“میں کچھ کہہ نہیں سکتا…” وہ گڑبڑا گئے اور مزید بحث سے بچنا چاہا…
“آپ کی این جی او کو اس کے لیے بھی کام کرنا چاہیے…”
“بہت سے امریکن بھی ان حالات کا شکار ہیں اور ایسے ہی جیلوں میں قید ہیں…” وہ دراصل یہ ایک نکتہ واضح کرنا چاہتے تھے کہ صرف مسلمان ہی اس سب کا عتاب نہیں بنتے…
“پھر آپ کو ان سب کے لیے کام کرنا چاہیے…”
“بہت سے دوسرے ادارے اس پر کام کر رہے ہیں… ہم ان مسائل پر کام نہیں کرتے… ہماری این جی او کا یہ منشور نہیں ہے…”
“میں آپ کے لیے اتنی محنت کر رہی ہوں مسٹر جین… آپ کو بھی ہمارے لیے کچھ کرنا چاہیے…” افق نے سنا ہی نہیں کہ مسٹر جین نے کیا وصاحت دی… دوسرے لوگوں کی طرح اس کا بھی یہی ماننا تھا کہ امریکی سب کچھ کر سکتے ہیں… تباہی بھی اور آبادکاری بھی…
“آپ کے لیے کیا؟” اس بات پر وہ اور الجھ گئے…
افق کا مسٹر جین کو روک کر یہ سب کہنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا… لیکن جب وہ اس کے پاس آئے تو نہ چاہتے ہوئے بھی اسے تھوڑا سا غصہ آ گیا… اسے آرٹیکل میں موجود باقی لوگوں اور دوسرے اعدادوشمار کا خیال بھی آیا… اسے ایک دم سے یہ لگا کہ اپنے کام کے لیے تو یہ امریکی اس سے کام لے رہے ہیں تو اس کے کام کے لیے کیا یہ آگے آئیں گے؟ یہ سب سوچتے وہ یہ بھول رہی تھی کہ تھرڈ ورلڈ میں پاکستاب بھی شامل ہے اور پاکستان کے دیہی علاقوں میں اسی این جی او کے کارکن ویکسین کی سپلائی کے لیے پہنچتے ہیں… مختلف انجکشن اور ڈراپس ان ہی کی طرف سے جاتے ہیں…
اس نے انہیں ڈاکٹر عدن کے بارے میں بتا دیا… وہ خاموشی سے سب سنتے رہے… دو دن بعد انہوں نے افق کو این جی او کے لیے اپنے رضاکار صحافی سے ملوایا… صحافی کا تعلق ایک بڑے میڈیا گروپ سے تھا اور وہ اس گروپ کے اخبار’ میگزین اور ٹی وی کے لیے کام کرتا تھا… صحافی کی ملاقات اس نے عبدالعزیز سے کروا دی… وہ اس معاملے میں پڑنا نہیں چاہتی تھی اور اگر وہ اس معاملے میں تھوڑا بہت شامل ہو ہی گئی تھی تو آگے نہیں آنا چاہتی تھی… اس نے عبدالعزیز سے وعدہ لیا تھا کہ اس کا نام اور شناخت سامنے نہیں آئے گی… خاص طور پر عدن کو اس بارے میں بالکل خبر نہیں ہونی چاہیے… عبدالعزیز کا خیال تھا کہ صحافی ان کی بہت مدد کر سکتا ہے اور وہ اس صحافی سے مل کر حقیقتاً بہت خوش ہوا تھا چند ہی ہفتوں بعد مسٹر جین نے افق کو چند دوسری این جی اوز کی طرف بھیج دیا’ شاید انہیں افق کا کیا گیا طنز بہت برا لگا تھا… وہ بار بار یہ کہتے تھے کہ وہ جو کچھ کر سکتے ہیں’ ضرور کریں گے… افق نے نہ چاہتے ہوئے بھی ان این جی اوز کے نمائندوں سے پھر بات کی…
مسٹر جین کے ساتھ کی گئی حادثاتی بات چیت کافی کارگر ثابت ہو رہی تھی… پیچھے ہٹتے ہٹتے’ نہ’ نہ کرتے بھی افق اس سب میں اتنی شامل ہو گئی… این جی اوز کے نمائندوں نے وکیل سے ملاقات کی… اس سے کیس ہسٹری لی…
“آپ نے مجھے حیران کر دیا ہے…” عبدالعزیز کا اسے میسج آیا… اس کا منہ بن گیا پڑھ کر… اسے یہ تعریف اچھی نہیں لگی… کاش! وہ کبھی آفس گئی ہی نہ ہوتی اور نہیں تو اس نے وہ رسالہ ہی نہ خریدا ہوتا…
عبدالعزیز کی براہ راست بات چیت این جی اوز سے ہونے لگی… اس نے عبدالعزیز سے صاف صاف کہہ دیا کہ اس نے جتنی ریفرنس دینے ہیں’ وہ دے چکی… اب اسے پریشان نہ کیا جائے…
آئندہ آنے والے چند اور ہفتوں میں ایک اور کام ہوا… صحافی اسکاٹ جو اس سارے معاملے کے لیے مواد اکٹھا کر رہا تھا… اس نے دو سینیٹرز اور ایک قانون دان کے سامنے ایک لائیو ٹاک شو کے دوران اس مسئلے کو اٹھایا… عبدالعزیز کی طرح ایسے ہی کیسز کو ہینڈل کر ے والے دوسرے وکلا اور متاثرین کے خاندان کے افراد بھی شامل تھے… چند ڈاکومنٹریز چلائی گئیں… صرد شبہ پر قید مجرموں کی بابت طرح طرح کے سوالات کیے گئے… ایسے شوز وہاں آئے دن ہوتے ہیں… لیکن اس سے یہ ضرور ہوتا ہے کہ جن لوگوں کی نظروں سے ایسے واقعات چھپے ہوئے ہیں’ کم از کم اس طرح ان کے کانوں تک یہ خبر ضرور پہنچ جاتی ہے… اسکاٹ نے اسے مسئلے پر ایک فیچر لکھا اور اس نے براہ راست حکومتی اداروں پر تنقید کی… چند اخبارات نے نئے سرے سے عدن اور اس جیسے کیسز کے بارے میں خبروں کو نمایاں جگہ دی… سالوں سے قید ان ملزموں پر لوگوں کو بہت ترس آیا… یہ ان جیلوں میں بند کسی اور کے لیے وسیلہ بن رہا تھا یا صرف عدن کے لیے’ یہ قدرت ہی بہتر جانتی تھی… لیکن اس تھوڑی سی حرکت سے شاید کسی کو بہت فائدہ ہونے والا تھا…
این جی او کا ایک نمائندہ جا کر عدن سے جیل میں ملا… اسی این جی او نے مختلف کمیونٹیز کے لوگوں کو اکٹھا کر کے واک کا اہتمام کیا… افق کو بھی بلایا گیا… لیکن افق نہیں گئی… اب تو اسے ڈر لگنے لگا تھا… وہ یہ نہیں چاہتی تھی کہ اگر ایسے کیسز حل ہو جائیں تو منظر عام پر اسے لایا جائے کہ یہ سب اس کی وجہ سے ہوا ہے… اور نہیں تو کوئی صحافی اسی کے پاس نہ آ جائے انٹرویو لینے… سڑک پر چلتے اگر کوئی اسے ایسے ہی دیکھ لیتا تو اسے یقین ہوتا کہ وہ کہہ رہا ہے کہ “اچھا! وہ تم ہو جو عدن کے لیے اتنا سب کر رہی ہو؟ کون ہے عدن تمہارا؟
“نہیں! میں نے کچھ نہیں کیا… اگر کیا تو ترس کھا کر انسانیت کے ناتے…”
پھر اسے جانے کیوں کھوکھلے قہقہے بلند ہوتے سنائی دیے… بہت دن گزرے اسے عبدالعزیز کا فون آیا…
“عدن ٹھیک ہی کہتا تھا کہ افق ہی اسے آزاد کروا سکتی
ہے…” وہ شاید اس کے تعاون کا اپنے الفاظ میں شکریہ ادا کر رہا تھا…
“میں نے کچھ نہیں کیا…” وہ تقریباً چلا اٹھی…
“آئی ایم سوری… آپ ناراض مت ہوں…” عبدالعزیز گھبرا
گیا… افق شرمندہ ہو گئی…
“میں ناراض نہیں ہوں… کیونکہ میں نے کچھ کیا ہی نہیں ہے… میں نے صرف آپ کے کہنے پر چند این جی اوز کو اس مسئلے کے بارے میں بتایا تھا… جو کچھ کیا ہے وہ آپ نے اور ان لوگوں نے کیا ہے… آپ پلیز! مجھے کریڈٹ نہ دیں… نہ ہی آپ میرا نام سامنے لائیں گے… آپ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ آپ میرا نام ظاہر نہیں کریں گے…”
“میں اپنے وعدے پر قائم ہوں مس افق! آپ مجھے وعدہ خلاف نہیں پائیں گی… چند اخبارات میرا انٹرویو لے چکے ہیں… عدن کے فادر سے میں نے فنڈز منگوائے ہیں… یہی صحیح موقع ہے کہ ان این جی اوز کو فنڈز دیے جائیں… اس سے خاطر خواہ فائدہ ہو گا… چند پاکستانیوں نے رابطے کیے ہیں مجھ سے… وہ ہر طرح کے تعاون کے لیے تیار ہیں…”
“آپ مجھے دوبارہ فون نہیں کریں گے…” اس نے ساری تمیز تہذیب ایک طرف رکھ کر کہا…
“ٹھیک ہے…” اس نے فون بند کر دیا…
عبدالعزیز نے اپنا وعدہ پورا کیا اور دوبارہ فون نہیں کیا… ویک اپ کال دی جا چکی تھی… عدن جیسے پندرہ اور لوگوں کے کیسز نکل آئے تھے… سوشل میڈیا ان کیسز کے لیے زیادہ فعال تھا…باقاعدہ احتجاج کیے جا رہے تھے… آئے دن نئی نئی خبریں سامنے آئی تھیں… ان کے خاندان کے لوگوں کے بیانات سامنے آتے تھے… سست رفتاری سے عدالت میں چلنے والے ان کیسز نے کچھ رفتار پکڑ ہی لی…
……… ……………… ………
این جی او سے کیا گیا فنڈ ریزنگ کا معاہدہ مکمل ہوا اور اسے بہترین کارکردگی اور این جی او کا رکن بننے پر سرٹیفکیٹ دیا گیا… جسے اس نے فریم کروا کر ریک پر سجا لیا…
فرزام نے ہفتہ بھر پہلے کالج میں اس کا آن لائن ایڈمیشن کروا دیا تھا… اس نے چھ ماہ کی ڈیزائننگ کورس کے لیے کالج جوائن کر لیا تھا… فرزام کے آنے تک اسے فارغ نہیں رہنا تھا… صبح سے دوپہر تک وہ کالج ہی میں ہوتی… وہاں سے اکثر اسٹور چلی جاتی… ایک پاکستانی اسٹور پر انہیں ایک سائیڈ کارنر مل گیا تھا… “چنر” کا لیبل اس کارنر پر لگا دیا گیا… اس نے کارنر کی سیٹنگ کر لی… دو دن بعد وہ وہاں کا چکر لگا لیتی تھی… رات کو وہ اپنے کالج کے اسائنمنٹ پر کام کرتی… ہلکی پھلکی مصروف زندگی جاری تھی… سب ٹھیک ہی تھا…
اس کے پاس عبدالعزیز کا میسج آیا کہ وہ اسے ایک ضروری بات بتانا چاہتا ہے… افق کو یقین تھا کہ وہ اسے یہی بتائے گا کہ عدن کا کیس ختم ہو گیا ہے… اسے اس خبر سے کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ کیس ختم ہوتا ہے یا وہ چند سال اور جیل میں ہی رہتا ہے…
عدن کے بارے میں پڑھتے اور جانتے ہی وہ تھوڑی جذباتی ہو گئی تھی… لیکن اب وہ مضبوط تھی… اس کے اعصاب قابو میں تھے… عدن کتنا بھی بےگناہ تھا… لیکن اس کے لیے وہ دھوکےباز ہی تھا اتنے سال اگر وہ اسے یاد کرتا رہا ہے تو “شاید ڈوبتے کو تنکے کا سہارا” کے مصداق وہ افق کا سہارا لیتا رہا ہے… ماضی میں وہ اسے دعاؤں کے لیے کہتا رہا تھا اور اس کا عقیدہ بن چکا تھا کہ صرف افق کی ہی ہر دعا قبول ہوتی ہے اور ضرور ہی قبول ہوتی ہے… اس طرح کی قید میں رہ کر کوئی بھی ایسے سہارے ڈھونڈ سکتا ہے… ایسے وقتوں میں ایسے افراد کو پھر ماضی ہی یاد آتا ہے… پھر وہ ان ہی لوگوں کو یاد کرتے ہیں جو اچھے تھے’ مخلص تھے… ایسے افراد کو دھوکا دیا جا سکتا ہے’ بھلایا نہیں جا سکتا… وقت کا دھارا بدلتے ہی ایسے مخلص لوگ نتھر کر سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں… افق نے اس سب پر بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ عدن کے ساتھ جو ہوا وہ افق کے ساتھ برا کرنے کی سزا ہے… افق اتنے پیارے دل کی تھی کہ اس نے یہ سوچا ہی نہیں… صرف اتنا تھا کہ وہ اپنے اندر سے اس شخص کی سب باقیات نکال پھینک رہی تھی…
“عدن آپ کے بارے میں پوچھ رہا تھا…” عزیز کی آواز گونجی… فون پھسل کر اس کی گود میں آ گرا… کچھ دیر سوچنے کے بعد اس نے خود ہی فون کر لیا…
“کیسے؟ آپ نے اپنا وعدہ توڑا؟”
“این جی او کو جو نمائندہ اس سے جیل ملنے گیا تھا… اسی نے ذکر کیا آپ کا… اس بار میری اس سے ملاقات ہوئی تو وہ آپ کا بہت شدت سے پوچھ رہا تھا… میں خاموش ہی رہا اور لاعلمی ظاہر کی… لیکن کیا آپ اس سے ملنا چاہیں گی؟”
“ہرگز نہیں…” اس نے سختی سے کہا…
“اوکے! میں نے آپ کو مطلع کر دیا ہے اس بارے میں…” جواب دیت بنا اس نے فون بند کر دیا… بےچینی گھبراہٹ میں بدل گئی… اس شخص کو یہ معلوم ہو گیا ہے کہ وہ یہاں ہے… اس کے لیے یہ اب افق نے کیا… افق جو یہ فیصلہ کر چکی ہے کہ وہ اسے اب دیکھنا بھی نہیں چاہتی… اب وہ شخص اس سے ملنا چاہتا ہے… بہت کوشش کی اس نے کہ اسائنمنٹ پر کام کرے… لیکن نہیں کر سکی… فرزام رات دن کام کر کے تھک جاتا تھا… وہ سو رہا ہو گا… ورنہ وہ اسے فون کر لیتی… اگر وہ سو نہ رہا ہوتا تو اس وقت آن لائن ہی ہوتا… اٹھ کر وہ نمل کے پاس آ گئی… وہ ایک انگلش فلم دیکھ رہی تھی… وہ بھی ساتھ بیٹھ گئی… نمل نے قریب رکھی پلیٹ اس کی طرف بڑھائی…
“کچھ اور لاؤں؟”
“نہیں…” کہہ کر اس نے پزا کا ایک پیس اٹھا لیا…
“پریشان ہو؟” فلم کی ہیروئن کی لپ اسٹک پر نظر رکھ کر نمل نے پوچھا…
“نہیں…” وہ زبردستی مسکرائی…
“فرزام کو یاد کر رہی ہو؟” اس سوال پر وہ صرف مسکرا دی…
“فرزام سے کہو’ ایک چکر لگا جائے… اتنا مصروف ہے کیا وہ؟” نمل کی نظریں اب بھی اسکرین پر ہی جمی تھیں…
“بہت مصروف ہیں… ویک اینڈز میں بھی کام کر رہے ہیں…”
“پھر تو ٹھیک ہے… جلد ہی فارغ ہو کر آ جائے گا…”
یہ تو فرزام بھی اس سے کہتا تھا کہ رات دن دس لوگوں کی ٹیم کام کر رہی ہے… چھ مہینے کے اندر اندر کام کو مکمل کرنا ہے… اس کے بعد وہ سوفٹ ویر میں تکنیکی خرابیاں جانچیں گے… پھر اسے اپلائی کیا جائے گا… مارکیٹ میں لایا جائے گا… اب جب وہ اس سے آن لائن باتیں کرتا تو چھوٹے چھوٹے جملے بنا جھجکے کہہ دیتا… وہ اسے بہت یاد آتی ہے کہ اس کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں اور کبھی کبھی اتنا کہ وہ کمانڈز لکھنے کے بجائے اس کا نام لکھ دیتا ہے… اب وہ اسے یاد کرتے ہوئے سوتا ہے اور یاد کرتے ہوئے اٹھتا ہے… مزید اسے دو عدد پر چاہئیں کہ کینیڈا سے پرواز کر کے وہ اس کے پاس آ جایا کرے… کبھی کبھی اس کا جی چاہتا کہ وہ کمپنی کے ساتھ معاہدہ چرا کر پھاڑ کر پھینک دے… ایک دن وہ لیپ ٹاپ پر ذرا آگے کو جھکا اور دو انگلیاں اسکرین پر رکھیں…
“میں تمہاری ناک کو پکڑ کر ایسے ایسے کرنا چاہتا ہوں…” انگلیاں دائیں بائیں ہوئیں “اور پھر تمہاری ٹھوڑی کو ایسے پکڑ کر چہرے کو اوپر اٹھانا چاہتا ہوں…” ساتھ ہی ٹشو سے لیپ ٹاپ کی اسکرین صاف کی… “سب گلابی گلابی کیوں ہو رہا ہے…”
وہ ہنسی اور گلابی ہو گئی…
“تم بہت خوب صورت ہو…” ٹھہر کر سرگوشی کی…
اس نے ادا سے ٹھوڑی کے نیچے بایاں ہاتھ ٹکا لیا…
“اور تمہاری آنکھیں جب ذرا سا جھک کر اٹھتی ہیں اور میری آنکھوں سے ملنا نہیں چاہتیں… آس پاس سے بچ کر نکل جاتی ہیں تو کمال لگتی ہیں….. ہاں….. ہاں… بالکل ایسے ہی…
ٹشو سے پھر اسکرین صاف ہونے لگی…
باقی کا وقت وہ ان باتوں کو بار بار سوچ سوچ کو گلابی ہوتی رہتی اور پھر اس کا جی چاہتا کہ فرزام ایسی ہی باتیں کرتا جائے بس… بلکہ وہ دونوں ہی ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں کرتے رہیں… خوش ہونے کے سامان پیدا کرتے رہیں اور محبت کی طرف بڑھتے ہی جائیں… نمل کے ساتھ فلم دیکھتے دیکھتے وہ اونگھنے لگی تو اپنے گھر میں آ کر سو گئی… فرزام کے بارے میّ سوچتے سوچتے وہ ایسے ہی گہری نیند میں چلی جاتی… نعمت ہوتے ہیں وہ تعلق’ وہ رشتے جو تھپک تھپک کر سلا دیتے ہیں… سکون کی نیند کا باعث بنتے ہیں… والدین کی آغوش میں بچے ایسے ہی جھٹ سے نہیں سو جاتے… اور ایسے تعلق جو نیندیں چھین
لیں….؟
……… ……………… ………
کالج میں اس کی دو تین اچھی دوستیں بن گئی تھیں… وہ انہیں چنر کی کلیکشن دکھانے اسٹور بھی لے گئی… وہ سب اس بات پر کافی حیران ہوئیں کہ وہ پہلے سے ہی زندگی میں اتنی کامیاب ہے… اس کامیابی کے لیے افق نے کافی پاپڑ بیلے تھے اور کامیاب ہونے کے لیے پاپڑ بیل لینے چاہئیں… محنت اور کام سے گھبرانا نہیں چاہیے…
ان ہی دوستوں کے ساتھ وہ کبھی کبھار سیر کے لیے بھی چلی جاتی تھی… وہ لوگ اکٹھے خریداری بھی کر لیتے تھے’ کافی پیتے تھے’ آئس کریم کھاتے تھے’ اسائنمنٹ میں ایک دوسرے کی مدد کرتے اور فون پر گپ شپ لگا لیتے تھے…
کالج سے نکل کر وہ سڑک پر آئی… اسے بس اسٹاپ تک پیدل جانا تھا… اسے ایسی کوئی جلدی بھی نہیں تھی… وہ آرام آرام سے چل رہی تھی… اکثر وہ راستے میں آنے والے ایک ہندوستانی ریسٹورنٹ سے لنچ کر لیا کرتی تھی… لیکن یہ اس کے مزاج اور بھوک پر تھا کہ وہ ریسٹورنٹ سے لنچ کر لے یا گضر جا کر نمل کے ساتھ… آہستہ آہستہ چلتی وہ سوچ ہی رہی تھی کہ ایک دم سے کسی نے پیچھے سے آکر اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھے… اس نے اتنی زور سے چیخ ماری کہ تیز تیز پیدل چلتے راہ گیر بھی رک کر اسے دیکھنے لگے…
“یہ میں ہوں…” فرزام اس کے سامنے آیا… ریسٹورنٹ کا دروازہ کھولے ایک امریکی کھڑا اسی کی طرف دیکھ رہا
تھا… جیسے پوچھ رہا ہو… “سب ٹھیک ہے نا؟”
“سارے سرپرائز کا مزا خراب کر دیا تم نے…” فرزام بری طرح سے شرمندہ ہوا… “کالج سے آ رہی ہو یا کوئی ہارر مووی دیکھ کر…”
اس کے اوسان اور سانس بحال ہوئی جیسے “اوہ! تو یہ تم ہو…”
وہ اپنی جگہ پر بہت شرمندہ ہوئی… رات سے ہی ڈری ہوئی تھی… گھر کے دروازے کے باہر… کھڑکی سے باہر… کوئی کھڑا محسوس ہو رہا تھا… کالج آتے ہوئے کوئی پیچھے آتے محسوس ہو رہا تھا کئی دنوں سے ایسے ہی چل رہا تھا… فرزام کو دیکھ کر خوش بھی نہیں ہو سکی…چہرے سے کشمکش ہی نمایاں تھی…
“مجھے لگا کہ خوشی سے تم مجھ سے لپٹ جاؤ گی… تم نے تو سب کو ہی چونکا دیا…” اس کا اشارہ راہ گیروں کی طرف تھا…
“میں ڈر گئی تھی… میں حیران بھی ہوئی ہوں…” اس نے بات کو سنبھالا…
“بہرحال میں بہت ناراض ہوں اب…” ہاتھ سینے پر باندھ کر فوجی مارچ کے سے انداز میں وہ آگے آگے چلنے لگا’ تیز تیز…
“میں منا لوں گی…” وہ پیچھے پیچھے ساتھ ساتھ آنے
لگی…
وہ منہ پھلائے چلتا ہی رہا… تیز سے تیز ہوتا گیا…
“پلیز رکو…” ساتھ ساتھ تیز تیز چلتے وہ ہانپنے لگی…
وہ اور تیز ہو گیا…اب وہ تقریباً بھاگتی ہوئی اس کے عین سامنے جا کھڑی ہوئی…
“آئی ایم سوری…” دونوں کان پکڑ کر بےچاری سی صورت بنا کر کہا…
فرزام نے اس کی ناک پکڑ لی اور دائیں بائیں زور زور سے جھٹکے دینے لگا…
“آہ….. مجھے درد ہو رہا ہے مسٹر…”
“اس ہولناک چیخ سے میں بھی ڈر گیا تھا میڈم!”
ناک بدستور دائیں بائیں ہلائی جا رہی تھی… کان بدستور پکڑے ہوئے تھے… دونوں ایک فریم میں اچھی تصویر بنا رہے تھے…
……… ……………… ………
فرزام جمعہ کو آیا تھا اور دو دن رہ کر چلا گیا اس بار افق کا جی چاہا کہ اسے واقعی میں نہ جانے دے… اسے پکڑ کر گھر میں لاک کر دے اور خود بھی لاک ہو جائے… لیکن وہ صرف اس سے ملنے کے لیے آیا تھا اور اس کا کہنا تھا کہ اگر وہ اب بھی ملنے کے لیے نہ آتا تو یقیناً اس کا دم نکل جاتا…
“چند ہفتوں کا ہی کام رہ گیا ہے… میں کسی بھی وقت آ سکتا ہوں… خیر! ایسا سرپرائز تو تمہیں اب نہیں دوں گا…بس تم تیار رہنا… ساری خریداری کر لینا اپنی یا ہم مل کر کر لیں گے… بہت اچھے پیسے مل رہے ہیں مجھے… بہت کچھ لے کر دے سکتا ہوں تمہیں… چاہو تو فہرست بنا لینا… ڈھونڈ ڈھونڈ کر چیزیں لکھنا… انکار نہیں کروں گا… دونوں ماؤں کو پہلے سے ہی پیسے بھجوا دیے ہیں اور تمہارے بزنس میں بھی پیسے انویسٹ کر دوں گا… جاب کا کانٹریکٹ سائن کرتے ہی تمہیں امریکا میں یا جہاں تم کہو گی’ ایک اسٹور لے دوں گا… دبئی کیسا رہے گا؟ برطانیہ جانے کا خیال میں نے دل سے نکال دیا ہے… اب میں برطانیہ کو سزا دینا چاہتا ہوں… اسے مجھ جیسا قابل لڑکا نہیں ملنا چاہیے… عارضی شہری کے طور پر بھی نہیں… کیا معلوم وہ مجھے ہتھیا ہی لے… مجھ سے کہے کہ شہریت لے لو یہاں کی… لیکن میں انکار کر دوں گا… میرا خیال ہے’ کمپنی مجھے ساؤتھ ایشیا ہی بھیجے گی… میں اوکے ہوں… وہ مجھے جہاں بھی بھیج دیں… کیا خیال ہے تمہارا؟”
“میں بھی اوکے ہوں…”
“مجھے تو لگتا ہے کہ تم نے میری کوئی بات سنی ہی
نہیں…”
“یہاں سے سن کر یہاں سے نکال دی…” اس نے دائیں سے بائیں کان کی طرف اشارہ کیا…
“تم پریشان ہو افق؟” وہ ہنس رہی تھی… لیکن اسے لگا کہ وہ خود پر پردے ڈال رہی ہے…
“ایسا کیوں ہو گا بھلا؟” جواب نہیں دیا… سوال کر لیا الٹا کہ سوال کا جواب کیا دیتی… خوف نام کی ایک بیل اس کے اندر پھولتی پھلتی ہر شے سے لپٹتی جا رہی تھی… وہ ٹھیک کہہ رہا تھا کہ وہ پردےڈال رہی ہے’ ہنسی اور مسکراہٹ کے… اگر وہ یہ پردے ہٹاتی تو فرزام اس سے کئی سوال کرتا… ہر سوال کا جواب نہیں تھا اس کے پاس اور اگر ہر سوال کا جواب دے بھی دیتی تو شاید فرزام کی تسلی نہ ہوتی اور ان دونوں میں کچھ نہ کچھ ضرور بگڑ جاتا… اس نے خود کو روکے رکھا اور اس سے کہا نہیں کہ کانٹریکٹ کو چرا کر پھاڑ آؤ اور آؤ! بھاگ چلتے ہیں امریکا سے راتوں رات اور پاکستان چل کر اپنی زندگی گزارتے ہیں… آؤ! ہم دونوں ساتھ ہی چلتے ہیں… لیکن وہ کہہ نہیں سکی اور فرزام اکیلا ہی واپس چلا گیا… لیکن واقعی صرف چند مزید ہفتوں کے لیے… وہ اسے لینے ایر پورٹ گئی… رات کو فرزام نے اس کا بازو پکڑ کر اپنے بازو میں دیا اور دونوں نیو بری (New Bury) آگئے…
فرزام بہت خوش تھا… جیسے ہر کام سے فارغ ہو چکا ہو… جیسے طویل محنت کے بعد اسکول کے بچے امتحان سے فارغ ہوتے ہیں اور جیسے ایک لمبے انتظار کے بعد کوئی خاص دن آتا ہے… آخر آ ہی جاتا ہے… دونوں ساتھ ساتھ چل رہے تھے… افق نے فہرست نہیں بنائی تھی… اچھا ہی کیا تھا کہ نہیں بنائی کیونکہ بنا فہرست کے ہی وہ اتنا سب کچھ لے رہا تھا… اس نے اس سے جس فَر کوٹ کا وعدہ کیا تھا’ ایک بڑے اسٹور سے وہ فَر کوٹ لے رہا تھا…
“پیرس فَر کوٹ کے بغیر نہیں جانا چاہیے…” ساتھ اسے
بتایا…
وہ بار بار اس کی پسند کے کوٹ پہن پہن کر دیکھتی رہی… جو اسے اس پر اچھا لگا’ وہ اس نے لے لیا… پھر اس کے دائیں بائیں ہاتھوں میں طرح طرح کے ہولڈنگ بیگز پکڑا پکڑا کر بیگز پسند کیے… بڑے بڑے شولڈر بیگز الگ سے لیے… اس وقت اس کا خریداری کا تجربہ اچھے اچھوں کو مات دے سکتا تھا…
“اگر پیرس میں مجھے کسی نے یہ کہہ دیا کہ میری بیوی اولڈ فیشن ہے تو میں اس کا جبڑا توڑ دوں گا… کیا تم چاہتی ہو کہ میری وہاں کسی سے ایسے لڑائی ہو؟” وہ انتہائی سنجیدگی سے سوال کر رہا تھا…
“تم سے ایک رولیکس کا وعدہ بھی کیا تھا میں نے…”
سارے وعدے اس نے خود ہی کیے تھے اور سارے وعدے وہ یاد سے خود ہی پورے کر رہا تھا… اس کے پاس واقعی بہت پیسے آ گئے تھے… افق نے اسے اپنا کریڈٹ کارڈ دینا چاہا… لیکن اس نے اس کا بیگ کھول کر اس میں سے چند ڈالرز نکال لیے…
“تمہاری طرف سے فی الحال آئس کریم کھا لیتے ہیں…”
وہ ڈبل ڈیک آئس کریم لے آیا… آئس کریم اتنی بڑی تھی کہ وہ دونوں پندرہ منٹ سے اسے کھا رہے تھے… شاپنگ بیگز ہاتھوں میں پکڑے نیو بری کی سڑکوں پر گھوم رہے تھے…
“تم یہیں کھڑی رہنا… میں ابھی آیا… دیکھو! میرے پیچھے نہ آنا… اگر تم میرے پیچھے آئیں یا مجھے دیکھا کہ میں کہاں ہوں اور کیا کر رہا ہوں تو میں اتنے سارے لوگوں کے درمیان سڑک کے عین وسط میں سچ مچ زمین پر پھیل کر رونے لگوں گا…
رش میں اسے ایک طرف کھڑا کر کے وہ کہہ کر اسے اپنی طرف سے الٹی طرف گھما کر اس کے پیچھے سے چلا گیا… کچھ ہی دیر میں افق فوراً پلٹی… اس نے دیکھ لیا تھا کہ وہ ایک بڑی جیولری شاپ میں جا رہا تھا… وہ مسکرانے لگی… وہ جانتی تھی’ وہ اس کے لیے ایک عدد انگوٹھی لینے جا رہا ہے… ایک ایسی انگوٹھی کا نہ اس نے وعدہ کیا تھا’ نہ ہی تذکرہ… وہ اسے پروپوز کرے گا… پروپوز کرنے کا بھی اس نے وعدہ نہیں کیا تھا… لیکن اس کی اسے خواہش تو بہت ہو گی… پرانی انارکلی میں وہ اس سے شادی کا کہہ رہا تھا.. اب وہ اس سے اپنی محبت کا کہے گا… پہلے اس نے بتایا تھا کہ وہ اس سے شادی کرنا چاہتا ہے… اب وہ بتائے گا کہ وہ اس سے کس قدر محبت کرتا ہے…
نیو بری کی پُررونق سڑکوں کی رونق مزید بڑھ گئیں…
رات کی چکاچوند میں اضافہ ہو گیا… گہما گہمی بڑھنے لگی… دورونزدیک بڑی بڑی دکانوں اور اسٹورز پر لگے بورڈز اور جگمگانے لگے… اپنی مام ڈیڈ کے ہاتھ پکڑے’ پارپ کارن’ آئس کریم کھاتے مسکراتے بچے ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ دیے نوجوان لڑکے لڑکیاں… یہسب افق کو بہت اچھا لگا…
“فرزام اس کے لیے انگوٹھی لینے گیا ہے…”
چند دنوں سے وہ جتنی پریشان تھی… وہ پریشانی جاتی رہی… وہ افق سے صرف مسز فرزام بن گئی… ایک عرصے سے اس کی زندگی مستحکم تھی… لیکن اب وہ وقت تھا جب وہ بےحد خوش تھی… ایک عورت کو اپنی زندگی میں ہر پل اس ایک لمحے کا انتظار ضرور ہوتا ہے جب کوئی مرد اس کے سامنے گھٹنے ٹیک دے اور وہ اس بات کا اقرار کرے کہ اس کےدل پر اس کا راج ہے اور وہ اس راج میں غلام بننے کے لیے بخوشی تیار ہے… اس گھٹنے ٹکائے غلام پر خود کو لٹا دینے کو جی چاہتا ہے… اسے اپنا سردار’ سر کا تاج بنانے کو جی چاہتا ہے… دونوں ایک دوسرے پر راج کرتے ہیں اور دونوں ہی ایک دوسرے کے غلام ہو جاتے ہیں…
ان گئے سالوں میں وہ فرزام سے متاثر ہوئی تھی… اسے اچھا جانا تھا… وہ ہیرے کے دل والا تھا اور اس ہیرے کے دل میں اس نے اپنی تصویر دیکھ لی تھی… وہ دنیا میں سب سے پیارا تھا اور وہ اسے بھی سب سے زیادہ پیارا تھا…
سڑک کے ایک طرف کنارے پر کھڑے افق یہ اعلان کرنے کے لیے تیار تھی کہ انسانوں میں ایک بےحد پیارے انسان “فرزام” سے وہ محبت کرتی ہے اور بےحد کرتی ہے… کرتی رہے گی اور کیے بنا رہے گی نہیں… اس اعلان کو کرتے وہ جھجکے گی نہیں… وہ وہاں سے گزرتے ہر شخص کو روک روک کر یہ بتا دینا چاہتی تھی کہ دیکھو! میں کتنی خوش قسمت ہوں… تم سب کتنے بدنصیب ہو… فرزام صرف میرے پاس ہے اور تم سب اس جیسے کے بغیر ہو… وہ تمہیں نہیں ملے گا… وہ صرف میرا ہے… اب وہ یہ بھی چاہتی تھی کہ وہ آئس کریم والے کو بیگ میں سے نکال کر بہت سارے ڈالرز پکڑا دے اور کہے کہ سب میں ساری آئس کریم مفت بانٹ دے… سب کو آئس کریم ملنی چاہیے… سب کو مسکرانا چاہیے… آس پاس سے گزرتے لوگوں کو چاہیے کہ اسے فرداً فرداً مبارک باد دیں… سب اکٹھے ہو کر اسے چیئر کریں… مل کر تالیاں بجائیں… اس کے لیے کوئی محبت بھرا لوک گیت گائیں… ہر تہوار کی آمد کا جشن منایا جاتا ہے… محبت کی وقوع پذیری کا جشن بھی شان سے منایا جانا چاہیے… اس جشن میں باقی سب جشنوں کو مات دے دینی چاہیے…
محبت کی دھنک ابھر کر جب سامنے آتی ہے تو اس کے ساتھ جھول کر ناچنے گانے کو ہی جی چاہتا ہے… بے خودی کے رقص ایسے ہی نہیں ہو جاتے… یہ واقعہ صرف محبت ہی واقع کرتی ہے… وہ عشق حقیقی ہو یا مجازی’ جھوم جانے کو دونوں میں ہی جی چاہتا ہے…
ٹشو سے ہونٹ صاف کر کے افق چند قدم چل کر اس شاپ کی طرف آ گئی… جس طرف فرزام گیا تھا… لیکن وہ اسے باہر نکلتا نظر آ گیا…
“کیوں آ رہی تھیں میرے پیچھے؟” وہ خفا ہوا…
“میں کب تک اکیلی کھڑی رہتی آخر؟”
“تھوڑی سی دیر تم اکیلی نہیں رہ سکتیں؟”
“نہ…… نہ…” اس نے ساتھ تیزی سے بچوں کی طرح سر ہلایا… فرزام کے ہاتھ میں کوئی شاپنگ بیگ نہیں تھا… جاتے ہوئے وہ اپنے ہاتھ میں پکڑے بیگز بھی اسے ہی پکڑا گیا تھا… انگوٹھی پھر یقیناً اس کے کوٹ کی جیب میں ہو گی… افق نے نظروں ہی نظروں میں اس کا جائزہ لیا اس نے بازو اس کی کمر میں حمائل کیا اور اسے ساتھ لے کر چلنے لگا… وہ اس کی طرف ہی دیکھ رہی تھی…
“کیا تمہیں مجھ سے کچھ چاہیے؟” یہ سوال ایسے تھا… جیسے کیا ایک اور آئس کریم کھانی ہے… وہ اسے انتظار کروانا چاہتا تھا… ابھی یہ مرد گھٹنے ٹیکنے میں وقت لے
گا…
“ہاں!” فوراً کہا… “جو اندر سے لائے ہو…”
“کہاں اندر سے؟” اس نے ذرا سی گردن گھما کر پیچھے کی طرف دیکھا…
“میں نے تو کچھ نہیں لیا دیکھو! میرے ہاتھ خالی ہیں…” دونوں ہاتھ آگے کیے…
“کوٹ کی جیب میں ہو گا…” وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولی… اس نے دائیں طرف کی جیب میں ہاتھ ڈالا… خالی باہر نکالا… پھر بائیں جیب میں ہاتھ ڈالا… خالی ہاتھ آگے کیا…”
“کچھ ہے ہی نہیں…” مسکراہٹ گہری ہو گئی…
“اندر والی جیب میں ہو گا…” کوٹ کا دایاں کونا اٹھا کر اس نے کہا…
فرزام کا ہاتھ اندر گیا… “آں……. چلو! دیکھتے ہیں… کچھ مل ہی نہیں رہا…”
وہ ہنس رہا تھا… پھر ہاتھ باہر آ گیا اور وہ مٹھی کی صورت بند تھا…
“دیکھا! ہے اس میں کچھ…… کھولیے اسے…”
“سوچ لو افق! یہ خالی بھی ہو سکتا ہے…”
“اگر یہ خالی ہوا تو یہاں سب کے درمیان نیچے بیٹھ کر میں رو دوں گی…”
“اچھا! پھر ذرا آنکھیں بند کرو…”
وہ اس کا بازو تھام کر بھیڑ میں سے نکال کر ایک کونے میں لے گیا… دونوں آمنے سامنے کھڑے تھے… ذرا دور ایک بینچ پر ایک درمیانی عمر کو جوڑا بیٹھا برگر کھا رہا تھا… دونوں کا انداز اور مسکراہٹ ایسی تھی لہ وہ افق اور فرزام کی طرف ایسے ہی دیکھنے لگے… افق نے آنکھیں بند کر لیں اور بند کی ہی تھیں کہ تڑپ کر کھول دیں اور بجلی کی سی تیزی سے پیچھے پلٹی… جبکہ فرزام تو سامنے کھڑا تھا… مٹھی اس نے کھول لی تھی انگوٹھے اور شہادت کی انگلیوں میں انگوٹھی پکڑ لی تھی لیکن “افق” کی آواز سے وہ پیچھے دیکھنے لگی…
اس کی بدقسمتی اس کی فاش غلطی پیچھے کھڑی تھی…
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...