میراج بغیر نظریں جھپکاۓ اسے دیکھنے لگا
یااللہ مجھے معاف کر میں کیسے ایک نامحرم لڑکی کو دیکھ رہاہوں خود کو لعنت ملامت کرتے وہاں سے چلا گیا
……………………
تین دن بعد
شفا یار اماں صحیح کہہ رہیں ہے تم ناصر سے نکاح کر لو ورنہ گاؤں والے تمہارا جینا حرام کر دیں گے
زارا کب سے سمجھا رہی تھی لیکن وہ روۓ جا رہی تھی
پلیز مجھے اکیلا چھوڑ دو تھوڑی دیر شفا نے ہاتھ جوڑ کر کہا
اچھا مگر گھر جلدی آجانا اندھیرا ہونے والا ہے
زارا پیار سے اس کے شولڈر تک آتے بالوں میں ہاتھ پھیر کر چلی گئی
جینز کے اوپر گھٹنوں تک آتی فراک گلے میں اسٹالر اور سلیو لیس بازوں چہرہ کسی بھی آرائش سے پاک
ہاتھ کو ٹھوڈی کے نیچے رکھ کر کسی غیر مرئی نقطے کو دیکھ رہی تھی
شادی کرلوں اس ناصر کنگلے سے خود کو تو سنبھال نہیں سکتا میرا کیا خیال کرے گا میں تو ہوں بھی معذور اپنے کٹے ہوئے بازو کو دیکھ کر دل میں سوچا
اس سب سے دور……
میراج قمیس شلوار میں کندھے پر شال ڈالے وڈیروں کی پھگ پہنے کسی جہان کا شہزادہ معلوم ہورہا تھا دراز قد کسرتی جسم سنجیدہ بھوری آنکھیں چہرے پر نفاست سے تراشی گئی داڑی اور جدید طرز کی مونچھوں میں وہ گشت کررہا ہے گاؤں کا
سائیں بس اللہ سائیں کا کرم ہے دھی راٹیں کی شادی ہے آپ آؤ گے تو مجھے بہت خوشی ہو گی ہاتھ جوڑے مؤدب انداز سے کہتا گاؤں کے امیروں میں سے ایک محمد شہباز بیٹی کی شادی کی دعوت دینے آیا تھا
میں کوشش کروں گا سنجیدگی سے کہا
وہ اس وقت گھوم پھر رہے تھے اسلحے سے لیس دو اہلکاروں کے ہمراہ ایک پرانے گودام میں بیٹھ گئے
ہاں بھی محسن کیا کیا جاۓ غصے سے کہتا ہوا سامنے موجود ہاتھ جوڑے روتے ہوئے شخص سے کہا
چھوٹے مالک ہمیں معاف کردو بس آئیندہ ایسی غلطی نہیں ہوگی
گڑگڑاتے ہوۓ معافیاں مانگنے لگا
میراج نے اہلکار کی طرف ہاتھ بڑھایا اس نے پستول رکھ دی
وہ اور وڈیرے ہونگے جو زنا معاف کرتے ہوںگے میں بہت ظالم ہوں
ٹھا………. ٹھا ……….ٹھا…………
یہ قصہ بھی ختم اس کی لاش بھیج دو میں جھیل پر جارہا ہوں
………………….
اوفففففف اللہ اندھیرا ہوگیا اب کیسے جاؤں گی میرا تو موبائل بھی نہیں ہے کب سے خیالوں میں تھی اب اندھیرا دیکھ کر پریشان ہوگی
اسے دور کسی کے قدموں کی آواز آئی ڈر کر درخت کی اوٹ میں چھپ گئ اردگر دیکھا اندھیرے میں دیکھنے کی کوشش مگر ندارد
شفا ڈر کے مارے درخت کے پیچھے بیٹھ گئی
قدموں کی آوزیں قریب آنے لگیں
یا اللہ شفا نے بےاختیار ہی اللہ کو پکارا آواز مدھم تھی مگر آنے والے نے سن لی
کون ہے ادھر میراج نے بلند آواز سے کہا
شفا جلدی سے اور پیچھے ہو گئ وہ قدم اب اور قریب آگۓ
اور شفا کا ہاتھ کسی نے بہت مضبوطی سے پکڑ لیا
چھوڑو مجھے چھوڑو ایک ہی ہاتھ تھاوہ بھی اس وقت قید میں تھا اب کیا کرے
میراج نے شفا کے ہاتھ کو کھینچ کراپنے قریب کیا
پہچاننے کی کوشش کررہا تھا اندھیرا ہونے کی وجہ سے اور بھی قریب کر لیا آواز نسوانی تھی ہاتھ بھی مگر اس وقت یہاں کوئ لڑکی یا عورت ہونا عجیب تھا
جھیل کے کنارے دو ساۓ کھڑے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے
شفا کا پاؤں پھسلا آہ……
میراج نے بروقت ہاتھ میں پکڑے ہاتھ پر گرفت مضبوط کی اور اپنی جانب کھینچا کانپتا وجود اس کی بانہوں میں دبک کر رہ گیا
یا اللہ ابھی ایک شخص کو زنا کی سزا دی ہے اور اب خود ایک معصوم کے اففف دل میں خود پر افسوس کیا
اسے اپنی بانہوں میں دبکے وجود میں کچھ عجیب لگا
ہاں …….ہاتھ کیا یہ وہی ہے…. شفا بے اختیار لبوں سے پھسلا
شفا نے اس کی مدھم سرگوشی پر چہرہ اٹھا کر دیکھا
کون ؟؟؟؟؟؟ آپ کون ہو شفا نے سوال کیا
میراج نے ٹرانس کی کیفیت میں شفا کے گرد اپنا بازو پھیلایا….
چھوڑو…………….. ایک زور دار چیخ ماری
……………………..
ڈاکٹر اگر ذیادہ چلاکی کی تو…… شاہنواز نے آصف کے فیملی ڈاکٹر کو دھمکاتے ہوۓ کہا
آپ فکر نا کریں سر بس میرے بیٹے کو چھوڑ دو میں سب ٹھیک کروادوں گا
اگر گڑبڑ ہوئ تو……. مجھ سے برا کوئ نہیں ہوگا سمجھے
چل جا وہ آنے والے ہیں
شاہنواز نے مکرہ لہجے سے کہا
شفا بوۓ کٹ بال ٹائز پر چھوٹی سی فراک پہنے گول معصوم سی آنکھیں گھما گھما کر دیکھ رہی تھی پنکھڑی کی مانند لبوں پر شرارتی سی مسکان لئیے چھوٹی سی بچی لگ رہی تھی
ایک طاقت کا انجیکشن لگاتا ہوں ڈاکٹر عاصم کا دل زور زور سے ڈھرک رہا تھا
رگ ڈھونڈتے ہوئے ہاتھ کانپ رہے تھے یا اللہ……….
………….
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...