میں آپکو ہر گز ہر گز اپنی گاڑی میں نہیں بٹھاوں گی۔
میں نے آپ سے پوچھا نہیں آپکو بتایا ہے کہ آپ مجھے ڈراپ کریں گی۔
وہ پارکنگ میں پہنچ چکے تھے۔
اوکے فاٸن۔ کہتے ہی عاٸشہ نے چابی اسکی طرف اچھالی۔
جب آپ کے ساتھ کوٸ لیڈی ہو تو جینٹل مین گاڑی خود ڈراٸیو کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہی فرنٹ سیٹ پہ بیٹھ گٸ۔
وہ گھم کر ڈراٸیونگ سیٹ پہ آیا اور وہ مال سے نکل گۓ۔
عاٸشہ نے ٹیک لگا کر پاٶں ڈیش بورڈ پہ رکھ لیے۔
عاٸشہ آپ کو گاڑی میں بھی بیٹھنا نہیں آتا کیا؟؟؟؟
وہ چڑ کر بولا۔
آتا ہے مگر یہ میری گاڑی ہے نہ سو میں تو ایسے ہی بیٹھوں گی۔
وہ اسے چڑاتے ہوۓ بولی۔
اوکے فاٸن اتریں گاڑی سے۔
میں کس خوشی میں اتروں؟؟؟؟
اسی خوشی میں جس خوشی میں آپ مجھے میری گاڑی سے اتار کر گٸ تھیں۔
آج شاید ظہیر خان کا دن تھا۔
مگر وہ عاٸشہ ہی کیا جس پہ اثر ہو جاۓ۔
وہ ہیڈ فونز لگا کر آنکھیں موند گٸ۔
جب کافی دیر تک گاڑی نہیں چلی تو اس نے ایک آنکھ کھول کر دیکھا۔ ظہیر خان آرام سے بیٹھا تھا۔
سر گاڑی چلاٸیں۔
جب آپ تمیز سے بیٹھ جاٸیں گی میں چلا لوں گا۔
اوکے مت چلاٸیں۔
وہ پھر آنکھیں بند کر گٸ۔
مگر آج ظہیر خان نے اسے ستانے کا ارادہ کر رکھا تھا۔ وہ بھی ایسے ہی بیٹھا رہا۔
اف کیا مصیبت ہے۔ وہ سیدھی ہو کر بیٹھ گٸ۔
گڈ گرل۔ مسکراتے ہوۓ ظہیر نے گاڑی سٹارٹ کر دی۔
جونی جونی
جولی کا دل
تم پہ آیا جونی
عاٸشہ فل والیوم کر کے اب سانگ لگا کر بیٹھ گٸ تھی۔
عاٸشہ ہ ہ کیا ہے یہ سب؟؟؟
سانگ ہے آپ کو نہیں پتا کیا؟؟؟
خبردار جو اب ایسا ویسا کچھ بھی لگایا ہو تو۔۔۔ وہ سخت غصے سے بولا۔
میری گاڑی ہے میری مرضی۔
یہ کہہ کر اس نے اے سی اٹھارہ ڈگری پہ کر دیا۔
مجھے باٸیس ڈگری پہ اے سی چاہیے۔
یہ آپکا آفس نہیں میری گاڑی ہے۔
آپ سدھر جاٸیں مس عاٸشہ۔۔۔
آپ خود کیوں نہیں سدھر جاتے۔
آآآآآآآآآآآآآآ۔۔۔۔۔ گاڑی درخت سے جا ٹکراٸ تھی۔
میریییییییی گاڑیییی۔۔۔۔۔ دھواں نکلتے دیکھ عاٸشہ کا تو سانس رک گیا۔
یہ اسکی فیورٹ گاڑی تھی۔ اسکا صدمہ ختم نہیں ہو رہا تھا۔
آپ آپ نے میری گاڑی ٹھوک دی۔
میں نے ٹھوک دی یا تمہاری اس چپڑ چپڑ نے ٹھوک دی۔
اور احسان مناٶ میرا کہ میں اتنی احتیاط سے چلا رہا تھا اسی لیے ہم بچ گۓ۔
اور تم شکر کرنے کے بجاۓ گاڑی کا رونا رو رہی ہو۔ خود کو دیکھا بھی نہیں کہ ٹھیک ہو یا نہیں۔ عجیب پاگل انسان ہو تم۔
ہاں تو میں ٹھیک ہوں نہ اب جس کا نقصان ہوا ہے اسی کا رونا روٶں گی نہ۔
تم تم پاگل ہو۔
اوہ آپ کے ہاتھ پہ چوٹ لگی ہے۔
جی آپکی ہی مہربانی ہے یہ۔
ظہیر خان بھی طنز کرنے سے کہاں باز آنے والا تھا۔
اچھا میں کچھ کرتی ہوں۔
اور اس کچھ میں عاٸشہ نے جو کیا وہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔
اس نے ایمبولنس بلاٸ تھی کال کر کے۔
ایمبولنس منگوانے کی کیا ضرورت تھی؟؟؟؟
اوہو اب چُنّا مُنّا سا ہو یا بڑا سارا ایکسیڈنٹ تو ایکسیڈنٹ ہی ہوتا ہے نہ۔
اور ایمبولنس والوں کو ذرا پروٹوکول ملتا ہے۔
اس کی اپنی ہی منطق تھی اور اس میں کسی اور کی عقل اسے گوارا نہیں تھی۔
وہ گاڑی سے نکل کر ڈگی پہ چڑھ کر بیٹھ گٸ تھی۔
اور اب گنگنا رہی تھی۔
تم اس سچویشن میں انجواۓ کیسے کر سکتی ہو۔
ہاں تو اب میں کیا اتنا پیارا موسم بھی انجواۓ نہ کروں۔ اور آپ غصہ ذرا کم کیا کریں۔ مجھے تو کچھ نہیں ہو گا الٹا آپ ہی ہاسپٹل پہنچ جاٸیں گے۔
وہ چیونگم نکال کر چبانے لگی تھی۔ ساتھ ہی گنگنا بھی رہی تھی۔
دس منٹ میں وہاں ایمبولنس پہنچ چکی تھی۔ اور وہ صورتحال دیکھ کر خود بھی سر پکڑ کر بیٹھ گۓ تھے۔
ظہیر خود بھی خجل ہوا تھا۔
میڈم اتنی سی چوٹ کے لیے ایمبولنس کی کیا ضرورت تھی۔
ہاں تو آپ نے دیکھا نہیں میری گاڑی کا کیا حال ہوا ہے اگر یہ کھاٸ میں چلی جاتی تو۔
تو میڈم ہم تو بندے لے جاتے ہیں گاڑیاں نہیں۔
تو بندہ ہی لے کر جاٸیں نہ یہ دیکھیں چوٹ لگی ہی انہیں۔
عاٸشہ بس بھی کریں۔
کیوں بس کروں انکی ڈیوٹی ہے اب کیا جب ہم کھاٸ میں تو یہ ہمیں وہاں ڈھونڈتے رہتے۔ ایک تو انکا کام آسان کیا کہ کھاٸ میں گرنے کے بجاۓ ادھر روڈ پہ انتظار کر رہے ہیں اور یہ نخرے دکھا رہے۔
ظہیر نے بے چارگی سے انہیں دیکھا۔
عاٸشہ کی چلتی زبان کے پیشِ نظر انہیں بھی ظہیر خان کی حالت پہ رحم آیا تھا سو انہیں ساتھ لے گۓ۔
*************************************
عاٸشہ خود بیڈ پر بیٹھی تھی جبکہ ظہیر دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑا تھا۔
آپ آ جاٸیں میں چیک اپ کر لوں آپکا۔
میں پیشنٹ نہیں ہوں۔ عاٸشہ بدک گٸ۔
مگر بیڈ پر تو آپ ہیں۔
ہاں تو کیا۔
جب آپ کے ساتھ جینٹل مین ہے تو وہ آپکو پروٹوکول ہی دے گا نہ۔ کیا کہنے عاٸشہ کے۔
ڈاکٹر امپریس ہوٸ تھی مگر یہ تو جینٹل مین ہی جانتا تھا کہ پروٹوکول زبردستی لیا گیا ہے۔
آپ چٸیر پہ آ جاٸیں۔
ڈاکٹر اب اسکی چوٹ کا معاٸنہ کر کے بینڈیج کر رہی تھی۔
ڈاکٹر آپ انجیکشن نہیں لگاٸیں گی۔
عاٸشہ کی زبان میں پھر کھجلی ہوٸ۔
نہیں اسکی ضرورت نہیں ہے بس بینڈیج روز چینج کرنی ہے اور پانی سے احتیاط کرنی ہے۔
اوکے تھینک یو ڈاکٹر۔۔۔۔۔
ہونہہ مجھے تو کبھی تھینکس نہیں کہا اور اس ڈاکٹر کے ساتھ دیکھو کیسے فری ہو رہا۔ ہونہہ ایڈیٹ کہیں کا۔
مگر وہ بھول رہی تھی کہ بمشکل ہی اس نے تھینک یو کے لاٸق کوٸ ایک کام کیا تھا۔ اور ظہیر خان نے عملاً شکریہ ادا کیا تھا۔
مگر ناشکری عاٸشہ۔۔۔۔۔۔
************************************
وہ اس کے منع کرنے کے باوجود اسے گھر تک چھوڑنے آٸ تھی۔
اور زرش کی تو مانو عید ہی ہو گٸ تھی۔
وہ اسے اپنی گھر میں دیکھ کر بے حد خوش تھی۔
آپ عاٸشہ ہیں نہ میں آپکی بہت بہت بہت بڑی فین ہوں۔ اور پتا ہے میں دعا کرتی تھی کہ آپ ہمارے گھر آٸیں۔
زری نے ظہیر کی چوٹ کا نوٹس نہیں لیا تھا وہ تو عاٸشہ کو کر پھولے نہیں سما رہی تھی۔
وہ ایکچوٸلی سر کو چوٹ لگی تھی تو۔۔۔۔
کیاااا کب کیسے لالہ آپ ٹھیک تو ہیں نہ ذیادہ چوٹ تو نہیں لگی نہ۔
وہ ظہیر کے لیے اب پریشان ہو رہی تھی۔
عاٸشہ کو یہ پیاری سی لڑکی بہت اچھی لگی تھی۔
میں ٹھیک ہوں زرش مما جانی کو بلاٶ۔
ہاں ہاں میں ابھی بلاتی ہوں۔
خان بیگم بھی عاٸشہ کو دیکھ کر خوش ہوٸیں تھیں۔
اور ظہیر اسکا سلجھا ہوا انداز دیکھ کر بے ہوش ہونے کے قریب تھا۔
ڈرامے باز۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ آپ روز آیا کریں ہمارے گھر۔ سچی بہت مزہ آۓ گا۔
خان لالہ آپ انکو جلدی فری کر دیا کریں تاکہ ہم ٹاٸم سپینڈ کر سکیں۔
زرش وہ ہمارے آفس میں جاب نہیں کرتیں۔
کیوں نہیں کرتی آپ تو لالہ کی سیکرٹری ہیں نہ۔
ہوں نہیں تھی آپکے لالہ مجھے فاٸر کر چکے ہیں۔
کیاااااا۔۔۔۔۔ زری کو صدمہ لگ گیا کوٸ اتنی پیاری لڑکی کو بھی فاٸر کر سکتا ہے کوٸ کیا اسکے اپنے خان لالہ ہی۔۔۔۔
اوفوہ یہ لالہ پتا نہیں کب سدھریں گے۔
لالہ آپ عاٸشہ کو واپس اپاٸنٹ کر لیں اور اب انکو فاٸر نہیں کرنا۔
زری ابھی آپ کو تھوڑی سی دیر ہوٸ ہے ان کے ساتھ میں نے اڑھاٸ مہینے جھیلا ہے میں اور نہیں جھیل سکتا۔
شاید عاٸشہ نے کچھ ذیادہ ہی تنگ کر رکھا تھا اسے تبھی وہ ایسے بول پڑا تھا۔
عاٸشہ کا منہ بن گیا تھا جبکہ زری کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا۔
اسکی دعا قبول ہو گٸ تھی۔
کسی نے اسکے خان لالہ کو بھی ناکوں چنے چبواۓ تھے۔
اسے عاٸشہ اور ذیادہ اچھی لگنے لگی۔
اچھا میں چلتی ہوں اب بہت دیر ہو گٸ ہے مام ویٹ کر رہی ہوں گی۔
ارے ایسے کیسے بس ڈنر ٹاٸم ہو گیا ہے آپ ڈنر کر کے جاٸیے گا۔
خان لالہ آپکو ڈراپ کر آٸیں گے۔
ظہیر ابھی چینج کر کے آیا تھا زری کی آخری بات ہی سن پایا۔
زرش شاید آپکے خان لالہ کو چوٹ لگی ہے آپ بھول رہی ہیں۔
ہاں تو کیا ہو گیا لالہ آپ ٹھیک ہیں تھوڑی سی چوٹ ہے اور پھر عاٸشہ کی گاڑی بھی تو نہیں ہے۔
وہ صرف دس منٹ زرش کو عاٸشہ کے پاس چھوڑ کر گیا تھا اور اسے عاٸشہ کی سنگت کا اثر ہو گیا تھا۔
*************************************
تو مس عاٸشہ میرا ڈراٸیور آپ کو چھوڑ آۓ گا۔
مہربانی آپکی۔۔۔
ارے خان لالہ آپ گۓ نہیں۔
گلزار چھوڑ آۓ گا اسے۔
وہ کہتے ہی چل دیا۔
عاٸشہ کو فلحال بلانے کا اسکا کوٸ ارادہ نہ تھا نہ عاٸشہ کا جانے کا تھا۔
سدرہ کی شادی نزدیک تھی سو وہ تیاریوں میں لگ گٸ تھی۔
سکندر نے اسے ساری شاپنگ کروانے کا ارادہ کیا تھا۔
اور یہ پہلی بار تھا کہ وہ کسی کے ساتھ شاپنگ پہ آٸ تھی۔
یہ سکندر کی بدقسمتی تھی کہ وہ اسے خود لایا تھا اور ساری شاپنگ کروانے کا وعدہ بھی کر چکا تھا۔ انفیکٹ اس نے سدرہ کی بری بھی اسی کے ذمہ لگاٸ تھی۔
سکندر کی کوٸ بہن نہیں تھی تو چچی جانی بھی یہی چاہتی تھیں کہ عاٸشہ سکندر کی شادی پہ اپنے سارے ارمان پورے کرے۔
عاٸشہ سبھی کی بہت لاڈلی تھی کچھ وہ اکلوتی اور شرارتی بچی تھی جو رونق لگاۓ رکھتی پھر وہ باپ کی محبت کو بھی ترسی ہوٸ تھی۔ جب تک سکندر ابراڈ رہا تھا عاٸشہ نے چچی جانی کی بیٹی ہونے کا حق ادا کیا تھا۔
یہ سچ ہے کہ اگر ہم کسی کو پسند نہیں ہوتے تو بہت لوگوں کی ہم جینے کی وجہ بھی ہوتے ہیں اور وہ ان لوگوں کی وجہ کو ہمیشہ محبتوں سے خوشیں سے بھر دینا چاہتی تھی۔
***********************************
آج وہ صبح سے شاپنگ مال میں گھوم رہی تھی۔ وہ خالص پاکستانی ڈریسز دیکھ رہی تھی۔
چونکہ اس طرح کی شاپنگ کا اسے کوٸ تجربہ نہ تھا تو اسے بہت مشکل ہو رہی تھی۔ سکندر کو بھی لڑکیوں کی شاپنگ کا آٸیڈیا نہ تھا۔
وہ دونوں کی ایک دوسرے کی پسند کو ریجیکٹ کرتے پورا دن لگا چکے تھے۔
سکندر کا تھکن سے برا حال تھا مگر عاٸشہ بالکل فریش تھی۔ وہ وقفے وقفے سے کچھ نہ کچھ ٹھونستی رہی تھی۔
آخرکار تھک ہار کر بمشکل چار ڈریسز لے کر انہوں نے واپسی کا ارادہ کیا۔
وہ مال سے نکل رہے تھے۔ جب ظہیر خان کی نگاہ اس پر پڑی۔ عاٸشہ کو کسی لڑکے کے ساتھ دیکھ کر جانے کیوں ظہیر خان کو اچھا نہ لگا تھا۔
اب وہ لڑکا اس کے لیے فرنٹ ڈور اوپن کر رہا تھا اور عاٸشہ کا مسکراتا چہرہ دیکھ کر ظہیر خان کے دل میں کسک سی جاگی تھی۔
اسے برا لگا تھا۔ کیوں؟؟؟؟ وہ وجہ جاننے سے قاصر تھا۔
ظہیر خان کو جیلسی محسوس ہوٸ تھی اس لڑکے سے۔
تو کیا یہ محبت کی شروعات تھی۔ کیا ظہیر خان پہ محبت کا پرندہ پنکھ پھیلاۓ آ بیٹھا تھا؟؟؟؟ یہ تو وقت ہی بتانے والا تھا۔