ڈاکٹر اسلم فرخی(کراچی)
سلطان جمیل نسیم بڑے معروف اور ہمہ جہت فن کار ہیں۔ افسانے تو خیر لکھتے ہی ہیں،افسانہ ان کی بنیادی شناخت ہے ، ڈرامے بھی لکھتے ہیں ریڈیائی ڈرامے اور ٹی وی ڈرامے، ریڈیو اور ٹی وی ڈراموں میں صدا کاری اور ادا کاری بھی کی ہے۔ریڈیو ٹی وی کے ادبی پروگراموں میں میزبان بھی رہے ہیں اور اپنی تخلیقات بھی پیش کی ہیں۔تحت ا للفظ مرثیہ خوانی بھی کی ہے اسی تعلق سے میں نے ان کو ہمہ جہت فنکار کہا ہے۔
سلطان جمیل نسیم نے ادب کے آغوش میں پرورش پائی ہے۔ان کے والد حضرت صبا اکبرآبادی کا شمار برصغیر کے ناموراور ممتاز شعراء میں ہوتا ہے۔ سلطان جمیل نسیم کے ابتک تین مجموعے افسانوں کے اور ایک ڈراموں کا شائع ہو چکا ہے ۔چوتھا افسانوی مجموعہ ’’میں آئینہ ہوں‘‘اس وقت میرے پیشِ نظر ہے۔
سلطان جمیل نسیم نے اپنے اِس مجموعے کا سر نامہ حضرت صبا اکبرآبادی کے اِس شعر کو قرار دیا ہے۔۔
تمہیں سو رُخ نظر آئیں گے اپنے
میں آئینہ ہوں اور ٹوٹا ہوا ہوں
مجھے ’’میں آئینہ ہوں‘‘ کے مطالعے میں یہ شعر بار بار یاد آتا رہا۔ زندگی کے نجانے کتنے رُخ ہیں کہ جن کی جھلک اِس مجموعے میں نظر آتی ہے۔ اِس آئینے میں کتنے چہرے ہیں۔بھیانک،فن نا شناس ، زمانے کے ٹھکرائے اور ستائے ہوئے‘حالات کا شکار، فضا اور ماحول کے مارے ہوئے۔ بہتر حالات کے انتظار کی دھوپ میں دھیرے دھیرے سوکھنے والے۔ یہ سب ہمارے اپنے ہیں۔اُس وسیع خانوادے کے فرد جس کا نام احتیاج ہے ۔ یہ اقتدار اور ثروت کے جویا نہیں،محبت اور سکون چاہتے ہیں۔سیدھے سادے طریقے سے زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ محنت اور جدوجہد اِن کا شعار ہے مگر محنت اور جدوجہد کے با وجود محبت اور سکون ہمیشہ اِن سے گریزاں رہتے ہیں،انھیں زندگی میں کوئی سکھ نہیں ملتا۔ مسایل قدم قدم پر انھیں تکلیف پہنچاتے رہتے ہیں۔’’میں آئینہ ہوں‘‘ایک مرقع ہے سچی اور بھرپور تصویروں کا۔ افسانہ نگار نے اپنے معاشرے میں جو کچھ دیکھاہے، جو کچھ اس کے سامنے گزرا ہے ۔ زندگی نے جو جو رُخ اختیار کئے ہیں انھیں بڑے حقیقت پسندانہ انداز میں اور بہت ہنر مندی کے ساتھ اپنے قاری کے سامنے پیش کر دیا ہے۔اس کے بیان میں تلخی نہیں ، نرمی اور دھیما پن ہے ۔وہ فنکار ہیں مبلّغ اور مصلح نہیں۔
سلطان جمیل نسیم منجھے ہوئے افسانہ نگار ہیں۔ افسانے کے فن پر ماہرانہ دسترس رکھتے ہیں۔اُن کے افسانوں میں موضوعات کی تلخی اور معاشرے میں گھلے ہوئے زہر کا بیان بھی بڑے نرم اور فنکارانہ انداز میں ہوا ہے۔انھوں نے اِس مجموعے کے دیباچے میں کہا ہے کہ’’میں نے اِس بات کا دعویٰ کبھی نہیں کیا کہ میں جیسا لکھنا چاہتا ہوں ویسا ہی لکھ دیتا ہوں البتہ یہ اقرار ضرور کروں گا کہ جیسا لکھنا چاہتا ہوں ویسا لکھنے کی کوشش ضرور کرتا ہوں‘‘ مجھے اِس اعتراف میں جمیل نسیم کی فنکارانہ مہارت کا عکس نظر آتا ہے۔اُن کا یہ کہنا کہ میں حسبِ منشا لکھنے کی کوشش ضرور کرتا ہوں‘ سچائی اور بصیرت کا اشارہ ہے ۔ سلطان جمیل نسیم نے اپنے ہر افسانے میں سچائی اور حقیقت کو سچائی اور حقیقت کی طرح قلم بند کرنے کی کوشش کی ہے۔’’میں آئینہ ہوں‘‘ سترہ افسانوں کا دلاویز مجموعہ ہے۔زندگی کے تلخ حقائق کو اپنے دامن میں سمیٹے ۔بے رحم سچائیوں اور حیران کن عصری حالات کو فن کارانہ انداز میں واضح کرتے ہوئے یہ افسانوی مجموعہ واقعی ایک آئینہ ہے ۔ مگر مجھے اِس میں تامل ہے کہ یہ آئینہ ٹوٹا ہوا ہے۔ در اصل ٹوٹے ہوئے ہم لوگ ہیں۔ ہماری زندگی‘ معاشرہ‘ ماحول اور فضا ہے۔ نسیم نے از راہِ انکسار آئینے کو ٹوٹا ہوا کہا ہے یہ بھی ان کی فنّی بصیرت کا ثبوت ہے۔
سلطان جمیل نسیم کے افسانے اردو افسانہ نگاری کی اُس عظیم روایت سے تعلق رکھتے ہیں جس کا آغاز منشی پریم چند سے ہوا اورجو افسانے میں تجریدیت کی حالیہ آندھی تک اردوادب کا سرمایہء افتخار رہی۔آج بعض لوگ‘ جو جدید کہلانا پسند کرتے ہیں،اُس روایت کوماضی کی فرسودہ روایت قرار دے کر خوش ہوتے ہیں مگر یہی تو وہ روایت ہے جو دنیابھر میں فکشن کے غیر فانی شاہکاروں کی صورت میں محفوظ ہے اور آئندہ بھی سچے اور کھرے افسانے اور ناول کی عمارت اس روایت کی بنیاد پر اُٹھائی جائے گی۔افسانے میں تجریدیت کا تجربہ ایک تیز جھونکا تھاجواُس روایت روایت کومسخ کئے بغیرگزر گیا۔ میرے اِس دعوے کا ایک روشن ثبوت سلطان جمیل نسیم کی یہ کہانیاں ہیں جو ’’کھویا ہوا آدمی‘‘میں یکجا کردی گئی ہیں۔ یہ کہانیاں نہ صرف اردو فکشن کی متذکرہ عظیم روایت کی نمائندہ ہیں بلکہ مصنف نے اس روایت کو اپنی صاف ستھری حقیقت پسندیاور جرا ئت مندا نہ صداقت نگاری سے مزیدنکھارا ہے۔سلطان جمیل نسیم کی زبان سادہ اور رواں ہیاور مشاہدہ تیز اور ہمہ گیر ہے۔ اس کا اسلوب دل و دماغ کو افسانے کی ابتدا ہی میں اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور جب وہافسانے کو سمیٹتا ہے تو قاری کا ذہن پوری طرح منور ہو چکا ہوتا ہے۔
احمد ندیم قاسمی