میرے دِل کی انجمن میں ان عورتوں کے قبیح کردار اور مکر و فریب کے وار سے روشنی ہوتی ہے۔ بیلے سٹار کے ساتھ مقدر نے عجب کھیل کھیلا اُسے محض ایک گھوڑا چُرانے پرسزائے موت دی گئی اور اُسے 1889ء میں گولی سے اُڑا دیا گیا۔ میں نے کئی اصطبل، فیل خانے، فارم ہاؤس، کاریں، بسیں، موٹر سائیکل، ہیرے جواہرات، سیم و زر کے زیورات اور ہوائی جہاز تک لُوٹ لیے مگر کسی کی یہ تاب، مجال اور جرأت نہیں کہ میرا احتساب کر سکے۔ میری کالی زبان اور ہاتھ اس قدر لمبے ہیں کہ کوئی بھی ان سے بچ نہیں سکتا۔ میری نانی کی دادی نور بائی جس کا تعلق محمد شاہ رنگیلا کے دور سے تھا اس کے قحبہ خانے کے سامنے رؤسا، امرا اور منصب داروں کا تانتا بندھا رہتا اور ہر وقت اتنی بڑی تعداد میں رتھ، ہاتھی اور گھوڑے وہاں جمع ہو جاتے کہ وہاں سے گزرنا محال ہو جاتا۔ آج میری بھی یہی حالت ہے شہر کاہر شخص میرانام لیتا ہے اور میرا شیدائی ہے۔‘‘
سر پر تاج سجائے ایک حسینہ آگے بڑھی جس کے حسن و رومان کے تذکروں سے تاریخ کے اوراق بھرے ہیں۔ اس کے چہرے پر محسن کشی، پیمان شکنی اور موقع پرستی کی لکیریں صاف نظر آ رہی تھیں۔ اپنے شوہر کے شطاح قاتل سے پیمان وفا باندھ کر ملکۂ ہند بن بیٹھنے والی یہ نور جہاں (مہر النسا: 1577-1645) تھی۔ شیر افگن کی اس بیوہ نے مغل شہنشاہ جہاں گیر کی بیوی بن کر جنسی جنون اور ہوس مال و زر کی جو حیران کن اور افسوس ناک مثال پیش کی اس کی وجہ سے فطرت کی تعزیروں نے اس کی قبر کو بھی عبرت کا نمونہ بنا دیا۔ نور جہاں نے مس بی جمالو کی خود نمائی اور تکبر کو دیکھ کر کہا:
’’مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر نے اپنے ایک مشیر ملک مسعود کے کہنے پر میرے باپ میرزا غیاث بیگ کو اعتماد الدولہ کا لقب دیا اور شعبہ دیوان (خزانہ) کانگران بنا یا۔ میری داستان حسرت سن کر ہر شخص دنگ رہ جاتا کہ ہر بڑے سر کے ساتھ انجام کار لوحِ مزار کی صورت میں فقط ایک چھوٹا ساسنگ ہی رہ جاتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ میں نے مغل بادشاہ اکبر اعظم کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی اور اپنے حسن و جمال اور عشوہ و غمزہ و ادا کے وار سے شہزادہ سلیم کو دیوانہ بنا دیا۔ حاسدوں کا خیال ہے کہ منھ زور شباب کی شدت سے مغلوب ہو کر میں نے جذبات کی حدت اور احساسات کی تمازت سے اپنی مقناطیسی شخصیت سے کئی لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا رکھا تھا۔ میں نے مس بی جمالو کی طرح غیر فعال شناسائی کو جگ ہنسائی پر محمول کیا اور سب فاصلے مٹا کر یک جان دو قالب ہو جانے والے تعلق کو حاصلِ زیست قرار دیا۔ سراغ رسانوں نے مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر (1522-1605) کو بر وقت بتا دیا کہ اُس کا لخت جگر شہزادہ سلیم انار کلی کے بعد اب سترہ سالہ مہر النسا کی زلف گرہ گیر کا اسیر ہو چکا ہے۔ شہنشاہ اکبر نے اپنے بیٹے کو محبت کی اس آفت نا گہانی سے بچانے کی خاطر ایک لمحہ ضائع کیے بغیر میری شادی علی قلی خان سے کرا دی اور سکھ کا سانس لیا۔ بنگال کے جنگلات میں ایک شاہی شکارکے دوران میں ایک آدم خور شیر نے ہاتھی پر سوار مغل شہنشاہ اکبر پر حملہ۔ علی قلی خان برق رفتاری سے شیر پر جھپٹا اور خونخوار درندے سے گتھم گتھا ہو کر خنجر کے پے در پے وار کر کے شیر کو ہلاک کر دیا۔ اس بہادری کی وجہ سے مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر نے علی قلی خان کو شیر افگن کے لقب سے نوازا۔‘‘
قفسی نے جب نور جہاں کی باتیں سنیں تو وہ ضبط نہ کر سکی اور بولی:
’’یوں ایرانی سپاہی اور صو بہ بہار کے گورنر علی قلی خان کو تمھاری مصنوعی چاہت، خلوص، جعلی وفا، ایثار اور دردمندی کا ذائقہ چکھنے کا موقع ملا۔ علی قلی خان کے سا تھ شادی کے بعد تمھاری واحد اولاد لاڈھی بیگم پید اہوئی۔ علی قلی خان کے سا تھ اپنی شادی کے بعد وفا کی اداکاری کے عرصے (1594-1607) میں بھی جلال الدین اکبر کے بیٹے شہزادہ سلیم کی نظریں تم پر مرکوز رہیں۔ تم نے بھی راز داری کے ساتھ اس عیاش حاکم کو چُلّو میں اُلّو بنانے کا سلسلہ جاری رکھا اور خوب گل چھرے اُڑائے۔ جنسی جنون پر مبنی تمھاری محبت کا یہ لاوا خفتہ آتش فشاں کی طرح اندر ہی اندر اُبلتا رہا۔ شہزادہ سلیم یہ سمجھتا تھا کہ علی قلی خان اپنی اوقات فراموش کر کے کباب میں ہڈی بن گیا ہے۔ شہنشاہ اکبر کی وفات کے بعد جب شہزادہ سلیم تخت نشین ہوا تو اس نے تمھارے ساتھ باندھے ہوئے پیمان وفا کی تجدید کی خاطر علی قلی خان کو سال 1607ء میں ٹھکانے لگا دیا۔ تمھاری مشاورت سے پہلے سے طے شدہ منصوبے کے مطابق تمھیں قصر شاہی میں طلب کر لیا گیا اور تم نے وہاں بیو گی کی چادر اوڑھ کراپنے مقتول شوہر کے سوگ کی تین سال تک اداکاری کی۔ علی قلی خان جب عدم کی بے کراں وادیوں کو سدھار گیا تو نورالدین جہاں گیر نے 25۔ مئی 1611ء کو تم سے عقد کر لیا، اس وقت تمھاری عمر چونتیس سال تھی۔ تم نے پیہم سولہ برس (1611-1627) تک رعایا کا خون چوسا اور عیاشی کی۔ تف ہے کہ تم نے بیوی سے بیوہ اور بیوہ سے بیوی تک جو سفر کیا تمھیں اس کا کوئی ملال ہی نہیں۔‘‘
نیم عریاں لباس پہنے ہوئے مس بی جمالو نے اپنی بھیں گی آنکھیں گھمائیں اور نور جہاں کو گھورتے ہوئے دیکھا۔ اس کے بعد اس ڈائن نے اپنی ماں کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا:
’’علی قلی خان کے ساتھ اپنی محبت، وفا اور عہد و پیمان کو قصر شاہی کی بیرونی سیڑھیوں میں دفن کر کے دھیرے دھیرے چلتے ہوئے تم نے جب شاہی محل سرا میں اپنا سبز قدمر کھا تو عبرت سرائے دہر کے موسموں کے مانند تیزی سے بدلتے ہوئے سب رنگ واضح ہو گئے۔ ہر شام قصر شاہی میں تم پریوں کا اکھاڑا سجاتی اور شہنشاہ جہاں گیر وہاں راجہ اندربن کر داد عیش دیتا تھا۔ شہنشاہ جہاں گیر کے ساتھ اپنی شادی کے عرصے (1611-1627) میں تم ہندوستان کے سیاہ و سفید کی مالک بن بیٹھی۔ رعایا کے چام کے دام چلانے کے ساتھ ساتھ تم نے پٹنہ کی ٹکسال سے تیار ہونے والا چاندی کا ایک روپے کا سکہ بھی چلا دیا جس پر ’’نور جہاں‘‘کندہ تھا۔ اس شادی کے بعد تمھاری کوئی اولاد نہ ہوئی اور تُو اپنی بے وفائیوں کی سزا بھگتنے کے لیے بھری دنیا میں تنہا رہ گئی۔ خود غرضی، موقع پرستی اوراقربا پروری میں تُو اپنی مثال آپ تھی۔ تم نے اُس نابینا کو بھی مات دے دی جو ریوڑیاں بانٹتے وقت مستحقین کو خوب چھا نٹتا تھا اور ہر حال میں ریوڑیاں صرف اپنوں ہی میں بانٹتا تھا۔ سب سے پہلے تو تم نے مغل شہنشاہ اکبر سے اپنے ابن الوقت باپ مرزا غیاث بیگ کو اعتماد الدولہ کے بلند منصب پر فائز کرایا اس کے بعد اپنے بھائی آصف خان کو وزیر اعظم مقرر کیا۔ شہنشاہ جہاں گیر کی بیسویں بیوی کی حیثیت سے تم نے اپنی بیٹی لاڈھی کی شادی شہنشاہ جہاں گیر کے بیٹے شہر یار سے کی اور اپنے بھائی آصف خان کی بیٹی ارجمند بانو بیگم (ممتاز محل) کی شادی شہنشاہ جہاں گیر کے بیٹے خرم (شاہ جہاں) سے کی۔ تمھارا مزاج سازشی تھا، شہنشاہ جہاں گیر کی شدید علالت کے زمانے میں تم نے اپنی بیٹی لاڈھی کے شوہر شہر یار کو اپنے بھائی آصف خان کی بیٹی کے شو ہر شہزادہ خرم کے بجائے بادشاہ بنانے کا منصوبہ بنایا۔ آصف خان کی بغاوت کے نتیجے میں تُو اپنے مکروہ عزائم کو پایہ تکمیل تک پہچانے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ اقتدار کے بھوکے اور محسن کش آصف خان نے تمھیں زندان میں ڈال دیا اور تمھارے داماد شہزادہ شہر یار کو اندھا کرنے کے بعد اُسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ شاہ جہان نے اقتدار سنبھالتے ہی تمھیں رہا کر دیا اور تمھارے لیے دو لاکھ روپے سالانہ وظیفہ مقرر کر دیا۔ اپنے داماد کی ہلاکت کے بعد تم نے پیہم سفید ملبوسات پہنے اور شوہر کی وفات کے بعد باقی زندگی (اٹھارہ سال)کے لیے سفید ردائے بیو گی اوڑھ لی۔ پے در پے حادثات کے باجود بھی تمھارے اندر چھپی ہوئی ہوس پرستی اور خاندانی نمود و نمائش کی تمنا کبھی کم نہ ہو سکی۔ تم نے اُتر پردیش کے شہر آگرہ میں دریائے جمنا کے کنارے سفید سنگ مر مر سے اپنے باپ اعتماد الدولہ کا مزار تعمیر کرایا۔ جالندھر سے سولہ میل کے فاصلے پر سال 1618ء میں تعمیر کی گئی نور محل سرائے بھی تمھاری یاد دلاتی ہے۔ تمھارا تخلص مخفی ؔ تھا اور تُوفارسی زبان میں شعر کہتی تھی۔ فارسی زبان میں تمھارا یہ شعر تو تمھاری قبر کی حالت زار کے عین مطابق ہے:
بر مزار ما غریباں نے چراغے نے گلے
نہ پرِ پروانہ سوزد نے صدائے بلبلے‘‘
نور جہاں نے جب اِن رذیل طوائفوں کی یہ جلی کٹی سنیں تو اس نے دِل تھام لیا۔ اس نے آہ بھر کر کہا:
’’جو کچھ کہنا ہے کہہ ڈالواس کے بعد جب میری باری آئے گی تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔‘‘
نائکہ قفسی نے اپنے میلے کچیلے دانت پیستے ہوئے کہا:
’’کاش تم نے اپنی قبر کے بارے میں اُردو زبان کے شاعر تلوک چند محروم کی نظم پڑھی ہوتی اور مقبرہ جہاں گیر کے متعلق مجید امجد کی نظم بھی تمھاری نظر سے گزری ہوتی۔ تم جنسی جنون کے چقماق سے بھڑک کر قصر شاہی میں داد عیش دینے والی ایک ایسی موقع پرست عورت ہو جس نے اپنے شوہر کے قاتل مغل شہنشاہ جہاں گیر سے پیمان وفا باندھ کر اپنی ذات کو نفرتوں کی ایسی خندق میں دھکیل دیا جہاں سے وہ تاریخ کے کسی دور میں باہر نکل نہیں سکتی۔ سیلِ زماں کے تھپیڑوں نے تمھارا حسن و جمال اور اوج کمال حقارتوں کے پاتال میں لا پھینکا۔ دنیا والے چشم تصور سے یادوں اور فریادوں کے اس خرابے میں علی قلی خان کی بیٹی لاڈھی کی بے بسی اور تمھیں جب مغل شہنشاہ جہاں گیر کی بیسویں اہلیہ کے روپ میں دیکھتے ہیں توتمھاری بے حسی کی کراہیں سن کر آہیں بھرتے ہیں۔ عبرت سرائے دہر میں تُو اپنی پتھرائی ہوئی آنکھوں میں ندامت، کرب، پشیمانی اور غم کاڑھے ہوئے حیرت وحسرت کی مثال بن گئی۔ تمھاری قبر سے کچھ فاصلے پر محسن کش افعی آصف خان کی قبر ہے جسے گردش حالات کے جبر نے ویران کر دیا ہے۔ فضاؤں میں پھیلی ان کی فریادیں صاف سنائی دیتی ہیں کہ جس مکان نے بھی اپنے محسن مکین کو اذیت دی گردش حالات نے اسے کہیں کا نہیں رکھا۔ تاریخی شہر لاہور کی نواحی بستی شاہدرہ میں وسیع رقبے (16.5۔ ایکڑ) پر محیط جس قبر میں تُو آسودۂ خاک ہے اُسے تُو نے تین لاکھ روپے کے زرِ کثیر کی لاگت سے چار سال کے عرصے میں اپنے لیے خود تعمیر کرایا تھا۔ علی قلی خان(شیر افگن)کی بیٹی لاڈھی بھی اسی مزار میں تیرے ساتھ دفن ہے۔ کاش یہ کثیر رقم تُونے کسی دارالامان، شفا خانہ یا جامعہ کی تعمیر پر خرچ کی ہوتی۔ حیف صد حیف کہ جن لوگوں کی آنکھوں میں آصف خان جیسے وضیع اور تیرے جیسی محسن کُش کا بال ہو اُنھیں تو فطرت کی انتہائی سخت تعزیروں کا یہ احوال دکھائی نہیں دیتا مگر دیدۂ بینا سے متمتع حساس انسانوں کے نزدیک نوشتۂ تقدیر کے سب بیان عبرت کے سامان ہیں۔ تمھارے خزاں آمادہ گلشن زیست میں آصف خان جیسے، اکڑا، دھتورا، پُٹھ کنڈا، الونک، اکروڑی، تاندلہ، باتھو، ڈب، کُندر، کسکوٹا، لانی، لیہہ، پوہلی، پاپڑا، تھوہر، ہر مل، سر کنڈا، حنظل، زقوم اور کریروں مزاج خود رو طفیلی بوٹے کا پروان چڑھنا کلیوں، غنچوں اور شگوفوں کومایوسیوں، محرومیوں اور رنج و الم کے سوا کچھ بھی نہیں دے سکتا تھا۔ آصف خان کی پوری زندگی عیاری، مکاری، فریب، ٹھگی اور محسن کشی کی تصویر بن گئی تھی۔ محسن کش سفہا اور اجلاف و ارذال کی نسل سے تعلق رکھنے والے پیمان شکنوں کی اذیت ناک دغا بازیوں کے مسموم اثرات سے خوابوں کی خیاباں سازیاں معدوم ہو جاتی ہیں۔ تمھاری قبروں کے گر دو نواح میں چھائے سکوت مرگ کو دیکھ کر زندگی پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔ تمھاری قبر کا موجودہ فرش حکیم اجمل خان (1868-1927) نے سال 1612ء میں تعمیر کرایا۔ سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑے تمھاراسب جاہ و جلال بہا لے گئے۔‘‘
نور جہاں نے قفسی اور مس بی جمالوکے کبر و نخوت کے ٹیلے پر تیشۂ حرف سے ضرب لگانے کا فیصلہ کر لیا۔ اُس نے ان طوائفوں کو کو ترکی بہ ترکی جواب دیا:
’’مس بی جمالو! یہ بات کس قدر حیران کن ہے کہ آج مکر وال کے گندی نالی بھی بحر اوقیانوس پر چڑھائی کرنے پر تُل گئی ہے اور موری کی ایک متعفن اینٹ نے تاج محل میں نصب سنگ مر مر سے چشم نمائی کی ٹھان لی ہے۔ تم کس ہوا میں اُڑ رہی ہو اور کٹی ہوئی پتنگ کے مانند کس فضا میں لہراتی پھرتی ہو۔ اونہہ! یہ منھ اور مسور کی دال، اپنی اوقات کو فراموش نہ کرو۔ تمھارے خاندان کی عورتیں تو گھروں میں صفائی کیا کرتی تھیں مگر تم نے تو ہنستے بستے گھروں کا صفایا کر کے انھیں کھنڈر بنا دیا ہے۔ آئینے میں اپنی شکل تو دیکھو کس بے ڈھنگے انداز میں لیپا پوتی کر کے تم یہاں پہنچی ہو تمھیں کس بات کا خمار ہے۔ تمھاری ہئیت کذائی دیکھ کر ہر با شعور شخص یہی کہے گا کہ کاجل کی کجلوٹی اور پھولوں کا سنگھار۔ قحبہ خانے، چنڈو خانے اور عقوبت خانے کی گناہوں سے آلودہ زندگی نے تمھاری سوچ ہی بدل ڈالی ہے۔ تمھاری کور مغزی اور بے بصری کا یہ عالم ہے کہ جب تم سے صبح کی پُوچھیں تو تم شام کی کہتی ہو۔ اپنی بتیس سالہ بیٹی مس بی جمالو کو ساتھ لے کر تم دونوں تو طویل عرصے سے شرم و حیا، فہم و فراست اور ہوش و خرد کے پیچھے لٹھ لیے پھرتی ہو۔ تم جیسی کرگس کو گلاب کی قدر کیا معلوم اور چغد سے یہ توقع رکھنا عبث ہے کہ وہ ہما سے عہدِ وفا استوار رکھے۔ صفی اورنگ آبادی کا یہ شعر تصنع کی مظہر تمھاری آرائش و زیبائش اور جعل سازی کے بارے میں سب حقائق سامنے لاتا ہے:
اچھے گُن دیکھ اچھی شکل نہ دیکھ
سنکھیا بھی سفید ہوتی ہے
میں سوچتی ہوں کہ ترکی، تازی و عراقی اسپ تو میدان مار گئے اب خچر، استر اور حمار کے کان مروڑنے سے کیا حاصل ہو گا؟ ابھی تم نے میرے بارے میں جو بات بھی کی وہ محض خرافات اور کینہ پروری اور حسد کی لائق نفرت اور متعفن مثال ہے۔ اگر اس وسیع کائنات میں خوابوں کا کوئی ذہین اور دیانت دار صورت گر پیمان شکنی، دغا و دُزدی، عریانی و فحاشی، جنسی جنون، تخریب و تحریص، محسن کُشی، طوطا چشمی، قزاقی و چالاکی اور ناز و ادا کی غارت گری کی تجسیم اور مرقع نگاری کا معجز نما کرشمہ دکھا سکے تو جو کریہہ صورت سامنے آئے گی وہ قفسی اور مس بی جمالو سے من و عن مماثل ہو گی۔ تمھارے ستم سہنے والے مظلوم لوگ یہی کہتے ہیں کہ وہ اپنی بربادی کوقسمت یا تقدیر کے کھاتے میں ڈالنے کے بجائے یہ تسلیم کرتے ہیں کہ قفسی اور مس بی جمالو نے محبت کی شاطرانہ اداکاری اور تکلف کی عیارانہ رواداری سے اُنھیں اس طرح مد ہوش کیا کہ اُن کا ہوش جاتا رہا۔ تم ایک خون آشام ڈائن ہو اور تمھاری بیٹی مس بی جمالو ایک خطرناک چڑیل زادی ہے۔ مس بی جمالو! تمھاری چربہ سازی، جسارت سارقانہ اور کفن دُزدی سے پوری دنیا واقف ہے۔ تمھاری خون آشام ڈائن ماں نے بے شمار لوگوں کی زندگی کی تمام موسم وقفِ خزاں کر دئیے اور ہزاروں گھر ویران کر دئیے۔ عشاق کے دل کے گلشن میں جہاں لالہ و گُل اور سر و صنوبر کی فراوانی تھی تمھاری غارت گری کے بعد اب وہاں دھتورا، حنظل، تھوہر، زقوم، پوہلی اور کسکوٹا کے سوا کچھ بھی تو نہیں۔ شہر کے وہ سب لوگ جو غرفہ کی بات سے آگاہ ہیں یہی کہتے ہیں کہ قفسی اور مس بی جمالو کے قحبہ خانے اور چنڈو خانے میں مے ارغوانی کی فراوانی اور جنسی جنون کی فتنہ سامانی ہے۔ شہر خموشاں میں منشیات فروشوں کو ہیروئن، افیون، چرس، بھنگ، کوڈین اور مارفین کی فراہمی بھی قفسی اور مس بی جمالو کے پروردہ مافیا نے اپنے ذمہ لے رکھی ہے۔ مگر یہ سب کچھ جاننے کے باوجود حسن پرست نوجوانوں کی تن آسانی اور دل کی ویرانی ان کی سوختہ سامانی کاسبب بن گئی۔ چھاج تو بولے مگر چھلنی کیوں بولے جس میں سیکڑوں چھید ہیں۔ قفسی تُو اپنی اوقات مت بھول اور اپنے ماضی پر نظر ڈال کہ تُو نے اپنے بھڑوے شوہر رمنو کو عالمِ پیری میں گھر سے بے گھر، در بہ در اور خاک بہ سر کیا۔ تیرے قحبہ خانے میں ہر وقت جنسی جنونی مے خواروں اور رقص و سرود کے طلب گاروں ہوس پرست سفہا اور اجلاف و ارذال کا تانتا بندھا رہتا تھا۔ تو نے قحبہ خانے میں اپنا کام چلانے کی خاطر اپنے شوہر کا کام تمام کر دیا۔ تیری اولاد نے سدا بروٹس کا کردار ادا کیا، اسی شاخ کو کاٹا جس پر ان کا آشیاں تھا، اسی نخل کی جڑیں کھوکھلی کیں جو ان پر سایہ فگن رہا اور اسی تھالی میں چھید کیا جس میں انھیں مدام طعام ملتا رہا۔ قفسی! تُو مشکوک نسب کی ایک ایسی طوائف ہے جس کا آبائی پیشہ سو پشت سے قحبہ گری ہے۔ تم نے شادی کے خواہش مند دولت مند نوجوانوں کو پھانسنے کے لیے اپنی حسین بیٹیوں کو استعمال کیا۔ جو جذباتی، عیاش اور جنسی جنونی امیر نوجوان تمھارے جال میں پھنسے وہ کوڑی کوڑی کے محتاج ہو گئے اور وہ زندہ در گور ہو گئے۔ کیا تجھے جلال، رافع، بشیر، محسن، جھابو، تلا، منوہر، کرمو، نتھا اور پھتو بھول گئے ہیں۔ یہ سب تمھارے ہاتھوں لُٹنے کے بعد شہر کی گلیوں میں ناشاد و ناکارہ پھرتے ہیں اور ہر وقت تمھیں کوستے ہیں۔ تم ٹھگوں کی کٹنی، درندوں کی ماں اور عیار نائکہ ہو۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تمھاری اور تمھاری اولاد کی جون بدل چکی ہے اور تم سب کھسیانی گربہ کے مانند کھمبا نوچنے اور باؤلی کتیا کی طرح کاٹنے کو دوڑتی ہو۔ کوڑے کے ہر ڈھیر کو سونگھنے اور وہاں سے مفادات کے استخواں نوچنے اور بھنبھوڑنے والے تم جیسے خارش زدہ سگان راہ کو احساسِ ذلت دلانے، عہد و پیمان سے انحراف پر مبنی فراموش کردہ داستان سنانے کے لیے ان کی کریہہ، پھُولی ہوئی، حقائق کو بھُولی ہوئی اور عفونت زدہ دُم پر پاؤں رکھ کر تم سب کو فیض احمد فیضؔ کی نظم مشہور ’’کتے‘‘ سناتی ہوں جو تمھارے حسبِ حال ہے۔ اس نظم کے آئینے میں تم اپنی اصل صورت دیکھ لو۔ تمھیں معلوم ہے کہ خارش زدہ سگانِ راہ کے غرانے سے رِزقِ گدا میں کبھی کوئی کمی واقع نہیں ہو سکتی۔ اب اپنے بارے میں فیض احمد فیض ؔ کی صدا سنو اورسردھُنو:
کتے
یہ گلیوں کے آوارہ بے کار کُتّے کہ بخشا گیا جن کو ذوقِ گدائی
زمانے کی پھٹکار، سرمایہ ان کا جہاں بھر کی دھتکار، ان کی کمائی
نہ آرام شب کو، نہ راحت سویرے
غلاظت میں گھر، نالیوں میں بسیرے
جو بگڑیں تو اِک دوسرے سے لڑا دو
ذرا ایک روٹی کا ٹکڑا دکھا دو
یہ ہر ایک کی ٹھوکریں کھانے والے
یہ فاقوں سے اُکتا کے مر جانے والے
یہ مظلوم مخلوق گر سر اُٹھائے تو انسان سب سر کشی بھُول جائے
یہ چاہیں تو دنیا کو اپنا بنا لیں یہ آقاؤں کی ہڈّیاں تک چبا لیں
کوئی ان کو احساسِ ذلت دلا دے
کوئی ان کی سوئی ہوئی دُم ہِلا دے (نقشِ فریادی)
اس کے بعد ایک شخص اُٹھا جو شکل و صورت سے طالع آزما، مہم جُو اور موقع پرست دکھائی دیتا تھا۔ اس نے کہا:
’’میں ہندوستان کی ملکہ نور جہاں کا بھائی آصف خان ہوں۔ ابھی نائکہ قفسی نے میرا نام لیا اور کہا کہ میں نے اپنی بیٹی ارجمند بانو (ممتاز محل) کے لیے شاہ جہاں کا رشتہ تلاش کیا اور اپنی بہن نور جہاں کو پابند سلاسل کیا۔ میں نائکہ قفسی سے یہ پوچھتا ہوں کہ اس کے بڑے بھائی نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ قفسی نے اپنی سب سے بڑی بیٹی کو جو اس کے حقیقی بڑے بھائی کی بہو تھی اُسے اپنے سسرال میں بسنے نہ دیا اور اسے سبز باغ دکھا کر وہاں سے نکالا اور کالا باغ کے ایک جاگیر دار کے ساتھ اس کی شادی کر کے اپنی تجوری بھر لی۔ کچھ عرصہ پہلے قفسی نے اپنی بھتیجی کو اپنی بہو بنایا مگر جب اس نے مس بی جمالو کی طویل مصروفیات اور اہلِ عالم کے ساتھ پوشیدہ تعلقات پر اعتراض کیا تو اُسے بھی بے نیلِ مرام اپنے میکے جانا پڑا۔ قفسی کی بہو اپنی ساس کو قحبہ خانے کی گھاس کے برابر سمجھتی تھی مگر پڑوسن اور اس کے بیٹوں سے گھل مل جاتی تھی۔ اس معصوم لڑکی کو جب ایک ڈائن سے نجات ملی تو اس کے والدین نے اس کی شادی ایک شریف گھرانے میں کر دی جہاں وہ اب سکون کی زندگی بسر کر رہی ہے۔ اپنی بھتیجی کو بارہ پتھر کرنے کے بعد قفسی نے مس بی جمالو کے مشورے سے اپنی ہم پیشہ و ہم مشرب و ہم راز سہیلی کی بیٹی کو اپنی بہو بنا یا جو اس پہلے تین شادیاں کر چکی تھی تھی مگر بعض لوگوں کے خیال میں اس نے انتہائی راز داری سے ایک سو تین شادیاں کیں اور یکے بعد دیگرے سب سے علاحدگی اختیار کر کے وہ اب قفسی کے عیاش بیٹے کے زیرِ دام آ چکی تھی۔ اب قفسی کے سُونے گھر میں بھِڑ، بُوم اور شِپر راج کر رہے ہیں۔ مس بی جمالو کے عشرت کدے کی منڈیروں پر زاغ و زغن، کرگس اور چمگادڑ گردشِ حالات پر آہیں بھرتے ہیں۔ نائکہ قفسی اور مس بی جمالو ایسی ناگنیں تھیں جو مکروال شہر میں تو اپنی ٹیڑھی چال کی وجہ سے رسوا تھیں مگر اپنے شکار کو کاٹنے اور اپنا اُلّو سیدھا کرنے کے بعد اپنے بِل میں وہ ہمیشہ سیدھی ہی داخل ہوتی تھیں۔ چشم بینا پر یہ بات واضح ہے کہ اِن زہریلی ناگنوں کے پاؤں ان کے شکم میں پنہاں ہیں۔ سانپ تلے کا بچھو جب ڈستا ہے تو ان کی زد میں آنے والے اس قدر گریہ و زاری کرتے ہیں کہ اپنے لواحقین کو سونے نہیں دیتے مگر جو الم نصیب ان ناگنوں کا شکار بنتے ہیں وہ ابدی نیند سو جاتے ہیں۔‘‘
’’تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تُو۔‘‘ مس بی جمالو نے غراتے ہوئے کہا ’’تم نے اپنی بیوہ بہن کو سیڑھی بنا کر قصر شاہی کے بلند مینار تک رسائی حاصل کی اور پھر اسی سیڑھی کو استعمال کر کے زندان میں پھینک دیا۔ تم محسن کش، پیمان شکن اور خود غرض درندے ہو۔‘‘
’’میرے منھ لگنے سے پہلے تم اپنے گریبان میں جھانک لو۔‘‘ آصف خان نے کہا ’’تمھارے سر میں تو خود ستائی اور خود نمائی کا خناس سما یا ہے تمھاری ماں نے بشیر نامی ایک ضعیف معلم کو فریب دیا کہ تمھیں اس کی بہو بنا دیا جائے گا اور تمھاری منگنی اس کے زیر تعلیم ویٹرنری ڈاکٹر بیٹے کے ساتھ کر دی۔ تم نے اکتیس مارچ2019ء کی سہ پہر اُس ضعیف معلم اور محسن کے ساتھ جو توہین آمیزسلوک کیا وہ تمھارے لیے ڈُوب مرنے کا مقام ہے۔ وہ فریب خوردہ الم نصیب ضعیف معلم جس نے تمھاری ایم۔ فل اردو کی سندی تحقیق کے لیے اردو اور دکنی زبان کے افعال کے موضوع پر ملک بھر کے کتب خانوں میں جا کرسے دو سو سے زائد نایاب بنیادی مآخذ تلاش کیے، ان کی عکسی نقول بنوائیں اور مقالے کی تسوید کی۔ اس کے بعد دن رات ایک کر کے چار سو صفحات کا مقالہ لکھا، تمھاری سندی تحقیق کی خاطر لکھے گئے تحقیقی مقالے کی کمپیوٹر کمپوزنگ ضعیف معلم بشیر نے خود کی اور اس کی ہارڈ اور سوفٹ کاپی تمھارے گھر پہنچائی۔ اے ابن الوقت حسینہ! میرا دِل بھی تمھارے سب رازوں کا دفینہ ہے۔ تم نے مکر و فریب، دغا و دُزدی اور جورو ستم سے جو سرقہ کیا ہے اُس نے تمھیں ننگ انسانیت بنا دیا ہے۔