شہناز نبیؔ(کلکتہ)
اس نے جب کہانی مکمل کر لی تو اسے لگا ماں اسے پڑھ کر ضرور خوش ہوگی۔اپنے طور پر اس نے اپنی کہانی کا سارا تانا بانا ماں کے ارد گرد بنا تھا۔ ماں ہی اس کہانی کا مرکزی کردار تھی۔حالانکہ اس میں اس کے باپ کا کردار بھی کچھ کم اہم نہ تھا اور کئی چھوٹے موٹے ضمنی کرداربھی تھے تاہم ماں تو ماں تھی۔اس کا خیال تھا کہ اپنے بچپن کی یادوں سے کام لے کر اس نے حقیقت نگاری کی بہترین مثال پیش کی ہے۔ یوں بھی اس کے ذہن پر تھرکتی ہوئی تصویریں اب بھی اپنے رنگ و روغن کے اعتبار سے بے نظیرتھیں۔ اسے حیرت انگیزطور پر بچپن کے تقریباً سارے واقعات یاد تھے۔اکثر بڑوں کو اس کی یادداشت سے کام لینا پڑتا تھا ۔
یاد ہے ابا کے ایک دوست۔۔۔ کیا بھلا سا نام تھا ان کا۔۔۔۔
اوں ں ں۔۔۔۔۔۔
سلمیٰ آپا ذہن پر زور ڈالنے کی کوشش کرتیں۔
عطیہ ایک دم سے جھنجھلا جاتی۔اف، آپ کو تو کچھ یاد ہی نہیں آتا۔
وہ۔۔۔شاید۔۔۔
ارے وہی جو کچھ گورے سے تھے۔ بھور ے بھورے بال۔آنکھوں پر۔۔۔۔
اوہ۔۔ہو۔۔۔۔حمید۔۔۔۔ سلمیٰ آپا جیسے اس بارجیت جانے والی تھیں۔
نہیں بابا۔۔۔عطیہ اپنی پیشانی سہلاتی ہوئی یاد کرنے کی کوشش کرتی۔
وہ جن کے گلے میں تعویذ ہو اکرتا تھا۔اس نے قطعیت کے ساتھ پوچھا۔
ہاں۔۔وہی۔۔۔لیکن تو تو اس وقت
ایک بار میرے لئے عید کے موقعے پر سرخ چوڑیاں لے آئے تھے۔ امی نے کہا ۔۔کیا کرتے ہو مقصودؔ۔ اتنی چھوٹی سی بچی کیلئے۔۔ ہاں۔ہاں۔۔ بالکل ٹھیک۔۔سلمیٰ آپا مسرت سے چیخ پڑیں۔مقصود۔مقصود۔۔تجھے یاد ہے؟
ہاں۔ میں امی کی گود میں بیٹھی۔۔۔
لیکن تو بہت چھوٹی سی تھی۔۔۔۔
مجھے تو یاد ہے کہ۔۔۔۔۔۔
عید قریب آگئی تھی لیکن گھر میں اتنے پیسے نہیں تھے کہ نئے کپڑے سلوائے جا سکیں۔ امی کے چہرے پر تردد کے آثار تھے ۔ ابا سے تقریباً روز ہی اس بات پر چخ چخ ہو رہی تھی۔ لڑکیاں جوان ہورہی ہیں ۔ اب تو اپنی بری عادتیں چھوڑئیے۔
بری عادتیں۔۔۔؟ کیا گناہ کررہا ہوں میں۔۔۔
میں نے یہ تو نہیں کہا ۔۔۔ امی روہانسی ہوجاتیں۔
میں تو صرف اتنا کہنا چاہتی ہوں کہ ۔۔۔ آپ اپنے پیسوں کو جن غلط قسم کے لوگوں پر خرچ کررہے ہیں۔۔
تو میرے دوست تجھے غلط لگتے ہیں۔۔ سالی۔۔۔ میں تو۔۔۔
بچے جاگ رہے ہیں۔۔۔
کیا چاہتی ہے تو۔بچوں کی خاطر میں دوستوں کو چھوڑ دوں۔ میری اپنی کوئی زندگی ہے یا نہیں۔۔ اور یہ سگریٹ۔۔کتنا خرچ ہوتا ہے ان پر۔۔؟سالی تیرے باپ نے دیا ہی کیا تھا۔۔زندگی خراب ہوگئی میری۔۔۔۔
زندگی تو خراب ہوئی ہے میری۔۔۔ ماں سسکیاں لینے لگتی۔۔۔
کیا نہیں ملتا تجھے۔۔۔باپ کی آواز اونچی ہونے لگتی۔ ماں کی سسکیاں مدھم ہوتی جاتیں۔ نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنے گا۔
اس کے بعد وہ دیر تک زمین کو گھورتی رہتی۔اس کے چہرے پر آنسوؤں کے ساتھ بہہ جانے والی وہ کاجل کی لکیر۔ وہ کروٹ بدلتی رہتی ۔ ماں اس کی پیٹھ کجھاتے کھجاتے تھک جاتی ۔سو۔ سو جا ۔ سوتی کیوں نہیں کم بخت۔دیکھ عطیہؔ کب کی سو گئی۔ ماں کا ستا ہوا چہرہ اسے اب بھی یاد ہے۔وہ اپنے ذہن کے پردوں پر سے وہ منظر کھرچ دینا چاہتی تھی۔ لیکن یاد۔ ظالم یاد۔اسے اپنے باپ سے نفرت نہیں تھی لیکن جب جب وہ ماں کو روتا ہوا پاتی تھی۔ اسے اس کے آنسوؤں کے پیچھے اپنا باپ ہی دکھائی دیتا تھا۔
اس بات نے اسے اپنے باپ سے کچھ منحرف سا کردیا تھا۔ حالانکہ تمام تر مالی پریشانیوں کے باوجود وہ ان سبب بہن بھائیوں کے لئے عید میں کپڑے بھی بنواتا رہا تھا اور ان کی تعلیم پرمعمولی طور سے ہی سہی، خرچ بھی کرتا رہا تھا۔گھر کی کفالت کے نام پر ماں کے کتنے زیور بھینٹ چڑھے، انہیں اس کا پتہ ہی نہ چلا۔دھیرے دھیرے وہ سب ماں کے کان، گلا اور ہاتھ کے سونے پن کے عادی ہوگئے۔ماں کے چہرے پر آنسوؤں کے ساتھ بہہ نکلنے والی وہ کاجل کی لکیر۔ اور اس دن تو حد ہوگئی تھی جب عارفؔ اپنا پھٹا ہوا سر اور بہتا ہوا خون لیکر ، سائیکل سڑک پر ہی چھوڑ، روتا ہوا آنگن میں داخل ہوا تھا۔امی کے حواس اڑ گئے۔
ہائے۔۔یہ کیسے ہوا۔ ہائے۔۔ ارے اک رکشہ تو بلا ۔اسے ڈاکٹر۔۔
اور اس کا باپ آفس سے گھر لوٹ آیا۔بیٹے کے سر سے خون بہتا دیکھ اس نے ماں کی لہراتی ہوئی لمبی چوٹی کو مٹھیوں میں لپیٹا اور ایک زور کا جھٹکا دے کر کہا۔۔۔کمبخت۔۔ کام چور عورت۔تجھ سے بچوں کی دیکھ بھا ل کا چھوٹا سا کام بھی نہیں ہوتا ۔۔۔۔
اس نے ماں کے آگے کاپی بڑھاتے ہوئے کہا۔
ماں۔۔۔۔
کیا ہے۔۔۔ تمہاری کہانی۔۔۔۔۔
میری کہانی۔۔۔۔
ماں نے سارا قصہ پڑھ ڈالا۔ کئی بار اس کی آنکھوں میں آنسو جھلملائے۔ کہیں کہیں اس نے سسکیاں بھی بھریں۔ دیر تک سوچتی بھی رہی۔زمین گھورنے کی پرانی عادت گئی نہیں تھی۔لیکن پھر خود پر قابو پاتے ہوئے اس نے کہا۔
تیرے ابا ایسے کہاں تھے۔
کیا مطلب۔۔۔
تجھے کیا پتہ کہ وہ ہم سب کو کتنا چاہتے تھے۔تو بہت چھوٹی سی تھی نا۔ تجھے یاد نہیں ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ان کی آمدنی بہت مختصر تھی۔ اکثر فاقے کی نوبت رہتی تھی۔لیکن آخر اسی مختصر آمدنی میں انہوں نے تم سب کی تعلیم کا بوجھ اٹھایا۔ سنیما وغیرہ بھی کبھی کبھی لے جایا کرتے تھے۔ تجھے یاد نہیں کہ ایک بار میلے میں۔۔۔۔
مجھے یاد ہے کہ جب عارفؔ کا سر پھٹا تھا تو انہوں نے تمہاری چوٹی پکڑ کر ایک زور کا جھٹکا دیا تھا اور کہا تھا کہ۔۔۔۔
تیرا تو دماغ خراب ہوگیا ہے۔ تو ہماری زندگی اپنی آنکھوں سے دیکھنے والی کون ہوتی ہے۔ اس میں ،میں کہاں ہوں ؟ اس میں تو، تو ہی توہے۔
ماں ناراض ہوگئی۔ اس نے غصے کے مارے کاپی اٹھا کر پھینک دی۔
بخار آنے پر ساری ساری رات گود میں لے کر ٹہلایا کرتے تھے تجھے۔وہ سسکیاں بھرنے لگی۔ عارف کے لئے مجھے مار پڑی تو اس کی وجہ یہی تھی کہ وہ اپنے بچوں کو بے حد چاہتے تھے۔ان کی۔۔۔۔
اس نے بد دل ہو کر کاپی اٹھائی اور کالج چلی گئی۔ یہ پتی ورتاعورتیں۔۔۔
اس کا سوجا ہوا منہ دیکھ کر سریتا نے پوچھا۔
کیا بات ہے۔ چہرہ کیوں اترا ہواہے۔
کچھ نہیں بس یونہی۔
کچھ تو ہے۔۔۔
نہیں بابا۔ اس نے سریتا کو ٹال دیا۔بتا تیری بات کہاں تک پہنچی۔
سریتا شرما گئی ۔ اس کی شادی کی بات طے ہوچکی تھی۔ بس اگلے ہی مہینے وہ اور سریش شادی کے بندھنوں میں بندھ جائیں گے۔
سریش دیکھنے میں کیسا ہے؟
گورا رنگ۔ اونچا قد۔ بڑی بڑی پر کشش آنکھیں۔
کیا کرتا ہے۔؟
میکینکل انجینیرہے۔ سارا گھرانہ پڑھا لکھا ہے۔ بہن اسٹیٹس میں رہتی ہے۔ چھوٹا بھائی ڈاکٹر ہے۔ سریش کی ماں اپنا بیوٹی پارلر چلاتی ہے۔ باپ ریٹایرڈ جج ہیں۔مالی طور پر بھی کافی خوش حال لوگ ہیں۔
شادی کے بعد کچھ دنوں تک سریتا کی آنکھوں میں ستارے جھلملاتے رہے۔وہ بات کرتے کرتے سریش کی یادوں میں کھو جایا کرتی تھی۔ بات بے بات اس کے ہونٹ مسکرا اٹھتے تھے۔اس نے اپنی ساری سہیلیوں کو شادی کرنے کے مشورے دے ڈالے۔اس کے لئے شادی دنیا کا سب سے انمول بندھن تھا۔عورت مرد کے بنا ادھوری ہے۔
وہ اچانک بول اٹھتی اور ساری سہیلیاں کھل کھلا پڑتیں۔
لیکن بہت جلد سریتا کی جگمگاتی آنکھیں ماند پڑنے لگیں۔ اس کے ہونٹوں کے مسکراتے گلاب مرجھانے لگے۔ اس کی بیخودی اک طرح کی یاسیت میں تبدیل ہونے لگی۔وہ بات کرتے کرتے چپ ہوجاتی اورٹھیک اسی طرح زمین گھورنے لگتی جس طرح اس کی ماں گھورتی رہتی تھی۔
سب ٹھیک ہے نا!۔وہ اس سے بار بار پوچھا کرتی۔
ہاں بابا۔
لیکن جب اسے راکھیؔ نے بتایا کہ سریتاؔ سرکاری ہسپتال کے برن وارڈ میں بھرتی ہے تو اس کا سر گھوم گیا۔
تو توکہتی تھی سب ٹھیک ہے، سب ٹھیک ہے۔
اس نے اپنے آنسو سریتا سے چھپاتے ہوئے کہا۔
سریتا نے نہایت نحیف آواز میں جواب دیا۔
سب ٹھیک ہی تو ہے۔
یہ آگ آخر کیسے لگی۔؟
میں سریش کے لئے چائے بنارہی تھی کہ اچانک اسٹو۔۔۔۔
جھوٹ بکتی ہے تو۔اس نے روتے ہوئے کہا۔ میں نہیں چھوڑوں گی ان لوگوں کو۔
مجھے سب پتہ ہے۔ تیرے سسرال والے نقدی نہ لانے کی وجہ سے تجھ پر ناراض تھے۔چاچا جی نے جہیز تو بہت سا دیا تھا لیکن سریش کو نقدی چاہئے تھی۔ اسے بھی اسٹیٹس جانے کی دھن سوار تھی۔ اس نے شادی کے کچھ دنوں بعد ہی تجھ پر ظلم کرنا شروع کردیا تھا۔ کبھی دیر سے سو کر اٹھنے کو وجہ بناتا اور کبھی سویرے سو جانے کو۔ اس کی نظر تیرے پاپا کے اس مکان پر بھی تھی جسے وہ آدیش کے نام کرچکے تھے۔ جب تو نے
اپنے پاپا سے روپئے مانگنے سے انکار کردیا تو ایک دن اس نے موقعہ دیکھ کر تجھ پر ۔۔۔۔
سریتا نے آنکھیں موند لیں۔
یہ کس کا قصہ سنا رہی ہے تو۔
تیرا اور کس کا۔
لیکن یہ سچ نہیں ہے۔
تجھے پتہ ہے سریشؔ کتنا ذہین طالبِ عالم تھا۔ پوری ریاست میں وہ دوسری پوزیشن پر تھا۔ اسے اچھی اچھی کمپنیوں سے آفر آئے تھے کہ وہ انہیں جوائن کرے لیکن سریشؔ کو اپنی صلاحیتیں ثابت کرنے کا مناسب موقعہ نہیں مل رہا تھا۔ اگر اس نے اسٹیٹس جانے کی سوچی تو کیا برا کیا۔
ہر شام وہ میرے لئے بیلے کے ہار لا یا کرتا تھا ۔ اسے پتہ تھا کہ مجھے بیلے کی خوشبو بہت پسند ہے۔میں اس سے ایک پل الگ رہنے کا سوچ بھی نہیں سکتی لیکن دنیا میں کچھ پانے کے لئے کچھ کھونا پڑتا ہے۔ اگر اچھی ملازمت کی خاطراسے پردیس۔۔۔۔
تو کیا پردیس جانے کے لئے وہ تیرا خون کردے گا۔۔۔؟
کون کہتا ہے۔۔۔۔
میں کہتی ہوں۔۔۔۔وہ ظالم ہے، خونی ہے ، مجرم ہے۔۔۔۔
یہ حقیقت نہیں ہے۔۔۔
تو پھر حقیقت کیاہے۔۔۔۔۔
جو ہم نہیں دیکھ پاتے۔۔تو زندگی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے۔۔۔ تیری حقیقت میں ،میں کہاں ہوں۔۔؟
اس نے ہسٹریائی انداز میں سریتاؔکی طرف دیکھا۔
میں کہاں ہوں۔؟ ماں اور بابا کے بیچ۔۔؟ سریتا اور سریش کے بیچ۔۔؟ یا ماں سے قریب، بابا سے دور۔ یا پھر جگہ بدلتے ہوئے۔۔؟ نقل مکانی کرتے ہوئے۔۔۔میں ان کرداروں کو کہاں سے دیکھوں۔۔۔؟ دور سے۔۔؟ قریب سے۔۔۔؟آنکھیں موند کر۔۔۔ آنکھیں کھول کر۔۔۔کیا میں انہیں دیکھوں، سنوں، یا صرف محسوس کروں۔ ؟میرے اور قاری کے بیچ کی دیوار کون ہے؟ اس کہانی میں میں کہاں کہاں نہیں ہوں، کہاں کہاں ہوں؟