بھائی اب ٹھیک ہے خطرے سے بالکل باہر ۔۔” وہ رخسار کے آنسو صاف کرتے ہوئے بولا
” شکر خدا کا !! اچھا اب تم اپنے کمرے میں چلو تھوڑا آرام کرلو میں بھی بس شکرانہ ادا کرکے بابا سائیں کے ساتھ ہاسپٹل نکلتی ہوں ۔۔۔” وہ اس کے ساتھ قدم اٹھاتی ہوئی اندر داخل ہوئیں
“میں بابا سائیں سے مل لوں پھر آرام کرونگا ۔۔۔”
“بابا سائیں کی ابھی کچھ دیر پہلے ہی آنکھ لگی ہے گھنٹہ بھر سونے دو پھر تو فجر پڑھ کر اسپتال نکلنا ہے ۔۔اچھا شاہو سویرا کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں ہے میں نے اسے نیند کی دوا دیکر سلا دیا تھا ذرا خیال رکھنا ۔۔۔” وہ اسے اطلاع دیتی ہوئی اپنے کمرے کی جانب مڑ گئیں
وہ بوجھل قدموں سے اپنے کمرے کی جانب بڑھا وہ خود کو بہت بےبس محسوس کررہا تھا اس کا دل اس کا دماغ دونوں ہی سمجھوتا کرنے سے انکاری تھے وہ خود کو ڈنپٹتے ہوئے کمرے کے دروازے کی ناب گھما کر اندر داخل ہوا ۔۔
پورے کمرے میں ہلکی ہلکی سی نیلگوں سی روشنی پھیلی ہوئی تھی اس پر گلاب کے پھولوں کی مہک اور اے سی کی خنکی نے ماحول کو خوابناک بنا دیا تھا وہ قدم اٹھاتا ہوا آگے بڑھا تو سامنے ہی بیڈ پر سویرا کا دلکش وجود محو استراحت تھا وہ اس وقت سادہ سے لباس میں ملبوس تھی ۔۔
” تم واقعی خوبصورتی اور دلکشی کا مجسمہ ہو کوئی بھی تم جیسی بیوی پا کر اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھے گا لیکن افسوس میں وہ نہیں ہوں ۔۔۔”
وہ ایک اچٹتی سی نظر اس پر ڈالتے ہوئے الماری کی جانب بڑھا اپنے لئیے آرام دہ لباس نکال کر تبدیل کرنے چلا گیا
کافی دیر نیم گرم پانی سے شاور لیکر خود کو پرسکون کرتا ہوا وہ باہر نکلا اب وہ سونا چاہتا تھا لیکن بیڈ پر موجود سویرا کا وجود اسے برداشت نہیں ہو رہا تھا اس کے ساتھ بیڈ شئیر کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا وہ چند لمحے کمرے میں ٹہلتا رہا پھر وہ جا کر صوفہ پر بیٹھا ارادہ صوفہ پر سونے کا تھا لیکن وہ ٹو سیٹر صوفہ اس کے لمبے چوڑے وجود کیلئیے ناکافی تھا تھک ہار کر وہ اٹھا اور بیڈ پر لیٹی سویرا کی جانب بڑھا ۔۔۔
” اے لڑکی !! اٹھو ۔۔۔” اس نے آواز لگائی
” سنو یہاں سے اٹھو ۔۔۔” اس نے کمبل اس کے چہرے سے ہٹایا
جب سویرا ٹس سے مس نہیں ہوئی تو وہ بھناتا ہوا بیڈروم فرج کی طرف بڑھا اور ٹھنڈے پانی کی بوتل نکال کر بیڈ کی جانب پلٹا ۔۔۔
_______________________________________
وہ بیڈ روم فرج سے ٹھنڈے یخ پانی کی بوتل نکال کر بیڈ پر محو استراحت سویرا کے پاس آیا بوتل کا ڈھکن کھول کر اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے ۔۔
وہ نیند میں کسمسائی نیلگوں روشنی میں اس کا خوبصورت چہرہ اپنی پوری دلکشی کے ساتھ اس کے سامنے تھا اس رشتے سے ہزاروں اختلافات کے باوجود وہ اس کے وجود کی دلکشی اور خوبصورتی سے نظریں نہیں ہٹا پا رہا تھا ، سیاہ سلکی لمبے چمکیلے بال تکیہ پر پھیلے ہوئے تھے اس کا بے ساختہ دل چاہ کہ انہیں چھو کر دیکھے وہ اس کی سمت جھکا ابھی اس نے ان مشکبو زلفوں کو چھونے کیلئے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ اس کا فون بجنے لگا ۔۔۔
وہ جیسے بیدار سا ہوا ۔۔۔اور تیزی سے دور ہٹتے ہوئے بوتل کو سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر فون چیک کرنے لگا ۔۔۔
“عروہ کالنگ ” جگمگا رہا تھا
” ہیلو !!کدھر ہو شیری جب سے گئے ہو لگتا ہے اپنی فیملی میں الجھ کر مجھے بھول گئے ہو ۔۔۔” عروہ کی روٹھی ہوئی آواز گونجی
” عروہ میں یہاں تفریح کرنے نہیں آیا ہوں اور فون تم نے خود اگنور کیا تھا ۔۔۔” وہ روکھے لہجے میں بولا
” ہاں تو جب تم مجھے اگنور کروگے تو پھر مجھے بھی تو غصہ آئیگا ویسے بھی ایک تو مجھے اکیلا چھوڑ گئے ہو اوپر سے پہنچ کر کال بھی نہیں کی ۔۔۔”
“بولو ابھی فون کرنے کی زحمت کیسے کر لی تم نے ؟؟ غصہ اتر گیا کیا ؟؟ ” وہ صوفہ پر بمشکل لیٹتے ہوئے بولا
” فون نا کرتی تو کیا کرتی تمہارے بغیر رہ بھی تو نہیں سکتی ۔۔۔”وہ دل گرفتگی سے بولی
” دیکھو عروہ !! یاد رکھنا میں یہ نخرے اٹھانے والا آدمی نہیں ہوں مجھ سے سیدھی سادی بات کیا کرو ۔۔۔”
” اچھا چھوڑو سب !! یہ بتاؤ اپنے پیرنٹس سے ہماری شادی کی بات کی ؟؟ ”
” عروہ ہنی !! میں یہاں بابا سائیں سے ملنے ان کی عیادت کرنے آیا ہوں شادی کی بات کرنے نہیں ۔۔”
” شیری !!! آئی ایم مسنگ ہو آ لاٹ ۔۔۔۔” وہ اداسی سے بولی
” ڈونٹ وری ہنی !! میں کچھ دنوں میں واپس آجاؤ گا ۔۔۔”
” بہت ہی روڈ ہو تم ذرا بھی رومینٹک نہیں ہو ۔۔!! ”
” کیوں اب کیا کیا میں نے ۔۔۔؟ ”
” تمہیں کہنا چاہیے تھا کہ آئی مس یو ٹو ۔۔۔۔لو یو بھی کہہ سکتے تھے ۔۔۔”
کافی دیر عروہ سے باتیں کرنے کے بعد وہ بڑی مشکل سے صوفے پر ہی آڑھا ترچھا ہو کر لیٹ گیا
___________________________________________