میں تجھ سے جان چھڑوا کے یہاں آیا اور تو پھر سے یہاں ٹپک پڑا شاہ ساحل کے گلے لگتے ہوئے بولا
بکواس نہ کر
شاہ نے اپنی مسکراہٹ چھپائی جتنا مزہ ساحل کو جلانے میں آتا تھا اتنا مزہ بھلا اور کسی چیز میں کہاں
ساحل اور شاہ کافی دیر بیٹھ کر باتیں کرتے رہے
اوکے تو فریش ہو جا مجھے ضروری کام سے جانا ہے شام میں ملتے ہیں
شاہ ساحل کو اس کے روم میں چھوڑتا ہوا بولا
ہمم اوکے
اور وہ ضروری کام کیا ہے اگر ساحل کو پتا چل جاتا تو اسکی جان نکال لیتا
لیکن شاہ بھی مجبور تھا کیا مجبوری تھی اس بات سے وہ خود بھی بے خبر تھا
❤❤❤
شاہ کو آج اس لڑکی سے ملتے ہوئے آٹھ دن ہو چکے تھے لیکن ابھی تک شاہ اسکا چہرہ بھی نا دیکھ سکا
لیکن پھر بھی اس میں نا جانے ایسی کونسی کشش تھی کہ وہ اس کے پاس کھینچا چلا آتا
یہ واقعی ایک ڈاکٹر کی مریض سے ہمدردی تھی یا کچھ اور یہ تو وقت ہی بتانے والا تھا
ہیلو
شاہ اس کے پاس بیٹھتا ہوا بولا ہمیشہ کی طرح جواب آج بھی نادارد تھا
سنو مجھے بالکل بھی اچھا نہیں لگتا تمہیں یوں بیٹھیں دیکھ کر
شاہ کی اس بات پر اس لڑکی نے چہرہ اوپر اٹھا کر دیکھا
دودھ کی طرح چمکتا ہوا رنگ تیکھا ناک پنکھڑی جیسے ہونٹ لیکن جو چیز سب سے زیادہ اٹریکٹ کرنے والی تھی وہ ٹھی اسکی آنکھیں رائل بلیو کلر کی شاہ کا پسندیدہ رنگ
بالکل چاند جیسا چہرہ تھا
لیکن چاند کو گرہن بھی ہوتا بالکل اس طرح اس لڑکی کے چہرے پر بھی گرہن کا نشان تھا ٹھوڑی سے لے کر گردن تک گرہن کا نشان تھا نشان نہیں دھبا تھا جو اسکی خوبصورتی کو ماند کررہا تھا
بابو تم ہی بتاؤ کہاں جاؤ شاہ اس لڑکی کے پوچھنے پر ہوش میں آیا
سکندرشاہ اس گاؤں کا چوہدری بہت امیر ہے وہ تمہں سر چھپانے کو جگہ اور کھانے کے لئے اچھی روٹی دے سکتا ہے
نہیں بابو امیر لوگ تو ہم غریبوں پر ظلم کرنے کے لئے پیدا ہوتا ہے اس نے غیر مرئی نقطے کوگھورتے ہوئے جواب دیا
نہیں ایسا نہیں ہے میں نے تم پر کوئی ظلم کیا
بابو تم کو ہمیں جاننے کا تجسس ہے کہ ہم کون ہے جس دن وہ ختم ہوگیا تم بھی خدا بن جائے گا
وہ ہمیشہ ہی تو اسے اپنی باتوں سے لاجواب کر دیتی تھی
اور وہ روز اسکی باتوں کے جواط گھر سے تیار کرکے آتا لیکن ہمیشہ ہی لاجواب ہوجاتا
اچھا تمہارا نام کیا ہے
شاہ میر نے بات بدلنے کو پوچھا
بابو نام تو تب ہوتا جب کوئی آپ کو پکارنے والا ہو ہمیں پکارنے والا کوئی نہیں ہے
ہاں یہ گاؤں کے لوگ ہم کو پاگل کہتے ہیں
اور یہاں کے بچے ہمیں پاگل سمجھ کر پتھر بھی مارتے ہیں
وہ ایک بار پھر سے شاہ میر کو لاجواب کرچکی تھی
ہاں لیکن خدا تو ہے نا شاہ میر نے پھر سے ایک دلیل دی
کہاں ہے خدا
خدا بس امیروں کا ہے ہمارے خدا تو امیر ہیں چاہیں تو ہمیں برباد کردیں چاہیں تو بخش دیں اسکی باتوں سے ایک دکھ چھلک رہاتھا
خدا تو سب کا ہوتا ہے
اچھا تو میرا خدا کدھر ہے اس نے شاہ میر کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا
شاہ میر ایک بار پھر سے خاموش ہوگیا
بابو تم یہاں مت آیا کرو ورنہ لوگ تم کو بھی پاگل کہیں گے
کیوں میں تو آؤں گا
کیوں بابو
کیونکہ تم میری دوست ہو
بابو غریب اور پاگل کا کوئی دوست نہیں ہوتا
تم پاگل نہیں ہو شاہ میر نے کہا
بابو ایسا بس تم سمجھتے ہو دنیا نہیں
شاہ میر ایک بار پھر سے لاجواب ہو گیا
لیکں اس لڑکی میں ناجانے ایسا کیا تھا وہ سب کے منع کرنے کو باوجود اس کے پاس چلا آتا جو دھوپ چھاؤں کی پرواہ کیے بنا ایک ہی جگہ پر بیٹھی رہتی
❤❤❤
ہیلو میڈم
ہاں بولو عمر
میڈم شاہ میر آج پھر اس لڑکی سے ملنے گیا
ہاہاہا ملنے دو ملنے دو
تھوڑے ہی دن ہے اس کے پاس
حیا کے لہجے میں کچھ ایسا تھا جو اس ٹھٹھکنے پر مجبور کر رہا تھا
عمر
جی میڈم
تمہاری ہمدردی آج کل کچھ زیادہ نہیں جاگ رہی سکندرشاہ کے بیٹے کے لِیِے
نہیں میڈم ایسی کوئی بات نہیں وہ جلدی سے خود کو کمپوز کرتا ہوا بولا
خیر یہ تو وقت بتائے گا کیسا ہے لیکن تم جانتے ہو حیاشاہ کو دھوکہ دینے کا انجام کیا ہوسکتا ہے
جی میڈم عمر لب بھینچتا ہوا بولا
❤❤❤
کہاں سے آرہا ہے تو ساحل شاہ کو دیکھتا ہوا بولا
بتایا تو تھا کہ ضروری کام ہے
وہ ضروری کام کیا تھا یہ پوچھ رہا ہوں میں
میں بتانا ضروری نہیں سمجھتا
تو کیا ضروری سمجھتا ہے کیا نہیں اس بات سے مجھے فرق نہیں پڑتا
شاہ نے اگنور کیا
یہ جو تو کرتا پھر رہا ہے سدھر جا
اوہ تو پتا چل گیاتجھے
یہ یقیننا ثانیہ اور ثونیہ کی کارستانی ہے
ساحل خاموش ہو گیا
جبکہ شاہ لب بھینچتا ہوا اپنے روم میں چلا گیا
❤❤❤
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...