(زبیدہ کی رخصتی کے بعد)
تصور کے اُجلے دریچے سے میں نے
غمِ زندگی کا جو پردہ ہٹایا
تو یادوں کی سرسبز وادی میں
بیتے دنوں کی ہزاروں حسین اور رنگین گھڑیاں
محبت کے پھولو ں کی صورت میں بکھری ہوئی تھیں
ہماری مقدس محبت کے رشتے
تناور درختوں کی صورت میں قائم کھڑے تھے
وہ بچپن، وہ کھیلیں……..وہ جھگڑے، وہ چہلیں
وہ ہنسنا، ہنسانا …….. وہ رونا، رُلانا
وہ مل جل کے پڑھنا ……..وہ لڑ بھڑ کے کھانا
لڑکپن کے قصے ……..جوانی کی باتیں
وہ ہنستے ہوئے دن …….. وہ مسرور راتیں
اسی طرح کے کتنے ہی پھول اب بھی
ہماری محبت کی طرح جواں ہیں
مگر میں انہیں
پھولوں کے ساتھ کانٹوں
کو پاکر ٹھٹک سا گیا ہوں
جدائی کے کانٹے!
مجھے یاد ہے سب
کہ میں ہر جدائی کے موقعہ پہ ہی
آنسوؤں کا گلا گھونٹ دیتا رہا ہوں
جدائی کے دکھ
اصل میں اس حقیقت کا اظہار ہیں
کہ پھولوں سے کانٹوں کا جب تک تعلق رہے گا
سبھی بہنیں ہی اپنے بھائیوں سے یونہی
بچھڑتی رہیں گی
تصور کے اجلے دریچے کے پردے
ابھی تک ہٹے ہی ہوئے ہیں
مِری چاروں سمت اپنی بہنو ں کی چاہت
کے پھولوں کی خوشبو بسی ہے
میں آنسوؤں کا گلا گھونٹنا بھی نہیں چاہتا
کیونکہ یادوں کی سرسبز وادی میں
بارش کا دلکش نظارہ بھی تو دیکھنا چاہتا ہوں
مگر اب بھی پھر اُس گھڑی
جب مری دوسری بہنیں بچھڑیں گی مجھ سے
میں پھر آنسوؤں کا گلا گھونٹ دوں گا!