تھئیٹر کی کھڑکی پہ بیٹھا ہوا کمپنی کا ملازم
ٹکٹ بیچتا ہے
بھرے ہال میں دن، مہینے، برس بے بدل حالتوں کے
لڑائی کے منظر کی سرشاریوں میں
ولین اور ہیرو کو آپس میں جگہیں بدلتے ہوئے دیکھتے ہیں
قناتوں سے باہر
بڑی رونقیں ہیں
پرانے پھٹے چیتھڑوں میں بسی بے نیازی سے چمٹا بجاتے ہوئے گا رہا ہے
اسی قول کے بول جس کو
کئی بار بستی کی چو سر پہ ہارا گیا ہے
قناتوں کے اندر
تماشے کا پنڈال وعدے کے رنگیں غباروں
بیانات کی جھلملاتی ہوئی کترنوں سے
سنوارا گیا ہے
جہاں آتے جاتے تماشائیوں اور خبروں کی مڈبھیڑ میں
ہوش سے ہوش بچھڑا ہوا ہے
بڑی رونقیں ہیں
گلابی ہے شیشہ نشاط آفریں ماڈلوں کی دمک سے
کہیں پر
ظرافت کو سنجیدگی لکھنے والے کی ارزاں نویسی کی
دھومیں مچی ہیں
کہیں پر
سدھائے ہوئے شیر کی ٹیپ کردہ صدا دھاڑتی ہے
کہیں پر
قدامت کے پنجرے میں پالا ہوا طائر سبز
لحن مکرر میں نغمہ سرا ہے
انہی رونقوں میں
وہ ہارا ہوا شخص رومان کا سرخ رومال
ماتھے پہ باندھے ہوئے،
کان میں نا شنیدہ سخن کی پھریری رکھے،
بے عصا چل رہا ہے
وہی جس نے سپنوں کے ساون میں آنکھیں گنوا دیں
ہرا ہی ہرا دیکھتا ہے
***
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...