(Last Updated On: )
شبانہ یوسف(برطانیہ)
میں اُڑنا چاہوں بھی تو جیسے پَر نہیں ہوتا
اگر وہ میرا شریکِ سفر نہیں ہوتا
عذابِ در بدری پوچھ ان ہواؤں سے
کہ جن کا اس زمیں پر کوئی گھر نہیں ہوتا
بسا ہوا ہے کسی یا د کا جہاں اس میں
تبھی تو ویراں یہ دل کا نگر نہیں ہوتا
تُو شہرِ ذات میں یہ سوچ کر سفر کرنا
کہ واپسی کا یہاں کوئی در نہیں ہوتا
یہ بیل رزق ہواؤ ں کا بن چکی ہوتی
جو تیری چاہتوں کا اک شجر نہیں ہوتا
شبانہ کارِ سخن بھی ہزار نعمت ہے
میں کب کی مر چکی ہوتی یہ گر نہیں ہوتا