(Last Updated On: )
خان ویلا میں دس دن پہلے خوشی کا ماحول تھا لیکن اب ہر طرف غم کے بادل چھاگئے تھے۔۔۔۔۔
۔۔ارحم کی موت کو دس دن ہوگئے تھے لیکن ابھی تک ارحم کی باڈی کا کچھ پتا نہیں چلا ارمان نے اپنے آپ کو کمرے تک محدود کر دیا تھا اجالا روز ارمان کے کمرے کے باہر کھڑے ہوکے چلاتی تھی لیکن ارمان پہ کوئ اثر نہیں ہو رہا تھا۔۔
راحم صدمے میں چلا گیا تھا ہر کوئ اسے رلانے کی کوشش کرتے لیکن اس کی آنکھ سے ایک آنسو نہ نکلتا یہی بات سب کو پریشان کر رہی تھی۔۔۔۔
علی بھی بلکل چپ ہوگیا تھا آمنہ بیگم کی بھی حالت کچھ ٹھیک نہیں تھی ا
ایک بیٹے کی جدائی دوسرے بیٹے کی چپ انہیں کھائ جا رہی تھی۔۔۔
***********♡*****
آج بارہ دن بعد سب ایک ساتھ بیٹھ کے دوپہر کا کھانا کھا رہے تھے۔۔۔۔
اجالا بیٹی کہاں جا رہی ہو
سامان لے کے۔۔۔۔
داری جو اپنے تخت میں بیٹھیں تسبی پڑھ رہی تھیں
اجالا کو اپنے بیگ کے ساتھ باہر گیٹ کی جانب جاتا دیکھ کے پوچھا۔۔۔۔
اپنے گھر۔۔۔۔
وہ دھیمے لہجے میں بولی۔۔۔۔۔
بیٹا یہ بھی تمہارا گھر ہے”۔۔۔۔”
اور وہاں تم اکیلے کیسے رہو گی ۔۔۔۔
اجالا ارمان کو دیکھ کے طنزیہ مسکرائ۔۔۔
جو دادی کے برابر سر جھکائے بیٹھا تھا۔۔۔۔
اب تو اکیلے رہنے کی عادت ڈالنی “پڑے گی۔۔۔کوئ بات نہیں جہاں ماں باپ کے بغیر رہنے کی عادت ہوگی تو خرم بھائ کے بغیر بھی رہنے کی عادت ہو جائے گی۔۔۔۔۔ اب تو یہی میری زندگی کا حصہ ہے ۔۔۔
اجالا آنسو صاف کر کے بولی۔۔۔۔۔
جس سے بھی محبت کرتی ہوں وہ مجھ سے دور ہوجاتا ہے۔۔۔
بیٹا تم اب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہیں اسی گھر پہ رہو گی۔۔
آمنہ بیگم اجالا کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کے بولیں۔۔۔۔
۔نہیں چاچی میں آپ کے بیٹے کے قاتل کی بہن ہوں
جیسے میرے بھائ نے آپکے بیٹے کو مارا کہیں میں بھی نہ آپکے بیٹے کو مار دوں ۔۔اجالا طنزیہ بولی۔۔۔
بیٹا کیسی باتیں کر رہی ہو۔۔۔۔
اجلا ارمان کے پاس آئ۔۔۔۔
تمہارا تو ایک بھائ بچھڑا ہے۔۔۔مجھ سے تو سارے رشتے بچھڑ گئے میرے ماں باپ میری محبت اور اب میرا بھائ۔۔۔۔
تمہیں مجھ یہ رحم نہیں آیا۔۔۔۔۔۔تمہاری جگہ کوئ دشمن بھی ہوتا نہ تو اسے میری حالت پہ رحم آجاتا۔۔۔
جب تک ثبوت نہ ہو تب تک اس شخص پہ الزام تراشی کرنا جرم ہے اور تم میرے مجرم ہو ارمان اور اس جرم کی سزا تمہیں ملے گی تم پل پل تڑپو گے۔۔۔
۔آج بھی میں قسم کھا کے کہتی ہوں کہ میرے بھائ نے ارحم کو نہیں مارا میرے بھائ کی پسٹل سے گولی نہیں چلی تھی گولی کسی اور کی پسٹل سے چلی تھی ہمارے علاوہ وہاں اور دو لوگ موجود تھے۔۔۔۔
آخری بات اجالا نے جنید کو دیکھ کے بولی۔۔۔۔
گولی خرم کی پسٹل سے نہیں بلکہ جنید کی پسٹل سے چلی تھی۔۔۔
اجالا کی بات پہ جنید گڑبڑا گیا۔۔
اجالا جھوٹ کیوں بول رہی ہو میں بھلا ارحم کو کیوں ماروں گا وہ میرے بھائیوں کی طرح ہے۔۔۔جنید بوکھلا گیا۔۔۔
تو میرے بھائ کی کون سی ذاتی دشمنی تھی ارحم سے۔۔
اجالا نے دانت پس کے کہا۔۔۔۔
جنید نے ایک نظر سب کو دیکھا جو عجیب نظروں سے جنید کو دیکھ رہے تھے۔۔۔۔
تمہارے بھائ کی ذاتی دشمنی
ارحم سے نہیں ارمان سے تھی۔۔۔۔
واٹ تم پاگل ہوگئے ہو۔۔۔۔بھائ کی ارمان سے کون سے دشمنی۔۔۔۔
اجالا کو نہیں پتا تھا کہ جنید اتنی بڑی گیم کھیلے گا۔۔۔۔۔
خرم نے ارمان کے بزنس پہ نظر رکھی ہوئ تھی وہ ارمان کے شیرز اپنے نام کروانا چاہتا تھا اور یہ بات ارحم کو پتا چل گئ سو خرم نے اسے اپنے راستے سے ہٹا دیا
واہ کیا کہانی ہے انٹرسٹنگ
پہلی بات تو یہ بھائ کوئ بھی کام چھپ کے نہیں کرتے چلو مان لیا کہ ارحم کو پتا چل بھی گیا تو بھائ اسے اغوا کرکے بھی اپنا کام نکلوا سکتے تھے قتل کرو یا اغوا بدنامی تو ضروری تھی تو قتل ہی کیوں۔۔۔۔۔ارحم کو اغوا کرکے ارمان کو بلیکمیل بھی کر سکتے تھے یا پھر بھائ فاطمہ سے شادی کرکے بھی ارمان کو بلیک میل کر سکتے تھے ان کے لیے کون سا مشکل کام تھا ۔۔۔۔۔اور اس بزنس کے آدھے شیرز تمہارے نام بھی ہیں اور علی تمہارے بھی تو 40% شیرز ہیں نہ تو تم دونوں کو چھوڑ کے ارمان ہی کو کیوں نشانہ بنایا۔۔۔۔
جواب دو۔۔۔۔بولو ہے کوئ جواب۔۔۔۔
اس نے جنید کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے پوچھا۔۔۔۔
وہ مج مجھے کیا پتا وہ سب پلی پلین خرم نے بنایا ہے۔۔۔
خرم اجالا کی بات پہ بوکھلا گیا۔۔۔
اور دوسری بات تمہارا ایک بزنس تین حصوں میں بنٹا ہوا ہے لیکن میرے بھائ کا پورا کا پورا بزنس صرف انہی کا ہے۔۔۔اس کے حصے نہیں ہے۔۔۔۔خرم بھائ نے نہیں بلکہ تم نے ارمان کے بزنس پہ نظر رکھی ہوئ تھی تم ایسا چاہتے تھے کہ ارمان کے شیرز تمہارے نام ہوجائیں یہ گھر تمہارے نام ہوجائے اور یہاں تک کہ تم مجھے بھی اپنے نام کروانا چاہتے تھے۔۔۔۔-
لیکن مجھے پتا ہے میری بات کا کوئ یقین نہیں کرےگا اور مجھے کوئ شوق بھی نہیں ہے ثبوت پیش کرنے گا کیونکہ ارمان نے جو کرنا تھا وہ تو اس نے کرلیا۔۔۔۔
اور ارمان پتا ہے اب مجھے تم سے نفرت محسوس نہیں ہو رہی بلکہ تم پہ ترس آرہا ہے کہ جب جنید کی سچائ پتا چلے گی تب تم کیا کروگے ۔۔۔۔
تم اپنے سارے رشتے کھودو گے۔۔۔۔ان بارہ دنوں میں جتنا تم اپنے بھائ کے لیے تڑپےہو اتنا میں بھی تڑپی ہوں اپنے بھائ کے لیے۔۔۔۔
ﺗﻢ ﻣﺠﮭﮯ ﺟﺘﻨﯽ ﺍﺫﯾﺖ ﺩﮮ سکتے تھے
ﺗﻢ ﻧﮯ ﺩﯼ۔۔۔۔ﺍﺏ ﺗﻢ ﺩﯾﮑﮭﻮ گﮯ
ﻣﯿﺮﺍ ﺻﺒﺮ۔۔۔ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ۔۔۔!!
ﺟﺎﺅ ﺁﺝ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺗﻢ ﭘﺮ ﺳﮯ ۔۔۔
ﺍﭘﻨﺎ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﺑﮭﯽ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﯿﺎ۔۔۔
اس نے سر اٹھا کے اجالا کو دیکھا۔۔۔۔۔
ارمان کو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ یہ شعر تھا کہ پگھلا سیسہ جیسے کانوں میں انڈیل دیا ہو کسی نے ۔۔۔۔
تم دیر کر دو گے!!
تمہیں ایک دن میرا احساس ہو جائے گا۔ ۔ ۔
مگر تم دیر کر دو گے!!
اور اتنی دیر کہ میری قبر کی مٹی بھی خشک ہو جائے گی۔ ۔ ۔
اجالا چلی گئ تھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس گھر سے ارمان کی زندگی سے۔۔۔۔
پیچھے پورے گھر میں ارمان کی قہقہے گونج رہے تھے۔۔۔۔
ارمان پاگلوں کی طرح ہنس کیوں رہے ہو آمنہ بیگم بوکھلا گئیں سب ارمان کے قہقہوں سے پریشان ارمان کی جانب دیکھ رہے تھے۔۔۔
دیکھا دادی آپ نے وہ وہ مجھے بددعا دے کے چلی گئی اس نے مجھے بددعا دی کہ میں تڑپونگا میں اپنے رشتے کھو دونگا چاچو دیکھ لینا میں میں نہیں تڑپوگا میں میں ہنس کے جیونگا جیسے ارحم جیتا تھا ہنس کے۔۔۔۔ہہاہاہہااہ دا دادی آپ دعا کریں گی نا کہ میں نہ تڑپوں ۔۔۔۔
ارمان دادی کے ہاتھ پکڑ کے بولا۔۔۔دادی آپ دعا دیں گی نہ تو یہ دعا اس کی بددعاوں کو ختم کردےگی۔۔۔
اور اس نے میرے بھائ جیسے دوست کزن پہ الزام لگایا کہ یہ یہ میرا بزنس اپنے نام کروانا چاہتا ہے ارمان اب جنید کے پاس آیا۔۔۔صحیح معنوں میں جنید بھی ارمان کا پاگل پن دیکھ کے پریشان ہوگیا تھا۔۔۔۔
تو ایسا نہیں کرےگا ہے نا اور بتا تو نے تو ارحم کو نہیں مارا نہ تو تو ایسا کر ہی نہیں سکتا۔۔۔۔ارمان جنید کے کندھے پکڑ کے بولا۔۔۔
ارمان بس کرو بیٹا کیا الٹی سیدھی حرکتیں کر رہے ہو۔۔۔آمنہ بیگم نم آواز میں بولیں۔۔۔
ارمان اب بھی ہنس رہا تھا آمنہ بیگم نے ایک زور دار تھپڑ مارا۔۔۔۔چٹاخ ۔۔۔۔۔
بس بہت ہوا پاگل ہوگئے ہو سمجھ میں نہیں آتا نہیں لگے گی اس کی بد دعا تم نہیں تڑپو گے اب اور ہنسے نہ تو اور مارونگی ۔۔۔۔ارمان جو تھوڑی دیر پہلے ہنس رہا تھا اب بچوں کی طرح رونے لگ گیا۔۔
۔آمنہ بیگم نے اسے اپنے سینے سے لگالیا۔۔۔۔
بس میرے بچے تم سے کوئ رشتہ جدا نہیں ہوگا ہم سب ہیں نہ تمہارے ساتھ۔۔۔۔۔
راحم بھی اس دن کے واقعے کو اجالا کے منہ سے سن کے ارمان کو پاگلوں کی طرح دیکھ کے چلایا۔۔۔۔
ارحممممممم۔۔۔آمنہ بیگم سمیت اب سب راحم کی جانب متوجہ ہوگئے تھے۔۔۔
میں میرا بھائ واپس آجا ارحممم ۔۔۔ماما سب ختم ہوگیا ۔۔۔۔میرا بھائئئئئ۔۔۔۔۔اب راحم پاگلوں کی طرح چلا رہا تھا۔۔آمنہ بیگم تو اپنے دونوں بیٹوں کو اس حالت میں دیکھ کے ٹرپ کے رہ گئیں۔۔۔۔۔
*************♡*****
تم ۔۔تم یہاں کیوں آئے ہو۔۔
اجالا جنید کو اپنے گھر دیکھ کے بھڑک گئ۔۔۔۔
کوول تمہاری طبیعت پوچھنے آیا ہوں۔۔بھئ کزن ہوں تمہارا اب ارمان کی طرح تو سنگ دل نہیں ہوں جو تمہیں اس حال میں چھوڑ دوں۔۔
وہ کمینگی سے ہنسا۔۔۔۔
دفع ہوجاو یہاں سے۔۔۔اجالا گھر پہ اکیلے تھی۔۔۔
اپنی ہار کا سوگ منارہی ہو یا ارمان کی بےوفائ کا۔۔۔۔۔وہ چل کے اجالا کے پاس آیا۔۔
اجالا تھوڑا پیچھے ہوئ۔۔۔
تمہیں اس سے کیا دیکھو جنید میں آخری بار کہہ رہی ہوں چلے جاو ورنہ میں چلا کے سب کو اکٹھا کردونگی۔۔۔
اجالا کے وارن پہ جنید مکراو ہنسا۔۔۔
ارمان نے کیا حال کردیا ہے تمہارا تم جیسی نازک پھول کو اس سے اپنے پیروں تلے روند دیا۔۔۔
اس نے اجالا کی جانب ہاتھ بھڑہایا جسے اجالا نے جھٹک دیا۔۔۔
ابھی بھی وقت ہے یہ سوگ ختم کر کے میرے پاس۔۔۔۔
اس نے ایک تھپڑ رسیدکیا۔۔۔
اوقات میں رہو اپنی ۔۔۔
تم تم نے مجھے تھپڑ مارا ۔۔جنید منہ پہ ہاتھ دھرے اجالا کو دیکھ رہا تھا۔۔۔
ابھی تو صرف تھپڑ مارا ہے اگر دوبارہ ہاتھ لگانے کی کوشش کی تو ۔۔۔
اجالا وارن کرنے کے انداز میں بولی۔۔۔۔
جنید غصے میں وہاں سے نکل گیا۔۔۔۔
اجالا وہیں صوفے کے پاس بیٹھ گئ۔۔۔
پندرہ منٹ بعد علی اندر داخل ہوا۔۔۔
اجالا کیا ہوگیا تم یہاں ایسے کیوں بیٹھی ہو ۔۔۔
اجالاکو صوفے کے پاس یوں روتا دیکھ کے علی فورا اس کے پاس آیا ۔۔۔۔علی نے جیسے ہاتھ آگے بڑھایا۔۔وہ تھوڑا پیچھے کھسکی ۔۔۔اٹھو یہاں سے اوپر بیٹھو۔۔
اجالا آنسو صاف کر کے اوپر بیٹھی۔۔۔۔
خرم سے مل کے آرہا ہوں۔۔۔علی کی بات پہ اجالا علی کی طرف مڑی۔۔۔
کیسے ہیں بھائ۔۔پلیز علی خرم بھائ کو رہا کروادو میں مرجاونگی۔۔۔یہ اکیلا گھر مجھے بہت ڈراتاہے مجھے اکیلے گھر میں وحشت ہوتی ہے۔۔۔
اجالا روتے روتے بولی۔۔۔
علی کے پاس بولنے کے لیے کچھ نہیں تھا۔۔۔
تم بھی اتنے سنگ دل ہوگئے علی ۔۔وہ علی کو چپ دیکھ کے پھر بولی۔۔۔
اجالا میں نے بہت کوشش کی لیکن ارمان جب تک نہ چاہے خرم رہانہیں ہوسکتا۔۔۔۔
علی کی بات پہ اجالا نے اپنا سر دونوں ہاتھوں میں دے دیا۔۔۔۔
************♡************
ارمان میری بات مان خرم کو رہا۔۔کروا دے یار اجالا کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔۔۔وہ اس گھر میں اکیلی ہے ۔۔۔پلیز یار اجالاکی حالت پہ رحم کھالے ۔۔۔۔۔
علی ارمان کے کمرے میں بیٹھا ارمان کو سمجھا رہا تھا۔۔۔۔ایک مہینہ ہوگیا۔۔۔۔
ہوں ۔۔۔ارمان صرف اتنا کہہ سکا۔۔۔۔
مطلب میں کیا سمجھوں اس ہوں کا۔۔۔۔۔
علی نے آبرو اچھکا کے پوچھا۔۔۔۔
ٹھیک ہے رہاکروا دے۔۔۔
شکر ۔۔۔میں انسپیکٹر کو کال کرتا ہوں تو بات کرنا۔۔۔۔
علی نے انسپیکٹر کو کال کی۔۔۔
اسلام و علیکم ۔۔۔۔جی میں علی بات کر رہا ہوں۔۔۔۔جی جی بس اللہ کا شکر ہے میں ٹھیک۔۔۔ہاں وہ ارمان نے آپ سے ضروری بات کرنی تھی۔۔۔۔
علی نے ارمان کو فون پکڑوایا۔۔۔
وعلیکم سلام۔۔۔جی میں ٹھیک ہوں۔۔۔جی خرم کو چھوڑ دیں۔۔۔میں اپنا کیس واپس لے رہا ہوں۔۔۔جی نہیں مجھے کوئ دھمکی نہیں ملی بس آپ ارحم کی فائل بند کردیں اور خرم کو آج کے آج ہی رہا کر دیں ۔۔۔باقی سارے معاملات میں خود ہینڈل کرلونگا۔۔۔جی شکریہ ۔۔خدا حافظ۔۔۔۔۔
اس نے فون علی کو دیا۔۔۔۔
کیا کہا انسپکٹر نے۔۔۔
اس نے پوچھا۔۔۔
مان گیا۔۔۔
گڈ اب تو آرام کر کل آفس جانا ہے۔
بھائ آپکو پتا ہے جب آپ مجھ سے دور تھے تو مجھ پہ کیا بیتی تھی میں پل پل تڑپ رہی تھی۔۔۔بھائ میں اس شخص کو کبھی معاف نہیں کرونگی اس نے مجھے تڑپایا ہے۔۔۔اب وہ بھی تڑپے گا۔۔۔اجالا خرم کے ساتھ چپک کے بیٹھی تھی جیسے اب کے پھر خرم اسے چھوڑ کے چلا جائے گا۔۔۔۔
نہیں گڑیا ایسے نہیں کہتے اس کا بھائ مرا ہے اگر اسکی جگہ میں ہوتا نہ تو شاید میں بھی یہی کرتا۔۔۔
خرم نے اسے سمجھانا چاہا۔۔۔
نہیں بھائ اگر اسکی جگہ میں ہوتی نہ تو میں ہرگز ایسا نہیں کرتی وہ کیا سمجھتا ہے کہ ارحم صرف اسی کا بھائ تھا۔۔۔نہیں بھائ ارحم میرا بھی بھائ تھا مجھے بھی اتنی ہی تکلیف ہوئ جتنی ارمان کو ہوئ تھی ارحم کے آخری الفاظ میرے کانوں میں گونجتے ہیں ہم کتنے خوش تھے ۔۔۔اسکا مجھے بوٹکی کہہ کے چڑانا اسکا مجھے تنگ کرنا سب یاد آتا ہے۔۔۔اسکو کتنی تکلیف ہوئ ہوگی جب اسے گولی لگی تھی جب وہ پانی میں گرا تھا تو کیسے تڑپا ہوگا وہ میں اگر سوچوں نہ تو میری روح کانپ جاتی ہے۔۔۔۔بھائ میں ارمان کو کبھی معاف نہیں کرونگی۔۔۔۔
اچھا بس اب ذیادہ نہیں سوچو اب میں تمہارے پاس ہی ہوں جاو جاکے سوجاو ۔۔۔۔۔
میں بھی سونے جارہا ہوں صبح آفس جانا ہے
بھائ آپ نہیں جائیں صبح آفس۔۔۔
اجالا خرم کا ہاتھ پکڑ کے بولی۔۔۔
گڑیا جانا ضروری ہے بہت امپورٹنٹ میٹنگ ہے ۔۔
بھائ میں بھی چلوں؟۔۔۔۔۔
تم آفس جا کے کیا کروگی۔۔۔
بھائ میں بھی جاونگی ۔۔
اجالا اپنی ضد پہ قائم تھی۔۔۔
اچھا ٹھیک ہے چل لینا ابھی سوجاو۔۔۔۔
گڈ نائٹ۔۔۔
***********♡***********