“میں نے تمہیں پروپوز نہیں کیا تھا… تم نے مجھے کہا
تھا…” فرزام نے یاد دلایا…
“میں نے انکار نہیں کیا…” دونوں کندھے اچکائے گئے… “اب جب میں تمہارے بغیر نہیں رہنا چاہتا تم تم یہ کیا کہہ رہی ہو؟”
“کیا…..؟ میں نے کچھ کیا؟” بالوں کو جھٹک کر پوچھا گیا…
“کیا وہ سب میرے دوست تھے… کیا ڈرگ کا چارج مجھ پر لگا….. کیا پولیس مجھے لے گئی…… تم جانتے ہو کہ کالج میں کتنی باتیں وہ رہی ہیں؟” رومی نے ملامت بھری نظروں سے دیکھا…
“تم وہ سب باتیں سن رہی ہو اور مجھے نہیں…..؟”
“سن تو لیا تمہیں…” وہ جھلا گئی…
“اتنی سی بات پر تم ہمارا رشتہ توڑ رہی ہو؟”
“اوہ……. تو یہ اتنی سی بات ہے…” واہ واہ کا انداز…
“یہ اتنی بڑی بات بھی نہیں ہے…” مضبوط انداز میں جتایا گیا…
“ایسی ہی سوچ تمہیں یہاں تک لے آئی ہے…” وہ چڑ گئی…
“یعنی سوچ……؟” وہ برا مان گیا… پچھلے دو دن سے وہ سب کی باتوں کا برا ہی مان رہا تھا… لیکن کسی کو کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا…
“تم اس سب کو چھوڑو… کیا تم میرے بغیر رہ لو گی؟” اسے لگا یہ سوال بہت بڑا ہتھیار ہے… اس ہتھیار سے وہ ضرور گھائل ہو جائے گی…
“کچھ فیصلے کرنے ہی پڑتے ہیں…” کندھے پھر اچکے…
“مجھے چھوڑنے کا فیصلہ؟” ہتھیار کا وار خالی گیا…
وہ چپ رہی…
“اچھے خاصے سمجھ دار ہو تم…… اچھی بھلی زندگی کو تم نے الٹ دیا…. اب تم کیا چاہتے ہو’ اس الٹ پلٹ میں’ میں تمہارا ساتھ دوں؟” خاموشی کے وقفے کے بعد وہ پھر اپنا پوائنٹ واضح کرنے لگی… “تم اب برطانیہ میں رہ نہیں سکتے… اگلے پانچ سال تک آ بھی نہیں سکتے… کیا میں پانچ سال تمہارا انتظار کروں؟ اور پانچ سالبعد تم صرف اپلائی کر سکتے ہو… اس کی بھی گارنٹی نہیں ہے کہ تم یہاں دوبارہ آ ہی جاؤ گے…”
“تمہیں انتظار کرنے کے لیے کس نے کہا….. تم تعلیم مکمل کرتے ہی پاکستان آ جانا یا ان سالوں میں’ میں کسی اور ملک کے لیے اپلائی کروں گا… ہم وہاں رہ لیں گے…”
“تم اپنی پلاننگ خود کرو….. پلیز…”
“یعنی تم میری پلاننگ کا حصہ نہیں بننا چاہتیں؟”
“میں تمہارے کسی سوال کا جواب نہیں دینا چاہتی…” منہ بگاڑ کر کہا…
“جب تم نے محبت کے لیے سوال کیا تھا تو میں نے جواب نہیں دیا تھا؟”
“وہ تمہاری مرضی تھی…” منہ کا زاویہ ویسا ہی رہا…
“پھر تم نے منگنی کے لیے کہا…” اس نے ٹیبل پر مکا مارا…
“تم انکار کر دیتے…” اس نے ہاتھ لہرا کر گود میں رکھ لیا… دوسرا ٹیبل پر رہا…
“میں انکار اس وقت کرتا’ جب مجھے تم سے لگاؤ نہ ہوتا… یہ سب تم بھابھی کے کہنے پر کر رہی ہو نا؟”
“میں فیڈر نہیں پیتی…” مزاج اور انداز مزید بگڑ گیا…
“رومی پلیز……” اس نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھنا چاہا… ارادہ بھانپ کر رومیہ نے یہ ہاتھ بھی میز پر سے پرے کر
لیا…
“رنگ میں تمہیں دے چکی ہوں فرزام! فیصلہ بھی کر چکی ہوں… تمہیں پسند بھی خود ہی کیا تھا… اب اپنا فیصلہ بھی خود ہی بدل رہی ہوں…”
“تم نے کہا تھا کہ تم مجھ سے محبت کرتی ہو…” پھر وہی محبت کا ہتھیار…
“تم میرا اور وقت ضائع نہیں کر سکتے…” بیگ اٹھا کر وہ چلی گئی…
“رومی……. رومی….. رکو…..” کی آوازیں اس کے تعاقب میں گئیں… لیکن رومی تیزی سے سڑک پار کر کے ٹیکسی میں بیٹھ گئی اور وہ واپس پلٹ کر سڑک کے ایک طرف بنے اوپن ٹی کارنر کی کرسی پر بیٹھ گیا… یہ برطانیہ کے شہر لیڈز کی ایک پُررونق سڑک پر واقع ٹی کارنر ہے… یہاں دنیا میں پائی جانے والی مختلف قسموں کی’ مختلف ذائقوں کی چائے باآسانی مل جاتی ہیں اور یہ سب ذائقے رومی کو ہی پسند تھے…
رومی نامی لڑکی جا چکی ہے…
فرزام نام کا لڑکا مایوس بیٹھا ہے… سامنے رکھی چائے ٹھنڈی ہو چکی ہے… ٹھنڈ لیڈز میں بھی بڑھتی جا رہی ہے… دو دن پہلے اس کی ماما نے اسے انگوٹھی دیتے ہوئے کہا
تھا…
“یہ رومی دے گئی ہے…”
انگوٹھی پر نظر پڑتے ہی وہ حیرت زدہ رہ گیا… زیادہ عرصہ پاکستان میں گزرا تھا تو دھوم دھام سے پہنائی گئی منگنی کی انگوٹھی کے اس طرح واپس آنے پر گم گشتہ ہو گیا…
“یہ کیا مذاق ہوا بھلا…”
“اسی سے پوچھ لو فرزام…..” وہ شاید بھابھی سے پوچھ چکی تھیں… اسی لیے آبدیدہ نظر آ رہی تھیں..
اس نے بھابھی کو فون کیا… جسے اٹھایا ہی نہ گیا… پھر رومی کو فون کیا… وہ بھی نہ اٹھایا گیا… وہ بھابھی کے گھر گیا’ جو ان کے فلیٹ سے پندرہ منٹ کی واک پر تھا…
“یہ اس کا اپنا فیصلہ ہے… میں کچھ نہیں کر سکتی…” وہ تو منگنی ہوتے ہی اس انتظار میں تھیں کہ وہ ٹوٹے اور وہ فرزام کو یہ سب کہہ سکیں…
“آپ کو اس سے بات کرنی چاہیے…… بھابھی پلیز… وہ تو میرا فون بھی نہیں اٹھا رہی…
“بچی نہیں ہے وہ… کچھ سوچ کر ہی فیصلہ کیا ہو گا نا!”
“ان پندرہ دنوں میں آخر ایسا کیا ہو گیا کہ اسے یہ اب کرنا پڑا…..؟”
“یہ تم اسی سے پوچھو……” ایسے کہا انہوں نے کہ میری اور میری بہن کی جان چھوڑ دو…
فرزام رومی کے گھر گیا… وہ گھر پر نہیں ملی… اس کی ماما بیڈ روم سے باہر نہیں نکلیں…
گھنٹہ انتظار کر کے وہ آ گیا…
فون کرتا رہا… لیکن اس نے فون نہیں اٹھایا…
میسجز چھوڑے اس کے لیے’ وائس میسجز الگ کیے… رات گئے اس کا ایک جواب آیا…
“Its over now’ don’t disturb me..”
(سب ختم ہو چکا ہے… مجھے پریشان مت کرو…)
اس نے فوراً کال بیک کی… وہ اس سے بات ہی نہیں کرنا چاہتی تھی… ڈیڑھ گھنٹہ تک ان میں بحث ہوتی رہی… وہ منگنی ختم کر چکی تھی اور اس کے ڈیڈ بھی اب اسے منا نہیں سکتے تھے تو وہ کیا چیز تھا…
پندرہ دن پہلے وہ اپنے چار دوستوں دو برطانوی’ ایک برازیلین اور ایک جاپانی کے ساتھ منشیات کے الزام میں پکڑا گیا تھا… وہ اکثر اپنے ان دوستوں کے پاس ہاسٹل چلا جاتا تھا… شام کو وہ ان کے روم میں بیٹھا تھا… جب انہیں گرفتار کیا گیا…
وہ منشیات کے بارے میں نہیں جانتا تھا… اتنا ضرور جانتا تھا’ ان میں سے تین کبھی کبھار اسے استعمال کرتے ہیں… لیکن جب انہیں گرفتار کیا گیا تو فرزام کو معلوم ہوا کہ دو اس کے ایجنٹ بھی تھے… گرفتار کمرے سے سب کو کیا
گیا… پندرہ دن کی تفتیش بھگت کر وہ آ گیا… کالج سے سب کا نام خارج کر دیا گیا اور اس پر جرم ثابت نہ ہونے کے باوجود اس کے کاغذات پر اسٹیمپ لگا دی گئی… اسے ایک ہفتے کے اندر اندر برطانیہ چھوڑ دینا تھا اور اگلے پانچ سال تک وہ دوبارہ نہیں آسکتا تھا…
مصیبت اچانک ہی آتی ہے اور یہ سب اچانک ہی ہوا… اس کا گرفتار ہونا’ کالج سے نکال دیا جانا’ برطانیہ سے بھی نکال دیا جانا’ بہت تکلیف دہ تھا یہ سب….. لیکن اس سے زیادہ تکلیف دہ کچھ اور تھا…
“رومی کا رنگ واپس کرنا” اس کا ایک ہی موقف تھا کہ وہ مجرم ہی ہے… ڈرگز سپلائی کرتا ہے… ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ اس کے دوست یہ کام کریں اور اسے معلوم نہ ہو… اسے واقعی معلوم نہیں تھا… معلوم ہوتا تو وہ اتنی بڑی مصیبت میں خود کو پھنسنے دیتا…
“ایک چھوٹے سے حادثے سے تم مجھ سے اتنی دور ہو گئیں رومی…..؟” جو کچھ ہو رہا تھا’ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ اسی کے ساتھ ہو رہا ہے… اتنی جلدی اس کی زندگی اتنی تلخ ہو گئی…
“تمہاری اصلیت سامنے آ گئی…”
“اگر یہ میری اصلیت ہوتی تو کیا میں صرف پندرہ دن بعد باہر ہوتا… کیا وہ مجھے ایسے چھوڑ دیتے؟”
“تمہیں کالج سے ایسے ہی نہیں نکالا گیا…”
“کالج نے اپنی ساکھ کے لیے یہ کیا…”
“میں اپنی ساکھ کے لیے کر رہی ہوں…”
رومی نے اتنی بڑی بات کہہ دی اور اسے سن کر بھی وہ اس سے ملنے کے لیے بار بار کہنے لگا…
دو دن بعد وہ اسے ملی اور اپنی مرضی کا فیصلہ سنا کر چلی گئی… جس شخص کا مستقبل پہلے روشن تھا’ اب وہ تاریک ہو چکا تھا’ جو انسان پہلے اچھا لگ رہا تھا’ وہ اب برا لگ رہا تھا… اب سے اٹھارہ دن پہلے وہ اس کے ساتھ مووی دیکھنے سینما گئی تھی اور اٹھارہ دن بعد وہ اس کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی تھی… ٹھیک ہے! تعلقات ٹوٹ ہی جاتے ہیں’ لیکن اس طرح…… ایک دم سے….. کیا تعلق توڑنے کے لیے لوگ اتنے تیز رفتار ہوتے ہیں؟ جاپانی الیکٹرک ٹرین سے بھی زیادہ…..؟
وہ چھٹی جماعت میں تھا جب یہاں آیا تھا… اس کا بڑا بھائی احمر ایف ایس سی کرتے ہی برطانیہ آ گیا تھا’ وہ اسٹوڈنٹ ویزے پر آیا تھا… اس کی قسمت اچھی تھی کہ اسے آتے ہی ایک پاکستانی ہوٹل میں اچھی جاب مل گئی تھی اور پھر اسے اپنی ہونے والی بیوی تانیہ مل گئی کالج میں…
احمر کی جاب اچھی تھی… اس نے صرف ایک سال کی کورٹ شپ کے دوران ہی تانیہ سے شادی کر لی… دونوں ایک چھوٹے سے فلیٹ میں رہنے لگے… پاکستان میں احمر کسی غریب خاندان سے نہیں آیا تھا… اس کی ماما کڈز گارمنٹس کا ایک اسٹور چلاتی تھیں… گلبرگ میں ان کی ایک کوٹھی تھی… کار تھی… تھوڑا بہت بینک بیلنس تھا… احمر کے برطانیہ آنے سے چھ ماہ پیشتر ان کے ڈیڈ کی وفات ہو چکی تھی.
صرف ڈیڑھ سال میں ہی احمر نے ماما اور فرزام کو برطانیہ بلوا لیا… وہ برطانیہ میں اپنا بزنس کرنا چاہتا تھا اور اس کے لیے اسے پیسے چاہیے تھے… اس نے ماما کو راضی کر کیا کہ وہ سب کچھ بیچ کر یہاں اسی کے پاس آ جائیں… وہ مل کر ایک جگہ رہ بھی لیں گے اور وہ کاروبار بھی کر لے گا… ماما نے سب کچھ بیچ کر پیسے اس کے ہاتھ میں دے دیے… اس نے اپنے سسر اور سالے کے ساتھ مل کر ٹریولنگ ایجنسی کھول لی… فرزام نے اسکول میں ایڈمیشن لے لیا اور وہ اور ماما مل کر احمر کے ارینج کیے گئے ایک فلیٹ میں رہنے
لگے…
یہاں تک سب ٹھیک تھا… احمر ماما کو ہر ماہ ایک محدود رقم دے دیا کرتا تھا… اس کا کہنا تھا کہ ابھی اس کا کاروبار سیٹ نہیں ہوا… پھر وہ اپنی بیوی کے ساتھ دو کمروں کے فلیٹ سے ایک بڑے اور کشادہ فلیٹ میں شفٹ ہو گیا… اس پر اس کا کہنا تھا کہ یہ فلیٹ تانیہ کے گھر والوں کی طرف سے تانیہ کے لیے شادی کا تحفہ ہے… ان کی ماں مسز گوہر پاکستان میں اپنا چلتا ہوا کام چھوڑ کر آئی تھیں… صرف اپنے دونوں بیٹوں کے مستقبل کے لیے… اپنے بیٹے احمر کی خوشی کے لیے… ورنہ انہیں اپنے کام سے بہت لگاؤ تھا… احمر نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ حالات ٹھیک ہوتے ہی وہ انہیں ویسا ہی کاروبار یہاں کروا دے گا… حالات ٹھیک ہو رہے تھے… لیکن صرف احمر اور تانیہ کے… دونوں نے الگ الگ کاریں لے لی تھیں… ان کے گھر کی سجاوٹ دیکھنے لائق تھی… ان کے شاپنگ بلز دیکھنے کے لائق تھے…
ایک کاروباری عورت کو یہ سب باتیں سمجھنے میں زیادہ وقت نہیں لگا… لیکن اب وہ کر کچھ نہیں سکتی تھیں… پاکستان میں کچھ بچا نہیں تھا… یہاں اثاثے کے نام پر ان کے پاس صرف فرزام تھا اور فرزام چھوٹا تھا وہ اسے یہ سب باتیں بتا کر احمر سے باغی نہیں کرنا چاہتی تھیں… وہ چاہتی تھیں کہ فرزام اپنی ڈگری مکمل کر لے اور ایک جاب حاصل کر لے… ابھی فی الحال احمر ہی اس کے سب اخراجات پورے کر رہا تھا… وہ احمر سے کوئی بھی بات کر کے اسے ناراض نہیں کرنا چاہتی تھیں… جتنے پیسے احمر انہیں دیتا تھا’ وہ لیسے وہ خاموشی سے رکھ لیتیں…
پاکستان میں وہ ایک فعال زندگی کیا مالک تھیں یہاں فی الحال وہ چند کورسز کر رہی تھیں… وقت کی نبض پر ہاتھ تھا… جانتی تھیں… کسی بھی وقت خود کمانے کی نوبت آ سکتی ہے… بیٹے’ بہو اور ان کے درمیان ایک بھرم کا پردہ تھا… کسی بھی وقت پردہ چاک ہو سکتا تھا… لیکن اس سب میں ایک گڑبڑ ہو گئی’ تانیہ کے لیے… تانیہ کی چھوٹی بہن رومیہ’ فرزام کی دوست بن گئی… پھر کالج میں بھی ساتھ ہو گئے… رومی’ فرزام کے ساتھ بہت خوش ہوتی تھی… تانیہ یہ سب پسند نہیں کرتی تھی… وہ اپنے میاں کے بھائی کو اپنے میاں کے سیٹ کیے گئے کاروبار میں حصہ دار نہیں بنانا چاہتی تھی… اگر رومی اور فرزام میں رشتہ استوار ہو جاتا تو اس کی ذہین و فطین بہن ضرور اس کاروبار میں سے فرزام کا حصہ نکلوا لیتی… اس نے اپنے والدین کو بھی اپنا حامی بنا لیا… لیکن رومی نے کسی کی نہیں سنی اور فرزام سے منگنی کروا کر ہی چین لیا…
منگنی سے پہلے تانیہ کے پاس کوئی ایسی ٹھوس وجہ نہیں تھی’ جو وہ اپنی بہن کو بتاتی اور وہ فرزام سے دور رہتی… لیکن فرزام کے پکڑے جانے اور برطانیہ میں اس کی موجودگی پر پابندی سے اس کے ہاتھ بہت کچھ آ گیا تھا… اس نے اچھی طرح سے اپنی بہن کا ذہن صاف کر دیا تھا…
کالج میں ان دونوں کے مشترکہ دوست طرح طرح کی باتیں کرنے لگے… چھوٹی سی خبر تھی… اخبار میں بھی آ گئی… مقامی ٹی وی چینل پر بھی…… کالج میں ہر کسی نے اس بارے میں باتیں کی تو فرزام کے ساتھ پکنک پکنک کھیلنے والی’ اس کے چٹکلوں پر ہنسنے والی’ اس چھ فٹ کے لمبے چوڑے ہینڈسم کے ساتھ فخر سے چلنے والی رومی پریشانی کی ہلکی سی گرم ہوا برداشت نہیں کر سکی… جو فرینڈز اسے لکی کہتی تھیں… وہ اب فرزام کے متعلق باتیں بنانے لگی تھیں… اس کی بہن اور گھر والے الگ اسے اکسا رہے تھے… ساری جمع تفریق کر کے اس نے انگوٹھی اتار کر اس کی ماں کے ہاتھ میں دی… برطانیہ میں تو فرزام کا مستقبل تھا… لیکن پاکستان میں کیا تھا… کسی دوسرے ملک میں قدم جمانے کے لیے اسے بہت وقت اور مشقت درکار ہو گی اور اسے اس لفظ مشقت سے چڑ تھی…
“ماما! یہ میرے ساتھ کیا ہو گیا؟” وہ مسز گوہر کی گود میں سر رکھ کر لیٹا’ رو دینے کے قریب تھا…
“شاید کسی اچھے کے لیے…” مسز گوہر اچھا’ اچھا ہی سوچتی تھیں…
“اس میں کیا اچھا ہے…… ہر بار ایک ہی فلسفہ…… جب میں یہاں نہیں آنا چاہتا تھا… آپ مجھے زبردستی یہاں لے آئیں اور اب میں یہاں سے جانا نہیں چاہتا تو پوری کی پوری حکومت ہی مجھے نکال باہر کر رہی ہے… یہ کون سی قوت ہے ماما! جس نے حکومت کو ہی حرکت دے دی کہ نکالو اس فرزام کو یہاں سے… اور پھر آپ کا یہ فلسفہ……. کچھ اچھا نہیں ہے اس میں….. کچھ بھی…”
“یہ تمہیں آنے والے وقت میں طے کرنا ہے فرزام!”
“آپ ہمیشہ ایسے ہی سوچتی ہیں…”
“بری سوچ تو نہیں ہے یہ…..؟”
“کچھ ایسی فائدہ مند بھی نہیں ہے… میں بہت پریشان ہوں… رومی کو ایسے نہیں کرنا چاہیے…”
“آنے والے وقت میں شاید وہ سمجھ جائے…”
“شاید….. کاش! ایسا ہی ہو…”
“تم اسے بہت پسند کرتے ہو؟”
“صرف اسے ماما!”
“تمہیں اس میں کیا پسند ہے بیٹا؟”
مسز گوہر نے ہمیشہ اپنے دونوں بیٹوں کی پسند کو ہی پسند کیا تھا… تانیہ کی بار بھی احمر نے صرف ایک تصویر بھیج دی تھی اور فون پر بات کروا کر اپنی شادی کی تاریخ بتا دی تھی اور انہوں نے خوشی خوشی اجازت دے دی تھی…
“تمہیں اس میں کیا پسند ہے؟”
یہ سوال وہ پہلی بار فرزام کی کسی بھی پسند کے بارے میں پوچھ رہی تھیں… اب انہیں لگتا تھا کہ انہیں اپنے بچوں کی پسند پر مسکرا کر “ہاں” نہیں کہہ دینا چاہیے… بلکہ انہیں ان سے پوچھنا چاہیے کہ جن چیزوں’ لوگوں کو وہ پسند کر رہے ہیں’ وہ پسند کیے جانے کے لائق بھی ہیں یا نہیں… چیزوں کی تو خیر ہے بدلی جا سکتی ہیں’ پھینکی جا سکتی ہیں… لیکن لوگوں کا کیا جائے ان کے بیٹے نے تانیہ پسند کر لی… برطانیہ میں ہمیشہ کے لیے رہنا پسند کر لیا اور اس کا نقصان ابھی تو انہیں ہو رہا تھا… آنے والے وقت میں شاید اسے بھی ہو…
“یہ کیسا سوال ہے مام! بس وہ مجھے پسند ہے…”
“تم اپنے جوتے’ کپڑے’ موبائل’ لیپ ٹاپ اور ایسی ہی دوسری چیزیں کوالٹی دیکھ کر لیتے ہو نا؟ تو چیزوں میں کوالٹی’ ساخت اور انسانوں میں…… تم نے اپنے دوست بناتے وقت بھی یہی غلطی کی اور اس غلطی کی تمہیں اتنی بڑی سزا ملی… خود کے ٹھیک ہونے کے ساتھ خود کے ساتھ جڑے لوگوں کا ٹھیک ہونا بھی ضروری ہے…
“محبت میں یہ سب نہیں دیکھا جاتا ماما…… یہ خوبی….. یہ خامی….. یہ سب محبت میں نہیں چلتا…”
انہوں نے پیشانی پر پیار کیا… “میں بھی تم سے محبت کرتی ہوں… تمہاری ہر خوبی اور خامی کو تسلیم کرتی
ہوں… رومی کا کہنا بھی یہی تھا کہ وہ تم سے محبت کرتی ہے… پھر اس نے صرف تمہاری خوبیاں ہی کیوں قبول کیں؟ اس نے تمہیں چھوڑ دیا… وہ تمہارے ساتھ خوشی میں رہی اور دکھ’ پریشانی میں چھوڑ گئی…”
وہ اٹھ کر بیٹھ گیا اور چونکنے کی کیفیت لیے انہیں دیکھنے لگا… جیسے بچے چونک جاتے ہیں’ “آسمان پر تو کوئی بڑھیا نہیں…”
“تمہیں شکر گزار ہونا چاہیے اس برے وقت کا… یہ وقت تمہیں بہت کچھ بتا رہا ہے فرزام! جو وقت بتا رہا ہے’ اسے سنو… وقت کبھی برا نہیں ہوتا… ہاں انسان بہت برا ہوتا
ہے… وقت تو بہت اچھی کتاب ہے….. اسے پڑھو……. سمجھو……”
صوفے پر اسے سوچنے کے لیے چھوڑ کر وہ کوٹ پہننے
لگیں…
“میں احمر کی طرف جا رہی ہوں… تم کھانا کھا کر اپنی پیکنگ دیکھ لینا… شاید مجھے آنے میں دیر ہو جائے…”
……… ……………… ………
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...