اے عشقِ ازل گیر و ابد تاب، میرے بھی ہیں کچھ خواب
میرے بھی ہیں کچھ خواب!
اس دور سے، اس دور کے سوکھے ہوئے دریاؤں سے،
پھیلے ہوئے صحراؤں سے، اور شہروں کے ویرانوں سے
ویرانہ گروں سے میں حزیں اور اداس!
اے عشقِ ازل گیر و ابد تاب
میرے بھی ہیں کچھ خواب!
اے عشقِ ازل گیر و ابد تاب، میرے بھی ہیں کچھ خواب
میرے بھی ہیں کچھ خواب
وہ خواب کہ اسرار نہیں جن کے ہمیں آج بھی معلوم
وہ خواب جو آسودگیِ مرتبہ و جاہ سے،
آلودگیِ گردِ سرِ راہ سے معصوم!
جو زیست کی بے ہودہ کشاکش سے بھی ہوتے نہیں معدوم
خود زیست کا مفہوم!
اے عشقِ ازل گیر و ابد تاب،
اے کاہنِ دانشور و عالی گہر و پیر
تو نے ہی بتائی ہمیں ہر خواب کی تعبیر
تو نے ہی سجھائی غمِ دلگیر کی تسخیر
ٹوٹی ترے ہاتھوں ہی سے ہر خوف کی زنجیر
اے عشقِ ازل گیر و ابد تاب، میرے بھی ہیں کچھ خواب
میرے بھی ہیں کچھ خواب!
اے عشقِ ازل گیر و ابد تاب،
کچھ خواب کہ مدفون ہیں اجداد کے خود ساختہ اسمار کے نیچے
اجڑے ہوئے مذہب کے بنا ریختہ اوہام کی دیوار کے نیچے
شیراز کے مجذوبِ تنک جام کے افکار کے نیچے
تہذیبِ نگوں سار کے آلام کے انبار کے نیچے!
کچھ خواب ہیں آزاد مگر بڑھتے ہوئے نور سے مرعوب
نے حوصلۂ خوب ہے، نے ہمّتِ نا خوب
گو ذات سے بڑھ کر نہیں کچھ بھی اُنہیں محبوب
ہیں آپ ہی اُس ذات کے جاروب
۔۔ذات سے محجوب
کچھ خواب ہیں جو گردشِ آلات سے جویندۂ تمکین
ہے جن کے لیے بندگیِ قاضیِ حاجات سے اِس دہر کی تزئین
کچھ جن کے لیے غم کی مساوات سے انسان کی تامین
کچھ خواب کہ جن کا ہوسِ جور ہے آئین
دنیا ہے نہ دین!
کچھ خواب ہیں پروردۂ انوار، مگر اُن کی سحر گُم
جس آگ سے اٹھتا ہے محبّت کا خمیر، اُس کے شرر گُم
ہے کُل کی خبر اُن کو مگر جُز کی خبر گم
یہ خواب ہیں وہ جن کے لیے مرتبۂ دیدۂ تر ہیچ
دل ہیچ ہے، سر اتنے برابر ہیں کہ سر ہیچ
۔۔عرضِ ہنر ہیچ!
اے عشقِ ازل گیر و ابد تاب
یہ خواب مرے خواب نہیں ہیں کہ مرے خواب ہیں کچھ اور
کچھ اور مرے خواب ہیں، کچھ اور مرا دَور
خوابوں کے نئے دَور میں نے مور و ملخ نے اسد و ثور
نے لخّتِ تسلیم کسی میں نہ کسی کو ہوسِ جور
۔۔سب کے نئے طور!
اے عشقِ ازل گیر و ابد تاب،
میرے بھی ہیں کچھ خواب!
ہر خواب کی سوگند!
ہر چند کہ وہ خواب ہیں سر بستہ و رو بند
سینے میں چھپائے ہوئے گویائیِ دوشیزۂ لب خند
ہر خواب میں اجسام سے افکار کا، مفہوم سے گفتار کا پیوند
عشّاق کے لب ہائے ازل تشنہ کی پیوستگیِ شوق کے مانند
(اے لمحۂ خورسند!)
اے عشقِ ازل گیر و ابد تاب، میرے بھی ہیں کچھ خواب
وہ خواب ہیں آزادیِ کامل کے نئے خواب
ہر سعیِ جگر دوز کے حاصل کے نئے خواب
آدم کی ولادت کے نئے جشن پہ لہراتے جلاجل کے نئے خواب
اس خاک کی سطوت کی منازل کے نئے خواب
یا سینۂ گیتی میں نئے دل کے نئے خواب
اے عشقِ ازل گیر و ابد تاب
میرے بھی ہیں کچھ خواب
میرے بھی ہیں کچھ خواب!
٭٭٭
ماخذ:
https://seanpue.com/ur/itoohavesomedreams/ /
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید