حمایت علی شاعر
(آگ میں پھول)
کتابیں تو آئے دن چھپتی رہتی ہیں لیکن اپنی کتاب کو اشاعت کے لیے دیتے وقت جو کچھ مصنف پر گزرتی ہے، وہ کچھ اسی کا کا دل جانتا ہے ۔ اس وقت میں کچھ عجیب سی کشمکش سے دوچار ہوں ۔ ایک طرف تو یہ ندامت کہ جس بک ڈپو اور جس لائبریری میں یہ کتاب رکھی جائے گی وہیں کہیں میرؔ، غالبؔ ، اقبالؔ اور دنیا کی دوسری زبانوں کی کم و بیش اسی مرتبے کی شخصیتوں کا سرمایۂ فکر یک جا ہو گا۔ دوسری طرف یہ احساس کہ جانے اس مجموعۂ اشعار کا کیا حشر ہو، ایک طرف تنقید نگار ہیں دوسری طرف بازار، ناقدین میں سوائے چند کے بیشتر ایسے ہیں جن کی نگاہِ نکتہ شناس جب کسی تخلیق کو پرکھنے پر آ جاتی ہے تو انہیں کسی الف کی شاعری میں ملٹن اور میرؔ کی روح نظر آنے لگتی ہے اور کسی ب کی افسانہ نگاری کے مقابلے میں چیخوف اور پریم چند اپنی کم مائیگی پر سر بہ گریباں دکھائی دیتے ہیں اور جب ان کی فکرِ گردوں مقام اپنی بلندیوں سے کسی خاک نشیں کا جائزہ لینے لگتی ہے تو اپنے عہد کی ابھرتی ہوئی شخصیتیں تو درکنار منفرد شخصیتوں کو بھی قابل اعتنا نہیں سمجھتی۔
بازار کا عالم یہ ہے کہ تیسرے درجہ کا ادب تو ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو جاتا ہے لیکن ادبِ عالیہ کا بہترین انتخاب اور عہدِ رواں کی عظیم تخلیقات اپنے قارئینِ کرام کا منہ دیکھتی رہ جاتی ہیں ۔انہی حقائق کے پیش نظر دل ہمیشہ ڈرتا رہا اور میں خاص طور پر اپنے مجموعۂ کلام کی اشاعت سے گریز کرتا رہا کہ جو عظیم تخلیق ہے اور نہ بازار کی مانگ کے مطابق کوئی چیز۔۔۔ لیکن میرے دوست اور کرما فرما۔۔۔ جن کی تعداد یقینا زیادہ نہیں۔۔۔ مُصر رہے کہ میں بھی رسوا سرِ بازار ہوجاؤں۔ روایت بھی کچھ یہی رہی ہے۔ میں نے بھی اس روایت کا پاس کیا اور آج اپنا دامن سمیٹے چوراہے کے بیچ میں کھڑا ہوں بقول ساحرلدھیانوی
مرے دامنِ چاک میں گردِ راہِ سفر کے سوا کچھ نہیں
میری پوری شاعر ی اِسی ’’گردِ راہِ سفر‘‘ کی آئینہ دار ہے۔ یہ گرد زندگی کے ہر موڑ پر میرے دامن ۔۔۔ میرے تن من سے لپٹی رہی ہے اور سچ پوچھئے تو اِسی گرد سے میری شاعری اُبھری ہے اور شایدکسی روز اسی گرد میں دب کر بھی رہ جائے۔ آج جب اپنی ’’گردِ سفر‘‘ کی نمائش کا وقت آ ہی گیا ہے تو میں سوچ رہا ہوں ۔ کیوں نہ کچھ دیر کے لیے اس گرد کو صاف کر کے اپنے خدوخال بھی نمایاں کردوں۔
میرے آبائی وطن ریاست حیدر آباد دکن میں ایرانی تقویم ’فصلی‘رائج تھی ۔ ستمبر ۴۸ء میں ہندوستان کے قبضے کے کچھ عرصے بعد وہاں بھی ’’عیسوی‘‘ کا رواج ہو گیا ۔ ۱۹۵۱ء میں میٹرک کا امتحان دے کر میں پاکستان آ گیاتھااور کامیابی کی اطلاع پا کر وہیں میٹرک کی سند منگوالی ۔ اس سندپر میری تاریخ پیدائش ۱۴جولائی ۱۹۲۶ء مرقوم تھی ۔ میں نے اسی کو درست سمجھ لیا۔ خاندانی یاداشت(فصلی تقویم کے مطابق) میری عمر ۔۔۔موجودہ عمر سے تین یا چار سال کم ہے ۔ اس لیے یوں کہا جا سکتا ہے کہ آج (کتاب کی اشاعت ۱۹۵۶ء )سے پچیس تیس سال پہلے میں نے اپنے آبائی شہر اورنگ آباد میں زندگی کی پہلی سانس لی تھی ۔ اس گھرکے بارے میں مجھے صرف اتنا معلوم ہے کہ وہ کچی مٹی کا ایک مکان تھا ۔۔۔ لیکن اگر مجھے اس کچی مٹی کے گھر پر ناز ہے تو اس لیے کہ اس کی وساطت سے مجھے اپنے ملک کے ننانوے فی صد انسانوں کی زندگی کو دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا ان کے تہذیبی پس منظر اور ان کی ذہنی تربیت کے مختلف خم و پیچ کو پرکھنے والی نگاہ عطا ہوئی۔ مجھے وہ درد نصیب ہوا جو میرے شعور کی روشنی میں چمک کر شعلہ نہ بن سکا تو ایک انگارہ ضرور بن گیا ۔ یہ انگارہ جو میرے سینے میں مسلسل دہکتا رہتا ہے، میری تاریخ کی امانت ہے، میری تہذیب کا عطیہ ہے۔ یہی انگارہ کبھی ہوائے زمانہ سے بھڑک اٹھتا ہے تو میرے اور میرے فن کے لیے مشعل راہ بن جاتا ہے اور کبھی ۔۔۔ چراغِ سرِ مزار۔ ممکن ہے، میرے احباب اور میرے ناقدین اسے فرار سے تعبیر کریں لیکن یہ واقعہ ہے کہ یہی’چراغِ سرِ مزار‘ میری زندگی کا محور بھی ہے۔ اس کا واقعاتی پس منظر بڑا طویل اور درد و غم میں ڈوبا ہوا ہے اس لیے میں اس کا ذکر نہیں کروں گا لیکن میرے ذہنی عمل اور میری شاعری میں اس کے رد عمل کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ میں مختصراً ایک بات کہہ دوں۔۔۔ یوں سمجھ لیجیے کہ محبتوں کے جتنے سہارے مجھے ملے اسی عمر میں ’چراغِ سرِ مزار‘ میں ڈھل گئے جب زندگی ایک کھیل ایک شرارت کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتی۔ اس المیے نے تنہائی کا شدید احساس میرے دل میں پیدا کر دیا اور عرصہ دراز تک مجھے اس دنیا سے نفرت رہی ہمارے طبقاتی نظام نے اس نفرت کو اور ہوا دی اور کیا عجب تھا کہ میں’خود کشی‘ کر لیتا۔ ایک شخص نے آگے بڑھ کر میرے ہاتھ سے چاقو چھین لیا اور ایک کتاب تھما دی (دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ کتاب ،کالج میں مجھے کبھی نہیں پڑھائی گئی تھی )
اس گمنام شخص کا نام ہے۔۔۔ کامریڈ افتخار۔۔۔ جو میرا دوست بھی ہے اور محسن بھی، افتخار نے میرے ذہنی میلان کا رخ اس طرف موڑ دیا جس طرف وہ خود جا رہا تھا یعنی زندگی کے راستے پر۔۔۔ اور مجھے محسوس ہوا کہ یہ راستہ کٹھن ضرور ہے لیکن حَسین اتنا ہے کہ ہر انسان کا دل دوسرے انسان کے دل کی دھڑکنوں سے ہم آہنگ ہے۔ دھڑکنوں کی ہم آہنگی کے اس احساس نے میری فکر کو ایک نیا زاویہ عطا کیا اور مجھے محسوس ہوا کہ انسان فرد ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ’اجتماع‘ بھی ہے اور انسان کے ارتقاء کی انتہائی منزل اپنی ذات میں ضم ہونا نہیں، ایک ’اجتماعی انسان‘ ہو جانا ہے
کلی کی ننھی سی گود میں محوِ خواب ہیں گلستاں ہزاروں
زمیں کے ایک ایک ذرہ میں سانس لے رہے ہیں جہاں ہزاروں
نہایتِ قطرہ ابرِ باراں، مآلِ خورشید کہکشاں ہے قدم قدم پر ہے موت لیکن حیات کا کارواں، رواں ہی
سکوتِ موج میں مضطر ہیں سینکڑوں طوفاں تہِ سکوت کی طغیانیوں کو موت نہیں
میں جس گھرانے میں پلا بڑھا وہ نہ صرف یہ کہ کٹر مذہبی گھرانا ہے بلکہ تعلیمی اعتبارسے بھی بہت پیچھے ہے ۔ صرف ایک میرے والد ہیں جو کچھ تعلیم حاصل کر سکے اور ان کے زیر سایہ مجھے کچھ پڑھ لکھ لینے کا موقع مل گیا۔ شاعری، ادب ،یا سیاست میرے گھرانے کو کبھی چھو کر بھی نہیں گئی بقول غالب سو پشت سے ہے پیشۂ آبا سپہ گری
میرے گھرانے میں سپہ گری کے ساتھ ساتھ کھیتی باڑی بھی شامل ہے۔ اس کا یہ مفہوم نہیں کہ میں کسی زمیندار یا جاگیر دار خاندان کا فرد ہوں۔ حیدرآباد (دکن) میں ایک طبقہ ہوتا تھا ۔۔ ’’انعام دار‘‘۔۔۔ اس طبقے کی تاریخ یہ ہے کہ بادشاہِ وقت، کسی بات، کسی کام یا کارنامے سے خوش ہو کر مرحمتِ خسروانہ کے طور پر زمین کے کچھ قطعات عطا کر دیا کرتا تھا اور پھر اِسی متاع کے سہارے نسل در نسل زندگی گزرتی۔ نسل کے ساتھ تقسیم در تقسیم سے اگر وہ زمین اتنی باقی نہیں رہتی کہ ایک فرد کے متعلقین کی کفیل ہو سکے تو ان گھروں کے افراد ملازمت کی تلاش میں نکل پڑتے۔۔۔ میرا خاندان اسی قسم کی ملازمت پیشہ انعام داروں کا خاندان ہے۔۔۔ ظاہر ہے ایسے خاندان میں علم و ادب سے شغف کا کیا تصور کیا جا سکتا ہے۔بہر حال ۔۔۔ ایک ایسے ہی گھرانے اور ایسے ہی ماحول میں پل بڑھ کر میری عمر نے شعور کے حدود میں قدم رکھا اور مختلف قسم کی علمی، ادبی اور سیاسی ہنگامہ بازیوں سے گزر کر زندگی اس موڑ پر آ گئی جہاں پہنچ کر عمل، سوچ کے تابع ہو جاتا ہے۔
میری ادبی زندگی کا آغاز۱۹۴۵ء میں ہوا ۔ پہلے مضامین اور افسانے لکھے اوربعد میں شاعری شروع کی، یہ وہ زمانہ تھا کہ جب غیر مقسم ہندوستان میں کانگریس اور مسلم لیگ مدت سے باہم دست و گریباں رہ کر آخر اس منزل تک آ گئی تھیں کہ ملک کا تقسیم ہو جانا ناگزیر تھا ۔ ادھر حیدرآباد(دکن) جو اپنی جگہ الگ ’ایک ڈیڑھ اینٹ کی مسجد تعمیر‘ کیے ہوئے تھا۔ سیاسی اعتبار سے ایسے گروہ کے ہاتھ میں آ گیا تھا جس کی سیاسی بصیرت اپنی مثال آپ تھی۔۔۔ خیر، اورنگ آباد، جس کی خاک کو ولیؔ جیسے شاعر کے نقشِ کفِ پا کا شرف حاصل ہے، جہاں کی فضاؤں میں داؤدؔؔ جیسے شیریں مقال شاعر کے نغمے گونجے اور جس کی مٹی نے سراجؔ کو آج بھی اپنے سینے سے لگا رکھا ہے۔ عرصۂ دراز سے ادبی اور علمی اعتبار سے اس قدر محدود ہو کر رہ گیا تھا کہ اپنی آواز کی باز گشت بھی سنائی نہیں دیتی تھی ۔ بلدہ (حیدرآباد) میں تو ادب اور صحافت کا بڑا شہرہ تھا لیکن اورنگ آباد میں کوئی پریس ہی تھا نہ وہاں سے کوئی رسالہ یا اخبار ہی شائع ہوتا تھا ۔ انجمن ترقی اردو کے سہارے صرف مولوی عبدالحق نے ایک روایت قائم کر رکھی تھی لیکن جب انجمن کا دفتر بھی اورنگ آباد سے اٹھ گیا تو یہ تاریخی شہر ایک بے مصرف سی یاد گار ہو کر رہ گیا ۔ چلتی پھرتی لاشوں کا ایک کھنڈر۔میری شاعری نے اسی کھنڈر میں جنم لیااور آنکھیں کھول کر جب اپنے اطراف دیکھا تو دور دور تک اندھیرا تھا۔ کہیں کہیں کچھ چراغ ٹمٹما رہے تھے ۔ جن کی لرزتی ہوئی روشنی کبھی کبھی دل کی ڈھارس بندھا دیتی تھی۔ اس عالم میں اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کا تصور خود فریبی سے زیادہ نہ تھا اور غالباً یہی وجہ تھی کہ کالج سے نکلے ہوئے بہت سارے احباب جوں ہی عملی زندگی میں داخل ہوئے ۔ ایک بیوی کے شوہر، چند بچوں کے باپ کے سوا کچھ باقی نہ رہے ۔ ان کے وہ سارے خواب منتشر ہو گئے جو کبھی نظروں کے آئینہ خانوں میں خود کو سنوارا کرتے تھے ۔ اس گروپ میں صرف میرے قدم ادب و شعر کے میدان میں جمے رہے اورعمر کا ایک بڑاحصہ اپنی اسی خوش فہمی کی نذر ہو گیا۔
آج جب میں اپنی پچھلی زندگی کا جائزہ لینے بیٹھا ہوں تو محسوسات کا کچھ عجیب عالم ہے ۔ بیشتر واقعات ذہن کے پردے پر ابھر آئے ہیں اور زندگی آنسو کے ایک قطرے میں لرزتی ہوئی چمک کی طرح مجھ پر خندہ زن ہے اور میں نگاہیں نیچی کیے سوچ رہا ہوں ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے
عمر کے اس مختصر سے دوران میں، میں نے اتنے نشیب و فراز دیکھے ، اتنے تلخ ، ترش اور شیریں لمحات سے گزرا، اتنی ٹھوکریں کھائیں اور اتنی بار گر گر کر سنبھلا کہ اپنی زندگی پر خود ایک طنز ہو کر ہو گیا اور مسائل کو جانے دیجیے۔ روز گار کا مسئلہ یوں بھی اپنے وطن کا ایک خاص مسئلہ ہے ہی۔ میں بھی اس سے دو چار رہا ہوں۔۔۔ کالج کی زندگی سے لے کر آج تک ہر دور میری زندگی کا ایک دور کشاکش رہا ہے۔ ایک بات سلجھتی ہے تو دوسری اُلجھ جاتی ہے اور سلجھنے اور الجھنے کا یہ لامتناہی سلسلہ چلتا ہی رہتا ہے ۔کل میں ریڈیو سے متعلق تھا ، آج انجمن ترقی اردو سے متعلق ہوں اور کیا عجب ہے کہ کل طلوع ہونے والی صبح۵۰ء کی طرح پھر مجھے ایک اخبار فروش کے روپ میں دیکھے۔ مجھے اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی کہ میں نے اپنا سر بلند رکھنے کی خاطر معمولی سے معمولی کام بھی کیا ہے اور اُس آگ کو جو ہمیشہ میرے سینے میں دہکتی رہتی ہے کبھی کسی عنوان بجھنے نہ دیا اور جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ مجھے اپنے طبقے، اپنے کچی مٹی کے مکان اور اپنی اس معمولی سی زندگی پر ناز ہے جس کی وساطت سے مجھے سماج میں زندگی کے جدلیاتی عمل کو سمجھنے کا موقع ملا، مجھے وہ درد نصیب ہوا، جو میرے شعور کی روشنی میں چمک کر شعلہ نہ بن سکا تو ایک انگارہ ضرور بن گیا ۔ یہی انگارہ کبھی ہوائے زمانہ سے بھڑک اٹھتا ہے تو میرے اور میرے فن کے لیے مشعل راہ بن جاتا اور کبھی ۔۔۔ چراغِ سرِ مزار
آپ ٹھنڈے دل سے میری شاعری کا مطالعہ کریں گے تو میرے خیال میں آپ اس آتشیں رو کو محسوس کر لیں گے جو میری رگ رگ میں رواں دواں ہے ۔ میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ اس آگ کی حدت کو محسوس طور پر پیش کرنے میں، میں کہاں تک کامیاب رہا لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود میری شاعری صرف دماغ کا ناپ تول نہیں ہے۔ اس میں دل کی دھڑکنیں بھی شامل ہیں۔
شاعری میں میرا نقطہ نگاہ کسی غیر معمولی انفرادیت کا حامل نہیں ہے میں شعوری طور پر کسی ایسی جدت کا بھی طرف دار نہیں ہوں جو فنکار کا رشتہ اپنے عہد یا اپنے عہد کی زندگی سے توڑلے ۔ میرے خیال میں جتنی اہمیت روایت کی ہوتی ہے ، اتنی ہی اُن اقدار کی بھی ہوتی ہے، جنہیں عصرِ رواں جنم دیتا ہے۔ میرے نزدیک فنکار اپنے عہد کا نمائندہ انہی معنوں میں ہوتا ہے اور ادب اپنے عہد کی تاریخ انہی معنوں میں مرتب کرتا ہے کہ وہ اپنے عصر کے شعور کا ترجمان ہوتا ہے لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ شعور کیا چیز ہے؟
شعور حقیقت کے ادراک سے عبارت ہے اور حقیقت وہ نہیں ہوتی جو ہم دیکھتے ہیں بلکہ وہ ہوتی ہے جو پیش نظر شے میں در پردہ کہیں کار فرما ہوتی ہے لیکن یہاں بھی یہ مسئلہ بحث طلب رہتا ہے کہ دنیا میں مختلف نقاط نظر کے لوگ آباد ہیں اور اپنے اپنے خیال کے مطابق حقیقت کی تلاش میں ہر ایک اپنی راہ کو مستقیم سمجھتا ہے ۔ ہر ایک اپنے زاویۂ نظر کو صحیح قرار دیتا ہے پھر یہ کیسے طے ہو کہ کون اپنی دانست میں صحیح ہے اور کون غلط؟ظاہر ہے کہ یہ فیصلہ یوں نہیں ہو سکتا ۔ ہر رجحان کے پیچھے ایک فلسفہ ہوتا ہے اور ہر فلسفہ اپنے تحفظ کے لیے منطق کا ایک قلعہ بھی تعمیر کر لیتا ہے اور اس قلعہ میں گِھر کر دماغ اکثر اٹل حقیقتوں سے بھی انکار کر جاتا ہے اور طول و فرسنگ اطراف و جوانب میں الجھ کر خواہ مخواہ ایک مسئلۂ لاینحل بن جاتے ہیں ۔اس لیے ضروری ہے کہ حقیقت کی جستجو میں فکر کا رخ تاریخ کی روشنی میں متعین کیا جائے۔
تاریخ ادوار کے واقعاتی تسلسل کا نام نہیں بلکہ معاشرتی ارتقاء کے جدلیاتی تسلسل کا نام ہے۔ جب تک ہم تاریخ کے مادی حقائق کی کسوٹی پر بحث طلب مسائل کو نہیں پرکھیں گے، کھرے اور کھوٹے کا فرق ظاہر نہیں ہو گا، ظاہر ہے کہ یہ کام وہی فنکار انجام دے سکتا ہے جو ادب کو دل کا مشغلہ نہیں بلکہ دماغ کی زندگی سے تعبیر کرتا ہے اور ایسے فنکار کے نزدیک نہ صرف اپنے عہد کی اقدار مقدم ہوتی ہیں بلکہ روایتی اقدار بھی ،کیونکہ ہر نوزائدہ قدر ماضی میں اپنا ایک تسلسل رکھتی ہے اور اپنی جگہ آئندہ امکانات کے ایک لامتناہی سلسلے کا نقطۂ آغاز بنی رہتی ہے۔
آج کل ادب میں جب بھی یہ سوال اٹھایا جاتا ہے تو ادبِ عالیہ کی بحث چھڑ جاتی ہے اور ایک حلقے سے یہ آواز اٹھتی ہے کہ ادبِ عالیہ شعوری طور پر ہر قسم کی حد بندی سے آزاد رہا ہے اور اسی میں اس کی ابدیت کا راز پنہاں ہے۔ میرے خیال میں یہ بات صحیح نہیں ہے ۔ ہر داخلی تحریک کی جڑیں خارج میں پیوست ہوتی ہیں اور خارج کے ساتھ ساتھ عمل کی داخلی نوعیت میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔ میر صاحب کے یہ اشعار پڑھیے
ہم نہ کہتے تھے کہ مت دیر و حرم کی راہ چل اب یہ جھگڑا حشر تک شیخ و برہمن میں رہا
نہ مل میرؔ اب ان امیروں سے تو ہوئے ہیں غریب ان کی دولت سے ہم
کیا ان افکار کا تعلق خارجی عوامل سے نہیں؟۔۔اب ان افکار کے ساتھ غالب تک سفر کیجیے۔ غالب کہتا ہے
دیر و حرم آئینۂ تکرارِ تمنا واماندگیء شوق تراشے ہے پناہیں
غالب جس نتیجے پر پہنچا ہے اس کے پیچھے تاریخ کا بھی ایک سفر ہے جو مختلف مراحل سے گزر کر غالب کا لہجہ اختیار کر گیا اور غالب کے سوالات ہمارے عہد کے سوالات بن گئے ہیں
کیا وہ نمرود کی خدائی تھی؟ بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا
کوہکن گرسنہ مزدورِ طرب گاہِ رقیب بے ستوں، آئینۂ خواب گرانِ شیریں
یہی فکری تسلسل اپنے جدلیاتی عمل سے گزر کر آج فرد کو اس کے طبقاتی کردار کا شعور دیتے ہوئے اسے ایک ’اجتماعی انسان‘ کاتصور دے رہا ہے۔’مجرد انسان‘ کا روایتی تصور آہستہ آہستہ ختم ہوتا جا رہا ہے ۔ ظاہر ہے کہ ایسی شاعری زیر لب گنگنا کر الفاظ کو ایک خاص و زن میں ترتیب دے لینے سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ دل و دماغ کے ایک معنوی ربط سے وجود میں آتی ہے اور دل و دماغ کا یہ معنوی ربط اس وقت تک پیدا نہیں ہوتا جب تک کہ ہماری نظر میں اپنا عہد اپنی تمام تر پیچیدگیوں کے ساتھ روشن نہ ہو۔
جہاں تک میرے کلام کا تعلق ہے اُسے آسانی سے تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔ غمِ جاناں ، غمِ دوراں اور غمِ وطن۔۔۔ غمِ جاناں کے زمرے میں جو تخلیقات شامل ہیں ان میں یقینا میرا ذاتی غم موضوعِ شعر ہے لیکن میں نے کوشش کی ہے کہ میرا ذاتی غم میرا’’ نجی غم‘‘ بن کر نہ رہ جائے بلکہ سماجی زندگی کے رشتے سے یہ موضوع غمِ مشترک کی حیثیت اختیار کرجائے۔چنانچہ اسے غمِ دوراں سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے ۔ غمِ وطن یقینامیرے یہاں غمِ جاناں سے مختلف ہے، اس کا لب و لہجہ مختلف ہے، اس میں تلخی کا وہ احساس مختلف ہے جو غمِ جاناں میں بھی اکثر منہ کا مزہ خراب کر دیتا ہے۔ غمِ وطن میں یہ تلخی نسبتاً شدید ہے اور اس کی وجہ ظاہر ہے ۔(اس میں ہجرت کا غم بھی شامل ہے)
میرے اشعار میں کہیں آپ کو ضبط کا احساس ملے گا اور کہیں ایسا محسوس ہو گا کہ چیخ، للکار بن گئی ہے ۔ اسے بادی النظر میں جو بھی کہا جائے مگر اس شاعری کا بھی ایک مقام ہے ۔ اس کا تاثر وقتی سہی مگر تاریخ کے بین السطورمیں چھپی ہوئی حقیقتوں کو یہی شاعری آئینہ دکھاتی ہے اور یہ کوئی معمولی بات نہیں۔۔۔ دو باتیں اور۔۔۔
پہلی بات تو یہ کہ جدید ادب میں زبان سے جو بے اعتنائی برتی جا رہی ہے، میں اس کا سخت مخالف ہوں۔ میرے نزدیک زبان بنیادی چیز ہے ۔ شاعری کیسے ہی خیالات کی آئینہ دار کیوں نہ ہو، زبان کے آرٹ سے بے نیازانہ گزرنے کی کوشش کرے گی تو ممکن ہے کچھ عرصے کے لیے عام توجہ کا مرکز بن جائے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کا دائرہ اثر ہمہ گیر اور دیرپا نہیں رہے گا، تخلیق کی ابدیت کا راز زبان کے آداب میں پنہاں ہے ۔ ہمیں مروجہ زبان میں نت نئے الفاظ ضرور شامل کرنا چاہیے ،نئے انداز بیان کی طرف بھی توجہ دینا چاہیے لیکن بے مقصد جدتیت جو کلام کو بے کیف بھی بنا دیتی ہے یقینا سود مند ثابت نہیں ہو گی ۔ میں کوشش کرتا ہوں کہ الفاظ کے دروبست اور خیال کی شیرازہ بندی میں اس رکھ رکھاؤ کا ضرور پابند رہوں جس سے اردو زبان کا مزاج عبارت ہے۔
دوسری بات موضوعات کے انتخاب سے متعلق ہے اور خصوصاً حسن و عشق کے معاملات میں ۔۔۔ میری شاعری میں کہیں بھی آپ کو اس روایت کی جھلک نظر نہیں آئے گی جس کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہ ہو، میں نے زندگی کو ہمیشہ جس روپ میں دیکھا ہے اسی روپ میں اس کی تصویر کشی کی ہے ۔ میرا محبوب وہی ہے جو زندگی میں میرا محبوب ہے۔۔۔ میری طرح گوشت و پوست کا انسان۔۔۔ ظاہر ہے کہ اس کے محسوسات انسانی محسوسات سے مختلف نہیں ہوسکتے ۔ اگر مجھے اس سے عشق ہے تو اس نے بھی مجھے چاہا ہے اگر میں اسے اپنا نہیں سکا، تو میں نے گریباں چاک کر کے دشت نوردی کرنے کی بجائے سماجی حالات میں اپنے عشق کی ناکامی کا جواز تلاش کیا ہے اور اسے اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے اور اگر میں نے اسے پا لیا ہے تو سماجی زندگی میں اس کی اہمیت کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔۔۔ زندگی میں یہی کچھ ہوتا ہے اور اس کے علاوہ سب مفروضات ہیں۔
اس کتاب میں آپ کو بعض ایسی نظمیں بھی ملیں گی جو بالکل گھریلو ماحول سے متعلق ہیں ان میں آپ کو وہ غم بھی ملے گا جو گرہستی سے علاقہ رکھتا ہے ۔ دراصل بات یہ ہے کہ وہ مسرت مجھ سے خود بخود شعر کہلوا لیتی ہے جو آفس سے گھر آنے کے بعد بیوی کے ہلکے سے تبسم اور بچوں کی پرلطف شرارتوں سے مجھے حاصل ہوتی ہے اور اسی طرح میں اس غم کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتا جو ان چہروں پر ہلکی سی افسردگی دیکھ کر اندر ہی اندر دل کو کھائے جاتا ہے ۔ میں نہیں جانتا کہ میرے اس رجحان کو ادبی دنیا میں کس نظر سے دیکھا جائے گا ۔ میرے نزدیک تو ان موضوعات کو شعر کا موضوع نہ بنانا حقیقت سے رو گردانی کے مترادف ہے ۔ بہر حال زندگی اور شاعری سے متعلق جو میرے نظریات ہیں وہ میں نے بیان کر دیے۔اب آپ جو چاہیں میرے بارے میں رائے قائم کریں۔
حمایت علی شاعر
ریڈیو پاکستان ۔ حیدر آباد(سندھ)
(۱۹۵۶ء)
o میری بعض نظمیں، کچھ افسانے اور اخباری کالم مختلف رسائل میں مختلف قلمی ناموں سے بھی چھپتے رہے ہیں ۴۵ء سے۱۹۵۰ء تک ہندوستان میں ’حمایت تراب، نردوش اور ابلیس فردوسی۔ ‘ اور پاکستان کے بعض رسائل و اخبارات میں ۵۵سے۱۹۹۳ء تک ’ابن مریم‘ کے نام سے شائع ہوئے۔
٭میرا پہلا مجموعۂ کلام ’آگ میں پھول‘( ۱۹۵۶ء) والد محترم سید تراب علی صاحب کے نام معنون ہے۔شاعرؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک پرچھائیں سی آوارہ ہے ویراں دل میں
جانے کیوں اُس کے تعاقب کا ہے ارماں دل میں(حمایت علی شاعر)