گاڑی ایک جھٹکے سے رکی تھی، جیسے مقابل کو اپنی طاقت دکھانے کا ارادہ ہو۔
اس کا سر ڈیش بورڈ سے ٹکراتے ٹکراتے بچا تھا۔ اس نے بے یقینی سے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا تھا۔
مقابل کچھ بولتا، وہ بول پڑی ،آپ اندر نہیں آئیں گے؟
اس نے بغور اسے دیکھا، وہ لڑکی کس قدر معصوم تھی۔ لیکن ایک دم اس کے تاثرات بدلے تھے، کیونکہ اسی لڑکی کی وجہ سے اس کے بھائی کو گھر چھوڑنا پڑا، اسی لڑکی کی وجہ سے اس کی آزادی چھین لی گئی اور اسی لڑکی کی وجہ سے اس کی ماں سے اس کے دونوں بیٹے دور کردیے گئے تھے۔
وہ بغیر کوئی جواب دیئے گاڑی کا دروازہ کھول کر اتر چکا تھا۔ زری نے بھی اس کی پیروی کی تھی۔
زری نے آگے بڑھ کر بیگ سے چابی نکال کر دروازہ کھولا تھا۔
چاچی اندر نہیں ہے کیا؟ اس کے اس طرح سے دروازہ کھولنے سے اسے چاچی کی فکر ہوئی تھی۔
امی اندر ہی ہیں وہ تھوڑا بیمار رہتی ہیں تو اسی وجہ سے میں ایک چابی اپنے ساتھ رکھتی ہوں۔
دونوں اندر کی طرف بھڑ گئے۔
اسلام علیکم امی!!
وعلیکم سلام! رابیہ بیگم نے دروازے کی طرف دیکھا تو وہاں زری اکیلی نہیں تھی بلکہ ابان بھی تھا۔ رابیہ بیگم نے ان دونوں کو ساتھ دیکھ کر دل سے دعا دی تھی۔ “ہمیشہ ساتھ رہنے کی۔”
ابان نے انہیں بغور دیکھا وہ کافی کمزور، ضعیف لگ رہی تھیں۔
ان کی طرف بڑھا اور رابیعہ بیگم نے اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔ رابیعہ بیگم کا کوئی بیٹا نہ تھا۔ لیکن ابان ان کے لیے بیٹے سے کم بھی نہ تھا۔
کیسا ہے میرا بیٹا؟
میں بالکل ٹھیک ہوں چاچی، آپ پہلے سے کافی کمزور ہو چکی ہیں۔ اس نے دیکھتے ہوئے کہا۔ وہ واقعی کافی کمزور ہوگئی تھیں یا پھر چاچو کے چلے جانے کہ صدمے سے ایسی ہوگئی تھیں۔
ارے یہ کمزور ی کہاں ہے اچھی خاصی تو ہوں، تمہیں اور زری کو ہی لگتا ہے کہ کمزور ہوچکی ہوں۔ وہ نروٹھے پن سے بولیں تھیں۔
زری ابھی تک یہی کھڑی ہوں ابان کے لیے کچھ کھانے پینے کو لے کر آؤ میرا بیٹا کتنے سالوں کے بعد آیا ہے اور تم ابھی تک یہیں ہو۔
جی۔۔۔ جی۔۔۔۔ وہ کہہ کر کچن کی طرف چل دی۔
__________________
بھائی میرے لیے لیپٹوپ لے کر آئے ہیں۔ رات کے 6 بج چکے تھے زری اور ماہی ہال میں بیٹھی تھیں۔ آمنہ بیگم اپنے کمرے میں جاچکی تھیں اور آج آغا جان کی بھی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی۔ وہ کافی دیر انہی کے پاس بیٹھی رہی تھی انہیں دوا دے کر وہ نیچے آگئی تھی۔
پھر ماہی چہکتے ہوئے اسے اپنا لیپٹوپ دکھانے لگی۔ وہ دیکھ رہی تھی جب ابان اندر داخل ہوا۔ وہ کافی تھکا ہوا لگ رہا تھا۔
ٹھیک ہے ماہی کل ملتے ہیں۔ یہ کہہ کر اس کے پاس سے گزرنے لگی تھی۔ جب وہ اس کا ہاتھ پکڑ چکا تھا۔
بیٹھ جاؤ میں کمرے میں جا رہا ہوں وہ جانتا تھا کہ وہ اس کی موجودگی سے ڈسٹرکٹ ہوتی ہے لیکن اس قدر؟ اسے کافی اچھا لگا۔۔۔۔۔۔
بھائی آپ کھانے سے پہلے کچھ لیں گئے؟ چائے یا کافی۔۔۔۔۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ ان دونوں کے درمیان کوئی تلخ بات ہو اسی لئے بول پڑی۔
میں تم سے تمہاری دوست کا کچھ وقت لونگا۔
کیوں نہیں ضرور اور جتنا چاہے لیں، لیکن انہیں گھر خود چھوڑ کر آئیے گا کیونکہ آپ کی محترمہ کو اندھیرے سے ڈر لگتا ہے وہ یہ کہہ کر سیڑھیوں کی طرف بڑھ گی۔
اس کا ہاتھ ابھی تک ابان کے ہاتھ میں ہی تھا۔
کافی لے کر اوپر کمرے میں آؤ۔۔۔ وہ کہہ کر اوپر کی طرف بڑھ گیا۔
زری کتنی ہی دیر تک اپنا ہاتھ دیکھتی رہی جو کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے ابان کے ہاتھ میں تھا۔ وہ جلد ہی اس کے سحر سے نکلی اور کوفی بنانے میں لگ گئی، اسے بنانے میں پانچ منٹ لگے تھے۔
اس نے دروازہ نوک کیا تھا۔ اجازت ملنے پر ، وہ کمرے میں آئی تھی اس نے اس کا کمرہ کبھی سہی سے دیکھا نہیں تھا۔
جہازی سائز بیڈ، اور اس کے ساتھ ہی لکڑی کی الماری نسب تھی اور پھر واش روم کا دروازہ تھا۔ اور پھر بڑے سائز میں شیشہ تھا، شیشے کے سامنے اس کی ضرورت کے استعمال کی اشیاء موجود تھیں۔
کمرے کے درمیان میں صوفہ سیٹ موجود تھا اور ایک پر وہ ستمگر سر ٹکائے بیٹھا تھا۔
وہ کافی لیے آگے بڑھی اور اس کے سامنے موجود میز پر رکھ دی۔ وہ اسی کشمکش میں تھی کہ جائے یا نا جائے۔ اتنے میں وہ ستمگر بول پڑا۔
سر دباؤ۔۔۔۔۔۔۔
وہ سر دبانے کے لئے سوفے کے پیچھے کی طرف بڑھی تھی کہ وہ ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے ساتھ بیٹھا چکا تھا۔
وہ اس کے نرم ہاتھوں کا لمس محسوس کر رہا تھا۔ اس کے ہاتھوں کی کپکپاہٹ واضح تھی۔ وہ آنکھیں بند کر چکا تھا شاید اسے سکون مل رہا تھا۔
کچھ ہی پل گزرے تھے جب اس کی آواز اسے سنائی دی۔ وہ لڑکا کون تھا؟
جب وہ کافی دیر کچھ نہ بولی، تو اس نے اپنی آنکھیں کھولی تھی۔ وہ اسے ہی دیکھے جارہی تھی۔ اس کے جواب نہ دینے پر اسے غصہ آیا تھا۔
اس نے ایک جھٹکے سے اسے اسکی چین سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا تھا۔ اس کے اس بری طرح کھنچنے سے چین ٹوٹ کر اس کے ہاتھ میں آئی تھی۔ اسکی گرم سانسیں وہ اپنے چہرے پر محسوس کر سکتا تھا۔
اس کا سحر مقابل کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر ٹوٹا تھا۔
اس نے ہاتھ بڑھا کر اس کے چہرے کو چھوا تھا، جیسے ان آنسوؤں کی وجہ جاننا چاہتا ہو۔
اور وہ شاید جان بھی چکا تھا۔ اسکی کردن پر چین کو جھٹکا دینے سے نشان آئے تھے۔ اسکی تکلیف کی شدت چین کے ٹوٹ جانے سے لگائی جا سکتی تھی۔
اس نے اپنے دھکتے ہوئے لب اسکی کردن کے نشان پر رکھے تھے۔
اس کے اس بھر پور شدت بھرے لمس سے وہ اپنی آنکھیں بند کر چکی تھی۔ اس کے آنسوؤں میں روانگی آئی تھی۔ اس کے یہ آنسو مقابل کی شرٹ میں جزب ہوئے تھے،جنہیں وہ محسوس کر چکا تھا۔ اس کے یہ آنسو ہی تو اسے تکلیف دے رہے تھے، جس کی وجہ سے وہ یہ مداوہ کر بیٹھا تھا۔ لیکن شاید اس مداوہ سے اسکی تکلیف میں اضافہ ہوا تھا۔جو وہ ہرگز نہیں چاہتا تھا۔
اسی لیے اس نے اپنا چہرہ اوپر کیا تھا، یہ جاننے کے لیے کہ کیا واقعی اسے یہ عمل پسند نہ آیا تھا۔
وہ ہونز آنکھیں بند کیے ہوئے تھی، اس کے سر اٹھانے سے اس نے اپنی آنکھیں کھولی تھی۔
بنا کوئی لمحہ ضائع کیے، وہ بجلی کی تیزی سے کمرے سے نکلتی چلی گئ۔۔۔
مجھے معلوم ہے ، تم کو محبت ہے
مگر تم کہہ نہیں سکتے، انا کے دیوتا ہو تم
____________________
میرے درد میرے ہیں ،میرے تھے، میرے رہیں گے
آپ ستم گر ہیں،ستمگر تھے، ستمگر ہی رہیں گے
جب ابان اس رشتے کو مانتے ہی نہیں ہیں۔ تو پھر۔۔۔۔ وہ یہ سب؟ اس نے اپنا ہاتھ اپنی گردن کے نشان پر رکھا تھا۔ جیسے اس ستمگر کا لمس ہونز برقرار ہو۔۔۔۔
اسے اندھیرے سے ڈر لگتا تھا۔ لیکن آج وہ اسی اندھیرے میں بیٹھی تھی۔ وہ خوف، کہیں بہت دور جا چھپا تھا۔ جیسے اسے تحفظ کا یقین ہو۔ وہ اٹھ کھڑی ہوئی تھی اور اس کا ارادہ فریش ہو کر نماز پڑھنے کا تھا۔
اَلَا بِذِکۡرِ اللہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ
” اے ہمارے بندو! خوب کان کھول کر سن لو کہ تمہارے سینوں میں جو قلوب رکھے گئے ہیں ان کو سکون اور چین صرف ہماری یاد ہی سے مل سکتا ہے۔”
اس نے نماز پڑھنے کے بعد بارگاہ الہی میں ہاتھ اٹھائے تھے۔
اے پروردگار تو دلوں کے بھید سے خوب اچھی طرح واقف ہے۔ میرے مولا میرے دل کو سکون دے، میرے مولا تو نے ہی ہمیں اس حلال رشتے میں باندھا ہے، اس رشتے کی ڈور کو مضبوط کر دے۔ اس کے دل میں میرے لئے محبت پیدا کر دے۔ اسے میرا کردے، اس کا دل میری طرف سے صاف کردے، مولا تو ہر چیز پر قادر ہے۔ اپنی بندی کی ٹوٹی پھوٹی دعاؤں کو قبول کرلے۔
نامحرم کی محبت انسان کو ذلیل کروا دیتی ہے۔ لیکن جب بات محرم کی محبت کی آتی ہے، تو پھر خدا اس بندے کے دل میں خود اپنے بندے کی محبت ڈال دیتا ہے۔
نکاح کے دو بول ، دو انسانوں کے صرف نام ہی نہیں جوڑتے بلکہ دو دلوں کو بھی جوڑ دیتے ہیں ۔جسے اچھے لوگ نبھانے میں گزار دیتے ہیں اور برے لوگ ساری عمر سازشیں کر کر کے توڑنے میں جتے رہتے ہیں۔
__________________
وہ اپنا سر پکڑ کر اٹھ بیٹھا تھا۔ ایک دم سے رات کے مناظر اس کی آنکھوں کے سامنے لہرائے تھے۔ اس کو اپنی کم عقلی پر افسوس ہوا تھا، کہ وہ کیسے ایک کمزور لمحے کی زد میں آسکتا تھا۔ وہ میرے بارے میں کیا سوچ رہی ہو گی کہ میں کتنا کمزور نفس کا آدمی ہوں؟
نہیں میں اس کی سوچ کو غلط ٹھہرا دوں گا۔ وہ میری ہے، میری ملکیت ہے، میں اس پر پورا حق رکھتا ہوں۔
ابان لغاری اپنی ملکیت پر پورا حق رکھتا ہے وہ جیسا چاہے، اس کے ساتھ ویسا کرسکتا ہے۔
وہ ایسا ہی تھا اپنی غلطی نہ ماننے والا، اسے ابھی بھی اس کی فیننگ ہرٹ ہونے سے کوئی سروکار نہ تھا۔
مانا وہ اس پر پورا حق رکھتا تھا۔ لیکن اس نے کبھی اس بات کا اسے یقین نہیں دلایا تھا کہ وہ ابان لغاری کی ہے۔
وہ ان تمام سوچوں کو جھٹک کر اٹھ کر فریش ہونے چل دیا، کیونکہ اسے آج رابیعہ بیگم کو ڈاکٹر کے پاس لے جانا تھا وہ ڈاکٹر سے اپوائنٹمنٹ لے چکا تھا۔
________________
زری ابھی تک اٹھی نہیں بیٹا۔ رابیعہ بیگم برآمدے سے زری کو آواز لگا رہی تھیں۔ جو آج اٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ آج ہفتہ تھا یونیورسٹی سے چھٹی تھی، لیکن وہ اس ٹائم تک اٹھ جایا کرتی تھی۔ انہیں اپنی بیٹی کے نا اٹھنے سے پریشانی ہوئی۔
ان کا گھر اتنا بھی بڑا نہ تھا وہ چھوٹا اورنفیس گھر تھا۔ برآمدے سے آواز آرام سے زری کے کمرے تک پہنچ سکتی تھی اور وہ ہمیشہ زری کو ایسے ہی اٹھاتی تھیں، لیکن جب وہ نہ اٹھی تو وہ اس کے کمرے کی طرف بڑھ گئیں۔
انہیں زری کی پیشانی پر ہاتھ رکھنے سے اندازہ ہو چکا تھا کہ وہ رات سے بخار میں تب رہی تھی۔
_________________
وہ فرش ہوکر نیچے آیا تھا جب اسے سب کھانے کی ٹیبل پر نظر آئے تو وہ انہی کی طرف بڑھ گیا۔
السلام علیکم ایوری ون!!!
جاگ گئے برخودار۔۔۔۔۔ آج کافی لیٹ اٹھے ہو، خیریت ہے نا، کیا آج آفس نہیں جانا؟
آغا جان آج آفس نہیں جانا۔ بلکہ آج چاچی جان کے لیے ڈاکٹر سے اپائنمٹ لے چکا ہوں، بس انہی کو لے کر ڈاکٹر کی طرف جانا ہے چیک اپ کیلئے۔۔۔۔۔ وہ بڑے تحمل سے بولا تھا۔
انہیں ڈاکٹر کے پاس پھر کبھی لے جانا۔ آج تمہیں گھر ہی رہنا ہوگا، کیونکہ آج ماہین کو کچھ لوگ دیکھنے آ رہے ہیں۔ آمنہ بیگم غصے سے بولی تھیں۔
موم، چاچی کا چیک اپ زیادہ ضروری ہے۔ رشتہ دیکھنے والے پھر کبھی آجائیں گے۔ یہ جواب ماہین کی طرف سے آیا تھا۔
تم سے کتنی بار کہا ہے، کہ جب بڑے بات کر رہے ہوں تو بیچ میں مت بولا کرو۔ ان کی بات سن کر ماہی چپ ہو گئی۔
موم آپ فکر مت کریں میں ٹائم پر آجاؤں گا۔
میں ڈرائیور کو چھوڑ کر جا رہا ہوں اگر آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہو یا کسی مدد کی تو آپ رحیم سے کہہ دیجئےگا۔
وہ ناشتے سے ہاتھ روک چکا تھا۔ ٹھیک ہے پھر بعد میں ملاقات ہوتی ہے۔
وہ اپنی ماں کی طرف بڑھا اور ان کے گلے لگا، ان کی پیشانی پر پیار کیا اور باہر کی طرف بڑھ گیا۔
_________________
چچی جان۔۔۔۔۔۔۔ چچی جان۔۔۔۔۔ اسے وہ برآمدے میں کہیں نظر نہ آئیں۔ لیکن وہ ان کی آواز پر کمرے کی طرف بڑھا تھا۔
زری بیٹا اٹھو۔۔۔۔ تم نے مجھے رات کو کیوں نہیں بتایا کہ تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں۔ وہ اسے ہلاتے ہوئے بول رہی تھیں۔ لیکن زری کی آنکھیں ابھی تک بند تھی۔
چچی جان۔۔۔۔۔۔ وہ صورتحال سمجھ گیا تھا اسی لیے بغیر وقت ضائع کئے وہ اس کے بیڈ کی طرف بڑھا تھا۔
زری آنکھیں کھولو۔۔۔۔ زری۔۔۔۔ وہ دوسری طرف بیڈ پر بیٹھ کر اس کا سر اپنے گھٹنوں پر رکھ چکا تھا۔ وہ شاید بخار کی وجہ سے بے ہوش ہو گئی تھی۔
چچی جان، پانی۔۔۔ پانی دیں۔ رابیعہ بیگم نے بیڈ کے ساتھ موجود ٹیبل سے پانی کا گلاس اٹھا کر اس کی طرف بڑھایا۔
اپنے چہرے پر پڑھتے پانی کی وجہ سے اس نے آنکھیں کھولی تھی۔ لیکن جو منظر، جو چہرہ اس کے سامنے تھا۔ اسے جھٹلانے کے لیے اس نے اپنا چہرہ دوسری طرف کیا تھا۔ اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکان آئی تھی۔ بھلا دعا اتنی جلدی بھی قبول ہوتی ہے۔
لیکن مقابل نے پھر سے اس کا نام پکار کر چہرہ اپنی طرف کیا تھا۔ وہ اس آواز پر اٹھ بیٹھنے کو تھی جب مقابل نے اسکی کمر میں ہاتھ ڈال کر بیڈ کی بیک کے ساتھ سہارے کی گرز سے بٹھایا تھا۔
وہ اپنے چکراتے سر کے ساتھ اس کے عمل کو دیکھ رہی تھی جو اب اس پر کمفرٹر ڈال رہا تھا۔
چاچی اس کے لیے کچھ کھانے کو لے آئیں، اس کے بعد اسے میڈیسن بھی دینی ہے۔
رابیعہ بیگم کھانا لینے کے لیے جاچکی تھی۔
اس نے نظریں اٹھا کر دیکھا تو وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ اس کے اس طرح دیکھنے سے وہ اپنی نظریں جھکا گئی تھی۔
وہ دوبارہ اٹھنے کو تھی جب وہ اسے کھینچ کر اپنی طرف کر چکا تھا۔ اس کا چہرہ اس کے چہرے کے بالکل پاس تھا۔ ان کے درمیان ایک انچ کا فاصلہ تھا۔
تم چاہتی ہو کہ میں پھر سے کوئی کاروائی کروں؟ جبکہ تم سے میری ایک چھوٹی سی گستاخی برداشت نہیں ہوسکی۔ وہ رات والی بات کا حوالہ دیتے ہوئے بولا، اور اس کے ہونٹوں کو فوکس کیے ہوئے تھا۔
ماہی فورا سے پہلے اپنی سابقہ پوزیشن میں بیٹھی، کیونکہ اب اسے مقابلے پر کوئی بھروسہ نہ تھا۔
اس کے اس طرح بیٹھنے سے وہ جی جان سے مسکرایا تھا۔
اس کی ہنسی ماہی کو سرشار کر گئی تھی۔
“اگر ہم اس کی مسکراہٹ پر نا مرتے، تو غصے پر جان دیتے۔”
_________________
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...