کل میرے پوتے امین کے بچہ کا عقیقہ تھا۔ جب تمام مہمان جمع ہو گئے تو بچوں کو یہ خبط اُچھلا کہ دادی اماں کی تصویر اُتاری جائے۔ مجھ سے آن کر کہا تو میں نے ایک سرے سے سب کو جھڑک دیا ، مگر ضدی بچے کیا ماننے والے تھے ، اس صلاح میں ماؤں کو شریک کیا اور ان نیک بختوں نے اپنے اپنے شوہروں کو بھی راضی کر لیا ، نتیجہ یہ ہُوا کی مجھ کو بھی ماننا پڑا اور تصویر اُترنی شروع ہوئی۔ بیچ میں مَیں بیٹھی ، دائیں بائیں بہوئیں ، اُن کے پیچھے اُن کے شوہر اور اُن سے ذرا بُلندی پر اُن کے بچے ، اس قطار میں بیچوں بیچ میاں امین اپنے بچے کو لئے ہوئے۔
اس تصویر کی غرض تو صرف یہ تھی کہ میں نہایت خوش نصیب عورت ہوں جس کے اللہ رکھے اتنے سارے بچے آنکھوں کے سامنے موجود ہیں۔ تصویر اُتر گئی اور سب نے ایک ایک کر کے میرے ہاتھ کو بوسہ دیا۔ ایمان کی بات یہ ہے میں بے حد خوش تھی۔ خدا نے مجھ کو یہ دن دکھایا۔ میری عُمر اس وقت ایک سو دس برس کی تھی مگر جب مجھ کو یہ خیال آیا کہ میں نے اپنی تمام عمر میں کیا کیا کام کئے اور کیا کیا ، دیکھا تو ایک سناٹا سا آ گیا۔ میں خاموش اپنے دالان میں چلی آئی۔ افسوس صد افسوس میں نے کوئی کام بھی ایسا نہ کیا تھا جس کو آج فخر سے بیان کروں۔ البتہ بہُوؤں پر ظُلم میں نے کئے ، ایک کو طلاق تک دِلوائی۔ کُنبے والوں کو ذلیل مَیں نے کیا اور رانڈ بھاوجوں سے ماماؤں کا کام مَیں نے لیا۔ غرض کرنے میں تو مَیں بَد ترین عورت تھی ، ہاں دیکھنے میں دو واقعے دیکھے جو مُدّتیں گُزر جانے پر بھی میری آنکھ کے سامنے تھے۔
مَیں دو بچوں کی ماں تھی۔ دیوار بیچ رسالدار صاحب رہتے تھے۔ اُن کی بیوی کیسی نمازی پرہیزگار کہ اللہ سب لڑکیوں کو ایسا کرے۔ ان کی ماما کی نواسی ایک لڑکی شکورن تھی جس کو وہ اپنے بچوں سے زیادہ اس لئے چاہتی تھیں کہ وہ بِن ماں باپ کی بچی تھی۔ جب رسالدار صاحب کا انتقال ہوا تو اُن کی آمدنی برائے نام رہ گئی۔ پھر بھی انھوں نے اس لڑکی کو اس طرح بیاہا کہ ایک مَیں کیا ، سارا شہر تعجب کرتا تھا۔ خدا کی شان ایک وقت ایسا آیا کہ اُن کی بیوی کے پاس دانت کُریدنے کو تِنکا تک نہ رہا۔ آن بان کی عورت تھیں ، تمام تکلیفیں گوارا کیں مگر گھر کی ہَوا نہ بگڑنے دی۔ خدا جانے رسالدار صاحب کی زندگی کا کیا کچھ یا بعد کا ، ایک بنئے نے اٹھارہ رُوپے کی نالش کی اور محلہ بھر میں یہ خبر مشہور ہو گئی کہ وہ قُرقی لے کر آیا ہے۔ مَیں بھی گئی ، دہاروں رو رہی تھیں۔ میں نے کہا ، آپ کی کنیز شکورن کا خاوند ڈیڑھ سو روپئے کا داروغۂ جیل ہے۔ اس کو اطلاع دیجئے۔ اٹھارہ روپے کی رقم ایسی نہیں ہے کہ وہ نہ دے سکے۔ آپ ہی کی جُوتیوں کا صدقہ ہے کہ وہ آج بیگم بنی بیٹھی ہے۔ فرمانے لگیں کہ خیر ، مگر جس کے ساتھ ہمیشہ سلوک کیا اب اُس کے آگے ہاتھ پھیلانے کو جی نہیں چاہتا۔ میرے زیادہ اصرار سے بمشکل رضامند ہوئیں اور میں اُن کو ڈولی میں بٹھا کر شکورن کے گھر لے چلی۔
موسم گرم تھا۔ دوپہر کی دھُوپ چھوٹ چکی تھی مگر ہم مُصیبت کے مارے اس حالت میں وہاں پہنچے۔ ڈولی سے اُتر کر کوٹھی کے برآمدہ میں کھڑے ہو گئے۔ ہماری اطلاع ہوئی اور ایک ماما نے آ کر کہا ،
”بیگم صاحب رسالدارنی کو سلام کہتی ہیں اور فرماتی ہیں کہ ٹھہرئیے مَیں چار بجے کے بعد آپ سے مل سکوں گی۔“
ماما یہ کہہ کر چلی گئی بیساکھ کی قیامت خیز دھُوپ ہمارے سر پر تھی۔ کہار مزدُوری کے واسطے ہم کو بُرا بھلا کہہ رہے تھے۔ رسالدارنی واپسی کا تقاضہ کر رہی تھیں مگر میں اُن کو سمجھا بُجھا کر ٹھہرا رہی تھی۔
مُجھ پر تمام عُمر ایسی مُصیبت کبھی نہیں گُزری۔ لُو کے جھکڑ ہمارے سر پر تھے۔ خدا خدا کر کے چار بجے ، مگر کیسے چار اور کس کے پانچ۔ چھ بجے کے قریب جب میں نے دوبارہ اطلاع کروائی ہے تو ہم کو اندر آنے کی اجازت ملی۔ شکورن سر سے پاؤں تک سونے میں ٹوٹ رہی تھی۔ مَیں نے اُس سے اٹھارہ رُوپے کی التجا کی جس کو سُن کر اُس نے ایک قہقہہ مارا اور کہا ،
”بے شک میرا بچپن رسالدارنی کے پاس گُزرا ، ممکن ہے انھوں نے میری خدمت بھی کی ہو۔ لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ میں اُن کو اٹھارہ رُوپے مفت میں دے دُوں۔ اچھا مَیں جاتی ہُوں آپ مجھ کو پھر یاد دلائیے گا۔“
یہ ایسا نازک وقت تھا کہ مَیں شکورن کو دیکھ کر دم بخود رہ گئی۔ اُسی شام کو رسالدار صاحب کے مکان پر قُرقی آئی اور تھوڑی دیر کے بعد ہم نے سُنا کہ اسباب قُرق ہونے سے پہلے رسالدارنی افیون کھا کر اس دنیا سے رُخصت ہو گئیں۔
آج رسالدارنی اور شکورن دونوں گُزر چکے ہیں مگر مَیں نے یہ وہ واقعہ دیکھا کہ اب بھی جب کبھی خیال آتا ہے اور شکُورن کی صُورت نظر آتی ہے تو مَیں بَید کی طرح کانپ جاتی ہُوں۔
امیری میں نخوت اور غرُور کی ایسی مثال اور احسان فراموشی کی ایسی نظیر شاید دُوسری نہ ملے۔
دُوسری مثال مُفلسی کی ہے اور اس طرح شروع ہوتی ہے جب سردار ابنِ علی صاحب کا انتقال ہو گیا تو ان کی جائیداد قرضہ کو کافی نہ ہو سکی۔ بیگم بہت بڑے باپ کی بیٹی تھی ، میرے سامنے چھوٹی سے بڑی ہُوئی ، امیری اُس کی ہر بات سے ٹپکتی تھی اور غربا پروری جو امارت کا اصلی جوہر ہے اُس کا خاص شیوہ تھا۔ زمانہ نے اُس کو یہ وقت دِکھایا کہ محلُوں میں بسر کرنے والی بیگم ایک ٹُوٹے سے مکان میں ڈیڑھ رُوپیہ مہینہ پر آ کر رہی۔ دو برس کی بچی گود میں تھی ، آمدنی کا کوئی ذریعہ نہ تھا۔ کبھی لالہ کی ٹوپیاں سیتی اور کبھی درزی کے کُرتے۔ بدنصیب بیگم کے بنے ہوئے زمانہ کی ایک نامعلوم انّا تھی یا کھِلائی ، رحمت نامی عورت ہر وقت ساتھ لپٹی رہتی تھی۔
اس عید سے ایک روز قبل کا ذکر ہے کہ صُبح ہی ہم نے بیگم کے دروازے پر غُل غپاڑے کی آواز سُنی۔ مَیں کوٹھے پر چڑھی ، دیکھتی کیا ہُوں کہ دو سنڈ مسنڈ لڑکے باہر کھڑے ہیں۔ بیگم جا نماز پر خاموش بیٹھی تھی اور رحمت للکار للکار کر کہہ رہی تھی کہ چاہے تم بھیک مانگو ، چوری کرو ، برتن بھانڈا بیچو ، مگر میرے ساڑھے نو رُوپے اِس وقت دَھر دو۔ میں نیچے اُتری ، پردہ کروا کر اندر گئی اور کہا ، ” کیا معاملہ ہے ؟“
بیگم : کیا عرض کروں۔ میں نے تو ان سے کبھی قرض نہیں لیا۔ جو خُدا دیتا ہے ان کی خدمت کر دیتی ہُوں۔ اب یہ فرماتی ہیں کہ میرے ساڑھے نَو رُوپے ابھی دو ، نہیں تو میں اپنے مَردوں کو بُلا کر یہ سب چیزیں اُٹھوا لُوں گی۔“
رحمت : ہاں سچ ہے ، تم کیوں لینے لگیں ، تمہارے باوا آ کر یہ خرچ اُٹھاتے ہوں گے۔ تمہاری آمدنی کیا ہے ، دُنیا بھر سے قرض لائیں اور تم دونوں ماں بیٹیوں کا پیٹ پالا۔ اب میں جھُوٹی اور میرے باپ داد جھُوٹے۔ کل شام کو وعدہ تھا۔ میرے بچوں کی عید اینڈ ہو رہی ہے۔ سیدھی طرح دیتی ہو تو دو نہیں تو وہ آپ گھُس کر لے لیں گے۔“
بیگم : مجھے تو تمہارا ایک پیسہ بھی دینا نہیں ہے ، نہ میں نے کوئی وعدہ کیا۔ میرے پاس یہ دو برتن ہیں ایک پتیلی اور پانی پینے کا کٹورا ، تم شوق سے لے جاؤ۔“
رحمت : یہ دو برتن تو آٹھ آنے کے بھی نہیں ہیں ، بچی کے ہاتھ میں چاندی کی چُوڑیاں بھی تو ہیں وہ دے دو۔“
مَیں : بُوا رحمت ! تم قسم کھا سکتی ہو کہ تمہارے روپے بیگم پر ہیں۔“
رحمت : سو دفعہ ، مسجد میں رکھ دو ، قُرآن پر رکھ دو ، دیکھو اُٹھا لیتی ہُوں یا نہیں ، قرضہ نہ سہی تنخواہ سہی۔ میں جو ان کے ہاں روز سوتی تھی تو کیا مفت سوتی تھی ، ان کے باوا دادا کی نوکر تھی۔“
اتنا کہہ کر ظالم عورت نے بچی کو ہاتھ پکڑ کر گھسیٹا اور بلکتی ہُوئی بچی کی چُوڑیاں اُتار لیں ، ہر چند بیگم نے ہاتھ جوڑے اور میں نے خوشامد کی مگر وہ سنگدل نہ پسیجی اور چُوڑیاں لے کر چلتی ہُوئی۔ میں بھی اس کے بعد تھوڑی دیر بیگم کے پاس بیٹھی۔ اُس کی آنکھ سے کسی طرح آنسو نہ تھمتا تھا۔ دُنیا کا جو دستُور ہے اُس کے موافق میں بھی سمجھا بُجھا کر اپنے گھر گئی۔ شام کے وقت جب میں بیٹا بیٹیوں ، بہُوؤں اور دامادوں کے سلام سے فارغ ہو گئی تو بیگم کے پاس پہنچی۔
جاڑوں کے دن تھے اور مَلمَل کے اکہرے دوپٹہ میں بیگم اپنی بُخار زدہ بچی کو لئے اندھیرے گھُپ میں بیٹھی سُکڑ رہی تھی۔ میری آواز سُنتے ہی بچی دوڑی ہُوئی آئی ، پاؤں سے لپٹ گئی اور کہنے لگی ،
”اچھی اماں ! میری چُوڑیاں دے دو۔“
بچی کا کہنا میرے کلیجے میں تیر کی طرح گھُس گیا۔ میں نے اُسے گود میں اُٹھا لیا ، تو وہ بُخار میں بھُن رہی تھی۔ میں اُس معصوم کو گود میں لئے ہُوئے اپنے گھر آئی۔ لالٹین لے کر بیگم کے یہاں پہنچی تو وہ عِصمت کی دیوی حسرت سے میرا منہ تکنے لگی۔ برس کا برس دن تھا اور یہ قدرت کا بہترین نمونہ جس کی عُمر اکیس بائیس برس سے زیادہ نہ ہو گی ، خُود غرض مردوں کی جان کو بیوگی کے آنسوؤں سے رو رہی تھی۔ معصوم بچی رہ رہ کر بُخار میں اُچھل رہی تھی اور اپنی چُوڑیوں کو یاد کر رہی تھی۔
اس بچی پر جو کچھ ستم ایک ظالم عورت کے ہاتھ سے ٹُوٹے ، مَرنے کے بعد بھی اس کو نہ بھُولوں گی۔ مجھے افسوس یہ ہے کہ میری عُمر کے یہ دونوں واقعے عورت کی ذات سے تعلق رکھتے ہیں۔ کیسا مُبارک ہو گا وہ وقت جب ہم میں وہ عورتیں پیدا ہوں گی جو احسان فراموشی کی جانی دُشمن اور اپنی بہنوں کی سچی خدمت گُزار ہوں گی۔ (1914ء)