وہ دونوں یوں خاموشی سے سیڑھیاں چڑھ رہے تھے جیسے جیمز بونڈ 007 کے باشندے ہوں۔۔ رخ اس ہستی کے کمرے کی طرف تھا جو اتنے اہم دن پہ بھی سو رہی تھی۔۔
کمرے میں داخل ہونے سے پہلے دونوں نے منہ انگلی رکھ کر ایکدوسرے کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور خاموشی سے دروازہ کھولا۔۔
ویسے تو وہ دھڑلے سے بھی جاتے تو وہ اٹھنے والی تھی پر آج کے دن کی خوشی ایسی تھی کہ وہ اس کے ایکدم اٹھنے پہ اس دن کو ضائع نہیں کرنا چاہتے تھے۔۔ سو خاموشی سے اندر داخل ہوئے۔۔
اندر داخل ہونے کے بعد دونوں بیڈ کے اطراف میں چلے گئے اور سوئی ہوئی ہستی کے کان کے قریب منہ کر کے ہاتھ سے گننا شروع کیا۔۔
ایک
دو
تین۔۔
سرپرائز۔۔
دونوں اتنی زور سے چیخے تھے کہ روشم کو لگا تھا کہ آج اس کے کان کے پردے پھٹ ہی گئے ہوں گئے۔۔
اففف اللہ کیا ہو گیا۔۔ کانوں پہ ہاتھ رکھتی وہ اٹھ بیٹھی جبکہ دونوں ابھی تک ہنس رہے تھے۔۔
میری پیاری بہن یہ دیکھو۔۔ ابان نے موبائل اس کے آگے کیا جہاں اس کا بی اے کا رزلٹ جگمگا رہا تھا۔۔ ٹاپ ٹین میں اس کا نام آٹھویں نمبر پہ تھا۔۔
یہ میں نہیں ہو سکتی۔۔ آپ نے میرا رولنمبر دیکھا؟۔۔ یہی ہے نا۔۔ وہ اب تک بے یقین تھی۔۔ اس کی بات پہ دونوں ایکدوسرے کو دیکھ کر ہنسے۔۔
روشم یہ تمہارا ہی رزلٹ ہے گڑیا۔۔ نمل نے اسے یقین دلانے کو اسے سچ میں جھنجھوڑ ڈالا۔۔
پہلے تو اس نے بے یقین نظروں سے دونوں کو باری باری دیکھا پھر جو چیخنا شروع ہوئی تو دونوں کے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھوسنے پہ مجبور کر دیا۔۔
ارے لڑکی بس کر دو۔۔ کہ اب ہمارے کان کے پردے پھاڑو گی۔۔ ابان نے اس کے منہ پہ ہاتھ رکھ کر اس کی چیخوں کا گلا گھونٹا۔۔
پھر آپ دونوں نجھے آج کا ڈنر کروا رہے ہیں نا۔۔ اب وہ تھوری سنبھل چکی تھی۔۔ لیکن اس کے چہرے سے اس کی خوشی کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا۔۔
ہاں نا۔۔ جہاں میری گڑیا کہے گی وہاں آج رات ڈنر کرے گئے۔۔ بس یہ بات ابان کے کہنے کی دیر تھی روشم کی چیخیں پھر سے زور پکڑ چکی تھی۔۔ جنہیں آج کے دن تو روکنا مشکل ہی تھا۔۔
***
تو کیا ارادہ ہے برخوردار آگے کیا کرنا ہے تم نے۔۔ وہ سب اس وقت ناشتے کی ٹیبل پہ موجود تھے جب باؤ جی نے عرش میر سے پوچھا۔۔ اس وقت سب مرد حضرات بیٹھ کر ناشتہ کر رہے تھے اور خواتین ان کو کھانا سرو کر رہی تھی یہ اس گھر کا رواج تھا۔۔ پہلے مرد کھاتے اور خواتین ان کو پیش کرتی پھر ان کے کھانے کے بعد خواتین کھاتی تھی۔۔
باؤ جی میں آگے ایک اور ایم اے کرنا چاہتا ہون۔۔ عرش میر نے انہیں اپنے ارادے سے آگاہ کیا۔۔
وہ تو ٹھیک ہے مگر اس سب کی کیا ضرورت ہے۔۔ آؤ میرے اور عرشمان کے ساتھ زمینیں سنبھالو۔۔ اتنا پڑھنا کیا کافی نہیں۔۔ویسے بھی ایک ماسٹرز تو کر چکے ہو۔
وہ ویسے بھی ذیادہ تعلیم کے خلاف تھے اس لیے عرش میر کی بات انہیں کچھ خاص پسند نہ آئی تھی۔۔
ہاں نا۔۔ باؤ جی ٹھیک ہی تو کہہ رہے ہیں۔۔ آگے پڑھ کر تم نے کونسا تیر مار لینے ہیں۔۔ عرشمان نے ناشتہ کرتے اس کا مذاق اڑایا۔۔ اس کی بات پہ عرش میر کے ہاتھ ایک پل کو رکے اور جبڑے ایک پل کو بھینچے تھے۔۔ لیکن یہ وقت غصہ کرنے کا نہیں تھا۔۔ وہ جانتا تھا کہ باؤ جی کو کیسے قائل کرنا ہے۔۔
عرش مان کو مکمل اگنور کرتا وہ بولا۔۔
آپ کی بات سر آنکھوں پہ باؤ جی۔۔ لیکن پڑھنے کا مقصد یہی ہے کہ آپ کی دھاک بیٹھ جائے گی۔۔ اگلے الیکشن میں جب اس بات کا تزکرہ کریں گئے تو ہمیں الیکشن جیتنے میں آسانی ہو گی۔۔ کیونکہ اس سال حالات کچھ سازگار نہیں ہے کہ اگلے الیکشن میں جیتا جا سکے۔۔ ہے نا ویرے…
آخر میں اس نے عرشمان کے زخموں پہ جیسے نمک چھڑکا تھا۔۔ اس کی بات پہ اسے غصہ تو بہت آیا پر ابھی باؤ جی کا لحاظ کر کے خاموش ہو گیا۔۔
ہمممم۔۔ بات تو تمہاری ٹھیک ہے۔۔ اس کی بات نے واقعی باؤ جی کو سوچنے پہ مجبور کر دیا تھا۔۔
ٹھیک ہے پھر۔۔ تم جس یونیورسٹی میں آگے اڈمیشن لینا بہتر سمجھو وہاں کا بتا دو۔۔ کرم دین سارے انتظامات کروا دے گا۔۔ اپنی بات کہہ کر وہ رکے نہیں تھے ناشتے کی ٹیبل چھوڑ کر چلے گے تھے۔۔
تم اچھا نہیں کر رہے ہو۔۔ عرشمان جانتا تھا کہ عرش میر کے ذہن میں کوئی نہ کوئی کچھڑی پک رہی ہے اور اس کھچڑی کی وجہ اس کی کارکردگی تھی۔۔ جب سے اس نے زمینوں کا چارج سنبھالا تھا۔۔ خان ولا کی دشمنیاں اس کے جزباتی پن کی وجہ سے بڑھ گئی تھی۔۔
کون اچھا نہیں کر رہا کون اچھا کر رہا ہے۔۔ یہ سب تو وقت بتائے گا ویرے۔۔ اپنی بات کے اختتام پہ اس نے ایک نظر پاس کھڑی بھابھی کے چہرے کو دیکھا جو مار کھا کھا کر نیلون سے بھرا تھا۔۔ اور پھر غصے سے وہاں سے واک آؤٹ کر گیا۔۔
اس کے جانے پہ اس نے ایک زوردار مکا ٹیبل پہ مارا۔۔
عرشمان کیا کر رہے ہو۔۔ بے جی فوراً سے اس کے نزدیک آئیں تھی کیونکہ ندرت کو یہ حق تو اس نے دیا ہی نا تھا۔۔
سمجھا دیں اسے وڈی اماں۔۔ ورنہ بھائی بھائی کا خون اج کل ویسے ہی سفید ہو گیا ہے۔۔ میں نہیں چاہتا ماضی دوبارہ دہرایا جائے۔۔ کہہ کر وہ رکا نہ تھا وہ بھی باہر کی طرف چل دیا۔۔
اللہ میرے کیا کروں میں۔۔ عرشمان تو بلکل اپنے باپ پر چلا گیا ہے۔۔ وہ بھی اپنے بھائی کو مار کر گدی پہ بیٹھی تھے اور اب یہ بھی کہیں تاریخ کو دہرا نہ دے۔۔ یا اللہ میرے عرش میر کو اپنی حفاظت میں رکھ۔۔ بے جی بے اختیار رو پری تھی۔۔ ندرت ان کے قریب آئی۔۔
بے جی آپ پریشان نہ ہو۔۔ رب سوہنا کرم کرنے والا ہے۔۔ وہ انہیں دلاسہ دے رہی تھی جس کی اپنی زندگی عرشمان کی وجہ سے اجیرن ہو گئی تھی لیکن شکوہ شکایت کرنا تو اس گھر کی عورتوں پہ حرام تھا۔۔
بے جی نے اس کی طرف ایک نظر دیکھا۔۔ آنسو اب بھی گالون کو بھگو رہے تھے۔۔ پر شکر تھا کہ وہ دونوں ہی ایکدوسرے کو سنبھال لیتی تھی۔۔ کیونکہ دونوں ہی ایکدوسرے کے غم کو سمجھتی تھی۔۔
کیا ہو گیا یے ایسا جو تم دونوں یوں سوگ منا رہی ہو۔۔ دونوں کو روتا دیکھ کر وڈی اماں کمرے سے نکل کر باہر پلنگ پہ بیٹھی۔۔
کچھ نہیں وڈی اماں۔۔ آپ کے لیے ناشتہ لگواؤں۔۔ بے جی فوراً سنبھل کر بولی اور ندرت کو کچن میں جانے کا اشارہ کیا۔۔
ہاں تو اور میں یہاں تم لوگوں کی رونی بھوتیاں دیکھنے آئی ہوں۔۔ بھوک لگی ہے جلدی سے ناشتہ لاؤ۔۔ انہوں نے نخوت سے کہتے اپنی چھڑی کو زور سے زمیں پہ مارا۔۔
جی وڈی اماں ابھی لائی۔۔ ان کے جلال سے ڈرتی وہ بھی فورا کچن کی طرف بھاگی۔۔
غضب خدا کا۔۔ نہ کوئی وقت دیکھتی ہے نا موقع۔۔ صبح صبح ہی بس رو کر ان کو نحوست پھیلانی ہوتی ہے۔۔ ان کے جاتے بھی ان کی زبان نہ رکی تھی۔۔ دونوں کو سنانے کے واسطے وہ جان بوجھ کر اونچی آواز میں بولی۔۔
جبکہ کچن میں کھڑی وہ دونوں ایکدوسرے کو دیکھ رہی تھی۔۔ باؤ جی اور عرشمان کے بعد وڈی اماں ہی وہ ہستی تھی جو اس پورے گھر پہ سختی سے قابض تھی۔۔
***
تو پھر گڑیا آگے کیا کرنے کا ارادہ ہے۔۔ وہ سب اس وقت ڈنر کر رہے تھے جب شاہان (نمل کے شوہر) نے اس سے پوچھا۔۔ وہ بھی اسے مبارکباد دینے آیا تھا۔۔
بھائی کرنا کیا ہے۔۔ بس یونی میں اڈمیشن لینا ہے اس کے بعد پولیٹیکل سائنس میں مجھے ایم فل کرنا پھر لیکچرار بننا ہے اور پھر پوری دنیا گھومنی ہے۔۔ ہ جوش سے بولی و بولتی ہی چلی گئی۔۔
ارے گڑیا بریک لگاو۔۔ ابان نے ہی اس کی چلتی زبان کو روکا تھا ورنہ اس کی زبان کہاں رکنے والی تھی۔۔
ابان اب ابریک تو اسے اپنے سیاں جی کے گھر جا کر ہی لگے گا۔۔ امااں نے بھی اس کو چھیڑ کر بیچ میں اپنا حصہ ڈالا ۔۔
اماں۔۔ روشم نے شاکڈ نظروں سے انہیں دیکھا جن کی بات پہ اب سب ہنس رہے تھے۔۔
ہنس لے سب۔۔ لیکن میں تو ابھی اپنی اماں کے پاس ہی رہنا اور آپ بھی سن لیں آپ کی جان نہیں چھوڑنے والی میں۔۔ سب کی ہنسی کا جواب اس نے دھمکی میں دیا۔۔
ارے ارے میری جان ایسے نہیں کہتے۔۔ کہتے ہے جو میرے لیے بہترین ہے انشاء اللہ وہی ہو گا۔۔ نمل نے اسے پیار سے سمجھاتے ہوئے اس کی ٹھوڑی کو چھوا۔۔
مجھے پتہ ہے نا آپی میرے کیے یہی بہتر ہے۔۔ اور یہ میری ضد ہے جو اللہ جی کو ماننا پڑے گی ۔۔ وہ ضدی لہجے میں بچوں کی طرح بولی تو سب مسکرا دیے۔۔
اچھا اب بس آپ سب میری گڑیا کو تنگ نہ کریں ۔۔ جو یہ چاہے گی وہی ہو گا انشاءاللہ ۔۔ ابان نے اسے پیار سے اہنے گھیرے میں لیتے کہا جس پہ سب ہی مسکرادیے۔۔
کیونکہ وہ سب ہی روشم کے لیے ابان کے پیار سے اچھی طرح واقف تھے۔۔ اس لیے وہ سب ہی مطمئن تھے کیونکہ وہ واقعی میں روشم کا بھائی کم باپ ذیادہ تھا۔۔
***
بڑے سرکار۔۔ میری مدد کریں۔۔ اس شرفو نے میرے بیٹے کو دیکھےکتنی بری طریقے سے مارا ہے۔۔ اطہر روتا ہوا بائو جی کے پاس آیا تھا اس وقت پنچائت لگی تھی جہاں گاؤں کے چھوٹے بڑے سب مسائل سنے جاتے اور ان کا حل نکالا جاتا۔۔
ہممم۔۔ بتائو شرفو تم نے کیوں مارا ہے اسے۔۔ اب وہ شرفو کی جانب بڑھے جو ہاتھ باندھے مئودب بنا کھڑا تھا۔۔
سرکار اس نے میری زمین سے چوری ر کے مالٹا کھایا تھا۔۔ اسی بنا پہ میں نے اسے مارا ہے۔۔ شرفو کی بات پہ پاس کھڑے عرش میر نے اطہر کے بیٹے کی طرف دیکھا جس کو ایک مالٹا کھانے پہ اتنا برا مارا گیا تھا کہ وہ اپنے پائوں پہ مشکل سے کھڑا تھا۔۔
ہممم۔۔ تو پھر تو تم نے ٹھیک کیا ہے چوری کی سزا ایسے ہی دینی چاہیے ۔۔ بات سننے کے بعد انہوں نے فیصلہ شرفو کے حق میں دے دیا تھا جبکہ پاس کھڑا عرش میر حیرت سے اپنے باپ کو دیکھ رہا تھا۔۔ جو ایک پانچ چھ سال کے بچے کی حالت دیکھنےکی بجائے اس پہ غصہ کرنے کی بجائے شرفو کو ٹھیک کہہ رہا تھا۔۔
بائو جی۔۔ آپ کو نہیں لگتا وہ بچہ ابھی بہت چھوٹا ہے۔۔ جس کا خدا کا نظریہ ابھی ٹھیک سے نہیں بنا۔۔ اھر اس نے شرارت میں ایک مالٹا کھا لیا تو مجھے لگتا ہے ہمیں اسے سمجھانا چاہئے نہ کہ اسے اتنی زور سے پیٹا جائے۔۔
عرش میر جو تب سے خاموش تماشائی بنے کھڑا تھا بالآخر بول ہی پڑا ۔۔
جی سرکار۔۔ اور میرا بیٹا اسے کے ہاں کام کرتا ہے۔۔ اس نے اس کو صبح سے بھوکا رکھا تھا اس لیے وہ مجبور ہو گیا۔۔ ورنہ وہ چور نہیں ہے۔۔ اطہر نے عرش میر کو دیکھتے ہوئے ہھر سے بوکنے کی جسارت کی یہ سوچ کر کہ شاید شرفو کو انجام مل جائے۔۔
بسس۔۔ خاموش۔۔ اطہر کی بات پہ انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے چپ کروا دیا۔۔
عرش میر ابھی تم سیکھ رہے ہو ور سیکھتے وقت خاموشی اختیار کی جائے تو ذیادہ بہتر ہے۔۔ اور ہاں اطہر چور چاہے پانچ کا ہو یا پچاس کا۔۔ ہمارے نبی نے اسے سزا کا حکم دیا ہے اور اس کے مطابق شرفو نے بلکل ٹھیک کیا ہے اب تم جا سکتے ہو۔۔
انہوں نے اسے جانے کا اشارہ کر دیا۔۔ اب ایکا نیا مرید اپنا مسئلہ لے کر آیا تھا۔۔ جبکہ عرش میر سوچ رہا تھا کہ اگر پانچ سال کے بچے کی چوری پہ یہ سزا ہے تو پھر بائو جی نے ہمارے نبی کا رویہ بچوں سے کیوں نہ پڑھا۔۔ کیونکہ اگر وہ جانتے تو کم از کم یہ سزا نہ دیتے۔۔ لیکن وہ شاید ان لوگوں میں سے تھے جو جانتے بوجھتے بھی گونگے بہرے تھے۔۔
لیکن وہ یہ سب فی الحال سوچ سکتا تھا کہنے کی ابھی جسارت نہ کر سکتا تھا یونیجانے سے پہلے تک تو وہ بلکل بھی کسی قسم کی لڑائی جھگڑا مول نہیں لے سکتا تھا۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...