پروفیسر نذر خلیق(خانپور)
داستان پھر ناول اور ناول کے بعد افسانہ معاشرے میں پھیلے ہوئے قصوں ‘کہانیوں اور واقعات کے اظہار کا ارتقائی سفر ہے۔افسانے نے کئی مراحل اور کئی نشیب وفراز دیکھے ہیں ۔نظریات ‘رجحانات اور ضروریات کے تحت افسانہ اپنے اظہار کے کئی پیرائے اور اسلوب تبدیل کرتا رہا ہے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ افسانہ زندگی کے کسی ایک پہلو کو اس طرح بیان کرنے کا نام ہے کہ قاری پر ایک انکشاف کی دنیا کھلتی ہے،قاری چونکتا ہے اور لطف بھی لیتا ہے ۔افسانوی ادب ہو یا ادب کی کوئی اور قسم ہمیشہ اس لیے زیرِ بحث رہی ہے کہ ادب کس کے لیے ہے قاری کے لیے ،تخلیق کار کے لیے یا پھر دونوں کے لیے ۔میرا خیال ہے کہ جب ہم قاری کے لیے ادب کو مخصوص کریں گے تو یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ قاری سے کیا مراد ہے ادب کے قاری بعض تو وہ ہوتے ہیں جو ادب کی سیدھی سادی صورت کو پسند کرتے ہیں میرا مقصد یہ ہے کہ جو آسانی سے تفہیم کے دائرے میں آجائے اور کچھ قاری وہ ہوتے ہیں جوادب کے اسلوب اور طرزِ بیان سے ہی لطف لیتے ہیں اور ان کو اس بات سے غرض نہیں ہوتی ہے کہ ادب میں کیا بیان ہوا ہے جبکہ میرا خیال ہے کہ ادب وہ ادب ہے جو ہر طرح کے قاری کے لیے باعثِ تفہیم اور باعثِ لطف ہو۔عام قاری بھی فائدہ اٹھا سکے اور خاص قاری بھی۔
اردو افسانہ کافکا کی تقلید میں لایعنیت ،تجریدیت کی دھند اور علامت کے گورکھ دھندے میں کھویا رہا ہے مگر کچھ افسانہ نگار ایسے بھی رہے ہیں جو ان تمام تجربات کا ساتھ بھی دیتے رہے ہیں اور افسانے کو اس سطح پر بھی رکھا ہے کہ وہ ہر طرح کے قاری کے لیے باعثِ تفہیم بھی رہا ہے اور ادب کا اعلیٰ نمونہ بھی بنا رہا ہے۔ان افسانہ نگاروں کی طویل فہرست میں سلطان جمیل نسیم صاحب ایک منفرد نام ہے جو گزشتہ پچاس سال سے افسانے کو ترو تازہ اور زندہ رکھے ہوئے ہیں ۔انھوں نے افسانے کی روایت کو بھی زندہ رکھا ہے اور جدید افسانے کے اسالیب کو بھی چھوا ہے ۔ان کے کئی افسانوی مجموعے چھپ چکے ہیں ۔ان میں ”کھویا ہوا آدمی“”سایہ سایہ دھوپ“”ایک شام کا قصہ “اور ڈراموں کا ایک مجموعہ ”جنگل زمین خوشبو“چھپ چکے ہیں ۔ میرے پیشِ نظر ان کا تازہ افسانوی مجموعہ ”میں آئینہ ہوں “ہے جس میں سترہ افسانے شامل ہیں ۔یہ افسانوی مجموعہ بختیار اکیڈمی کراچی سے شائع ہوا ہے نسیم درانی اس مجموعے کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں :
”سلطان جمیل نسیم افسانہ نگاروں کی اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جو 1950ئ سے اب تک اردو ادب کو اپنی فکری اور تخلیقی صلاحیتوں کے ذریعے معتبر بنائے رکھنے میں مصروف ہے ۔ان کی تخلیقات میں جتنی ورائیٹی ،جتنا تنوع نظر آتا ہے وہ بہت کم لوگوں کے حصے میں آیا ہے۔افسانہ نگاری اور ڈرامے کے سلسلے میں ان کا نام درجہ اعتبار حاصل کر چکا ہے۔ان کے ادبی سفر کو دیکھیں تو ان کی ایک بڑی خوبی یہ نظر آتی ہے کہ انھوں نے اپنا ادبی سفر سلامت روی اور ثابت قدمی سے طے کیا ہے۔شہرت کے پیچھے بھاگنے کی بجائے عصری تقاضوں کے ساتھ رہے ہیں ۔یہی سبب ہے کہ 1950ء سے لکھنا شروع کیا 1953ء میں پہلا افسانہ شائع ہوا لیکن 1985ء میں افسانوں کا پہلا مجموعہ سامنے آیا ۔“(میں آئینہ ہوں ،پیش لفظ )
یہ ایک حقیقت ہے کہ سلطان جمیل نسیم صاحب نے اردو افسانے کی آبرو کو بچا ئے رکھا ہے ورنہ اردو افسانہ اسلوب اور تجربا ت کی کسی گھاٹی میں گم ہوجاتا۔اس مجموعے میں شامل تمام افسانے زندگی اور معاشرے کے تلخ حقائق کی عکاسی کرتے ہیں ۔کہانی پن اور کردار کہیں بھی مثالیّت کا شکار نہیں ہوئے بلکہ معروضیّت کا اعلیٰ نمونہ بن جاتے ہیں ۔ترکہ ،میں آئینہ ہوں اور اس طرح کے دوسرے افسانے نہ صرف انسانی نفسیات پر روشنی ڈالتے ہیں بلکہ اس حقیقت پر بھی روشنی ڈالتے ہیں کہ جو چیز دیکھنے میں خوبصورت اور پرکشش نظر آتی ہے وہی حقیقت میں تکلیف کا باعث بھی بن جاتی ہے گویا جو نظر آتا ہے ضروری نہیں ہے کہ اس کا باطن اور حقیقی چہرہ بھی ویسا ہو ۔ پریم چند اردو افسانے کی آبرو ہیں ان کا افسانہ” کفن “بے مثال افسانہ ہے جو انسان کی جبلتوں پر روشنی ڈالتا ہے ۔ پریم چند کا جب بھی نام آتا ہے تو یہ افسانہ بھی ذہن میں آجاتا ہے گویا یہ افسانہ پریم چند کی پہچان ہے ۔ لیکن میں ایسا بھی نہیں کہتا کہ پریم چند کی دوسری تخلیقات گزارا ہیں ۔ پریم چند کی تمام تخلیقات اپنی اپنی جگہ پر ایک زندہ اور جاندار ادب کا نمونہ ہیں ۔ لیکن آج میں سلطان جمیل نسیم کے ایسے بیشتر افسانے پیش کر سکتا ہوں جو پریم چند کے افسانے” کفن“سے بھی زیادہ تلخ حقائق کو بیان کرتے ہیں قاری ان افسانوںمیں کھو جاتا ہے اور انسانوں کے ایسے ایسے چہرے سامنے آتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔” پرکٹا فرشتہ “ سلطان جمیل نسیم کا ایک ایسا افسانہ ہے کہ جو حقائق کو نہ صرف کھول کر بیان کرتا ہے بلکہ ان لوگوں کے منہ پر طمانچہ بھی ہے جو کہنے کو تو اپنے آپ کو انسان کہلاتے ہیں لیکن بے ضمیری ان کے رگ و پے میں شامل ہوتی ہے اس افسانے سے سلطان جمیل نسیم نے اس حقیقت کو پیش کیا ہے کہ اس دنیا میں لو گ بے حس اور بے ضمیر ہوتے ہیں کسی کو کسی کی پروا نہیں ہوتی کوئی چاہے جتنی پریشانی میں ہو کوئی توجہ نہیں دیتا بلکہ یہاں اس دنیامیں مجبوریوں سے فائد ہ اٹھایا جاتا ہے او ر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ ایک معصوم شخصیت خودبے حس اور بے ضمیر بن جاتی ہے ۔ اس کی باطن کی تمام خوبیاں کسی اندھے کنو ئیںمیں غرق ہو جاتی ہیں اس افسانے کا کردار انجم ایک ایسا کردار ہے جو ابتداً معاشرے کے ہر فرد سے محبت ہمدردی اور توجہ طلب کرتا رہتا ہے لیکن جب اسے اس میں ناکامی ہوتی ہے تو وہ خود بھی اسی طرح کا معاشرے کا عام کردار بن جاتا ہے۔ سلطان جمیل نسیم کے اس افسانے کومیں پریم چند کے افسانے ”کفن “ سے کسی طرح معاشرے کے تلخ حقائق کو بیان کرنے والا کم نہیںکہوں گا ۔ ان کا افسانہ مضبوط روایات کا حامل ہوتا ہے ۔ کہانی کے باطن سے ایسے حقائق نمودار ہوتے ہیںکہ جس میں دلچسپی ،تجسس او رہر وہ ادبی رنگ ہوتا ہے جو ہر سطح کے قاری کو متاثر کرتا ہے ۔ سلطان جمیل نسیم اس مقام و مرتبے کے افسانہ نگارہیں کہ ان پر وسیع سطح پر تحقیقی کام ہونا چاہیے ۔ ان کے افسانوں کو نصابی سطح پر بھی پذیرائی ملنی چاہیے کیونکہ ان کے افسانوں سے اصلاح احوال کے ساتھ ساتھ معاشرے کے ان پہلوﺅں سے بھی آگاہی ہوتی ہے کہ جن کو جاننا ہمارے نوجوان طبقے کے لئے نہایت ضروری ہے ، نہ صرف ضروری ہے بلکہ معاشرے میں ان ناسوروں کا علاج بھی ممکن ہے جو رسنا شروع ہو گئے ہیں ۔ ہمارے اعلیٰ تعلیمی نصابات میں ایسے افسانہ نگار اوراہلِ قلم شامل ہوتے ہیں کہ جن کو سمجھنا ہماری نوجوان نسل کے لئے دشوار بھی ہوتا ہے او رجن کے موضوعاتِ ادب ہمارے معاشرے سے بھی میل نہیںکھاتے ۔ میںسلطان جمیل نسیم کے افسانوں سے چند سطور پیش کرتا ہوں :
”جوانی کی دیوار سے ادھر بچپن کے ساتھ ایک خواہش کھیلتی دکھائی دیتی ہے کہ کسی طرح ابّا کی کرسی براجماں ہوجاؤں ۔(ترکہ )“”پھر کیا ہوا ………کس نے کیا کیا کچھ کہا …..اسے خبر نہیں …..اسے تو صرف اتنا معلوم ہے کہ جب اس نے فائل پر دستخط کیے تو جی چاہا قلم توڑ دے موت کے فرمان پر دستخط کرنے کے بعد قلم توڑ ہی تو دیا جاتا ہے ۔(ترکہ)“”خیالوں کی بھیڑ میں اچانک اسے یاد آیا کہ وہ اتنی آسانی کے ساتھ اس قبر تک کیسے پہنچ گیا ……….؟کچھ نشاندہی اس کے بیٹے نے کی تھی اور پھر یہ کتبہ ……….ہاں کتبہ ………….نیم پختہ سی قبر جو بیچ میں سے کہیں کہیں اندر دھنس رہی تھی اس کے سرہانے ایک عام سا کتبہ لگا تھا ۔”دیکھا میرے دوست نام سے پہچان کا کیسا رشتہ ہوتا ہے “(میں آئینہ ہوں )“
میں نے یہ اقتباسات اس لیے دے دیے ہیں تاکہ ہم دیکھ سکیں کہ سلطان جمیل نسیم صاحب کا اسلوب اور طرزِ اظہار کتنا برجستہ،بے ساختہ اور نیچرل ہے ۔سا تھ ہی یہ بھی دیکھ سکیں کہ وہ کس انداز سے باطنی جذبوں کو مجسم بنا کر باہر پیش کرتے ہیں ان کے اس افسانوی مجموعے کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ افسانے کا مستقبل تاریک نہیں ہے بلکہ اردو افسانہ سلطان جمیل نسیم صاحب جیسے افسانہ نگاروں کی وجہ سے اپنا ارتقائی سفر جاری رکھے گا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ادبی کتاب کا مطالعہ علم میں اضافہ کے لیے نہیں بلکہ روح کی سیرابی کے لیے ہوتا ہے۔علمی کتاب بھی کائنات اور زندگی کے اسرار کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے مگر فہم و ادراک کی سطح پر۔جبکہ ادبی کتاب زندگی کے اسرار کو محسوس کرنے کا نام ہے۔
( مطالعہ کی کہانی از وزیر آغا بحوالہ کتاب ساختیات اور سائنس ص۱۹۰)